پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے ارکان سے ملاقات کرنے سے معذرت کر لی ہے۔
سپریم کورٹ سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزارتِ خارجہ کی جانب سےسپریم کورٹ کو دوخطوط موصول ہوئے ہیں، جن میں کہا گیا ہےکہ جبری طور پر لاپتہ کیےگئے افراد سے متعلق اقوامِ متحدہ کا ورکنگ گروپ اٹھارہ اور انیس ستمبر کو اسلام آباد میں ہوگا اور گروپ کے ارکان چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بھی ملاقات کی خواہش مند ہیں۔
تاہم وزارت خارجہ کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق مقدمہ عدالت میں زیرِسماعت ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ چیف جسٹس اقوامِ متحدہ کے اس مشن سے ملاقات نہ کریں۔
اقوامِ متحدہ کا یہ ورکنگ گروپ اولیویے دی فرویل کی سربراہی میں گزشتہ اتوار کی شام اسلام آباد پہنچا تھا، جہاں چند لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نےکمیشن سے ملاقاتیں بھی کیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے بھی کمیشن کے ارکان سے ملاقات کی۔ آمنہ جنجوعہ کے مطابق انہوں نے اپنے شوہر مسعود جنجوعہ سمیت سینکڑوں لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کو آگاہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے زیادہ تر گفتگو لاپتہ افراد کے لواحقین کو درپیش مشکلات سے متعلق کی۔ کمیشن کے دورے سے وابستہ توقعات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’جو بات ہم حکومت کو کہہ کہہ کر تھک گئے اور اسے سمجھ نہیں آئی تو شاید باہر کے نمائندے حکومت کو بہتر طور پر سمجھا سکیں۔ یہی امید ہے کہ باہر کے لوگوں کا یہ دباؤ زیادہ قبول کرتے ہیں اور گھر کی مرغی دال برابر والی بات ہوتی ہے۔ ہم پیار اور منت سماجت سے بات کرتے ہیں مگر اہمیت ہی نہیں دی جاتی ‘۔
دوسری جانب بعض حکومتی اتحادیوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے کمیشن کو پاکستان بلانے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ رکن قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ ’شرمناک بات ہے حاکموں کے لیے کہ اگر یہ خود کوئی چیز نہیں سنبھال سکتے اور اپنی کمزوریاں بین الاقوامی اداروں کو دکھائیں تو پھر یہ کہاں ہیں۔ یہ تو پھر ناکام ہوئے تو ایسی ناکام حکومتوں اور لیڈروں کی قوم کو کیا ضرورت ہے‘۔
پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ ملک کے دیگر حصوں کی طرح صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ بھی جائے گا، جہاں لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے ۔ وفاقی وزیر نذر گوندل نے کمیشن کو بلوچستان بھجوانے کے حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’رپورٹس آ جائیں گی تو زیادہ بہتر ہو گا کہ کون کہاں تک مداخلت کر رہا ہے اور اگر ہماری کمزوری بھی آتی ہے تو اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں۔ اور اگر اقوام متحدہ کا مشن آیا ہے تو یہ کوئی مثبت پیشرفت ہوگی کہ اگر وہ کوئی بھی رائے دیتے ہیں تو وزارت خارجہ اور سفارتی طور پر ہمارے پاس ایک ایسا ہتھیار ہو گا جس کو بہتر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں‘۔
دوسری جانب معروف وکیل جسٹس ریٹائرڈ طارق کا کہنا ہے کہ حکومت کو دیکھنا ہو گا کہ اس گروپ کے دورے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر یہ ایگزیکٹو کا کام ہے کہ کوئی شخص لاپتہ ہو تو اس کی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے تو اگر ایسی کوئی منفی رپورٹ دیں گے تو یہ کسی بھی صورت میں اس حکومت اور ملک کے لیے نیک نامی نہیں ہوگی‘۔
دریں اثناء گروپ کے ارکان نے منگل کے روز وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقات کی ۔ یہ وفد اپنے 10 روزہ دورے کے دوران (بدھ) کو لاہور جائے گا جہاں پر وہ لاپتہ افراد کے لواحقین اور متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کرے گا۔
ڈوئچے وَیلے/ رپورٹ: شکور حیم، اسلام آباد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے