پیر، 10 مارچ، 2014


کیا ہم جانتے ہیں ہمارے برادر اسلامی ممالک میں کیا ہورہا ہے؟


 
دبئی (تجزیہ:شاہین صہبائی) کیا پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ ہماری معشیت، استحکام اور ترقی کیلئے لازمی تصور کیے جانے والے برادر اسلامی اور دوست ممالک کے درمیان کیا چل رہا ہے۔ شاید مکمل طور پر نہیں معلوم۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے داخلی معاملات میں سعودی عرب کا کردار کتنا اہم ہے اور ہم اب یہ بھی جانتے ہیں کہ قطر بھی ہمارے معاشی امور کے حوالے سے حاکمانہ کردار ادا کرے گا کیونکہ توانائی کے شعبہ میں وہ اربوں ڈالرز مالیت کی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن ان خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات اچانک خراب ہوگئے ہیں اور حکومت اس سلسلے میں حیران و پریشان ہے، کم از کم وہ حلقے ضرور افراتفری میں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب اور ایران کی دشمنی کی وجہ سے ہم پر ماضی میں منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن ہمارے دوست سمجھے جانے والے خلیجی ممالک کے درمیان دشمنی کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ دفتر خارجہ نے اب تک کوئی بیان نہیں دیا یا پھر ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا کہ پاکستان برادر اور دوست ممالک یا کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ لیکن اس کے باوجود سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد اور ان ممالک کے سفیروں کا اسلام آباد میں ایک اجلاس منعقد ہونا چاہئے تاکہ اس بات پر بحث ہوسکے کہ معاملات کس طرح آگے جا رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں جو معاملات خبروں میں زیادہ تر سامنے نہیں آئے یا پھر پاکستان میں انہیں میڈیا کی توجہ نہیں ملی ان میں تین عرب ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے سامنے آنے والا حیران کن اعلان ہے جس کے تحت انہوں نے قطر سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ قطر نے ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے سے متعلق خطے کے حوالے سے کیے گئے سیکورٹی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ ان خلیجی ریاستوں کے درمیان ایک بہت بڑی کشیدگی ہے۔ جن معاملات پر ان کے درمیان خلیج پائی جاتی ہے ان میں مصر اور شام شامل ہیں اور اس دو طرفہ لڑائی میں پاکستان بھی مصیبت میں آسکتا ہے۔ قطر کی جانب سے سیکورٹی معاہدے پر عملدرآمد میں ناکامی پر تینوں ملکوں نے ایک مشترکہ بیان میں اس اقدام کا اعلان کیا۔ ان تین ملکوں کی جانب سے کیے جانے والے اعلان کے صرف ایک دن بعد دوحہ میں حکام نے جوابی اقدام کے طور پر بیان جاری کیا جس کی عرب اخبارات اور ویب سائٹس پر گونج دیکھی گئی۔ قطری حکام نے اپنے جواب میں بیان جاری کیا کہ خلیجی ممالک کے تمام شہریوں ماسوائے قطر، کویت اور اومان کے شہری، کے لندن کے ڈپارٹمنٹل اسٹور ہیروڈز میں داخلے پر پابندی ہوگی۔ عرب شہریوں کے ہیروڈز میں داخلے پر پابندی سے شاید کوئی بڑا سیاسی اور اسٹریٹجک طوفان بپا نہ ہو لیکن یہ یقینی طور پر ایک ایسی بے عزتی ہے جو کوئی دولتمند عرب شیخ یا امیر معمولی نہیں سمجھے گا اور یقیناً اس سے تکبر اور مفادات کی جنگ میں برطانیہ کو بھی گھسیٹا جا سکتا ہے۔ خلیجی ریاستوں میں سے تین بڑے ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین، کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک نے 23؍ نومبر کو ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ ایسے کسی بھی ملک کی حمایت نہیں کی جائے گی جو جی سی سی کی سیکورٹی اور استحکام کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا ہو چاہے وہ کوئی گروپ ہو یا فرد، چاہے وہ براہِ راست سیکورٹی کے حوالے سے کام کرتا ہو یا پھر کسی سیاسی اثر کے تحت، مخالف میڈیا کی بھی حمایت نہیں کی جائے گی۔ ابوظبی اور ریاض کا کہنا تھا کہ قطر معاہدے پر عملدرآمد میں ناکام ہوگیا ہے جس کی وجہ سے سفارتی اقدام کیا گیا۔ العربیہ اخبار کے مبصر کا کہنا تھا کہ دوحہ مسلسل اخوان المسلمین (اخوان) کی حمایت کر رہا ہے۔ امیر تمیم کی جانب سے اقتدار کی منتقلی کے بعد سے باقی جی سی سی رکن ممالک کو ناراض کرتے ہوئے قطری حکومت مسلسل اخوان کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ اخوان المسلمون کے ادارے مسلسل دوحہ میں کام کر رہے ہیں جس میں کئی ایسوسی ایشنز اور تجارتی ادارے بھی شامل ہیں۔ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہوئے، قطر نے بھی ان مصری افراد کو خاموش کرانے سے انکار کردیا جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر حملے کرتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا خطبہ ایسا ہوتا ہے جس میں ریاض اور متحدہ عرب امارات کی مصر کے متعلق پالیسیوں کا ذکر ہوتا ہے جس میں غیر اسلامی ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ان تبصروں سے اماراتی حکام ناراض ہوگئے جنہوں نے قطر پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے علمائے کرام کو کنٹرول میں نہیں رکھ رہا۔ ڈاکٹر تھیوڈور کراسیک نے العربیہ میں لکھا کہ: یہ معاملہ کسی حد تک قطر کے ترکی کے ساتھ تعلقات سے جڑا ہے۔ جی جی سی ممالک سمجھتے ہیں کہ قطر واپس اسی راستے پر جا رہا ہے جس کے تحت وہ اپنی پالیسیاں خود اور یکطرفہ طور پر تشکیل دیتا تھا اور یہ پالیسیاں جی سی سی کے فریم ورک سے باہر ہوتی تھیں۔ قطر کے ترکی کے ساتھ تعلقات معاملات میں کشیدگی پیدا کر رہے ہیں۔ عرب حکام کا دعویٰ ہے کہ دوحہ اور انقرہ مل کر جی سی سی ممالک میں جاسوسوں کا ایک جال بچھا رہے ہیں تاکہ اخوان المسلمون کے خلاف کی جانے والی منصوبہ بندی اور مصر کے ساتھ جی سی سی کے مستقبل کے تعلقات کا پتہ لگایا جا سکے۔ یہ الزام اس بنیادی بات کو چھیڑتا ہے جس کے تحت جی سی سی کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا معاہدہ تھا ۔۔۔۔ اصل سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا۔ جہاں تک آج کا تعلق ہے، جی سی سی اتحاد قائم کرنے کی تمام تر تحریک اور ایک دوسرے کے پیچھے بادشاہتوں کی حمایت کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ اب جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے وہ واپس 1990؁ جیسی صورتحال ہے جب سعودی عرب اور قطر کی سرحد پر فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہتے تھے اور سڑکیں بلاک ہوتی رہتی تھیں ۔۔۔۔‘‘ جواب میں قطر کی کابینہ نے بیان جاری کیا جس میں اس اقدام پر ’’حیرانی اور افسوس‘‘ کا اظہار کیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ جوابی اقدام کے طور پر قطر اپنے سفیروں کو واپس نہیں بلائے گا اور وہ جی سی سی کی سلامتی اور استحکام کے عزم پر قائم ہے۔ قطری حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’یہ فیصلہ کچھ ایسے معاملات کے حوالے سے موقف میں اختلافات کی وجہ سے کیا گیا ہے جو جی سی سی عوام کے مفادات سے وابستہ نہیں ہیں۔‘‘ جرمن میڈیا ادارے ڈوئچے ویلی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’جی سی سی کی تیس برس کی تاریخ میں ایسے اقدام کی مثال نہیں ملتی اور یہ خلیجی عرب ممالک اور قطر کے درمیان اختلافات کی واضح نشانی ہے۔ قطر اخوان المسلمون کا مصر اور دنیا بھر میں کہیں بھی بھرپور حامی ہے۔‘‘ اپنی رپورٹ میں ڈوئچے ویلی نے کہا کہ دوحہ کے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں لیکن سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین تینوں ممالک تہران کو علاقائی مخالف سمجھتے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی گئی کہ جی سی سی سعودی عرب، بحرین، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات اور اومان پر مشتمل ایک مغرب نواز تنظیم ہے۔ قطر کی مشاورتی اسمبلی کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یقیناً، یہ ممالک اپنے سفیروں کو واپس بلا سکتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں 20؍ ہزار اسکوائر میٹر پر محیط سات منزلہ شاپنگ سینٹر، جس میں 330؍ ڈپارٹمنٹ ہیں، میں پرتعیش انداز سے خریداری سے لطف اندوز نہیں ہوسکیں گے تو کیا ہوگا۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں قطر اور جی سی سی ممالک کے درمیان نہلے پہ دہلا جیسے اقدامات سامنے آتے نظر آئیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے ایک تجزیہ نگار بیلا کاکپٹ کا کہنا ہے کہ قطر کی جانب سے کیا جانے والا اقدام انتہائی جارحانہ ہے اور اس سے یقینی طور پر جی سی سی ممالک کے شہری متاثر ہوں گے۔ پین عربیہ انکوائرر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں اس بات سے حیرانی نہیں ہوگی کہ قطر کے اقدام کے بعد جوابی طور پر قطری شہریوں پر مانچسٹر سٹی فٹ بال کلب کے میچز دیکھنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ حال ہی میں پاکستان کو اس وقت ہزیمت آمیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے دورے کے بعد اسلام آباد نے ریاض کے ساتھ جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں شام سے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد دفتر خارجہ اور دیگر حکام اپنے سر کھجاتے رہ گئے کہ کس طرح پالیسی کی اس دلدل سے باہر نکلا جائے جس میں انہوں نے خود کو گرا دیا ہے لیکن اگر خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوئے تو کیا پاکستان کوئی کردار ادا کرپائے گا اور کیا اسلام آباد کی بات کوئی سنے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کئی لوگ پوچھتے ہیں لیکن پاکستان کی اپنی مشکل داخلی صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاید کوئی اس کی پروا نہ کرے۔ ان لوگوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی پروا ہے وہ یہ ہے پاکستان کو اپنے علاقائی اور بین الاقوامی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔

اتوار، 9 مارچ، 2014

سرد جنگ کی قیمت: گلوبل وارمنگ اور بین الاقوامی غربت: زاہدہ حنا




امریکی صدر روز ویلٹ نے ‘‘مین ہیٹن پراجیکٹ’’ کی منظوری دی، یہی وہ پروجیکٹ تھا جس نےدنیا کے پہلے ایٹم بم کو جنم دیا۔ اسی کے تحت 16جولائی 1945کو وقت سحر دنیا کا پہلا کامیاب ایٹمی تجربہ ہوا جس کی بنیاد پر وہ ایٹم بم تیار ہوئے جو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے اور جن کے گرائے جانے سے اس دنیا میں جوہری اسلحے کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا۔ چار سال بعد 1949میں روس نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور اس کے ساتھ ہی دنیا کی ان دوبڑی طاقتوں میں نیو کلیائی اسلحے کی دوڑ کا بھیانک آغاز ہوگیا۔ یکم نومبر 1952کو امریکہ نے ہائیڈروجن بم کا دھماکہ کر کے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ اگلے برس 1953میں 77ایٹمی دھماکے کیے جب کہ اسی برس روس نے 18اور برطانیہ نے 7ایٹمی دھماکے کیے ۔ 1962میں امریکہ کے 94اور روس کے 72دھماکوں سمیت مجموعی طور پر 171ایٹمی دھماکے ہوئے 1964میں چین بھی نیو کلیئر کلب میں شامل ہوگیا۔ 1994تک نیو کلیائی کلب کے پانچ ممبران مجموعی طور پر 2036ایٹمی دھماکے کرچکے تھے۔ ان میں 1030امریکہ، 715روس، 192فرانس، اور 14چین نے کیے۔ چونکہ 1965میں سطح زمین پر ایٹمی تجربات کرنے پر پابندی لگادی گئی تھی ،لہٰذا اب تمام ایٹمی تجربات زیر زمین ہورہے تھے۔
روس اور امریکہ کی یہ دوڑ صرف ایٹم بموں تک محدود نہ رہی۔ 1950کی دہائی میں ہائیڈروجن بموں کی دوڑ شروع ہوگئی جس کے بعد بین البراعظمی میزائلوں کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ 1960میں امریکہ کے پاس 630ایٹمی ہتھیار تھے جبکہ روس کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 600ہوگئی جب کہ امریکہ کی تعداد بڑھ کر 5000ہوچکی تھی۔ 1985میں امریکہ کے پاس 111000اور روس کے پاس 8500نیو کلیائی ہتھیار تھے۔ 1990میں دنیا کی کل ایٹمی ہتھیار وں کی تعداد 50,000تھی۔

6؍جولائی 1944کا لکھا ہوا سرونسٹن چرچل کا ایک خفیہ خط یاد آتا ہے جو اس نے برطانوی محکمہ دفاع کے نام لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ....
‘‘ہوسکتا ہے کہ ابھی ا س بات میں چند ہفتے یا چند مہینے باقی ہو ں جب میں آپ لوگوں کو حکم دوں کہ جرمنی کے ہر گوشے اور ہر کونے میں زہریلی گیس پھیلا دی جائے اور یہ سمجھ لیں کہ جب یہ کر گزرنے کا وقت آئے گا تو ہمیں سوفیصد ی اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اس حکم کو دینے سے پہلے میری خواہش ہے کہ اس معاملے پر کچھ سمجھدار افراد غیر جذباتی او رمتشدد انہ انداز میں غور وفکر کریں۔ اس بارے میں شکست خوردہ ذہنیت رکھنےوالے ان لوگوں کی رائے لینے کی کوئی ضرورت نہیں جو ان دنوں دعائیں او رمناجاتیں گاتے ہوئے ہمیں کبھی اس کو نے میں اور کبھی اس نکڑ پر نظر آتے ہیں’’۔
سرونسٹن چرچل جیسے سیاستدانوں اور جرنیلوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں ۔ آج کل جبکہ روزانہ اخبارات ،رسائل او رٹیلی ویژن کے ذریعہ ہمیں فوجوں کی تعداد ہتھیار وں کے نام ،طیاروں کی اقسام اور بموں کی ہلاکت خیزی کا دائرہ اثر بتایا جاتا ہے تو بے اختیار پہلی دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد یادآتی ہے۔ فرانس ، جرمنی، برطانیہ ،اٹلی، سوویت یونین او رامریکہ کے ہلاک شدگان کی کل تعداد پہلی جنگ عظیم میں چوراسی لاکھ اٹھارہ ہزار تھی ،جبکہ دوسری جنگ عظیم میں ان ملکوں کے ہلاک شدگان میں جاپانی ہلاک شدگان کا بھی اضافہ ہوا تھا اور یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ انہتر لاکھ تینتیس ہزار تک جاپہنچی تھی ۔ دونوں ہی مرتبہ ہلاک شدگان کے اعداد شمار ہونے سے بہت پہلے اپنی اپنی فوجیوں کی شان وشوکت اور ان کی عدوی قوت کا اعلان کیا گیا تھا۔ ٹینکوں کی تعداد بتائی گئی تھی، بمباری طیاروں کے اعداد وشمار جاری ہوئے تھے اور ہر دوفریق نے خود کو ‘‘ناقابل تسخیر ’’ قرار دیا تھا۔ کاش جنگو ں کے شائقین ایک جنگ کے آغاز سے پہلے، سابقہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے بھی دنیا کو آگاہ کردیا کریں۔
جائزہ لیا جائے تو دنیا پر حکومت کرنے والے سیاستدانوں ،فوجی جرنیلوں ، افسر شاہی کے افراد او راسلحے کے بڑے بڑے صنعتکار وں کی کل تعداد بہ مشکل تمام چند ہزار افراد دنیا کی ہر قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، ہر زبان بولتے ہیں ، ہر عقیدے او رہر نسل اور رنگ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی ہیں جو دنیا پر اور انسانیت پر جنگیں مسلط کرتے ہیں اور جن کی ہوس اقتدار او رہوس زر کسی طرح کم نہیں ہوتی ۔ دوسری طرف دنیا بھر کے عوام ہیں،
برٹرینڈ رسل ، آندرے سخاروف وہ لوگ تھے جنہوں نے ‘‘غداری’’ اور ‘‘وطن پرستی’’ کے الزام سنے۔ انہیں ماؤف بوڑھوں کے نام سے پکارا گیا۔ ان کے ہم وطنوں نے ان پر گندے انڈے اور ٹماٹر برسائے ۔ برٹرینڈر رسل کو لندن کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور اس خوش خیال فلسفی کے ساتھ کسی مجرم اور آوارہ گرد کا ساسلوک کیا گیا۔ آندرے سخاروف نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ان لوگوں نے ہمیت نہیں ہاری ،اپنی آواز مدھم نہیں ہونے دی۔ یہ لوگ تنہا اس عذاب ناک سفر کو طے کرتے رہے جو یہ آنے والی نسلوں کی زندگی ،ان کی خوشحالی اور ان کی خوش خیالی کے لیے کررہے تھے۔ انہوں نے یہ دکھ ان کے لیے اٹھائے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
جب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ درجن بھر کنیڈین نوجوانوں نے کروز میزائل تیار کرنے والی فیکٹریوں کی دیوار وں پر اپنا خون چھڑکا اور اس ‘‘جرم کی پاداش’’ میں گرفتار ہوئے تو یہ بارہ نوجوان ذہن کے افق پر امید کے بارہ سورج بن کر طلوع ہوتے ہیں اور ڈوبتا ہوا دل تھم سا جاتا ہے کہ ہوش دنیا سے ابھی مکمل طور پر رخصت نہیں ہوا اور باضمیر ابھی زندہ ہیں۔ میں نے ان نوجوانوں کے بارے میں 1994میں پڑھا تھا۔
دنیا میں یہ دو انتہا ئیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔پیرس اور واشنگٹن کی سڑکوں پر امن مظاہرے کرنے والے بھی عوام ہیں جنگ سیاور وہ بھی نیوکلیائی او رکیمیاوی جنگ سے مغرب کتنا لرزاں ہے ، اس کا اندازہ ان کے ادب سے ہوتا ہے ۔ ان کے یہاں ایسے متعدد افراد ہیں جنہوں نے جنگ کے خوف سے یا جنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے زندگی جیسی خوبصورت چیز دی ہے۔
‘‘ میں آپ کو ایک چیک بھیج رہی ہوں، یہ چیک میری جانب سے نہیں، میرے اس بیٹے کی جانب سے ہے جس نے کچھ دنوں پہلے خود کشی کرلی۔ یہ رقم خطیر نہیں، انجان اور اجنبی لوگ میرے بیٹے کی یاد میں مجھے جو رقم بھیجتے ہیں انہیں اکٹھا کرکے میں آپ کو بھیج رہی ہوں۔ آئندہ جب بھی مجھے ایسے عطیے مو صول ہوئے وہ میں آپ کو ہی بھیج دوں گی۔ آپ کو میں اپنے بیٹے کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔ وہ 23برس کا تھا اور ہوش سنبھالنے کے بعد سے نیو کلیائی لڑائی کا خوف اس کے اعصاب پر ہمہ وقت چھایا رہا۔ وہ شاعر اور موسیقار تھا۔ اس کی بیشتر نظمیں اور دھنیں جنگیں جنون میں مبتلا لوگوں کے خلاف تھیں۔ یہ لو گ ہمارے چاروں طرف نظر آتے ہیں ۔ اس نے اپنے کمرے کی چھت سے لٹک کر خودکشی کرلی تھی۔ اسے جب نیچے اتارا گیا تو اس کی جیب سے اخبار کا ایک تراشہ نکلا جس میں نیوکلیائی جنگ کی تباہ کاریوں کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں ۔ اس خوف نے میرے بیٹے کے اعصابی نظام کو شل کردیا تھا پھر وہ اس خوف میں اتنا ڈوبا کہ اس نے خود ہی اپنی جان لے لی۔ خوف اس کی برداشت سے باہر ہوچکا تھا۔’’

اس غمزدہ ماں نے خط کے آخر میں لکھا تھا۔۔۔

‘‘میں یہ سب کچھ آپ لوگوں کو اس لیے لکھ رہی ہوں تاکہ آپ کے توسط سے بے شمار افراد یہ جان لیں کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو کس قدر شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کررکھا ہے اور ہم انہیں کس طرح مرنے پرمجبور کررہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں کہ وہ جو ابھی زندہ ہیں اور جنہوں نے اپنے آپ کو ختم نہیں کیا ہے، وہ ایک بہتر پرُ امید اور پُر امن وپرُ سکون دنیا میں زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں ۔ کیا ہم انہیں اسی لیے وجود میں لائے تھے وہ ایک پاگل ،جنگ زدہ اور زہر ناک دنیا میں سانس لیں اور تڑپ تڑپ کر مرجائیں ؟’’
1989میں دو فرانسیسی سائنسدانوں ہیوبرٹ ریوز اور البرٹ جیکو ارڈ کی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان کتابوں میں دونوں نے نیوکلیائی جنگ کے نتیجے میں انسان کے مکمل خاتمے اور دنیا کی بربادی کی تفصیلات بیان کی تھیں۔
جیکو ارڈ کا کہنا تھا کہ کسی بھی نیوکلیائی جنگ کے نتیجے میں انسان واقعتاً بھاپ بن کر اڑ جائیں گے ،کونوں کھدروں میں بچ رہنے والے جو انسان چند دن یاشاید چند ہفتے زندہ رہ سکیں ان کی نصیبوں پر رشک کریں گے جو پہلے ہی لمحے ختم ہو گئے ۔ جیکوارڈ کے پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق 80کی دہائی کے اختتام پر دنیا میں جو نیو کلیائی اسلحہ تھا، اگر اس کا صرف ایک فیصد بھی کسی جنگ میں استعمال ہوگیا تو زمین پر اس نیو کلیائی سردی کا آغاز ہوجائے گا جس کا خاتمہ شاید ہزاروں برس بعد ہی ممکن ہوسکے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا ایک بار پھر ‘‘برفانی دور’’ سے دوچار ہوجائے گی۔


فرانسیسی سائنسدان سوزان سولو من ہے جو انٹا رکٹک کے فرانسیسی اسٹیشن پر ایک عرصے تک متعین رہی اور سترہ سائنس دانوں کی ٹیم کی سربراہ تھی۔ وہاں ایک مہینے تک برف پر مختلف تجربات کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ زمین کی فضا کے حفاظتی غلاف اوزون میں امریکہ کے رقبے کے برابر جو سوراخ ہوچکا ہے ،اسے ماحول کی آلودگی کے علاوہ نیو کلیائی تجربات بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچار ہی ہیں۔ یاد رہے کہ چند برس پہلے امریکیوں نے فرانس کے کانگو رڈ طیاروں کو بھی اوزون کے غلاف کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

امریکی محقق کا رل ساگان او رروسی سائنسدان نگیتا موسیٰ یو اس بات پر متفق رہے ہیں کہ دنیا میں اگر نیو کلیائی جنگ چھڑگئی تو اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ ہے کہ کروڑوں ٹن دہکتی ہوئی راکھ دنیا پر برسے گی جس کی وجہ سے دنیا مکمل تاریکی میں ڈوب جائے گی اور ‘‘ نیوکلیائی رات’’ کا آغاز ہوگا بلکہ اوزون کا غلاف بھی پارہ پارہ ہوجائے گا۔ یہ غلاف ہے جو کرۂ ارض پر انسان کو سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں نے محفوظ رکھتا ہے۔

فرانسیسی سائنس دان ریوز نے لکھا کہ دنیا پر نیو کلیائی راکھ کی گرد کی جو چادر تنے گی ، سورج کی گرمی اورروشنی اس ربیز چادر سے گزر نہیں سکے گی جس کے نتیجے میں دنیا کا درجہ حرارت نقطہ امجماد سے بیس اور تیس
درجے نیچے گرجائے گا۔ تب دنیا میں اس نیو کلیائی سردی کا آغاز ہوگا جس کی تباہ کاریوں کا انسان ابھی اندازہ بھی نہیں کرسکتا ۔ موسموں کی اس اچانک تبدیلی کے سبب سمندر وں او رہواؤں میں بھیانک تلاطم ہوگا جو خوفناک طوفانوں کو جنم دے گا۔ بے پناہ سردی اور سورج کی روشنی زمین پر نہ پہنچ سکیں گے سبب روئیدگی ختم ہوجائے گی۔

جیکو ارڈ بتانا ہے کہ سال چھ مہینے بعد نیو کلیائی راکھ کی برسات جب ختم ہوگی اور نیو کلیائی رات سے دنیا کو نجات دینے کے لئے سورج کی روشنی زمین پر پہنچے گی تو اوزون کا غلاف تباہ ہوجانے کے سبب سورج کی وہی روشنی جو دنیا کے لیے سرچشمہ حیات تھی اس کے بالائے بنفشی شعائیں دنیا میں تباہی مچادیں گی۔


روس : موسم بہتر کرنے والی لیبارٹری



روس کے وفاقی نگران ادارہ برائے موسمیات نے ایک نئی لیبارٹری کی آزمائش شروع کر دی ہے۔ یہ لیبارٹری ایک طیارے میں واقع ہے، لیبارٹری میں مختلف موسمیاتی آلات نصب ہیں جن کے ذریعے موسم کی پیشن گوئی کی جا سکتی ہے، معلومات ترسیل کی جا سکتی ہیں اور بادلوں کو اڑایا جا سکتا ہے تاکہ کسی اہم واقعہ کے دن موسم اچھا ہو۔
یاد رہے کہ وفاقی نگران ادارہ برائے موسمیات ایک سرکاری ادارہ ہے جو روس بھر میں موسمیاتی تحقیقات کی رہنمائی کرتا ہے۔ اندازہ ہے کہ محو پرواز لیبارٹری کے استعمال سے اس ادارے کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ ادارے کے ذرائع کے مطابق یہ گزشتہ بیس سالوں میں بنائی گئی اس طرح کی بہترین لیبارٹری ہے جو روسی ساخت کے مسافر طیارے "یاک 42 ڈی" میں نصب ہے۔ لیبارٹری بنانے والوں کا کہنا ہے کہ اس لیبارٹری میں سات کمپیوٹر پروگرام نصب ہیں جن کے ذریعے موسمی حالات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، گرج و چمک کے ساتھ بارش کی آمد کی پیشن گوئی کی جا سکتی ہے حتی کہ تابکاری کی سطح معلوم کی جا سکتی ہے۔ منصوعی سیارچے کے ذریعے یہ معلومات کسی بھی مقام تک منتقل کی جا سکتی ہیں تاکہ متعلقہ ادارے ضروری اقدامات کر سکیں۔
علاوہ ازیں طیارے میں قائم لیبارٹری میں ہائیڈروجن جنریٹر بھی نصب ہے جس کے ذریعے بادلوں پر کیمیائی مادے چھڑک کر بارش روکی جا سکتی ہے، اس جنریٹر کے ذریعے کیمیائی مادہ کو دس سو چوبیس بار چھرکا جا سکتا ہے۔



نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر بھرتی کرنے کی کوشش کرنے والے انتہاپسند گروہوں کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کی تعلیمات کو مسخ کرنے کو جاری رکھنے کے ساتھ، مذہبی علما اسلام کے حقیقی پیغام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خودکش دھماکوں جیسے کام اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہیں اور انہیں سر انجام دینے والوں کو جنت کی بجائے سزا ملے گی۔
ڈھاکہ میں دارالاسلام یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز اور دعوی کے چیرمین عبدل منیم خان نے خبر ساوتھ ایشیا کو بتایا کہ "اسلام کسی بھی قسم کے حالات کے تحت خودکشی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ہمارے مذہب میں حرام ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "مگر بدقسمتی سے، کچھ گمراہ اسلامیت پسند اپنے ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے خودکش بمباروں کو استعمال کرتے ہیں"۔
ایسے گروپ عام طور پر خودکش دھماکوں کو بلند مرتبہ شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس سے آخر کی زندگی میں انعام ملے گا۔ مگر مذہبی علما کا اصرار ہے کہ مقدس آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔
قرآن (سورة النسا، آیت انتیس) میں کہا گیا ہے کہ "اپنی جان نہ لو"۔ قاضی نورالاسلام جو کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں عالمی مذاہب اور ثقافت کے پروفیسر ہیں، کے مطابق پیغام بالکل واضح ہے۔انہوں نے خبر کو بتایا کہ "ان آیات سے یہ واضح ہے کہ اسلام اس طرح سے اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی بالکل حمایت نہیں کرتا ہے"۔
بم دھماکہ کرنے والوں کا جنازہ اور تدفین نہیں ہوتی. بہت سے خودکش بمباروں کو ان کے کاموں کی وجہ سے مکمل اسلامی جنازہ دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ گزشتہ ستمبر میں ایک سترہ سالہ پاکستانی نوجوان طالبان کے ساتھ شمولیت اختیار کرنے کے بعد افغانستان میں ہلاک ہو گیا اور اسے جنازے کے بغیر دفنا دیا گیا۔ اس کے خاندان کو اپنے پیارے بیٹے کی لاش کو دیکھنے یا اسے دفنانے کا موقع نہیں ملا۔  سینٹرل ایشیا آن لائن نے ایک پاکستانی عالم مولانا امین اللہ شاہ کے بیان سے اقتباس پیش کرتے ہوئے کہا کہ "خودکش بمبار کرہ زمین پر سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں کیونکہ نہ تو انہیں غسل دیا جاتا ہے اور نہ ہی دفنایا جاتا ہے"۔
پشاور کے ایک خطیب اجمل شاہ نے کہا کہ "خودکشی کا عمل قابل مذمت ہے۔ وہ سب جو اپنے پرخچے اڑا رہے ہیں اور دوسرے بے گناہ مسلمانوں کو ہلاک کر رہے ہیں کو جنت میں جگہ نہیں ملے گی جیسا کہ ان کے تربیت کاروں نے ان سے وعدہ کیا ہے"۔

بنگلہ دیش میں، لوگوں کی اکثریت کو 2005 کا ہلاکت خیز موسم خزاں اچھی طرح یاد ہے جب کالعدم قرار دی جانے والی Jama'atul Mujahideen Bangladeshجماعت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) تنظیم نےعدالتوں اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بنائے جانے والے حملوں کا ایک سلسلہ منعقد کیا تھا۔ ان دھماکوں میں اٹھارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔


جے ایم بی کے سربراہ شیخ عبدل الرحمان، صدیق الرحمان (بنگلہ بھائی) اور ان کے پانچ ساتھیوں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں ان حملوں سے تعلق کے سلسلے میں 2007 میں سزائے موت دے دی گئی۔ دوسرے مقدمے ابھی جاری ہیں۔
غازی پور کے مقدمہ میں وکلا کی سرکاری ٹیم کے ایک رکن رفیق الاسلام نے خبر کو بتایا کہ "انتہاپسند گروہ کی اعلی قیادت کے خلاف فوری قدم اور اس کے بعد جے ایم بی کو کالعدم قرار دینے نے بظاہر خودکش دھماکوں کی لعنت کو ختم کر دیا ہے۔ مگر یہ خطرہ مکمل طور پر دور نہیں ہوا ہے"۔
والدین ذر زور دیا گیا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کریں
خان کے مطابق، والدین پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کریں تاکہ وہ اسلام کے درست راستے پر چل سکیں۔  ڈھاکہ میں ایسٹ ویسٹ یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم معروف ریحان کی والدہ صلیحا بیگم اس سے اتفاق کرتی ہیں۔ "یہ کسی بھی سرپرست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے بچے انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کا شکار نہ ہو جائیں۔ کوئی بھی میرے بچوں کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ مجھے ہر وقت اس بات پر نظر رکھنی ہوتی ہے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں، وہ کہاں جا رہے ہیں، وہ کن سے مل رہے ہیں تاکہ میں اس بات کو یقینی بنا سکوں کہ وہ درست راستے پر جا رہے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ اس ذمہ داری میں کسی قسم کی کوتاہی سے بچے ان لوگوں کے چنگل میں پھنس سکتے ہیں جنہوں نے اسلامیت پسندوں کا جھوٹا روپ دھار رکھا ہے۔






گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...