اتوار، 12 اگست، 2018

ایک خطہ ۔۔۔۔۔ایک شاہراہ ؛ عالمگیریت کا چینی تصور

ایک خطہ ۔۔۔۔۔ایک شاہراہ ؛ عالمگیریت کا چینی تصور

عاشق ہمدانی  اتوار 4 ستمبر 2016
https://www.express.pk/story/595492/

اوبر ایک طویل المدتی پراجیکٹ ہے۔ اس میں شریک ممالک کے حوالے سے چین کئی طرح چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔

چین کے عظیم رہنما، ڈینگ ذیاؤ پنگ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’جب ہزاروں کی تعداد میں بیرون ملک، زیر تعلیم طالب علم اپنے وطن واپس لوٹیں گے، تو چین اپنے آپ کو مکمل تبدیل کرے گا‘‘۔ ایک ایسے وقت میں جب، مغرب کے ماہرین مشرق، چین کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا شکار تھے، چین اپنے مستقبل کے لیے مکمل طور پر پرامید تھا۔ مغربی رویوں کی ایک جھلک، 31 اکتوبر 1974 کو وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجرکے درمیان ہونے والی درج ذیل گفت گو کے اقتباس سے ملتی ہے۔
کیسنجر: چین میں اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ میں اس سال کے آخر میں چین کا دورہ کروں گا، مگر میری ابھی تک ماؤ اور چواین لائی کے علاوہ کسی اور چینی رہنما سے کوئی سنجیدہ ملاقات نہیں ہو سکی اور وہ دونوں بہت بیمار ہیں۔
بھٹو: میں مئی میں وہاں گیا تھا اور ماو سے ملا تھا، وہ بالکل ٹھیک تھے۔

کیسنجر:میں نے بھی اُسے ہمیشہ ٹھیک ہی پایا ہے، دنیا میں بہت کم سربراہان مملکت ایسے ہیں جو اُس کی طرح مذاکرات میں مہارت رکھتے ہیں، مجھے اندازہ نہیں کہ جب یہ دونوں نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا؟
بھٹو: سوویتس بہت پرامید ہیں کہ چین مختلف حصوں میں بٹ جائے گا، فوجی جنتا، متحارب وار لارڈز میں تبدیل ہو جائے گی مگر میں جانتا ہوں کہ چین طویل عرصہ سے ارتقائی تبدیلی کی تیاری کر رہا ہے اور میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ سوویتس اس بارے میں درست ہو سکتے ہیں۔

کیسنجر: میرے پاس اس حوالے سے کہنے کو الفاظ نہیں مگر بہت سے ملٹری کمانڈرز کو اُن کی جگہوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اگر چین میں فوج اقتدار پر قبضہ کرلے تو یہ میرے لیے انتہائی حیرت کی بات ہوگی تاہم اس حوالے سے کوئی بھی اندازہ لگانا میرے لیے ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں چین کی حرکیات کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا۔


معروف اسکاٹش فلسفی ایڈم اسمتھ نے اٹھارہویں صدی میں چین کے بارے میں اپنی معروف کتاب Wealth of the Nations میں لکھا تھا کہ ’’وقت آئے گا، جب چین دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک، سب سے زیادہ زرخیز، بہترین زرعی پیداوار، صنعتی طور پر ترقی یافتہ، خوشحال اور شہری سہولتوں کا حامل ملک ہو گا۔‘‘

گزشتہ تین دہائیوں میں چین نے زرعی معیشت کو ترقی یافتہ صنعتی معیشت میں تبدیل کیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اس وقت امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ 1949 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی نے چیئرمین ماؤ کی قیادت میں، انقلاب کے ذریعے ملک کے جاگیردارانہ ڈھانچہ کو توڑا، زمین اور وسائل کو قومی ملکیت میں لے کر صنعتی ترقی کا آغاز کیا۔انقلاب کے بعد کی نسل نے بے پناہ قربانیاں دیں، پوری قوم نے ایک لباس، ایک سائیکل، ایک جیسی تعلیم اور انتہائی لگن سے تعمیرنو کا آغاز کیا۔ چیئرمین ماؤ سے ایک عام مزدور، کسان کی ذاتی زندگی تک کوئی نمایاں فرق نہ تھا۔ امریکا اور سوویت یونین، دونوں ہی چین کے بدترین دشمن تھے حتیٰ کہ 1972 تک چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت تک نہ حاصل ہو سکی۔

1978 میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی گیارہویں کانگریس نے کامریڈ ڈینگ زیاؤ پنگ کی قیادت میں چین کے کمیونسٹ نظام میں اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ انہوں نے چینی انقلاب کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراعاتی معیشت کے حوالے سے بنیادی اصول متعین کیے۔ ڈینگ زیاؤ پنگ نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے لیے مارکسی بستی اور فکر ماؤکی تشکیل نو، سماجی اور اقتصادی اصلاحات اور زمیں لباسی حقائق کو ملک، قوم اور پارٹی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ اس طرح چین میں یک رفتار صنعتی ترقی کے لیے ریاستی اور غیر ملکی شراکت کے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے ضوابط اور طریقۂ کار کی تشکیل کی گئی۔ بیسویں صدی کے اختتام پر ڈینگ زیاؤ پنگ کی ایک عظیم الشان ڈاکٹرائن ’’ایک ملک، دو نظام‘‘ نے نہ صرف عالمی تعلقات میں ایک نئے تصور کا اضافہ کیا بل کہ اس سے ہانگ کانگ اور مکاؤ دوبارہ چین کو واپس مل گئے۔

صدر جیانگ زمن کا دور ایڈم اسمتھ، ذوالفقار علی بھٹو اور ڈینگ زیاؤ پنگ کے چین کے بارے میںخیالات کی توثیق کا آغاز تھا۔ 2005 سے چین دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرتی ہوئی معیشت کا درجہ اختیار کر گیا۔ 2009 کے اولمپکس اور ایکسپو 2010 کے بیجنگ میں انعقاد سے چین تجارتی اور ثقافتی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں پہنچ گیا۔ 1998 میں صدر زمن کی رہنمائی میں کمیونسٹ پارٹی میں اصلاحات، سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی کی تشکیل کا سہ نکاتی عہد نامہ ترتیب دیا گیا۔ چین کو ’’Three stars‘‘ کہا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کے لیے نظریاتی تعلیم، سیاسی جدوجہد اور دیانت داری کو سماجی اور ریاستی اصلاحات کے عمل میں ناگزیر قرار دیا گیا تاکہ سوشلزم کے فلسفہ کو منڈی کی تشکیل نو میں استعمال کرکے پیدا ہونے والی بدعنوانیوں کا سدباب کیا جا سکے۔ یہ دور پاکستان کے لیے اس لیے بھی انتہائی اہم ہے کہ چین نے ایک معاہدے کے بعد، گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز کیا ہے۔

چین کے موجودہ رہنما صدر ژی چی پنگ نے چین کے لیے عالمگیریت کے رہنما اصول متعین کرتے ہوئے 21 ویں صدی کی ترجیحات کا آغاز کیا ہے۔ ان کے الفاظ میں ’’مخاصمت کو مفاہمت، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرتے ہوئے، ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کریں گے، جو ساری انسانیت کو ایک مشترکہ ورثہ میں تبدیل کرسکے۔‘‘

صدر جی پنگ نے عالمگیریت کے موجودہ زمانے میں انتہائی دانش مندی کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی، چینی ریاست اور بین الاقوامی تعلقات کے مابین ایک نئے توازن کی تشکیل کے لیے بنیادی اصول متعین کیے۔ کثیر القطبی اور باہمی انحصاریت پر مبنی تعاون ہی ایک نئی عالمگیریت کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ چین کا تجارتی راہداریوں اور نئے عالمی اور علاقائی اداروں کا قیام، جن میں شنگھائی کوآپریشن آرگنازیشن، برکس، نیو ڈویلپمنٹ بنک، ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بنک ایک خطہ، ایک شاہراہ اور بحری شاہراہِ ریشم چینی ترجیحات میں شامل ہیں، جو بڑھتی ہوئی عالمگیریت میں چین کا ایک رہنما کردار متعین کرتے ہیں۔

ایک خطہ۔ ایک شاہراہر One Belt- One Road اور نئے عالمی اور علاقائی اداروں کی تشکیل کے پس منظر میں حالیہ برسوں میں چین کی اقتصادی ترقی اور اُس کی ترجیحات کا ایک اجمالی جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔

20.85 ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس کی شرح ترقی 6.9 فی صد سالانہ ہے جب کہ اس کی فی کس آ مدنی 8240 ڈالر ہے۔ معیشت 9 فی صد، زراعت 50.5 فی صد، صنعت اور 50.5 خدمات کے شعبوں پرمشتمل ہے۔ چین کی برآمدات 2.28 ٹریلین ڈالر اور درآمدات 1.3 ٹریلین ڈالر ہیں۔ چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 3.3 ٹریلین ڈالر کے مساوی ہیں۔ چین میں حالیہ برسوں کی صنعتی ترقی اور تعمیراتی شعبوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق چین میں 2011-13 کے دو سال میں استعمال ہونے والے سیمنٹ کی مقدار امریکا میں 20 ویں صدی کے پورے 100 سال میں استعمال ہونے والے سیمنٹ کی مقدار سے زیادہ تھی۔

ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارے آئی ایچ ایس گلوبل کے مطابق جن کا حصہ 2010 میں دنیا کی کل صنعتی پیداوار کا 19.8 فی صد تھا جب کہ اس معیشت کے حصول کے لیے امریکا کو 110 سال کا عرصہ لگا تھا۔ چین کی تجارت جو 1988 میں صرف 106 بلین ڈالر کے برابر تھی۔ 2013 تک 4.16 ٹریلین ڈالر کے ریکارڈ اضافہ تک پہنچ گئی۔ چین اب بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ ایشیئن انفراسٹرکچر امور سمٹ بنک میں امریکا کے سوا دنیا کے تقریباً تمام نمایاں ممالک شامل ہیں، جن میں برطانیہ، یورپی یونین کے ممالک، جاپان، آسٹریلیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برازیل، جنوبی افریقا، پاکستان، بھارت، ایران، عراق سمیت دنیا کے 80 سے زیادہ ممالک شریک ہیں اور اس طرح یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے اداروں کے مساوی طاقت کا حامل ہے۔ اوبر (Obor) کا تصور صدر ژی جی پنگ نے 2013 میں پیش کیا تھا، جس کے ذریعے چین کی تجارت کے لیے بین الاقوامی راہداریوں کے چھے راستوں کی نشان دہی کی گئی، جن کے ذریعے اُسے یورپ، افریقا، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے 60 سے زیادہ ممالک تک رسائی حاصل ہوگی۔

اِس تصور کے دو بنیادی اجزاء ہیں۔ ایک خطے (One Belt) سے مراد شاہراہ ریشم کی توسیع، یورپ اور پورے ایشیائی علاقوں، جن میں وسطی ایشیا، روس، بائیلوروس، لتھوینیا، پولینڈ، جرمنی، نیدر لینڈز، وسطی اور مشرق یورپ اور جنوب مشرقی یورپ (بلقانی ریاستیں، بلغاریہ اور رومانیہ) شامل ہیں، جنہیں یوریشیا بری پل (Eurasia land bridge) کے ذریعے جوڑا جائے گا۔ یوں پورا پراجیکٹ گوادر سے جڑ جائے گا۔

ایک شاہراہ (One Road) پراجیکٹ، چین کے مشرقی ساحلی علاقوں اور چین کے مغربی (Land locked) علاقوں کو بحرالکاہل اور بحرہند کے موجودہ سمندری رابطوں کے متبادل کی تشکیل کرتے ہوئے پاکستان اور میانمار (برما) کے ذریعے بحرہند تک براہ راست رسائی حاصل کرنا ہے، جہاں چین کو سری لنکا اور پاکستان میں گوادر کی بندرگاہوں کے انتظامی حقوق حاصل ہیں۔

اوپر پراجیکٹ درج ذیل چھ تجارتی راہداریوں پر مشتمل ہے۔

-1 نیو یورایشیالینڈ برج، -2 چین، منگولیا اور روسی راہداری، -3 چین، سینٹرل ایشیا و مغربی ایشیا راہداری، -4 چین انڈو چائنا پنحثیلا راہداری، -5 چین پاکستان تجارتی راہداری، -6 چین، میانمار، بنگلہ دیش، بھارت راہداری۔

اوبر پراجیکٹ پر چینی نائب وزیراعظم ژانگ گیولی کی سربراہی میں قائم کمیشن برائے قومی ترقی و اصلاحات (NDRC) کے ذریعے عمل کیا جارہاہے جبکہ چین کی وزارت خارجہ اور وزارت تجارت کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ اس کی تکمیل کے لیے NDRC کی معاونت کریں۔ NDRC نے اپنے خاکہ میں تحریر کیا ہے کہ تیزی سے ترقی کرتا ہوا ایشیا کو یورپ سے جوڑتے ہوئے ان کے مابین واقع ممالک میں اقتصادی ترقی کے لیے بے پناہ ذخائر ہیں، جنہیں بروئے کار لانا ہے اور یہ صرف چین کے لیے نہیں بلکہ OBOR کے خطہ میں واقع تمام ممالک کے لیے ہیں۔

اوبر پراجیکٹ کی واضح ترجیحات حسب ذیل ہیں:
-1 چین کے پس ماندہ رہ جانے والے علاقوں بالخصوص مغربی علاقوں کی ترقی اور خوشحالی، -2 اشیاء و خدمات کے تجارتی بہاؤ، افراد کے لیے آزادانہ سفری سہولتیں اور اطلاعات و ثقافت کے تبادلہ کے ذریعے دونوں خطوں میں اقتصادی ترقی اور رابطوں کا فروغ، -3 چین اور اُس کے ہمسایہ ممالک کے مابین جڑت میں اضافہ، -4 توانائی کی ترسیل، متبادل تجارتی راستوں کی تکمیل اور اس کی سکیورٹی کی فراہمی، -5 بیرون ملک چین کی سرمایہ کاری میں اضافہ۔

اوبر پراجیکٹ نہ صرف 60 سے زیادہ ملکوں کو مربوط کرے گا بلکہ یہ خطہ دنیا کی 66 فیصد آبادی اور 33 فی صد جی ڈی پی کا حامل ہو گا۔ چین ڈیویلپمنٹ بنک نے اس پراجیکٹ کے لیے 890 بلین ڈالر، ایشین انفراسٹرکچر اور سمنٹ بنک نے 50 بلین، سلک روڈ فنڈ نے 40 بلین، نیو ڈیویلپمنٹ بنک نے 30 بلین اور الییان انفراسٹرکچر فنڈز نے 20 بلین ڈالر مختص کر رکھے ہیں۔

اس پراجیکٹ میں چین کے پسماندہ علاقوں کے لیے انتہائی اہم ترجیحات بھی متعین کی گئی ہیں۔ کمیشن برائے قومی ترقی و اصلاحات NDRC کے ساتھ جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹم (GAC)، اتھارٹی برائے کوالٹی کنٹرول، انسپکشن و کوارینٹائین اور وزارت ٹرانسپورٹ کو بھی پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ جے اے سی نے اعلان کیا ہے کہ وہ تجارتی راہداریوں کے ساتھ کسٹم ڈیوٹیز میں خصوصی رعایتیں دے گی، جس کی وجہ سے ان راہداریوں کے ممالک کو چین کے لیے اپنی برآمدات میں اضافہ کے لیے مواقع ملیںگے۔ وزارت تجارت اور وزارت ٹرانسپورٹ نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ، توانائی، انفراسٹرکچر، لاجسٹک، کارگو اور ہوا بازی کے شعبوں میں تعاون کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔ چین نے اپنے صوبوں اور شہروں کی انتظامیہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اوبر پراجیکٹ میں امکانیت اور اس کے فوائد میں شریک ہونے کے لیے اپنے پراجیکٹس NDRC کے پاس رواں سال کے آخر تک جمع کرائیں۔

اوبر ایک طویل المدتی پراجیکٹ ہے۔ اس میں شریک ممالک کے حوالے سے چین کئی طرح چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔ مشرق بعید، جنوبی ایشیا اور یورایشیائی ممالک کے حوالے سے اس کے اہداف کے حصول چین کی قیادت کے لیے ایک انتہائی کٹھن امتحان ہے۔ مثال کے طور یورایشیا بری پل پراجیکٹ میں روس، اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انڈو چائنا پنجشیلا میں چین اور فلپائن کے تعلقات اور میانمار، بنگلہ دیش اور بھارت کے باہمی اور چین کے ساتھ ان کے مجموعی تعلقات کے صدر ژی جی پنگ کا خواب ’’دشمنی کے بجائے دوستی‘‘ کی تعبیر تلاش کرنا، چینی قیادت کے لیے کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ چین پاکستان تجارتی راہداری، اس سارے پراجیکٹ میں چین کی واحد طاقت ہے، جسے وہ پورے اعتماد اور یقین سے عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے، چین یوریشیا لینڈ برج یا سینٹرل ایشیا، ویسٹرن کاریڈور کے حصول میں کامیاب نہ بھی ہو سکا، تو گوادر کی بندرگاہ چین کو وہ سارے مواقع فراہم کرتی ہے، جو اس کے ان دونوں پراجیکٹس کے اہداف کا حصہ ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری، حکومت چین، حکومت پاکستان، سلک روڈ فنڈ، چائنا اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسچینج، چائنا ایکسپورٹ بنک، چائنا انوسمنٹ کارپوریشن اور چائنا انوسٹمنٹ بنک کے اشتراک سے شروع کیا جانے والا ایک کثیر الجہتی منصوبہ ہے۔ چین نے اس کے لیے مختصرمدتی، درمیانی مدتی اور طویل المدتی اہداف متعین کیے ہیں۔ مختصرمدتی اہداف میں پاکستان اور چین کے درمیان موجودہ انفراسٹرکچر کے ذریعے کراچی پورٹ کے ذریعے نقل و حمل کی سہولتوں سے استفادہ کرناہے۔ طویل مدتی اہداف میں چین اور پاکستان کے درمیان مغربی روٹس، جو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ذریعے گوادر کو منسلک کرنا ہے اور اس روٹ کے ہمراہ ریلوے لائن، پائپ لائن اور مقامی صنعتی انفراسٹرکچر کا قیام ہے۔ چین کی طرف سے چین کے ٹرانسپورٹ سے متعلق متعدد ادارے اس پراجیکٹ پر عمل درآمد کے لیے شریک کار ہیں۔ یہ انگریزی زبان Y کے حرف سے مشابہ پراجیکٹ ہے، جس کی چھ مزید ذیلی راہداریاں ہیں۔

اوبر پراجیکٹ میں چین، پاکستان تجارتی راہداری کو اس وقت انتہائی ترجیحی درجہ حاصل ہے۔ 47 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے گوادر کاشغر تک 2000 کلومیٹر طویل شاہراہ اور توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ اس سے چین کو عالمی تجارت میں صرف نقل و حمل کے شعبے میں سالانہ 20 ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔ آبنائے ملاکا سے اس کے ذریعے مسافت 45 دن سے کم ہو کر دس دن رہ جائے گی۔ سی پیک پراجیکٹ پاکستان میں بجلی کی پیداوار، نئے صنعتی زونز کا قیام، زراعت، بائیو ٹیکنالوجی، ٹیکسٹائل، ایل این جی پائپ لائن اور دیگر پراجیکٹ کے ذریعے نہ صرف ملک کی ترقی کا ذریعہ بنے گا بلکہ اس سے پاکستان میں روزگار کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ ایک تخمینہ کے مطابق سی پیک پراجیکٹ 70 لاکھ افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیداکرے گا۔

اس پس منظر میں اوبر پراجیکٹ میں چین 6 تجارتی راہداریوں میں سے کم از کم تین، یوریشیا، برج، سینٹرل ایشیا، ویسٹ ایشیا اور میانمار، بھارت راہداریوں کے لیے سی پیک متبادل امکانات پیدا کرتے ہوئے قابل عمل رسائی فراہم کرنا ہے۔ اوبر پراجیکٹ پاکستان کو روس، پولینڈ، بائلوروس، لتھونیا، لٹویا، منگولیا، قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغیزیہ جیسے ممالک کے ساتھ تجارتی، صنعتی اور تکنیکی تعاون کے نئے امکانات سے بھی روشناس کرائے گا، بشرطیکہ وہ وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی، افغانستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کی تشکیل نو کے لیے اقدامات کرسکے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا یہ کہنا انتہائی اہم ہے کہ ’’سی پیک پراجیکٹ، دو طرفہ تعلقات کو جیوپولیٹیکل سے جیواکنامک بننے کا عمل ہے۔‘‘

پاکستان کے لیے یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ صوبائی رابطہ کی وزارت اور مشترکہ مفادات کونسل کو ذمہ داریاں سونپے کہ وہ پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سی پیک میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے اقدامات اور ترجیحات کا تعین کریں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلیوں میں سی پیک کے حوالے سے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، جو اس سلسلہ میں حکومت کے لیے تجاویز، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے مرتب کریں۔ اس حوالے سے سب سے اہم پبلک/ پرائیویٹ پارٹنرشپ پر مبنی سی پیک مینیجمنٹ کارپوریشن کا قیام ہے، جو پاکستان کے کاروباری اور تجارتی اداروں کے لیے مواقع پیدا کر سکے۔

اوبرا پراجیکٹ بین الاقوامی تعلقات میں عظیم الشان تبدیلیوں کا موجب ہو گا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد گلوبلائزیشن کے تصورات میں، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور اس کی قیادت کی جانب سے یہ ایک اہم پہل کاری ہے، جو عالمگیریت کے لیے نئے اصول متعین کرے گی۔

ہفتہ، 11 اگست، 2018

شہید سندھ : راجہ داہر

شہید وطن
سندھ کی داستان راجہ داہر کی دو بیٹیوں سوریا دیوی اور پرمل دیوی کے بغیر نا مکمل ہے، جب انہیں خلیفہ کے حرم میں پیش کیا گیا، تو بڑی بہن نے خلیفہ کو کہا کہ وہ کنواری نہیں رہی، محمد بن قاسم ان دونوں بہنوں کو خلیفہ کے پاس بھیجنے سے پیشتر ان کی عزت لوٹ چکا ہے، خلیفہ کے حکم پر محمد بن قاسم کو ایک تازہ ذبح شدہ بیل کی کھال میں سی کر بھیجا جاتا ہے۔ خلیفہ کو جب اطلاع ملتی ہے کہ محمد بن قاسم کا صندوق آ پہنچا ہے تو خلیفہ دریافت کرتا ہے ” زندہ ہے یا مردہ “۔ اسے بتایا جاتا ہے ” خدا خلیفہ کی عمر اور عزت کو دائمی بقا عطا کرے، جب اودھا پور میں فرمان ملا تب حکم کے مطابق محمد بن قاسم نے خود کو کچے چمڑے میں بند کرایا، اور دو دن بعد راہ میں جان اللہ تعالیٰ کے حوالے کر کے دارالبقا کو کوچ کر گیا “۔ اس وقت خلیفہ داہر کی بیٹیوں کو بلاتا ہے، اور اپنے ہاتھ میں پکڑی سبز زمرد کی چھڑی کو محمد بن قاسم کے دانتوں پر پھیرتے ہوئے کہتا ہے ” اے راجہ داہر کی بیٹیو، ہمارا حکم اپنے ماتحتوں پر اس طرح جاری ہے۔ اس لیئے کہ سب منتظر اور مطیع رہتے ہیں۔ جیسے ہی ہمارا فرمان اسے قنوج میں ملا، ویسے ہی ہمارے حکم پر اس نے اپنی پیاری جان قربان کر دی “۔ لیکن جب خلیفہ کو داہر کی بیٹی یہ بتاتی ہے کہ اس نے اپنے باپ راجہ داہر کی موت کا انتقام لینے کیلئے جھوٹا الزام لگایا ہے تو وہ خلیفہ دونوں بہنوں کو دیوار میں زندہ چنوا دیتا ہے۔
کیا یہ واقعی ایک ایسی جنگ تھی جسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ یا یہ عربوں کی اپنے وقت کی مہذب دنیا کو لوٹنے کی ایک کاروائی    تھی۔ 
Image result for Raja Dahir
جیسے اس سے پہلے وہ شام، مصر، عراق و ایران کو لوٹ چکے تھے۔ کیا وجہ ہے کہ خلیفہ وقت دونوں بار سندھ پر چڑھائی کی اجازت دینے سے ہچکچاتا ہے، کیا اس کا جذبہ ایمانی حجاج بن یوسف سے کمزور تھا، خلیفہ اور حجاج کے درمیان جو خط و کتابت ہوتی ہے اس میں بھی کسی جہاز کے لٹنے کا کوئی ذکر نہیں ہے، دوسری بار بھی جو خط لکھا جاتا ہے اس میں بھی شکست کا انتقام لینے اور بذیل بن تحفہ کے سندھ کے حملے کے دوران قید ہونے والے قیدیوں کا ذکر ہے۔ فتح کے بعد بھی حجاج صرف شکست کے انتقام اور منافع کا ذکر کرتا ہے۔ حجاج کی یہ بھی خواہش تھی کہ سندھ کے بعد باقی ماندہ ہندوستان اور اسکے بعد چین پر بھی حملہ کیا جائے، کیا باقی ماندہ ہندوستان اور چین نے بھی حاجیوں کے جہاز لوٹے تھے یا یہ خواہش دیگر قوموں کی مال و دولت لوٹنے کی عربی جبلت کا اظہار تھا ۔
خلیفہ عثمان بن عفان کے زمانے میں سندھ کا پانی کڑوا اور کسیلا تھا، فتح کے بعد اس قدر میٹھا ہو جاتا ہے کہ حجاج باقاعدہ اس کا ذکر کرتا ہے۔ ۔
ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان کے مطابق عربوں کے سندھ پر حملے کی وجوہات صرف جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ دیبل کی فتح کے بعد عرب قیدیوں کی بازیابی بھی ایک جھوٹ ہے اور تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ڈاکٹر خان کے مطابق اس جنگ کا مقصد لوٹ مار اور عربوں کو آپس میں لڑنے اور داخلی انتشار پیدا کرنے کی بجائے ملک سے باہر مصروف رکھنا تھا۔
” سندھ کی فتح حجاج کے پیشگی منصوبے کا حصہ تھی، جسے جائز ٹھہرانے کیلئے بودے دلائل گھڑے گئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علافی جو حجاج کے مظالم سے بھاگ کر راجہ داہر کی پناہ میں آئے تھے، انہوں نے بھی عربوں کے لیئےجاسوسی کا کام کیا۔ انہوں نے اہم معلومات عربوں تک پہنچائیں اور عربوں کو سندھ پر حملہ کرنے کی ترغیب دی”۔ ڈاکٹر خان بدھوں کو بھی راجہ داہر کی شکست کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے جنہوں نے اہم مواقع پر داہر کو دھوکا دیا۔
گو سندھی قوم پرست آج بھی دو جولائی کو راجہ داہر کا دن مناتے ہیں لیکن راجہ داہر کا یہ کہنا انتہائی غلط ثابت ہوا کہ ہند اور عرب کے تاریخ دان اسے ایک سورما کے طور پر یاد رکھیں گے، عرب تو در کنار داہر کو اپنے ہی دھرتی پر نہ صرف بھلا دیا گیا بلکہ ایک اس کے مقابلے میں ایک غیر ملکی لٹیرا قابل ستائش ٹھہرا۔ آقاوؑں کے تلوے چاٹنے والوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی، عرب ہونا انتہائی افضل ٹھہرا اور عربوں کی ہر چیز اتنی برتر اور مقامی لوگوں کا احساس کمتری اس سطح پر آ گیا کہ مقامی لوگوں نے اپنی جڑیں عرب میں تلاش کرنے شروع کر دیں۔ راجپوت ہونا جو کبھی باعث فخر ہوتا تھا، انہوں نے بھی اپنے سلسلہ نسب عرب سے جوڑنا شروع کر دیا سموں نے اپنے آپ کو عبدالعزیٰ (ابولہب)، سومروں نے علوی سادات، کلہوڑوں نے خود کو عباسی، اور بلوچوں نے خود کو حمزہ بن عبدالمطلب کی اولاد کہنا شروع کر دیا۔ سندھ ایکدم سے قریشیوں، عباسیوں، سیدوں اور صدیقیوں وغیرہ سے بھر گیا۔
شاید تاریخ کبھی اس سندھی سورما کو اس کا جائز مقام دے ۔۔۔۔۔
تحریر و تحقیق
غلام رسول ۔
بشکریہ جرات تحقیق ۔

قدرتی وسائل کا بے تحاشا استعمال، فوری اقدامات کی ضرورت

قدرتی وسائل کا بے تحاشا استعمال، فوری اقدامات کی ضرورت
اس برس یکم اگست تک بنی نوع انسان نے زمین کی پیداوری سکت سے زیادہ قدرتی وسائل استعمال کر لیے۔ سن 1970 تک انسان سالانہ بنیادوں پر اتنے ہی قدرتی وسائل استعمال کر رہے تھے جتنے کہ کرہ ارض ایک سال میں پیدا کر رہی تھی۔ 

سائنسدانوں کے مطابق انسانوں نے اگر اسی رفتار سے قدرتی وسائل کا استعمال جاری رکھا تو ’ارتھ اوور شوٹ ڈے‘ ہر برس کم ہوتا جائے گا۔ اگر قدرتی وسائل کو سالانہ بجٹ کی طرح دیکھا جائے تو یوں سمجھیے کہ دنیا میں بسنے والے انسانوں نے یہ بجٹ یکم اگست تک استعمال کر لیا جب کہ ابھی سال کے پانچ ماہ باقی ہیں۔ یوں زمین کے قدرتی وسائل خسارے میں ہیں۔

گلوبل فٹ پرنٹ نیٹ ورک کے مطابق اس وقت انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمارا سیارہ یعنی زمین ناکافی ہے اور اس وقت انسانوں کو 1.7 سیاروں کی ضرورت ہے۔ یہ نجی تنظیم ہر برس ’ارتھ اوور شوٹ ڈے‘ کا تعین یوں کرتی ہے کہ زمین پر سالانہ بنیادوں پر دستیاب قدرتی وسائل کو استعمال شدہ وسائل سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

تاہم قدرتی وسائل کے زیادہ استعمال کا الزام ہر ملک پر عائد نہیں جاتا۔ گلوبل فٹ پرنٹ نیٹ ورک کے مطابق امیر ممالک قدرتی وسائل کا استعمال کم آمدنی والے ممالک کی نسبت کہیں زیادہ کر رہے ہیں۔

قطر، جو دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، قدرتی وسائل کے استعمال میں سب سے آگے ہے۔ اگر دنیا کے تمام انسان قطری باشندوں جیسا طرز زندگی اختیار کر لیں تو ہمیں ایک نہیں بلکہ زمین جتنے نو سیاروں کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے مقابلے میں اگر دنیا کے تمام انسان پاکستانی شہریوں جیسا طرز زندگی اور ان کی طرح قدرتی وسائل کا استعمال کریں تو بنی نوع انسان کے لیے کرہ زمین کا چالیس فیصد ہی سالانہ ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ جب کہ بھارتی اور نائجیرین باشندوں کی طرح قدرتی وسائل کا استعمال کرنے کی صورت میں ہمارے لیے کرہ ارض کا ساٹھ فیصد کافی ہو گا۔

جرمن شہری بھی پائیدار قدرتی وسائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ اگر تمام انسان جرمنوں کی طرح قدرتی وسائل استعمال کریں تو ہمیں ایک نہیں بلکہ زمین جیسے تین سیاروں کی ضرورت پڑے گی۔

دنیا بھر میں قدرتی وسائل کے ضرورت سے زیادہ استعمال میں معدنی تیل یا ایندھن کا استعمال سب سے نمایاں (ساٹھ فیصد) ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر عالمی سطح پر کاربن کا استعمال نصف کر دیا جائے تو ’ارتھ اوور شوٹ ڈے‘ میں تین ماہ کا اضافہ ہو جائے گا۔ کاربن کے اخراج میں کمی کرنا زمینی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔


جرمنی میں اسلام کیسا ہے اور کیسا ہونا چاہیے: نئی بحث


جرمنی میں ایک نئی بحث زور پکڑتی جا رہی ہے کہ اس ملک میں بطور مذہب اسلام کیسا ہے اور کیسا ہونا چاہیے؟
 جرمن وزارت داخلہ بڑی قدامت پسند مسلم تنظیموں کے اثر و رسوخ میں کمی چاہتی ہے جو کئی حلقوں کے مطابق اچھی بات نہیں ہو گی۔
جرمنی، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، یورپ کی ان ریاستوں میں بھی شمار ہوتا ہے، جہاں مقامی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد کئی ملین بنتی ہے اور اسلام مسیحیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب بھی ہے۔ یہ بڑی تعداد بھی ایک وجہ ہے کہ جرمنی میں حکومت نے مسلم اقلیت کے بہتر سماجی انضمام اور مختلف معاشرتی امور پر مشاورت کے لیے اپنی میزبانی میں ایک ایسا پلیٹ فارم بھی قائم کر رکھا ہے، جو ’اسلام کانفرنس‘ کہلاتا ہے اور جس میں مقامی مسلمانوں کی نمائندہ کئی بڑی اور قدامت پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
اب برلن میں وفاقی وزارت داخلہ کی سوچ یہ ہے کہ اس ’اسلام کانفرنس‘ میں بہت منظم اور زیادہ تر قدامت پسند مسلم تنظیموں کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے، جسے کم کیا جانا چاہیے۔ مقصد بظاہر یہ ہے کہ ترقی پسند اور لبرل سوچ کے حامل مسلمانوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں کو بھی اس پلیٹ فارم پر مناسب نمائندگی ملنا چاہیے۔
Erika Theissen
ایریکا تھائیسن
لیکن اس سوچ کی مخالفت کرنے والے کئی حلقوں کے مطابق یہ نہ تو کوئی اچھا خیال ہے اور نہ ہی ایسا کرتے ہوئے جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے صورت حال کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
جرمنی کے موجودہ وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر ہیں، جو چانسلر میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کی ہم خیال جماعت اور صوبے باویریا کی قدامت پسند پارٹی کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے سربراہ بھی ہیں۔ ہورسٹ زیہوفر کا خیال ہے کہ موسم گرما کے موجودہ وقفے کے بعد ’جرمن اسلام کانفرنس‘ کی ہیئت مختلف ہونا چاہیے۔ ’اسلام کانفرنس‘ کی میزبانی جرمن وزارت داخلہ اور ذاتی طور پر وفاقی وزیر داخلہ ہی کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں وفاقی وزارت داخلہ میں ریاستی امور کے سیکرٹری مارکوس کَیربر نے جرمن اخبار ’بِلڈ‘ کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے ساتھ اس وقت کافی ہلچل پیدا کر دی، جب انہوں نے کہا، ’’ہمیں ان مسلمانوں کو، جو مسلمانوں کی منظم ملکی تنظیموں کا حصہ نہیں ہیں، اور جرمنی میں مقامی شہریوں یا طویل عرصے سے مقیم تارکین وطن کے طور پر رہتے ہیں، اب تک کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں ’اسلام کانفرنس‘ کے پلیٹ فارم پر لانا ہو گا۔‘‘
’اسلام کانفرنس‘ میں مرکزی کردار کس کا؟
اپنے اس موقف کے ساتھ جو کچھ مارکوس کَیربر نے نہیں کہا لیکن جو واضح طور پر ان کی مراد تھی، وہ یہ بات تھی کہ حکومت ’اسلام کانفرنس‘ میں قدامت پسند مسلم تنظیموں کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتی ہے۔ اسی سوچ کا دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمانوں کی نمائندہ صرف ایسی قدامت پسند تنظیمیں ہی ’اسلام کانفرنس‘ جیسے پلیٹ فارم پر مرکزی اہمیت کی حامل نہ رہیں۔ پچھلے سال تک ’اسلام کانفرنس‘ میں زیادہ تر ایسی ہی قدامت پسند مسلم تنظیموں کو نمائندگی حاصل تھی۔
پھر اس سال مارچ میں کئی حلقوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی میں اسلام تو بڑا متنوع اور کثیرالنسلی ہے، جس کی کئی جہتیں ہیں اور اس کی واحد اور غالب پہچان صرف قدامت پسندانہ ہی نہیں ہے۔ اسی طرح جرمنی میں آباد تارکین وطن کی کئی سیکولر تنظیموں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر ’اسلام کانفرنس‘ میں جلد اصلاحات نہ کی گئیں، تو یہ ریاست اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے طور پر ناکام ہو جائے گی۔
دوسری طرف بہت سے جرمن مسلم اور غیر مسلم حلقے اس بارے میں خبردار بھی کر رہے ہیں کہ مقامی مسلمانوں کی نمائندہ بڑی تنظیموں کو ان کی جائز حیثیت تسلیم کرنے کے بجائے مکالمت کی سطح پر مرکزی دھارے سے الگ کر دینا بالکل غلط ہو گا۔

’اس وقت اس تجویز کی ضرورت کیا؟‘

جرمن شہر کولون میں مسلم خواتین کے ایک تربیتی مرکز کی سربراہ اور ڈائیلاگ فورم کی ایک سابقہ مشیر ایریکا تھائیسن وزارت داخلہ کی تجویز پر بے یقینی سے سر ہلائے بغیر نہ رہ سکیں۔ تین عشرے قبل اسلام قبول کر لینے والی اس جرمن شہری نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اب اس تجویز کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ملک میں اسلام کے بارے میں بحث اور سوچ پہلے ہی کافی حساس، زیادہ شدید اور پرجوش نہیں ہو چکی؟‘‘
ایریکا تھائیسن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کو الگ تھلگ کر دینا، ایسا کرنا درست کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ جو بھی مسلمان ہے اور اپنے عقیدے پر عمل کرتا ہے، اسے مساجد اور مقامی مساجد سے منسلک مسلم برادریوں کی ضرورت تو ہو گی۔ ’اسلام کانفرنس‘ ایک بین الامذاہبی مکالمتی پیلٹ فارم ہے۔ اس میں مسلمانوں کے اہم نمائندوں اور ان کے کردار کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘
جرمنی میں مسلمانوں کے حقیقی نمائندے؟ ایک مستقل سوال
جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ جرمنی میں اسلام سے متعلق ہر قسم کی ممکنہ اور تنقیدی بحث کے لیے سب سے اہم پلیٹ فارم ’اسلام کانفرس‘ ہی ہے۔ دوسرے یہ کہ جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی کون کرتا ہے، اور کس کو کرنا چاہیے، یہ بھی عشروں سے ایک سوال رہا ہے، جس پر بحث مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔
وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کی رائے میں جرمنی میں مسلمان بھی جرمن معاشرے کا حصہ ہیں اور ان سے متعلقہ معاملات انہی کے نمائندوں سے مکالمت کے ذریعے طے کیے جانا چاہییں، نہ کہ اسلام کے نام پر جرمنی کے باہر سے کوئی ملک یا مذہبی مکتبہ فکر اس عمل میں کوئی مداخلت کرے۔

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...