بدھ، 31 اکتوبر، 2012

،ویلڈن عثمان ضیاء ویلڈن اجوکا۔ویلڈن ہارون عدیم


اجوکا تھیٹر گزشتہ 25 سال سے پاکستان میں متوازی تھیٹر اور سٹریٹ تھیٹر کے احیاء کے لئے نہ صرف کوشاں ہے بلکہ اس کے لئے تن من دھن سب کچھ لگا چکا ہے،انہوں نے ضیاء کے دور میں بھی نہ صرف اس میڈیم کو مارشل لائی جبر کے خلاف عوامی ضمیر کو متحرک کرنے کے لئے خوش اسلوبی سے استعمال کیا، بلکہ اس مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کے خلاف اور روادری،مذہبی ہم آہنگی،درگزراور بھائی چارے کے احیاء کی کوششیں بھی کیں۔اس امر سے شاید ہی کسی کو انکار ہوبشمول وہ جو موسیقی اور دیگر پرفارمنگ آرٹ کو حرام قرار دیتے ہیں کہ تھیٹر اور فلم انسانی روّیوںاور سوچنے کی ڈھنگ کو جس مؤثر انداز میں تبدیل کرتے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا میڈیم یہ کام کر سکے۔
یہی وجہ ہے کہ مذہبی رجعت پسند حکمرانوں نے اپنے اپنے جابرانہ ادوار میں ہمیشہ پرفارمنگ آرٹس کو پنپنے نہیں دیا،بلکہ ان پر پابندیاں لگائیں۔جنرل ضیاء الحق نے تو ایک انوکھی راہ نکالی اس نے پابندی لگانے کی بجائے مصوری کا رخ اسلامی خطاطی کی طرف موڑ دیا، اور مشاعروں کو نعتیہ مشاعروں کا روپ دے دیا،ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو(جو کہ اس وقت ملک میںا لیکٹرانک میڈیاکے اکلوتے مالکان تھے) باقاعدہ ایک حکم نامے کے ذریعے ہدایات جاری کیں کہ وہ اسلامی خطاطی اور نعتیہ مشاعروں کو پرموٹ کریں۔لہذا 1982 سے لیکر1988 تک ہم نے بہت سے ترقی پسند شاعروں کو نعتیہ شاعروں کا روپ دھارتے دیکھا،یونیورسٹی اور قومی سطح پر اسلامی خطاطی کے سالانہ مقابلے منعقدہونے لگے،اور یوں جہاں جدا گانہ طرز انتخاب کو زبردستی قوم پر مسلط کر کے پہلے ہی مذہب کو سیاست کی بنیاد بنا دیا گیا تھا،وہاں فنون لطیفہ کی بنیاد بھی مذہبی بنا دی گئی،اور یوں معاشرہ تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہو گیا،مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت نے معاشرے کو اپنے گرفت میں جکڑ لیا،وہ کمپارٹائزیشن کا عمل جو پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی شروع ہوا تھا اس کو انتہا تک پہنچا دیا گیا۔
یہاں یہ واقعہ بیان کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ قیام پاکستان کے قیام کے فوراً بعد وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا کہ آج سے ایسے تمام وہ راگ اور راگنیاں بین قرار دے دی گئی ہیں جن کے نام دیویوں اور دیوتاؤں کے نام پر ہیں،جس روز یہ حکم نامہ جاری کیا گیا بڑے غلام علی خان ریڈیو پاکستان لاہور کی کنٹین میں موجود تھے اور ریڈیو پاکستان لاہور سے براہ راست راگ للت گانے والے تھے،اس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر یہ حکم نامہ لے کر بڑے غلام علی خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ راگ بدل لیں ،مگر بڑے غلام علی خاں صاحب نے فرمایا کہ میں تو راگ للت ہی گاؤں گا آپ اس کا نام پھوپھی حمیدہ اناؤنس کر دیں۔
اس ساری فضاء میں ایسے بے شمار گروپس موجود رہے جو کہ اس تقسیم در تقسیم کے عمل کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے جن میںمجلس شاہ حسین لاہور، پنجابی ادبی سنگت لاہورخود اجوکا تھیٹر،لوک رہس اور کئے ایک چھوٹے چھوٹے سٹریٹ تھیٹر گروپ شامل ہیں۔گزشتہ روز ہمیں برادرم نئیر راجہ نے فون پر اطلاع دی کہ الحمراء ہال II میں اجوکا تھیٹر کی جانب سے دارا شکوہ پر ایک کھیل پیش کیا جا رہا ہے اور آج اس کا دوسرادن ہے اور کل یعنی آج بروز اتوار18 اپریل کو اس کا آخری شو منعقد ہو گا۔اگر فرصت میسر ہو تو آج شام چلے آئیں ،دوسرے ساتھی بھی آ رہے ہیں ،ہم نے فوراً اپنی تمام مصروفیات کو معطل کیا اورالحمراء پہنچ گئے،ہم برادرم راجہ نئیر کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم یہ کھیل دیکھ پائے،اگر یہ کھیل نہ دیکھتے تو ساری زندگی اپنے آپ کو کوستے رہتے۔سچ مانیں ہم نے اتنی عمدہ پیشکش آج تک نہیں دیکھی،اس کھیل کے مصنف اور ہدایت کار شاہد محمود ندیم نے جس مہارت سے اس کھیل کو لکھا اور پیش کیا اس پر انہیں سلیوٹ کرنے کو دل چاہتا ہے،تقریباً اڑھائی گھنٹے کے کھیل میں انہوں نے کچھ سوچنے کا موقع نہیں دیا۔کئی بار شدت جذبات سے نہ صرف ہم بلکہ کئی اور لوگ بھی آبدیدہ ہوئے۔
ایک تو دارا شکوہ کے کردار کا چناؤ ہی اپنے اندر وہ جازبیت رکھتا ہے کہ تاریخ اور مذاہب کا تقابلی جائزہ لینے والا ہر شخص کھینچا چلا جاتا ہے۔لہٰذا شاہد محمود ندیم نے نہایت چابکدستی سے دارا شکوہ کے کردار کو اورنگ زیب کے کردار کو عیاںکرنے ،مذہبی نمائندوں کو ہمیشہ حکمرانوں کی مرضی کی فتوے دینے کی روایت کو پروان چڑھانے،حکمرانوں کی جانب سے ہمیشہ مذہب کو اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے اور معاشرے کو تقسیم کرنے او ر عوامی فلاح اور بھائی چارے کو ہمیشہ ثانوی حثیت دینے کے عمل کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کیا۔اسٹیج کو ماڈرن تکنیک کے ذریعے جس تقسیم کے ساتھ اور سیٹ ڈیزائننگ کے ساتھ استعمال کیا ،بالخصوص دارا شکوہ اور سرمدکے قتل کو جس طرح سرخ اور کالی چادروں ، رنگین لائٹوں ،کلب کی ڈانسنگ جھل مل کرتی مرکری لائٹوں کیذریعے جس طرح پیش کیا گیا ،منفرد تھا، ہم نے تو پہلی بار دیکھا ہے۔
اس کھیل کا مرکزی نقطہ تاریخی اور فکری مغالطوں کی تصحیح تھی،بھائی چارے،رواداری،محبت و یگانگت کا فروغ تھا،دوسرے مذاہب اور عقیدوں کا احترام سکھانا تھا۔اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کھیل دیکھنے والا ہر فرد یہ پیغام ساتھ لے کر گیا ہے اس کی سوچ میں ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔کھیل دیکھنے والے ہر فرد کو ایک کتابچہ بھی دیا گیا جس میں اس کھیل کے مرکزی کردار اور کھیل کے مرکزی خیال کو بیان کیا گیا ہے ،اسی کتابچے میں کہا گیا ہے کہ”دارا برصغیر کی تاریخ کا ایک اچھوتا اور درخشندہ ستارہ ہے۔جس کی چمک کو حکمرانوں کی مرضی کے مطابق تاریخ لکھنے والوںنے ماند کرنے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔وہ برصغیر کے مسلمانوں کے بہترین اوصاف کا نمونہ اور ان کی ثقافتی اور فکری عظمتوں کا امین تھا۔ایک عوام دوست اور نرم دل شہزادہ،ایک حساس مصور،ایک خوبصورت شاعر،ایک باعمل صوفی۔وہ میاںمیر اور ملا شاہ بدخشی کا مرید تھا اور بین المذاہبٍ ہم آہنگی اور فکری اشتراک کا بہت بڑا علمبردار تھا۔اس نے اکبر اعظم کے مذاہب کوقریب لانے کی پالیسی کو فکری گہرائی اور سیاسی و سعت دی۔اورنگ زیب کی شخصیت اور نظریات دارا کے بالکل الٹ تھے۔وہ تنگ نظر اور کوتاہ اندیش تھا،اور اقتدار پر قبضے کے لئے ہر فریب اور ہر حربے کو جائز سمجھتا تھا۔ہوس اقتدار میں اس نے باپ کو بخشا، نہ بھائیوں کواور نہ خود اپنی اولاد کو اور المیہ یہ ہے کہ ایسے سفاک اور مکار حکمران کو ہمارے حکمران طبقات اور مذہبی ٹھیکیداروں نے مثالی حکمران بنا رکھا ہے۔اگر اورنگ زیب کی جگہ تخت طاؤس پر دارا بیٹھ جاتا تو شاید ہندوستان کی تاریخ کا رخ اور ہوتا۔شاید راجوں ،مہاراجوں سے دشمنی اسقدر نہ بڑھتی جو سلطنت کی تباہی پر ختم ہوئی۔شایداکثریتی غیر مسلم رعایاپر جزیہ عائد نہ ہوتااور مغل حکومت سے بغاوت نہ کرتے۔شاید مذاہب کے درمیان دوریاں اور دشمنیاں نہ بڑھتیںاور مذہبی سیاست کا دور نہ آتا۔روشن خیال اور جدید ذہن کے حامل دارا شکوہ کے دور میں اقتصادی طور پر خوشحال ہندوستان میں جدید تکنیکی اور سائنسی خیالات پھیلتے اور یورپ کے ساتھ ساتھ اس خطے میں بھی صنعتی انقلاب برپا ہو جاتا۔”
کیا یہ آج کی صورتحال نہیں،کیا یہی کچھ آج بھی نہیں ہو رہا،کتنی مماثلت ہے اس کی آج کے ساتھ۔۔۔؟کاش یہ کھیل چلتا رہے ،اور اس متوازی تھیٹر کی حکمرانی قائم ہو جائے۔آخر میں سرمد کا کردار کرنے والے عثمان ضیاء کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی،دوسری کردار مکالمے بولتے تھے اس کے جسم کا ایک ایک انگ بولتا تھا،اس کی عریانی باتیں کرتی تھی،اس کی سرمستی وجد پیدا کرتی تھی،ویلڈن عثمان ضیاء ویلڈن اجوکا۔ویلڈن


 پاکستان۔

اس ملک میں آپ آزاد ہیں۔ جو چاہیں وہ کریں:
چاہیں تو موٹر سائیکل سے سائلنسر نکال کر سڑک پر دوڑائیں۔

  • چاہیں تو لوگوں کے گھروں اور گاڑیوں کے اندر پٹاخے چھوڑیں
  • چاہیں تو سپیکر پر ساری رات وعظ کر کے یا قرآن پڑھ کے سارے شہر کو زبردستی ثواب پہنچائیں۔
  • چاہیں تو جب مرضی گلی میں قنات لگا کر راستہ بند کر کے اپنے مہمانوں کی دعوت کر لیں۔
  • چاہیں تو جتنا مرضی اونچی آواز میں گانے بجا کر سارے محلے کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کریں
  • چاہیں تو کسی کو بھی کافر یا غدار قرار دے دیں
  • چاہیں تو جتنے مرضی شیعوں کو بسوں سے اتار کر،باقاعدہ شناختی کارڈ دیکھ کر ماریں،
  • چاہیں تو عیسائیوں کی پوری پوری بستیاں جلا دیں ،ہندوؤں کی لڑکیاں اغوا کر لیں،
  • چاہیں تو احمدیوں کی عبادت گاہوں میں گھُس کر جتنے مرضی احمدیوں کو مار ڈالیں
  • چاہیں توکسی بھی شخص پر توہینِ رسالت/قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگا کر اُسے آگ لگا دیں۔
  • چاہیں تو قرآن ہاتھ میں پکڑ کر جھوٹ بولیں (اس پر قرآن کی بے حرمتی کا مقدمہ بھی درج نہیں ہوگا)
  • چاہیں تو کسی بھی عورت پر تیزاب پھینک دیں، اُس کی ناک کاٹ دیں، غیرت کے نام پر قتل کر دیں۔
  • چاہیں تو منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیں (پھانسی لگانے پر بھی پابندی نہیں ہے)
  • چاہیں توناقابلِ تردید حقائق سے صاف مکر جائیں۔
  • چاہیں تو یوُ ٹرن لے لیں۔
  • چاہیں تو اپنی سارے مسائل کا ملبہ امریکہ پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جائیں۔
  • چاہیں تو جیسی مرضی پٹیشن لے کر سیدھے سپریم کورٹ چلے جائیں۔
  • چاہیں تو کسی بھی مقدمے میں سٹے آرڈر لے لیں اور باقی ساری زندگی مزے کریں۔

قیام پاکستان کے قیام کے فوراً بعد وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا کہ آج سے ایسے تمام وہ راگ اور راگنیاں بین قرار دے دی گئی ہیں جن کے نام دیویوں اور دیوتاؤں کے نام پر ہیں،جس روز یہ حکم نامہ جاری کیا گیا بڑے غلام علی خان ریڈیو پاکستان لاہور کی کنٹین میں موجود تھے اور ریڈیو پاکستان لاہور سے براہ راست راگ للت گانے والے تھے،اس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر یہ حکم نامہ لے کر بڑے غلام علی خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ راگ بدل لیں ،مگر بڑے غلام علی خاں صاحب نے فرمایا کہ میں تو راگ للت ہی گاؤں گا آپ اس کا نام پھوپھی حمیدہ اناؤنس کر دیں۔

سیاسی اسلام کے بے ایمان چوہدری۔۔۔از حسین حقانی



 کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر امریکہ اور پیپلز پارٹی نہ ہوتے تو ان وسعتِ مطالعہ سے محروم کالم نویسوں کا کیا بنتا جو ان کو گالیاں دے کر رزق کماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رزاقیت ک

حسین حقانی

ا کمال ہے کہ پتھر میں کیڑوں کو بھی رزق فراہم کرتا ہے اس لئے بعض لوگ سرکاری ملازمت کے ساتھ کالم نویسی کے پردے میں گالیاں دینے کے کاروبار کے ذریعے رزق کماتے ہیں اور رزاقِ عالم ان کی کم علمی پر صرف راز کا پردہ پڑا رہنے دیتا ہے۔

گزشتہ دنوں توہینِ رسالت کے نام پر دنگا فساد کی تازہ مہم شروع ہوئی تو ایک بار پھر امریکہ، پیپلز پارٹی اور اس خاکسار کو بھی رگیدنے کی دکان پُر رونق نظر آنے لگی۔ اس موضوع پر امریکہ کے اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے میرے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب[اوریا مقبول جان کی طرف اشارہ ہے] نے ، جو شاید عبرانی نام رکھنے پر اپنے والدین سے اتنے ناراض ہیں کہ اپنا غصہ قابو میں نہیں رکھ پاتے، اسے میری منافقت کا پردہ چاک کرنے کے مترادف قرار دیا۔ نہ میری دلیل پر غور کیا نہ اصل موضوع پر۔ بس مذہبی جذباتیت کے گرد لفاضی کا تانہ بانہ بُن کر امریکہ پر برس پڑے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی ہو تو ہر مسلمان کا دل دکھتا ہے۔ لیکن گستاخانہ بات کا چرچا صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اِس گستاخی کی آڑ میں سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ برصغیر ہندو پاک میں یہ دھندا پرانا ہے۔ 1927ء میں پنڈت چموہتی نے حضور اکرم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے “رنگیلا رسول نامی کتاب لکھی تو کسی نے اس کتاب کو پڑھا تک نہیں۔ 1929ء میں پنجاب کے احراریوں نے اس کتاب کے خلاف احتجاج کیا تو مسلمانوں میں غیرت کی لہر دوڑ گئی۔ کتاب کے پبلشر کو عدالت نے بری کر دیا تو علم دین نے اُسے قتل کر دیا اور اس کی حمایت میں بھی بڑی پُر زور تحریک چلی۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا غیرت کی اس تحریک سے حضور پر نور کی شان میں ہونے والی گستاخی کا ازالہ ہو گیا؟ گستاخانہ کتاب آج بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ اس کتاب کے نام پر تحریک نہ چلی ہوتی تو نہ کوئی کتاب پڑھتا ، نہ اس کا چرچا ہوتا۔ پچھلے ستر /اسی برسوں میں غیرت و حمیت کے نام پر چلنے والی تحریکوں نے مسلمانوں کو مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور کیا ہے۔
اوریا مقبول جان
 1967ء میں ٹرکش آرٹ آف لونگ (Turkish Art of Loving)نامی کتاب میں بھی حضور اکرم کی شان اقدس  میں گستاخی کی گئی۔ کتاب نہ زیادہ فروخت ہوئی نہ پڑھی گئی۔ لیکن1971ء میں سانحہء مشرقی پاکستان کے تناظر میں پاکستان کی منظم ترین مذہبی سیاسی جماعت نے اس کتاب کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا۔1970 کے انتخابات میں شکست اور مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی کی حمایت کو نبی رحمت کی شان میں گستاخی کے خلاف مظاہروں کے ذریعے دھونے کی کوشش نے غیر اہم کتاب کو اہم بنا دیا۔ کتاب آج بھی فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے خلاف مظاہرے صرف اس کی تشہیر کا ذریعہ بنےہیں۔ سلمان رشدی کی “شیطانی آیات”(Satanic Verses) کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
یو ٹیوب پر مصری مسیحی کی بنائی ہوئی فلم بھی دنیا کے پانچ ارب انسانوں میں سے صرف چند سو نے دیکھی ہوگی کہ مصر میں اسلام کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اس کی آڑ میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ پوری دنیا کے مسلمان جو عسکری ، اقتصادی اور سیاسی کمزوریوں کی وجہ سے توہین یا ہتک پر جوش میں آجاتے ہیں غیرت ایمانی کی تازہ ترین دعوت پر متحرک ہو گئے۔ سیاسی اسلام کے بے ایمان چوہدریوں نے ایک بار پھر ایک ایسی بات کی۔ پہلے [توہین آمیز فلم کی ]تشہیر کی جو کسی کی نظر میں نہ تھی، پھر اُس تشہیر کے بعد اُ س کے خلاف احتجاج کیا۔
مجھ جیسے گناہ گار نے (جسے تقویٰ کا دعویٰ ہی نہیں ہےبلکہ جو اپنی نوجوانی میں ان ٹھیکیدارانِ اسلام کے ساتھ وقت گزار کر ان کے طور طریقے سمجھ گیا ہے) صرف اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ غیرت ایمانی کے نام پر بلوہ کرنا بعض لوگوں کی سیاست کا تقاضا ہے نہ کہ حضور سے محبت کا۔ اس نفاق کا پردہ چاک ہونے کا طعنہ صرف وہی دے سکتا ہے جو تعصب میں اتنا ڈوبا ہو کہ دوسرے نقطہء نظر کو سمجھنا ہی نہ چاہتا ہو۔
“رنگیلا رسول ” سے لے کر “شیطانی آیات” تک ہر گستاخانہ تحریر کی تشہیر خود سیاسی مسلمانوں ہی نے کی ورنہ یہ گستاخانہ باتیں کبھی اہمیت حاصل نہ کرتیں۔ دنیا میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ہمارے دین اور ہمارے نبی کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور کہے گا۔ ایسی باتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے سے نہ دین کی عظمت میں اضافہ ہوگا نہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا ازالہ۔

حضور اکرم کی شان میں گستاخی کرنے والوں غیر اہم جاہلوں سے نمٹنے کے لئے ہدایات قرآن پاک میں موجود ہیں۔ سورۃ الاعراف کی آیت199 میں حکم ہے ” عفو سے کام لیجئے ، بھلائی کا حکم دیجئے اور جاہلوں کو نظر انداز کیجئے”۔ سورۃ الفرقان کی آیت 63 میں اہل ایمان کی تعریف یوں کی گئی ہے “رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں، اور جب جاہل اُن سے کلام کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام”۔ سورۃ النحل کی آیت 125 میں کہا گیا ہے کہ “لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی دعوت حکمت اور موعظت سے دواور اگر بحث کرو تو شائستگی سے دلائل دو”۔
اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے بہت سے مسائل ہیں۔ ان مسائل کے حل کے حوالے سے ہمارے درمیان بہت سا اختلاف رائے بھی ہوگا لیکن اس اختلافِ رائے میں شائستگی کا دامن وہی لوگ چھوڑتے ہیں جو دین و مذہب کو سیاست کا سیلہ بناتے ہیں۔ اُن کی نگاہ میں ہر وہ شخص جو اُ ن کی رائے سے اتفاق نہیں کر تاوہ غیر ملکی ایجنٹ ہے، گستاخِ رسول ہے، اسلام کا دشمن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور رسول کی عظمت سڑکوں پر مظاہرے کرنے والوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس عظمت کے تحفظ کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہوا ہے۔ کوئی کتاب یا کوئی فلم حضور اکرم کی شان میں کمی نہیں کر سکتی۔ کوئی کالم نویس اسلام کی عظمت کا ضامن نہیں ہے۔ اسلام محفوظ ہے اور مسلمانوں کے زوال کے دنیاوی اسباب کا علاج بھی سمجھدارانہ دنیاوی فیصلوں ہی سے ممکن ہے۔

ملا کی سیاست کی ضرورت ہے وگرنہ
اسلام کو ہر بات سے خطرہ نہیں ہوتا

.سیکولراور لبرل کے معنی=لالا جی


 ہمارے ہاں بہت سے لفظوں یا اصطلاحوں کے معنی بگاڑ دیئے گئے ہیں۔ ایسی ہی دو اہم اصطلاحات ہیں “سیکولر” اور “لبرل”۔ نام نہاد مذہبی علماء نے عوام کو بتایا ہے کہ سیکولر کا مطلب “لادین ” ہے یعنی جس کا کوئی دین نہیں اور لبرل کا مطلب مادر پدر آزاد ہے جو کسی روک ٹوک یا پابندی کو نہیں مانتا۔
نام نہاد مذہبی علماء کو ان پڑھ عوام سے واسطہ پڑتا ہے جن کو کوئی سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سو جو کچھ عالِم صاحب نے فرما دیا وہی حرفِ آخر ہو جاتا ہے۔ ورنہ محض معمولی سے سوال جواب سے ان کے بتائے گئے معنی کی قلعی کھل جاتی ہے۔
لفظ سیکولر ہی کو لیجئے ۔ دنیاء بھر میں ایسی ریاستوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں جو کسی مذہب کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتی ہیں۔ ان میں پاکستان، ایران، سعودی عرب، اسرائیل اور نیپال شامل ہیں (ہو سکتا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی دو یا تین مزید ریاستیں ایسی ہوں، تاہم مصنف کے علم میں نہیں)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیاءکے اکثر ممالک کسی ایک مذہب کو ریاستی مذہب قرار نہیں دیتے۔ اگر اس کا مطلب یہ نکال لیا جائے کہ یہ سارے ممالک “لادین” ہیں تو کیا ان ممالک میں بسنے والے لوگوں کا کوئی مذہب نہیں ہے؟ مغرب کے بیشتر ممالک سیکولر ہیں مگر وہاں بسنے والے لوگ عیسائی، یہودی، مسلمان یا کسی دیگر مذہب کے پیروکار ہیں اور اپنی اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق عبادات اور دیگر رسوم و رواج کی پابندی کرتے ہیں اور اس حوالے سے اُن پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ سیکولر ایسی ریاست کو کہتے ہیں جس کا ریاستی سطح پر کوئی مذہب نہیں۔ جہاں کسی ایک مذہب کی خدمت کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ اسی طرح انفرادی سطح پر بھی ایسا فرد سیکولر کہلائے گا جو مذہب کو ہر شخص کا ذاتی معاملہ سمجھتا ہے اور کسی کے مذہبی عقائد میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ کسی کے مذہبی عقائد کو غلط اور صحیح قرار نہیں دیتا اور اگر کسی کے مذہبی عقائد کو غلط سمجھتا بھی ہو تو انہیں درست کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ تمام فسادات کی جڑ کسی کے مذہبی عقائد کو درست کرنے کی کوشش ہی ہے۔
ہمارے علماء یہ بھول جاتے ہیں کہ مذہب کا تعلق عقیدے سے ہے اور عقیدے کو عقل/منطق کے ترازو میں تول کرنہیں اپنایا جاتا۔ جس کا جو عقیدہ ہے وہ اُسی کو درست سمجھتا ہے۔ چنانچہ جب ہم کسی کے عقیدے کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ شخص بھڑک اُٹھتا ہے اور یوں فساد کی بنیاد پڑتی ہے۔ یورپ میں مذہبی رواداری سیکولر خیالات کے فروغ کے بعد ہی آئی ہے۔ ورنہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات اُن لوگوں میں بھی کم نہیں تھے۔
اب آئیے دوسری اصطلاح کی طرف “لبرل”۔ اس کا ترجمہ “آزاد خیال” کیا جاتا ہے اور مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ لبرل ایسا فرد ہوتا ہے جو کسی قسم کی روک ٹوک کو پسند نہیں کرتا اور کسی طرح کی پابندی نہیں چاہتا۔ اب اگر ہم مغرب کے لوگوں کو لبرل سمجھتے ہیں تو پھر مغربی ممالک میں تو قانون نام کی کوئی چیز ہونی ہی نہیں چاہئے۔ اگر مغربی ممالک کے زیادہ تر لوگ “آزاد خیال” ہیں تو پھر وہاں قانون کی حکمرانی کا معاملہ ہم سے بہتر کیوں کر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لبرل لوگ وہ ہیں جو انسانی آزادیوں کے قائل ہیں تاہم پابندی کو ایک “ناگزیر برائی” خیال کرتے ہیں۔ یعنی وہ کسی بھی طرح قانون یا پابندیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہتے بلکہ انسانی آزادیوں پر ایک معقول حد تک پابندیاں لگانے کے قائل ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ اکثر سنایا جاتا ہے کہ ایک شخص اپنی چھڑی اِدھر اُدھر گھماتا جا رہا تھا ۔ ایک اور شخص نے اسے ٹوکا کہ میاں یہ چھڑی سنبھالو، کہیں مجھے لگ نہ جائے۔ تو پہلا شخص بولا “میں آزاد انسان ہوں اور اپنی چھڑی گھمانے کی مجھے مکمل آزادی ہے”۔ دوسرا شخص بولا “ہاں مگر تمہاری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے”۔
سو “آزاد خیال” ہونے کا مطلب “مادر پدر” آزاد نہیں ہے۔ تاہم اتنی پابندیاں بھی نہیں کہ فرد کو یہ اختیار بھی حاصل نہ ہو کہ اُس نے ڈاکٹر بننا ہے یا وکیل۔ اس نے شادی کس سے کرنی ہے یاکرنی بھی ہے کہ نہیں اور کب کرنی ہے۔ وہ پڑھنا چاہتا ہے یا کوئی کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ لبرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ مکمل طور پر آزاد ہیں جب تک آپ کی آزادی کسی اور کی آزادی میں رکاوٹ نہ ڈال رہی ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہمیں دوسروں کی آزادی سلب کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ہمارا جب دل چاہتا ہے گلی میں ٹینٹ لگا کر گلی بند کر دیتے ہیں اور ولیمہ شروع کر دیتے ہیں۔ اس بات کا ذرا برابر احساس نہیں کرتے کہ گلی بند ہو جانے کی وجہ سے کتنے لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہوگی۔ ہم شادیوں پر ساری ساری رات ڈھول بجاتے ہیں یا اونچی آواز میں گانے بجاتے ہیں اور اس بات کی ذرا پرواہ نہیں کرتے کہ آس پڑوس میں کسی نے سونا ہوگا، کسی نے پڑھنا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اس طرح کی مادر پدر آزادی کا بھرپور لطف اُٹھاتے ہیں مگر مادر پدر آزاد ہونے کو برا خیال کرتے ہیں۔
نوٹ: مصںف نے سیکولر اور لبرل جیسی اصطلاحوں کے تاریخی پس منظراور اس کے نتیجے میں ان اصطلاحوں کے بدلتے معنی پر مقالہ لکھنے سے قصداً اجتناب کیا ہے۔ کیوں لالاجی کی یہ تحریریں عام پاکستانی کے لئے لکھی جاتی ہیں، کسی محقق یا نقاد کی طرف سے علمیت کی سند حاصل کرنے کے لئے نہیں۔

پاک و ہند ۔باہمی مغالطے ڈاکٹر منظوراعجاز


ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کو وزیر اعلی پنجاب جناب شہباز شریف کی طرف سے دئیے گئے عشائیے سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ کرشنا جی ہماری طرح (گوشت وغیرہکھانا چاہتے تھے اور ہم ان کو خیالی یا فرضی ہندووں کا ساگ پات اوردالوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔لاہور میں ہونے والی اس ضیافت سے کچھ واقعات ذہن سے گزر گئے اور احساس ہوا کہ ہم مذہبی اور قومی عصبیت میں اتنے بے خبر ہو جاتے ہیں کہ ہمارا ذہن سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی ٹھوس حقیقت دیکھنے کی بجائے اپنے ہی تراشے ہیولے کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ذہن میں ہندو یا سکھ کا ایک تصوراتی خاکہ بٹھا دیا گیا ہے جو ہمیں ان کو اپنے ہی جیسا انسان سمجھنے کی راہ میں حائل رہتا ہے۔

تقریباً تین دہائی پہلے میں مشہور ناول نگار اور کالمسٹ محمد حنیف کے ہاں مہمان تھا۔ وہ ان دنوں ہفتہ وار انگریزی جریدے میں کام کرتے تھے جو مرحومہ رضیہ بھٹی کی ادارت میں چھپتا تھا۔محفل کے خاتمے پر جب سب لوگ اٹھنے لگے تو میں نے حنیف صاحب سے گلہ کیا کہ یار کراچی آنے کا کیا فائدہ ہوا ، تم نے کسی ہندو دانشور سے ملاقات ہی نہیں کروائی۔ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ آپ ساری شام جس شخص سے مخاطب رہے وہ ہندو ہی تو ہے۔ وہ مٹھی تھرپاکر کے ڈاکٹر کھٹاوٴمل تھے جو تب سے ہمارے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ میرا ذہن ایک کلین شیو اورڈھنگ سے تراشے بالوں والے شخص کو ہندو کے طور پر لے ہی نہیں پایا تھا ۔ پنجاب میں تقسیم کے بعد ہندو ناپید ہو چکے ہیں اور ہمارے ذہن میں ہندو ایک خاص ڈھب کا بالوں کی چوٹیباندھنے والا مسخرہ سا شخص ہوتاہے۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے پہلا ہندو ڈاکٹر کھٹاوٴ مل کی شکل میں دیکھا لیکن چند سال پہلے جو مجھے انکشاف ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیران کُن تھا۔ ایک بلوچی دوست سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے یکدم خیال آیا کہ ڈاکٹر کھٹاوٴمل کی ملاقات سے تیس سال پیشتر یونیورسٹی میں ہم سے ایک سال سینئرکوئٹہ سے آئی ہوئی ایک طالبہ کانتا دیوی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی کا فلسفہ ڈپارٹمنٹ چالیس پچاس طلباو طالبات تک محدود ہوتا تھا چنانچہ ہر کوئی ایک دوسرے کو قریب سے جانتا تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم نے کانتا دیوی کواپنے سے مختلف ہندو کے طور پر دیکھا ہی نہیں تھا۔میں کافی مرتبہ ہندوستان اور بالخصوص مشرقی پنجاب کے شہر و قصبات میں گھوما ہوں۔ اس دوران میں مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ہندووں اور سکھوں کے بارے میں قائم کئے ہوئے تصورات و تعصبات کتنے بے بنیاد ہیں۔ مثلاً عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سکھوں میں شراب نوشی حد سے بڑھ کر ہے۔ میں درجنوں سکھ دوستوں کا مہمان رہا ہوں اور وہ بھی میرے ہاں آکر ٹھہرتے رہے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے یا اتفاق ہے کہ ان میں سے کوئی بھی شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا۔ جب میں پہلی مرتبہ امرتسر، جالندھر اور موہالی گیا تو میرے تمام میزبان شام کو شرمندگی سے سر جھکا کر کہتے تھے ”دیکھئے ہم تو شراب نوشی کرتے نہیں ہیں اور نہ ہی گھر میں لاتے ہیں اس لئے ہم آپ کی یہی خدمت کرسکتے ہیں کہ آپ کو کسی بار پر لے جائیں “ جب میں نے ان سے کہا کہ یہ میرا مسئلہ ہی نہیں ہے تو ان کو اطمینان ہوا اور اس کے بعد کے دوروں میں وہ اس طرف سےمطمئن رہتے تھے۔ آپ میں سے اکثر یہ جانتے ہی ہوں گے کہ اب سکھوں میں سگریٹ نوشی ویسے ہی گناہ ہے جیسے مسلمانوں میں سور کا گوشت کھانا یا شراب نوشی۔ جب میں پہلی مرتبہ مشرقی پنجاب گیا تو سگریٹ نوشی کی لت کی وجہ سے بہت پریشان رہا کیونکہ سکھ میزبانوں کے گھر میں یا ان کے سامنے سگریٹ نوشی کافی قبیح عمل تھا۔ اس لئے جب میں کسی کونے میں چھپ جاتا تھا تو میزبانوں کو بھی اندازہ ہو جاتا تھا کہ میں کس لئے غائب ہوا ہوں ، وہ اس کا ذکر تو نہیں کرتے تھے لیکن آنکھوں سے تشکر کا اظہار ضرور کرتے تھے کہ میں ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتا ہوں۔لیکن پٹیالہ کے بس اڈے پر اپنے جیسے داڑھی مُنڈے ہندو وں کوسر عام سگریٹ پیتا دیکھ کر میں نے سوچا کہ بس اڈے کے جم غفیر میں میرے حلیے سے کسی کو کیا پتہ چلے گا کہ میں وہاں کا رہنے والا ہندو ہوں یا پاکستان سے آیا ہوا مسلمان۔اسی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہمارے وائس آف امریکہ کے براڈ کاسٹر دوست اومیش اگنی ہوتری نے کہا کہ وہ پاکستان جانا تو چاہتے ہیں لیکن خائف ہیں کہ کہیں ان کو ہندو سمجھ کرپریشان نہ کیا جائے۔تومیں نے کہا کہ اگرآپ خود لاہور کی سڑکوں پر اعلان نہ کرتے پھریں کہمیں ہندو ہوں تو کسی کو کیا پتہ چلے گاکہ آپ کون ہیں؟ چنانچہ وہ لاہور گئے اور انہوں نے واپس آکر میری بات کی تصدیق کی۔ میں نے ہندوستان میں گھومتے ہوئے محسوس کیا کہ پاک و ہند کے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہت سے مغالطوں کا شکار ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار اس لئے زیادہ ہے کہ سکھ کسان مسلمانوں سے زیادہ محنتی اور جدت پسند ہیں۔ میں نے بہت سے سکھ کسانوں سے اس بارے میں دریافت کیا جن کو تقسیم سے پیشتر مسلمانوں کے ساتھ رہنے کا ذاتی تجربہ تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے اس مغالطے کی نفی کی۔ بلکہ ایک سکھ معیشت دان نے اس فرق کی بنیادی وجہ یہ بتائی کہ مشرقی پنجاب میں سرکار زرعی شعبے کو مفت بجلی فراہم کرتی ہے اور زیر زمین پانی بھی میٹھا ہے لہٰذا پانی کے مفت اور وافر ہونے سے مشرقی پنجاب کے کسان کی فی ایکڑ پیداوار پاکستانی پنجاب سے زیادہ ہے۔ پاک و ہند میں ایک دوسرے کے بارے میں مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی پہلووں سے بھی بہت مغالطے ہیں جن کی وجہ سے ہم رنگی کی بجائے اختلافی پہلوں کو زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں یہ تاثر بہت گہرا ہے کہ پاکستان شدید مذہبی بنیاد پرستی کے شکنجے میں ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو پچھلی تین دہائیوں سے پورا شمالی ہندوستان بنیاد پرستی کی زد میں ہے۔ ہندوستان میں ہندو بنیاد پرست راشٹریہ سیوک سنگھ کا اثر بذریعہ بھارتی جنتا پارٹی اسی عہد میں بڑھا ہے جس دور میںپاکستان میں ضیاء الحق کے زمانے کی اسلام پسندی شروع ہوئی۔ مزید برآں مشرقی پنجاب میں تو خالصتان کی تحریک بہت پہلے چل چکی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کی جڑیں مقامی تھیں کیونکہ تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب پرزیادہ عرصہ نیم مذہبی اکالی دل پارٹی کی حکومت رہی ہے جو گردوارہ پربندھک کمیٹی کو برابر استعمال کرتی ہے۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی پنجاب کا وزیر اعلیٰ پر مذہبی گردوارہ کمیٹی کا جتنا اسیر ہوتا ہے پاکستانی پنجاب کے وزیر اعظم ہاوٴس میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر دونوں ملکوں میں ریاستی اداروں کو نظر انداز کرکے صرف سماجوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا جائے توپاکستان اورہندوستان کی کم ازکم شمالی ریاستیں ایک ہی قبیلے کی شاخوں کی طرح نظر آئیں گی۔ تھوڑی سی غیرمتعصب آنکھ سے دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے سماجوں کے ہر پہلو میں مماثلت نظر آئے گی۔ ظاہری شکلیں مختلف ہوں گی لیکن باطنی دور پریکسانیت!

جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

125 GeV کميت والے نئے ذرے کا انکشاف


سی ايم ايس تجربہ گاه
   
خاصہ
آج سرن جنيوا اور “ICHEP 2012” کانفرنس[1] ميلبورن کے ايک مشترکہ سيمينار ميں ارج ہاڈرون کوائيڈر (ايل
ايچ سی) پر واقع سی ايم ايس تجربہ گاه کے سائنسدانوں نے جون 2012 تک کے حاصل کرده ڈيٹا کے مطابق
اسٹينڈرڈ ماڈل ہگزبوزون کی موجودگی کے ابتدائی نتائج پيش کئے۔
ً 2]  125 GeV]کی کميت پر ملنے والے events کے اعداد وشمار دوسرے شواہد کی
سی ايم ايس کےمطابق تقريبا توقعات سے پانچ (sigma  ( 5 زياده ہے [3]۔ اس بات کا شرح امکان تيس اکھ ميں سے صرف ايک ہے کہ ديگر شواہد اس سطح تک رونما ہو سکتے ہيں۔ اس بات کا قوی ثبوت جس ميں کميت بہترين ہوتی ہے وه دو حالتوں ميںملتا ہے۔ پہلی حالت جس ميں يہ ذرات دوفوٹون ہوں اور دوسری حالت جسميں دوليپٹون  (اليکٹران ياميون ) جوڑوںکی صورت ميں ہوں۔ ہم اس بات کی تشريح اسطرح کر سکتے ہيں کہ يہ دونوں حالتيں ماضی ميں دريافت نہ ہونےً
والے ذرے کی وجہ سے ہے۔ جسکی کميت تقريبا 125 GeVہے۔ سی ايم ايس ڈيٹا واضح طور پر ايس ايم ہگز بوزون کی موجودگی کو 110-122.5 GeV اور 127-600 GeV کیرينجز پر 95 فيصد [4] تک وثوق سے مسترد کرتا ہے۔ کم کميت پر ہگز بوزون کی عدم موجودگی سرن کی سابقہ اسراعی مشين ايل ای پی کوائيڈر پر بھی 95 فيصد اعتماد سے پيش کی گئی تھی۔
سی ايم ايس ڈيٹا کے اعدادو شمار اور systematic errors ميں رہتے ہوئے ملنے والے متعدد فزکس راستوں کے
نتائج ہگز بوزون کی موجودگی کے بارے ميں يکساں ہيں۔ تاہم سائنسدانوں کو اس اطمينان کے لئے مزيد ڈيٹا درکار
ہے کہ يہ نيا ملنے واا ذره ايس ايم ہگز بوزون کی ساری خصوصيات کا حامل ہے يا کچھ مختلف ہے جو کہ رائج
الوقت فزکس کی حدود سے بﮍھ کر نئی راہوں کی طرف اشاره کررہا ہے۔  2012 کے اختتام تک سی ايم ايس ، ايل
ايچ سی سے 3 گنا زياده ڈيٹا حاصل کرنے کے قابل ہو جانے کيليے پر اميد ہے۔ جس کے باعث سی ايم ايس
سائنسدانوں کو اس نئے دريافت شده ذره پرمزيد تحقيق کے نئے مواقع مليں گے۔  
تحقيقی حکمت عملی    CMS 
سی ايم ايس سائنسدانوں کے مطابق 18جون تک کا حاصل کرده  ڈيٹا 7 TeV توانائی پر پروٹان۔پروٹان ذرات کے
ٹکراؤ کے نتيجہ ميں ما۔ اس ڈيٹا کی مقدار fb
-1 
5.1 ہے[5]۔ جبکہ 8 TeV توانائی پر يہ مقدار fb 
-1 
ہے۔ 5.3
اسٹينڈرڈ ماڈل کے قياس کے مطابق ہگز بوزون بہت تھوڑے وقت کے لئے نمودار ہوتا ہے اور کئی دريافت شده
ذرات ميں تحليل ہو جاتا ہے۔ سی ايم ايس تجربہ نے ہگز بوزون کے پانچ بنيادی تحليلی راستوں کا تفصيلی جائزه ليا
ہے۔ ان ميں سے تين راستے بوزونک ذرات کے جوڑوں پر مشتمل ہيں جبکہ دو راستے (bb or ττ) فرميونک ذرات
کے جوڑوں پر مشتمل ہيں۔ γ ايک فوٹان کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہZ اورweak interaction, W کے force carrier 
ہيں۔ bottom quark, b اور lepton τ کو ظاہر کرتا ہے۔ تينوں تحليلی راستے (125 GeV  ( γγ  ZZ, WWکميت
والے ہگز بوزون کے لئے يکساں طور پر حساس ہيں۔ باقی تمام کميتوں کے لئے ττ اور bb  راستے موزوں ہيں۔
γγ اور ZZتحليلی راستے يکساں طور پر اہم ہيں کيونکہ يہ دونوں ذرات کی کميت کی پيمائش درستگی کيساتھ کر
سکتے ہيں۔γγ تحليلی راستے ميں کميت کو دو بہت زياده توانائی والے فوٹان کی توانائی اور سمتوں کو استعمال
کرتے ہوئے ناپا جاتا ہے (شکل نمبر١)۔  ZZ تحليلی راستے ميں کميت کی پيمائش مندرجہ ذيل ذرات کی مدد سے کی
جا سکتی ہے۔ دو اليکٹران کے جوڑوں يا دو ميون کے جوڑوں يا ايک اليکٹران کا جوڑا اور ايک ميون کا جوڑا۔  
کيونکہ ايک  Z ايک اليکٹران جوڑے يا ايک ميون جوڑے ميں  تحليل ہو سکتا ہے۔ يہ دونوں ذرات  اليکٹران يا ميون
سی ايم ايس تجربہ گاه ميں ناپے جاتے ہيں ( شکل نمبر 2)2
شکل  نمبر1:جو events سی  ايم ايس detector  سے  8TeV پر پروٹان پروٹان ٹکراؤ کے
نتيجے ميں ريکارڈ کيا گيا ۔ يہ event ،اسٹينڈرڈ ماڈل ہگز کے تحليلی راستے دو فوٹان کے لئے
ہے۔ (پيلی نقطوں والی لکيراور سبز ٹاور) يہ event ممکنہ طور پر اسٹينٹڈرڈ ماڈل کے دوسرے
شواہد کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔  
شکل نمبر2 :جو events سی ايم ايس detector سے 8TeV پر پروٹان پروٹان ٹکراؤ کے نتيجے
ميں ريکارڈ کيا گيا ۔ يہ event ،اسٹينڈرڈ ماڈل ہگز کے تحليلی راستے ZZ کے ليے ہے۔ جس ميں
ايک Z ايک اليکٹران جوڑے (سبز لکيريں اور سبز ٹاور) اور دوسرے Z جو ايک ميون جوڑے
ميں (سرخ لکيريں) تحليل ہوتا ہے۔ يہ  eventممکنہ طور پر اسٹينڈرڈ ماڈل کے دوسرے شواہد کی
وجہ سے ہو سکتا ہے۔3
WW راستہ زياده پيچيده ہے۔  ہر ايک راستہ اپنی مخصوص تحليل ايک اليکٹرون اور ايک نيوٹرينو يا ايک ميون
اور ايک نيوٹرينو سےشناخت کيے جاتے ہيں۔ نيو ٹرينو سی ايم ايس ڈيٹکٹر سے گزرنے کے دوران شناخت نہيں
کيے جا سکتے، لہذا اسٹينڈرڈ ماڈل ہگز بوزون ،WW راستے ميں رہتے ہوئے کمياتی تقسيم کے اندر اپنے آپ کو
برخاف نپی تلی کثرت کے وسيع زيادتی کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔
bb راستہ ميں اسٹينڈرڈ ماڈل کے کئی دوسرے وسيع شواہد موجود ہيں۔ اس لئے تجزياتی عمل ايسے  events کی
تاش کرتا ہے جس ميں ہگز بوزون، W يا Z کے ساتھ وجود پذير ہوتا ہے۔ جو بعد ميں اليکٹران يا ميون ميں تحليل ہو
جاتا ہے۔ ττ راستے کی پيمائش τکے اليکٹران، ميون اور ہيڈرون ذروں کی تحليل کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی
ہے۔  
  
CMS فزکس نتائج کا خاصہ
سی ايم ايس سائنسدانوں کے نزديک اگر اسٹينڈرڈ ماڈل ہگز بوزون موجود نہ ہو تو 110-600  GeVکی  mass
range کو 95 فيصد يقين کےساتھ کی خارج کر دينا ممکن ہے۔ درحقيقت سی ايم ايس سائنسدان پہلے ہی اسٹينڈرڈ
ماڈل ہگز بوزون کی موجودگی دو  110- 122.5 GeV,  mass rangeاور  127-600  GeVپر 95 فيصد يقين
کيساتھ خارج کر چکے ہيں۔ باقی ره جانے والی 122.5 - 127 GeV,  mass range پر پانچ ميں سے تين فزکس
راستوں ميں سی ايم ايس سائنسدانوں کو نئے ذرے کی موجودگی کے واضح آثار ملے ہيں۔ لہذا  122.5 - 127 GeV
کی حد کو خارج تصور نہيں کيا جا سکتا۔
• چينل γγ  : γγ کی کمياتی تقسيم شکل نمبر 3 ميں ظاہر ہے۔ اس ميں  125GeV کميت پرevents  کی کثرت
دوسرے شواہد سے sigma   4.1 بلند ہے۔ دو فوٹون والی حتمی حالت ثابت کرتی ہے کہ ملنے واا نيا ذره
بوزون ہے۔ يہ fermion  نہيں ہے اور نہ ہی يہ "Spin 1"  ذره ہو سکتا ہے۔
• چينل ZZ: شکل نمبر 4 کے مطابق چار ليپٹان کی کمياتی تقسيم؛ دو جوڑے  اليکٹران يا دو جوڑے ميون يا ايک
جوڑا اليکٹران اور ايک جوڑا ميون کی صورت ميں دکھائی گئی ہے تحليلی زاويے کی خصوصيات کيمطابق
 125 GeVکميت پرevents کی کثرت دوسرے شواہد سے sigma  3.2 بلند ہے۔
• چينل WW: کمياتی تقسيم ميں  events  کی کثرت دوسرے شواہد سے sigma 1.5 بلند ديکھی گئی ہے۔
• چينلز ττ اورbb: کسی  event کی کثرت نہيں پائی گئی۔
  4
شکل نمبر 3:  دو فوٹان تحليلی راستے ميں SM 
  Higgsکی کميت جو کہ 2011 اور 2012 کے
ڈيٹا سے حاصل کی گئی ہے۔  (کالے نقظے bars 
  errorکيساتھ سرخ لکير   signal اور
background کيساتھ ہے۔ اور dashed سرخ لکير
صرفbackground کو دکھا رہی ہے۔
شکل نمبر 4:  چار   lepton reconstructed جن ميں چار
الکيٹران چار ميون اور دو اليکٹران اور دو ميون کی کميت
دکھائی گئی ہے۔ نقطے ڈيٹا کو ظاہر کر رہے ہيں۔ شيڈ واا
گراف  background کو ظاہر کر رہا ہے۔ اور بغير shade 
واا  signal کو ظاہر کر رہا ہے۔ يہ پاٹ دونوں ڈيٹاز کو دکھا
رہا ہے۔ جو کہ TeV7 اور TeV8 پر ليا گيا ہے۔
سگنل کی شمارياتی اہميت جو کہ تمام پانچ تحليلی راستوں پر مشترکہ  fit سے حاصل ہوتی ہے(شکل نمبر 5)۔ وه
ديگر شواہد سےsigma 4.9 بلند ہے۔جب کہ ايک مشترکہ fit، جو کہ دو سب سے زياده حساس راستوں اور  γγ) 
  (ZZ پر استعمال کيا گيا ہے وه sigma 5 ک
ی شمارياتی اہميت ديتا ہے۔ تقريبا  125 GeV کی کميت پر ملنے والے ً
 events کے اعداد و شمار دوسرے شواہد کی توقعات سے زياده ہيں اور اس بات کا شرح امکان 30 اکھ ميں سے
صرف ايک ہے۔  نئے ذرے کی کميت  125.3+ /- 0.6 GeV معلوم کی گئی ہے۔ اور يہ کميت پہلے سے
موجود تحليلی راستوں کی حاصل ہونے والی مقدار پر قائم کسی بھی مفروضے سے مبّرا ہے۔
شکل نمبر 5: ممکنہ امکان کہ  background only مفروضہ کتنے events C ميں  کتنے
 eventsدے گا۔ کالی لکير مشترکہ P-value تمام تحليلی راستوں کيليئے دکھا رہی ہے۔
اس نئے ذره سے پيدا ہونے کی شرح، اسٹينڈرڈ ماڈل ميں دی گئی شرح σDAT/σSM = 0.80 +/- 0.22 سے مطابقت
رکھتی ہے۔  5
سی ايم ايس ڈيٹکٹرکی کارکردگی کو سمجھنے کے لئے مختلف پہلوؤں جيسے کہ events  کا چناؤ، ديگر شواہد کا
چناؤ اور دوسری ممکنہ شمارياتی غلطياں اور   systematic errors پر بہت زياده توجہ دی گئی ہے۔2011 کے
تجزيہ [6] نے ثابت کيا ہے کہ زياده  125 GeV, events کے اردگرد ہيں۔ اسی ليے2012 کے ڈيٹا کے تجزيہ ميں
اس بات کا خيال رکھا گيا ہے۔ کہ کسی خاص کميت پر  events  کو نہ ليا جائے[7]۔ بلکہ ان events  کو ليا جائے
جو ايک خاص معيار پر پورا اتريں۔ عمومی تصديق کی خاطر، تمام تجزئيے کم از کم دو مختلف ٹيموں نے آزادانہ
طور پر کيے۔
دوسرے عوامل جنہوں نے نتائج ميں اطمينان حاصل کرنے ميں مدد کی:   
• 2011 اور 2012 کے ڈيٹا ميں events کی زيادتی 125 GeV کے اردگرد ديکھی گئی۔ دونوں تحليلی
راستوں (γγ اور ZZ) ميں ايک ہی کميت پر  events کی زيادتی ديکھی گئی۔ ان  events کی زيادتی جو
کہ تحليلی راستے  (WW) سے آئے ہوں۔ ان  events سے مطابقت رکھتے ہيں جو ايک  125 GeV والے
ذرےپر ظاہر ہوتے ہوں۔ فوٹون، اليکٹران، ميون اورہيڈرون کی حتمی حالت ميں بھی زيادتی ديکھی گئی۔   
يہ پيش کرده ابتدائی نتائج ہيں۔ ان کو اس مقصد کے تحت مزيد بہتر کيا جائے گا  کہ ان کو گرميوں کے اختتام ميں
اشاعت کيلئے بھيجا جا سکے۔  
  
مستقبل کی حکمت عملی
125GeV پر دريافت شده ذره اسٹينڈرڈ ماڈل ہگز بورون کے ہم آہنگ ہے اور محدود اعدادو شمار کی درستگی کے
مطابق ہے۔ اس نئے ذرے کی جانچ اور خصوصيات کی پيمائش کے لئے مزيد فزکس ڈيٹا درکار ہے۔ جيسا کہ مختلف
فزکس راستوں   (γγ, ZZ, WW, bb & ττ) کی تحليلی شرح اسپن ، ُ◌پيريٹی اگر يہ ذره اسٹينڈرڈ  ماڈل ہگز بورون
نہيں ہے تو يہ نتائج با شبہ اشاره کرتے ہيں ايک نئی فزکس کی طرف  جو کہ اسٹينڈرڈ ماڈل کی حدود سے پرے
ہے۔
 2012 کے اختتام تک سی ايم ايس ، ايل ايچ سی سے تين گنازياده ڈيٹا حاصل کرنے کی توقع رکھنا ہے۔ اور سی ايم
ايس سائنسدانوں کو اس نئے ذرے پرتحقيق کے مزيد مواقع فراہم کرے گا۔
اگر يہ نيا ذره  ہگز بوزون ہی ہے تو اس کی خصوصيات اور مضمرات کی تحقيق اسٹينڈرڈ ماڈل کيلئے زياده تفصيل
سے کی جائے گی۔ اس کے برعکس اگريہ نيا ذره کچھ اور ہے تو سی ايم ايس، فزکس کے  نئے ذرے اورنئے
زاويوں پر کام کرے گا۔ اس صورت ميں مزيد نئے ذرات کی دريافت بھی ممکن ہے۔ہر حالت ميں سی ايم ايس نئے
ذرے يا قوتوں کی تاش جاری رکھے گا۔  
CMS
مزيد تفصيات کيليے ويب سائٹ: http://cern.ch/cms
cms.outreach@cern.ch :ميل ای
سی ايم ايس،ايل ايچ سی پر موجود ان تجربہ گاہوں ميں سے ايک ہے جو ايک نئی فزکس اور نئے ذرات تاش کرنے
کے لئے بنائی گئی ہے۔ ايل ايچ سی، ہائی انرجی پروٹان - پروٹان اور ہيوی ايون  کی تحقيق کرنے کی صاحيت
رکھتا ہے جو سی ايم ايس کيليے وسيع رينج پر نئے ذرات اور واقعات کے جاننے ميں معاون ہے۔مزيد يہ ہميں ان
سوالوں کے جوابات جاننے ميں مدد دے گا جيسا کہ 'کائنات کس چيزسے بنی؟ کون سی قوتيں اس پر کار فرما ہيں،
کيا چيزکميت بناتی ہے؟ اسکے عاوه موجوده ذرات کی خصوصيات کو مزيد بہتر طور پر جاننے  اور انہيں نئے
نظريہ سے ديکھنے ميں بھی  سی ايم ايس مدد گار ثابت ہو گا۔
1992ميں سی ايم ايس تجربہ کا تصور سامنے آيا اس ديو ہيکل ڈيٹکٹر (وزن 14000ٹن ، لمبائی29 ميٹر، قطر15
ميٹر)  کو بنانے ميں 16 سال کا طويل عرصہ لگا۔ سی ايم ايس ميں 41 ممالک کے 179مختلف تعليمی اور تحقيقی
اداروں سے 3275 سائنسدانوں نے حصہ ليا۔ جن ميں 1535 فزکس طلباء، 790انجينئزز اور  ٹيکنيشينز شامل ہيں۔
فٹ نوٹ
1۔ آئی چيپ چھتيسويں بين ااقوامی کانفرنس جو کہ زياده توانائی والی طبيعات پر ميلبورن، آسٹريليا ميں۴ سے ١١
جوائی ٢٠١٢ تک منعقد ہو رہی ہے۔ نتائج مشترکہ طور پر پيش کئے جائيں گے۔ جو کہ بيک وقت سرن پربا لمشافہ
اور آئی چيپ ميں وڈيو لنک سے دکھائے جائيں گے۔6
2۔ اليکٹران وولٹ توانائی کی ايک اکائی ہے۔ ايک گيگا اليکٹران وولٹ 1000000000 eV کے برابر ہے۔ ذراتی
طبيعات ميں جہاں کميت اور توانائی ايکدوسرے ميں تبديل کئے جاسکتے ہيں۔ يہ عام ہے کہ کميت کی اکائی کو
ev/C2 ميں ظاہر کيا جاتا ہے۔ (جہاں  C   روشنی کی رفتار ہے)
3۔ Standard deviation پيمائشوں کےکسی ايک خاص قيمت کے گرد پھياؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کو ہم کسی
ايک مفروضے کے ساتھ مطابقت رکھنے يا نہ رکھنے کا تعيّن کرنے کے ليے استعمال کر سکتے ہيں۔ طبيعات دان
Standard deviation  کو (σ) سگما کی اکائی ميں بيان کرتے ہيں۔ سگما۔ جتنابزا ہو گا۔ ڈيٹا مفروضہ کے ساتھ اتنا
ہی عدم مطابقت    ميں ہو گا۔    خاص طور پر جتنی غيرمتوقع دريافت ہو گی۔ طبيعات دانوں کو مطمئن کرنے
کيليئےاتنے ہی بﮍے نمبر واا سگما (σ) چاہيے ہو گا۔
4۔اطمينانی معيار ايک شمارياتی پيمانہ ہے۔جسکے تحت متوقع نتائج ايک مخصوص حد کے اندر اخذ کيے جائيں۔
مشال کے طور پر 95 فيصد اطمينان کا مطلب  ہے کہ ايک عمل کا نتيجہ يقينی طور پر 95فيصد مواقعوں پر توقعات
کے عين مطابق ہو۔  
http://news.stanford.edu/news/2004/july21/femtobarn-721.html ۔5 
http://cms.web.cern.ch/news/cms-search-standard-model-higgs-boson-lhc-data-2010-and-
2011 ۔6 
http://cms.web.cern.ch/news/blinding-and-unblinding-analyses ۔7 

کرکٹ; پاکستانی شائقین”جانوروں کا ریوڑ “


یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی مشترکہ پالیسی




یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں رائج سیاسی پناہ کی پالیسیاں رواں سال کے آخر تک ایک مشترکہ یورپی پالیسی میں ضم کر دی جائیں گی۔ اس معاملے پر غور و خوض کا سلسلہ جاری ہے۔
آنکھوں میں درخشاں مستقبل کے خواب سجائے اور جان ہتھیلی پر لے کر یورپ پہنچنے والے تارکین وطن یہاں پہنچ کر بھی تقدیر کے ستاروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ یورپ کے تمام ممالک میں تارکین وطن سے متعلق قوانین اور ان کے ساتھ برتاؤ ایک جیسا نہیں۔ سیاسی پناہ دینے اور طعام و قیام کے معاملات بھی مختلف یورپی ممالک میں الگ الگ انداز سے طے کیے جاتے ہیں۔
ان معاملات میں یکسوئی پیدا کرنے اور ایک جامع نظام متعارف کروانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور غالب امکان ہے کہ رواں سال کے آخری مہینے میں یورپی یونین کی سطح پر سیاسی پناہ سے متعلق مشترکہ پالیسی متعارف کروا دی جائے گی۔ رکن ممالک میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو فراہم کیے جانے والے معیارِ زندگی کے حوالے سے بھی خاصا فرق ہے۔ درخواستیں نمٹانے کا طریقہء کار بھی خاصا مختلف ہے۔
افغانستان سے پیدل سفر
شورش زدہ افغانستان گزشتہ قریب چار دہائیوں سے بدامنی اور جنگ و جدل کی لپیٹ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست کے بہت سے باسی بہتر زندگی کی تلاش میں زمینی راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوویت دور میں ماسکو کے راستے مغربی یورپ پہنچنے کو ترجیح دی جاتی تھی جبکہ آج کل ایران، ترکی اور پھر یونان کے راستے مغربی یورپ کے قدرے خوشحال ممالک میں پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے کی امید کی جاتی ہے۔
افغان سیاسی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہوتی ہے، جو انسانی اسمگلروں کو دس تا پندرہ ہزار یورو دینے کے بعد یونان تک پہنچنے کی ضمانت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سفر بھی خطرات سے عبارت رہتا ہے اور منزل پر پہنچنے کی کوئی طے شدہ مدت نہیں ہوتی۔ یورپی یونین میں یونان کی سرحد انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں کے حوالے سے خاصی بدنام ہے۔
یونان کی اقتصادی کمزوریاں
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں تارکین وطن کے امور دیکھنے والی Anneliese Baldaccini کے بقول یونانی انتظامیہ تارکین وطن کے معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کے حوالے سے مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ان کے مطابق تارکین وطن اس لیے بھی یہاں پناہ کی درخواست نہیں دیتے کیونکہ انہیں لمبے عرصے تک درخواسٹ نمٹنے کے انتظار کا ڈر رہتا ہے اور اس دوران انہیں ناگفتہ حالات میں رہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
یونان چونکہ خود اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا ہے اسی لیے نہ تو ایتھنز حکومت پناہ گزینوں کی بیشتر مشکلات دور کر سکنے کی اہل ہے اور نہ ہی پناہ گزین یہاں ٹھہرنے سے خوش ہوتے ہیں۔ یونانی حکومت کے اندازوں کے مطابق ایک کروڑ سے زائد کی مجموعی آبادی میں سے قریب دس لاکھ ایسے ہیں، جن کا پس منظر کسی نہ کسی حوالے سے ایک تارک وطن کا ہے۔ یورپی ممالک میں کم عمر تارکین وطن کی دیکھ بھال اور پرورش کے حوالے سے ہالینڈ کے Guardian Program کو خاصا پسند کیا جا رہا ہے۔ امکان ہے کہ نئی جامع یورپی پالیسی میں اسے تمام ممالک میں رائج کرنے کی سفارش کی جائے۔
(sks/ ai (AFP
  • ت

جرمن روسی ہزار سالہ تاريخ، دوستی بھی اور دشمنی بھی



جرمن روسی تعلقات کے ايک ہزار سال ميں کبھی دونوں قوميں شديد دشمن اور کبھی دوست رہيں۔ کبھی ان ميں قربت اور کبھی فاصلے تھے۔
روسی جرمن تعلقات کی ہزار سال سے بھی زيادہ طويل تاريخ ميں دونوں قوموں ميں کبھی دوستی تھی اور کبھی دشمنی۔ کبھی ان دونوں میں قربت تھی تو کبھی فاصلے۔ اس وقت بھی جرمن روسی تعلقات ميں کچھ کھچاؤ پايا جاتا ہے۔
چھ اکتوبر کو ’جرمنوں اور روسيوں کے ہزار سال‘ کے نام سے برلن میں ايک نمائش شروع ہو رہی ہے۔
سن 1073 ميں کييف کے روسی نواب ياروپولک نے جرمن کونيگُنڈے فان وائمر سے شادی کی تھی۔ يہ شادی ياروپولک کی والدہ گيرٹروڈ فان پولن نے کرائی تھی۔ وہ مشرقی سلاوی سرزمين پر پہلی بادشاہت کو يورپی رياستوں اور بادشاہتوں کے ابھرتے ہوئے منظر ميں شامل کرنا چاہتی تھيں۔ برلن کی نمائش ’روسی اور جرمن‘ کے منتظم پروفيسر ماتھياس ويمہوف کہتے ہیں: ’يہ جرمن روسی تعلقات کا ايک خوبصورت آغاز اور ہماری نمائش کی بھی ايک خوصورت شروعات ہے‘۔
اس ہال ميں 8 اور 9 مئی 1945 کو جرمن افواج نے ہتھيار ڈالے تھے
اس ہال ميں 8 اور 9 مئی 1945 کو جرمن افواج نے ہتھيار ڈالے تھے
ياروپولک کو شادی کے چند سال بعد ہی قتل کر ديا گيا تھا۔ زيادہ سے زيادہ 1240ء ميں منگولی تاتاری جنگجوؤں کے ہاتھوں کييف کی تباہی کے بعد مشرقی سلاو سرزمين مغرب کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تھی۔
پندرھويں صدی کے اختتام اور سولہويں صدی کے آغاز پر ماسکو کی بڑی نوابی رياست منظر پر نمودار ہوئی۔ اسے تجسس سے ديکھا گيا۔ ليکن ايلچيوں اور مسافروں کی تحريروں ميں اس نئی رياست کے حالات کی اجنبيت کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔ اس ميں لباس، شادی کی تقريبات اور نوابی خاندان کے اراکين سے ملاقات کے ليے ہفتوں بلکہ مہينوں کا انتظار بھی شامل ہے۔ تاريخ دان ويمہوف کہتے ہیں کہ اس معاشرے ميں د رجات اور مراتب کا تعجب خيز حد تک سخت نظام تھا۔
ويمہوف کے مطابق زار پيٹر اعظم کے دور تک روسی جرمن روابط بہت کم تھے ليکن پيٹر نے بہت سی روايات توڑ ديں۔ ان ميں سے داڑھی مونڈنا سب سے زيادہ قابل ذکر ہے۔ زار نے حکم جاری کيا کہ داڑھی نہ منڈانے والوں کو داڑھی رکھنے پر ٹيکس ادا کرنا پڑے گا۔
روسی صدر پوٹن، جرمن چانسلر ميرکل
روسی صدر پوٹن، جرمن چانسلر ميرکل
زار نے سينٹ پيٹرز برگ کو نيا دارالحکومت بنايا جو جرمن نام ہے۔ زار نے مغرب کا دورہ بھی کيا اور جرمنی اور ہالينڈ ميں بہت کچھ ديکھا۔ آج کی زبان ميں ہم اسے ’علم اور ٹيکنالوجی کی منتقلی‘ کہہ سکتے ہيں۔
ويمہوف کے بقول سينٹ پيٹرز برگ ميں سائنسی علوم کی مشہور اکيڈمی کا قيام زار اور جرمن ماہر علوم لائبنِس کی ملاقات کا براہ راست نتيجہ تھا۔ نوجوان زار نے روس کا رابطہ يورپ سے قائم کرنے پر بہت سرگرمی سے توجہ دی۔ اسے اس سلسلے ميں مصلحت کی شاديوں کا خاص شعور حاصل تھا۔ جلد ہی مغرب، خاص طور پر جرمنی سے رشتے کیےجانے لگے۔ يہ سلسلہ روس کے آخری زار کی ملکہ الیکسانڈرا تک جاری رہا جو جرمن اور ہيسے دارمشٹٹ کی شہزادی تھی۔ وہ 1917ء ميں معزول کيے جانے والے آخری زار نکولس دوم کی ملکہ تھی۔
سن 1917ء کے بعد بہت سے روسی انقلاب کی شورش سے فرار ہو کر برلن پہنچے۔ ليکن جرمن آرٹسٹ روس ميں آنے والی تبديليوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے انقلابی فکر کو تعميرات اور مصوری ميں جگہ دی۔ روسی اور جرمن سوشلسٹوں کا خيال تھا کہ جرمنی بھی گہری تبديليوں کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ ايسا نہيں ہوا۔ ليکن ويمہوف کہتے ہیں کہ دونوں ممالک ميں کچھ مماثلت رہی۔ چند سال کے اندر دونوں پہلی عالمی جنگ کی سمت بڑھے اور دونوں ميں آمريتيں قائم ہوئيں۔ پہلی عالمی جنگ نے سب کچھ تباہ کر ڈالا۔ 1914ء سے 1918ء تک جاری رہنے والی اس جنگ ميں جرمنی اور روس دونوں کو شکست ہوئی تھی۔
دوسری عالمی جنگ ميں 25 سے لے کر 27 ملين روسی جرمنوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ليکن عام طور پر روسی جرمنوں سے عداوت نہيں رکھتے۔
موجودہ روسی جرمن تعلقات ميں سياسی لحاظ سے سرد مہری پائی جاتی ہے۔
B. Görtz, sas / mm

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...