جمعرات، 14 نومبر، 2013

لوگوں کو سوچنے دو : برٹرینڈ رسل

میں تو یہاں تک سوچا کرتا ہوں کہ بعض ہی اہم نیکیاں مذہب کے علمبرداروں میں نہیں ملتیں۔ وہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مذہب کے باغی ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو نیکیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیںاور وہ راست بازی اور ذہنی دیانت ہیں۔ ذہنی دیانت سے میری مراد پیچیدہ مسائل کو ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر حل کرنے کی عادت ہے۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ جب تک کافی ثبوت

اور شہادتیں دستیاب نہ ہوں، تب تک ان مسائل کو غیر حل شدہ ہی رہنے دیا جائے ۔ ------- تحقیق کی حوصلہ شکنی ان میں سب سے پہلی خرابی ہے۔ لیکن دوسری خرابیاں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ قدامت پسندوں کو قوت و اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ تاریخی دستاویزات میں اگر کوئی بات عقیدوں کے بارے میں شبہات پیدا کرنے والی ہو تو ان کی تکذیب شروع ک

ردی جاتی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر منحرف عقیدے رکھنے والوں کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ پھانسیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور نظر بندی

 کے کیمپ بنا دیے جاتے ہیں۔ میں اس شخص کی قدر کرسکتا ہوں جو یہ کہے کہ مذہب سچا ہے لہٰذا ہم کو اس پر ایمان رکھنا چاہئے (اور سچائی ثابت کرے) لیکن ان لوگوں کے لیے میرے دل میں گہری نفرت کے سوا کچھ نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب کی سچائی کا مسئلہ اٹھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور یہ کہ ہم کو مذہب اس لئے قبول کرلینا چاہئے کہ وہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر سچائی کی توہین کرتا ہے ، اس کی اہمیت کو ختم کردیتا ہے اور جھوٹ کی بالادستی قائم کردیتا ہے۔   ------ جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرن

ے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔ ( اردو ترجمہ قاضی جاوید، ص 81-86 

”کیا برطانیہ میں برقع پر پابندی کا قانون بننا چاہئے؟“


 
لندن (رپورٹ: آصف ڈار، مرتضیٰ علی شاہ) برٹش پاکستانیوں کی اکثریت نے جنگ فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس بات سے مکمل طور پر اتفاق کیا ہے کہ مسلمان خواتین کو عدالتوں، ہسپتالوں اور سکولوں میں برقع اتار کر اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ تاہم فورم کے شرکاءمیں اس بات پر کھلا اختلاف پایا گیا کہ آیا برطانیہ میں برقع پر پابندی عائد کر دینی چاہئے یا نہیں۔ افتخار قیصر کی زیر ادارت ہونے والے جنگ فورم کا موضوع تھا ”کیا برطانیہ میں برقع پر پابندی کا قانون بننا چاہئے؟“ اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے مقررین نے مختلف آراءکا اظہار کیا۔ بعض کا کہنا تھا کہ برطانیہ چونکہ ایک سیکولر ملک ہے اس لئے اس میں انتہا پسندانہ نظریات کی گنجائش نہیں ہے۔ برقع اس معاشرے کی بنیادی اقدار کے مطابق نہیں ہے۔ اس لئے اس پر نہ صرف پابندی لگنی چاہئے بلکہ اسے پہننے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں پر جرمانے عائد کئے جانے چاہئیں۔ بعض مقررین نے برقع کو غلامی کی علامت قراردیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے دنیا کی نصف آبادی کو ناکارہ بنا کر گھروں میں بٹھا دیاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنے ممالک کی ترقی کےلئے زیادہ کردار ادا نہیں کر رہیں۔ جبکہ برقع کے حامیوں کا کہنا تھا کہ مسلمان خواتین کےلئے برقع کی پابندی لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ عورتیں اپنے چہرے نامحرموں کو نہ دکھائیں اور ان سے پردہ کریں۔ اور مسلمان خواتین پر اس کی پابندی لازمی ہے۔ ان کے مطابق عورتیں برقع پہن کر دنیا کے سارے کام کر رہی ہیں اور انہیں اس سلسلے میں کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ جبکہ بعض مقررین نے برقع پہنے جانے کی مخالفت تو کی مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ برطانیہ میں برقع پر پابندی لگانا اس ملک کی جانب سے دی گئی آزادیوں کے خلاف ہوگا۔ چونکہ برطانیہ نے یہ آزادیاں طویل عرصے کے جدوجہد کے بعد حاصل کی ہیں۔ اس لئے اس ملک کے عوام کو ان کی قدر بھی ہے۔ برقع پہننے کو کسی بھی فرد کا ذاتی مسئلہ تصور نہیں کیا جانا چاہئے اور اس کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہونی چاہئے۔ جبکہ اس کے علاوہ مقررین نے اس بات پر مکمل طور پر اتفاق کیا کہ خواتین کو عدالتوں میں گواہی دیتے وقت، ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اور سکولوں میں بچوںکو پڑھانے کے دوران برقع اتار دینا چاہئے تاکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کے چہروں کے تاثرات کو بھی دیکھ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو خواتین ڈاکٹروں کے سامنے علاج کے دوران یا پھر عدالتوں میں پیشی کے وقت برقع اتار کر چہرہ نہیں دکھاتیں وہ غلط کرتی ہیں۔ کیونکہ اسلام نے ایسی صورت میں عورتوں پر برقع کی پابندی عائد نہیں کی۔ علاوہ ازیں فورم کے شرکاءکا اس بات پر بھی اختلاف تھا کہ حج کے دوران عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض کا کہنا تھا کہ حج کے دوران عورتیں غیر محرموں سے اپنا چہرہ چھپا سکتی ہیں جبکہ بعض نے کہا کہ عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حج کے دوران برقع نہ پہنیں۔ بعض مقررین کا کہنا تھا کہ اگر برقع پر پابندی لگائی گئی تو خواتین کی بڑی تعداد گھروں میں بیٹھ جائے گی اور وہ خود کو برطانوی معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر سکے گی۔ فورم میں شریک برقع پوش خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں برطانیہ میں برقع کے حوالے سے کبھی کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ وہ کام بھی کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو سکولوں میں چھوڑنے بھی جاتی ہیں۔ جبکہ برقع کے مخالفین کاکہنا تھا کہ برقع پہننے والی عورتیں اس وقت اپنے ہی گھروں میں اجنبی بن جاتی ہیں جب کوئی غیر محرم گھر میں داخل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برقع غلامی کی علامت ہے۔ جاگیرداروں اور وڈیروں نے اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لئے عورتوں پر پابندی لگا رکھی تھیں۔ بعض افراد کا کہنا تھا کہ برقع پہننا عورتوں کی ذاتی پسند و ناپسند ہونی چاہئے۔ تاہم پابندی کا قانون بنانا غلط ہوگا۔ مقررین کی رائے تھی کہ اس سلسلے میں کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔ اظہار خیال کرنے والوں میں علامہ نثار بیگ قادری، اکرم قائم خانی، محمد اقبال، علامہ فضل احمد قادری، علامہ احمد نثار بیگ قادری، تنویر زمان خان،شاید علی سید، قاضی محمد عبداللطیف، علامہ محمد اسمعیل، امین مرزا، شاذ محمود، نسرین سید، سحر حسن، نمروز خان،راشد حسن، حنا ملک، عدنان خان، ساحر محمود، امتیاز خان، داﺅد مشہدی، اصغر احمد، اشفاق احمد، گلفام حسین، ثمینہ قاضی اور شیخ محمد جمیل شامل تھے۔

بدھ، 13 نومبر، 2013

حکمرانوں کی کنفیوژن ...ایازا میر

https://www.facebook.com/groups/azadiefikir/

 
ژولیدہ فکری کا شکار وطن ِ عزیز بہت سی بے سروپا توجیہات کا سہارا لے کر انتہا پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے سے گریزاں ہے اور اُس وقت تک گریزاں رہے گا جب تک ناگزیر حالات اور سر سے گرزتا ہوا پانی ہمارے حکمرانوں کو ’’بجنگ آمد ‘‘پر مجبور نہ کردے۔ کراچی آپریشن کا حکم دینا آسان کام ہے کیونکہ اس کی اُنہیں کوئی قیمت ادا نہیں کرنا پڑتی ہے لیکن تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طالبان، جن کے بارے میں بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ وہ اسلام کی سربلندی کی جنگ لڑ رہے ہیں، کے خلاف بھرپور آپریشن کا حکم دینا ذہنی اور نفسیاتی طور پر بہت ہی جوکھم کا کام ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ طالبان کے موقف کی تائید کرتے ہیں یا اُن کے قریبی ساتھی ہیں لیکن جس طرح کی سخت مذہبی تعلیم اُنھوں نے حاصل کی ہے اور جس طرح عقیدے کی چھتری اُن پر سایہ فگن ہے، وہ خود کو دشوار راستے میں پاتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ (چالیس ہزار جانیں گنوانے کے باوجود) ہنوز یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ طالبان شہید ہیں یا نہیں یا زیادہ قصور وار کون ہے...طالبان یا امریکہ؟کس کے مقاصد درست ہیں؟یہ سوالات فکرو عمل کے میدان میں پائی جانے والی سراسیمگی کی غمازی کرتے ہیں اور کوئی بھی قوم، جسے اپنے مستقبل کا دوٹوک فیصلہ کرنا ہو، وہ ان سے اجتناب کرتی ہے لیکن ایک دائیں بازو کی جماعت جس پر ایک خاص عقیدے کی تعلیمات کی چھاپ لگی ہوئی ہے، کیلئے یہ معاملات غیر اہم نہیں ہیں۔
ایک اور معاملہ بھی تاویلات میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ردعمل کے طور پر طالبان پنجاب کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے مارچ 2010ء میں طالبان سے کی گئی اپیل نظر انداز نہ کی جائے کہ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور طالبان کے پرویز مشرف اور غیرملکی پالیسی کے تحت لڑی جانے والی دہشت گردی کی جنگ کے بارے میں نظریات ایک جیسے ہیں تو پھر...’’طالبان کو پنجاب میں دہشت گردی کی کارروائیاں نہیں کرنی چاہیں‘‘۔ اسی طرح ڈرون حملوں پر شہباز شریف کا موقف عمران خان کی مکمل تائید کرتا ہے کہ تمام تر دہشت گردی کی وجہ ڈرون حملے ہیں۔
پاکستان بہت سی فالٹ لائنیں رکھتا ہے لیکن سب سے زیادہ واضح اور مہلک اہل پنجاب کی یہ سوچ ہے کہ اگر لاہور کی مال روڈ پر پھول کھلے ہوئے یا موٹر وے پر اسلام آباد کے لئے ٹریفک رواں دواں ہے تو پھر راوی چین ہی چین لکھتا ہے چنانچہ پنجابی دانش کو خدشہ یہ ہے کہ اگر طالبان نے پنجاب کا رخ کر لیا تو وہ پی ایم ایل (ن) کی انتظامی صلاحیتیں اُسی طرح بے نقاب ہو جائیں گی جس طرح گزشتہ چند سالوں کے دوران خیبرپختونخوا میں اے این پی کی ہوئی تھیں اور اُنہیں بھی اسی طرح عوامی غیض وغضب کا نشانہ بننا پڑے گا۔
ایک اور خطرہ بھی ہے کہ اگر انہونی ہو کررہے اور طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کی نوبت آجائے تو پھر لامحالہ طور پر تمام معاملات کو فوج اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔ ایک وقت تھا جب پی پی پی کے ذہن پر ضیاالحق کے ہاتھوں پہنچنے والے صدمہ محو نہیں ہو پایا تھا، بالکل اسی طرح پی ایم ایل (ن) بھی کارگل اور بارہ اکتوبر کے خدشات کی اسیر ہو چکی ہے۔ جب بھی دفاعی ادارے فعال دکھائی دیتے ہیں تو پرانے آسیب ماضی کے جھروکوں سے نکل کر ڈرانے لگتے ہیں۔ طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے درکار صلاحیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ آج کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ سب سے بڑی سیاسی جماعت ایک خاندان کی جماعت بن چکی ہے۔ اس کے مرکزی فیصلوں میں قریبی عزیز شریک ہوتے ہیں۔ بیرونی دنیا سے زیادہ سے زیادہ ایک یا دو فرد،جیسا کہ چوہدری نثار، شرف ِ باریابی رکھتے ہیں۔ ان کے برعکس طالبان کے ہاں مجلس ِ شوریٰ ہے، فوج کے فیصلے بھی کور کمانڈروں کی میٹنگ میں ہوتے ہیں لیکن پی ایم ایل (ن) کے مشاروتی اجلاس کو دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ خاندان کے بڑوں کی میٹنگ ہے اور اس میں کچھ ’’چھوٹے‘‘ بھی موجود ہیں۔ اس عالم میں کیسی مشاورت، کیسے فیصلے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن)کی فطری سوچ حالات کا تجزیہ کرنے اور سخت فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہے۔
معمول کے حالات میں یہ غفلت شعاری چل سکتی تھی کیونکہ خدا جانتا ہے کہ پاکستان میں اوسط درجے سے بھی کم قابلیت کے افراد طویل مدت تک حکومت کر چکے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ معمول کے حالات نہیں ہیں۔ اس وقت ملک کے مستقبل سمیت ہمارا بہت کچھ دائو پر لگ چکا ہے اور ہمارے سامنے امکانات بہت آسان نہیں ہیں چنانچہ ان حالات میں ہم ناقص قیادت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب وقت کی طنابیں ہمارے ہاتھ سے تیزی سے سرک رہی ہیں، ہم غیر اہم معاملات میں مزید الجھتے جارہے ہیں۔ درست سمت میں قدم اٹھانا تو کجا، ہم تو درست سمت میں سوچ بھی نہیں رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہے کہ ہم حیات و زیست کی کشمکش سے دوچار ہیں کیونکہ اس سے خوف و دہشت پھیلتی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ جب دشمن سر پر جنگ مسلط کر چکا ہے، ہم ’’شہید ہے، شہید نہیں ہے‘‘ کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔
فوج نے جماعت ِ اسلامی کے رہنما سید منور حسن کی طرف سے حکیم اﷲ محسود کو ’’شہید‘‘ قرار دیئے جانے پر سخت الفاظ میں اپنا موقف دیا ہے۔ فوج کے ترجمان کا کہنا ہے’’یہ بات جماعت ِ اسلامی ، جس کے بانی مولانا مودودی اپنی دینی خدمات کی وجہ سے محترم ہیں، کے امیر کی طرف سی کی گئی ہے‘‘۔ محترم..... کس کی نظر میں؟ کیا تمام پاکستان ان کو قابل ِ احترام مانتا ہے؟ کیا اس پر تمام طبقے متفق ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کمی ہے جن کا موقف یہ ہے کہ ملکی سیاست پر جماعت ِ اسلامی کا اثر مثبت نہیں ہے؟منورحسن کا بیان قابل ِ مذمت تو تھا ہی، فوج کے ترجمان کا بیان بھی واضح نہیں ہے۔جیسا کہ کسی چیز کی کمی ہو، مولانا فضل الرحمٰن پنجاب کے وزیراعلیٰ کو فون کرکے یاددلاتے ہیں کہ مقامی انتخابات کے لئے تیار کئے جانے والے درخواست فارم میں مذہب کا خانہ نہیں ہے۔ اس پر وزیراعلیٰ جلدی سے یقین دہانی کراتے ہیں کہ بہت جلد یہ ’’کمی ‘‘ پوری کردی جائے گی۔
آج کے پاکستان میں ہم عقائد کے بارے میں ہلکی سی کوتاہی کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں(یہی وجہ ہے کہ ہم انتہائی پاکیزہ معاشرہ رکھتے ہیں) اور ان گنت افراد ہمارے اردگرد موجود ہیں جو نہایت مختصر نوٹس پر فتویٰ جاری کر سکتے ہیں چنانچہ یہ ہے کہ وہ ملک جہاں ثانوی معاملات زندگی وموت کا مسئلہ بن چکے ہیں جبکہ جو خون آشام عفریت ہماری رگ ِ جاں کو نوچ رہا ہے، اس کے بارے میں ہم اتنی ہی کنفیوژن کا شکار ہیں جتنا شیکسپیئر کا کرار ہیملٹ تھا کہ....’’میں ایسا کروں یا نہ کروں‘‘۔ لوگ ہمیشہ پوچھتے ہیں کہ پس چہ باید کرد؟ اپنے مشہور مضمون میں لینن نے بھی یہ سوال اٹھایا ۔ اُس نے یہ سوال روس کے انقلابی طبقے کے سامنے رکھا اور پھر زمانے نے دیکھا کہ اس کی جماعت نے اس کاکیا جواب دیا تاہم ہمارے ہاں آج کوئی رہنما نہیں ہے جو قوم کے سامنے یہ معاملہ رکھے۔ مولانا فضل اﷲ اپنے موقف میں پتھر کی طرح واضح ہے لیکن ہم دھند کی طرح پریشانی کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کا بظاہر نرم رویہ دراصل اس کے آہنی مکّے پر ایک پردہ ہے.... کاش یہ بات سچ ہوتی۔ 

منگل، 12 نومبر، 2013

سوالات کی سازش؟ وسعت اللہ خان

سوالات کی سازش؟

وسعت اللہ خان
بی بی سی
پاکستان خود کو اسلام کا ایٹمی قلعہ کہتا ہے۔کیا دیگر مسلمان ممالک بھی اس دعویٰ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں؟
ہر پاکستانی حکومت کہتی آئی ہے کہ پاک چین دوستی ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے۔ کیا ایسی تشبیہہ کبھی کسی برادر مسلمان ملک کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے؟
کتنے مسلمان ممالک ہیں جہاں قانونی طور پر مقیم غیرملکی مسلمانوں کو پانچ نہ سہی دس برس بعد ہی مقامی شہریت مل جاتی ہو، یا کبھی غیرقانونی تارکینِ وطن کے قیام کو جائز بنانے کے لیے قانون سازی ہوئی ہو؟
حکومتی جبر سے تنگ، سماجی اچھوت، عقیدوں کے مجرم، پیٹ کے مارے روشن خیال یا بنیاد پرست۔ یہ سب سکون یا آزادی یا پناہ کی تلاش میں پہلا انتخاب کسی مشرک مغربی ملک کا ہی کیوں کرتے ہیں۔مراکش سے انڈونیشیا تک چھپن مسلمان ممالک ان کے ذہنی نقشے پر کیوں نہیں ابھرتے؟
نوے فیصد پاکستانی طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم کے لیے مہنگی مغربی درس گاہوں میں داخلے کی دعا ہی کیوں مانگتے ہیں، حالانکہ ترکی، مصر، خلیجی ریاستوں سے ملیشیا تک متعدد معیاری تعلیمی مراکز موجود ہیں؟
سب سے زیادہ پاکستانی شہری مسلمان ممالک کی جیلوں میں ہیں یا غیر مسلم دنیا کی جیلوں میں؟
2000 سے 2012 تک پاکستان کو جن دس ممالک نے سب سے زیادہ انسانی امداد دی ان میں مغربی ممالک ہی سرِ فہرست کیوں ہیں؟
پاکستان پچھلے کئی برس سے سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا تیسرا ملک ہی کیوں، حالانکہ پاکستان میں بھارت کے لیے کم اور امریکہ کے لیے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے؟ پھر بھی برادر امیر مسلمان ممالک کے ہوتے ہوئے امریکی پیسہ اور آئی ایم ایف کے مشروط قرضے قبول کرنے کے پیچھے کیا کہی ان کہی مجبوریاں، مصلحتیں اور فوائد ہیں؟
ان کہی مجبوریاں
پاکستان پچھلے کئی برس سے سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا تیسرا ملک ہی کیوں؟ حالانکہ پاکستان میں بھارت کے لیے کم اور امریکہ کے لیے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے ۔پھر بھی برادر امیر مسلمان ممالک کے ہوتے ہوئے امریکی پیسہ اور آئی ایم ایف کے مشروط قرضے قبول کرنے کے پیچھے کیا کہی ان کہی مجبوریاں، مصلحتیں اور فوائد ہیں ؟
(ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اگر چھ خلیجی ممالک عرب سپرنگ کے کونے موڑنے کے بجائے اپنا صرف پانچ فیصد پیسہ مغربی بینکوں کے اندر ہی ایک مشترکہ سرمایہ کاری فنڈ میں دس برس کے لیے رکھ دیں تو اس کے سالانہ منافع سے کم از کم بائیس مسلمان ملکوں کی اقتصادیات مغربی مالیاتی چنگل سے آزاد ہو سکتی ہیں۔ مگر خطرہ شاید یہ ہے کہ معاشی استحکام آنے کے بعد بھی ناشکرے لوگ جمہوری استحکام کی بات شروع کرنا نہ بھولیں)۔
جو تیس امیر ممالک پسماندہ دنیا کو سب سے زیادہ ترقیاتی مدد دیتے ہیں ان میں صرف چار مسلمان ممالک ( ترکی، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر ) ہی کیوں؟جبکہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے چھیاسٹھ امیر ممالک کی فہرست میں گیارہ مسلمان ممالک شامل ہیں۔
( فی کس آمدنی کے اعتبار سے قطر عالمی رینکنگ میں پہلے، برونائی پانچویں، متحدہ عرب امارات آٹھویں، کویت انیسویں، سعودی عرب اٹھائیسویں، اومان تینتیسویں، بحرین چونتیسویں، ملیشیا پچپنویں، ماریشس اکسٹھویں ، لبنان تریسٹھویں اور ترکی پینسٹھویں نمبر پر ہے)
جن بائیس ممالک نے گذشتہ بارہ برس میں پاکستان کو انسانی وسائل کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ امداد فراہم کی ہے ان میں اٹھارہ غیر مسلم اور چار مسلمان ممالک ہیں؟ یہ ترتیب الٹ کیوں نہیں سکتی ؟
پاکستان نے اہم مسلمان ممالک کے علاقائی اور بین الاقوامی ایجنڈے سے خود کو ہم آہنگ رکھنے اور اسے آگے بڑھانے کی اکثر رضاکارانہ کوشش کی ہے۔ آج تک کتنے مسلمان ممالک نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیحات پر ہمدردانہ غور کیا؟
ترجیحات پر ہمدردانہ غور
پاکستان نے اہم مسلمان ممالک کے علاقائی اور بین الاقوامی ایجنڈے سے خود کو ہم آہنگ رکھنے اور اسے آگے بڑھانے کی اکثر رضاکارانہ کوشش کی ہے۔آج تک کتنے مسلمان ممالک نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیحات پر ہمدردانہ غور کیا ؟
پاکستان خود کو اسلام کا ایٹمی قلعہ کہتا ہے۔ کیا دیگر مسلمان ممالک بھی اس دعوے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں؟
کیا پاکستان میں مغربی اور بھارتی فلمیں، ڈرامے، کارٹون، لٹریچر، ٹی وی چینلز، موسیقی، پکوان اور لباس مقبول ہیں یا پھر مسلمان ملکوں کے ڈرامے، فلمیں، کارٹون ، چینلز، لٹریچر، موسیقی، پکوان اور لباس؟ اور کتنے مسلمان ممالک میں پاکستانی ثقافت کا کوئی ایک پہلومقبولِ عام ہے؟ کتنے پاکستانی انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، ترک، بربر، ہاؤسا یا سواحلی بولنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کتنے عرب اور ایرانی انگریزی اور فرانسیسی کے ساتھ ساتھ اردو سیکھنے میں؟
دنیا میں سالانہ جتنا اسلحہ بیچا جاتا ہے اس میں سے آدھے سے زیادہ ایشیا بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک اٹھاتے ہیں۔ کیا یہ کھلونے مغرب، اسرائیل یا بھارت وغیرہ سے لڑنے کے لیے ہیں یا انا کی تسکین ، نمائش اور کرائے کی جنگوں میں استعمال کے لیے؟
انتہا پسندی کے فروغ کا عملی نقصان مسلمان دنیا کو زیادہ پہنچ رہا ہے یا غیر مسلموں کو؟ کیا اس راستے پر چلتے رہنے سے وہ قومی، علاقائی اور عالمی اسباب دور ہوسکتے ہیں جو اس انتہا پسندی کی بنیاد کہے جاتے ہیں؟
کیا مسلم سماج صرف ردِعمل کے قلبی محور پر ہی گھومےگا یا کبھی اپنے دماغ کو عمل کا تازہ کار سوچیلا خون بھی پہنچا پائے گا؟
ایسے سوالات کا اگر غیر جذباتی جواب نہ بھی ملے تو یوں کیجیے گا کہ انھیں بھی مسلمانوں کے خلاف ہزار برس سے جاری گھناؤنی سازش کا حصہ جان کے اغیار کی جانب ہوا کے رخ پر تین گالیاں اور داغ دیجےگا۔۔

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...