حکومت کشمیر کے درد کو بھی سمجھے |
شبیر احمد شاہ
ہندوستان میں بہت سارے عظیم لوگ بھی ہیں۔ میری ملاقات کئی سابق وزیر اعظم سے ہوئی ہے۔ اس میں اٹل بہار واجپئی صاحب ہیں، چندرشیکھر صاحب ہیں، وی پی سنگھ صاحب ہیں، گجرال صاحب ہیں۔ آج کے ڈاکٹر منموہن سنگھ صاحب سے ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہماری ملاقات ہوئی تھی، میڈم سونیا گاندھی سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ان تک صحیح بات پہنچے کہ مسئلہ ہے اور مسئلے کے حوالے سے کشمیر کے لوگ خود بہت زیادہ حساس ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ ہے اور اس مسئلے پہ بات چیت کے ذریعے ہی کوئی حل نکل سکتا ہے۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ یہ آزادی کی لڑائی آپ لوگوں نے خود بھی لڑی ہے۔ ہرکشن سنگھ سرجیت صاحب، جو اب اِس دنیا میں نہیں ہیں، ان کے ساتھ بھی میری کافی ملاقاتیں ہوئیں جب میں جیل سے باہر آیا اور اندرجیت گپتا صاحب تھے، جو ہوم منسٹر بھی رہے ہیں، ان سے بھی میری کافی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہم نے کوشش کی کہ ہندوستان میں جن لوگوں کی باتیں سنی جاتی ہیں اور جن کا ایک رول ہے، اگر وہ سرکار میں نہیں ہیں، سرکار سے باہر بھی ہیں ، لیکن ان کی بات کو سنا جاتا ہے اور ان کے ساتھ، جب ایسے ایشوز آتے ہیں، تو مشاورت ہوتی ہے۔ بہت کوشش کی ہم نے سیمیناروں، کانفرنسوں، میٹنگوں میں، ہر جگہ پہنچنے کی۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں بھی ہم گئے اور ہم نے اپنی بات پہنچائی کہ بر صغیر میں کشمیر ایشو کو لے کرغیر یقینی کی صورتِ حال ہے۔ پانچ لاکھ لوگوں کی قربانیاں ہماری بھی ہیں۔ تین جنگیں آپ لوگوں نے بھی لڑی ہیں۔ آپ کے معاہدے بھی ہوئے ہیں، چاہے وہ شملہ معاہدہ ہو یا لاہور ڈکلریشن، لیکن بات آگے نہیں چل پائی۔ جنگیں بھی ہوئی ہیں اور اس کے بعد آپ مذاکرات کی میز پہ بھی آئے۔ لیکن اس میں جو بنیادی فریق ہے، جو کشمیری لوگ ہیں، آپ لوگوں نے ان کو ان تمام چیزوں میں شامل نہیں کیا۔ مسئلہ ہمارا ہے، لڑائی ہم لڑ رہے ہیں، پریشان ہم ہو رہے ہیں یہاں۔ جب تک آپ اس چیز کو مان کر نہیں چلیں گے، تب تک کوئی حل نہیں نکلے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر کی وجہ سے یا دیگر ایشوز کی وجہ سے، آپ دونوں (ہندو پاک) کی جو دشمنی ہے، وہ دوستی میں تبدیل ہو جائے۔
ہندوستان میں بہت سارے عظیم لوگ بھی ہیں۔ میری ملاقات کئی سابق وزیر اعظم سے ہوئی ہے۔ اس میں اٹل بہار واجپئی صاحب ہیں، چندرشیکھر صاحب ہیں، وی پی سنگھ صاحب ہیں، گجرال صاحب ہیں۔ آج کے ڈاکٹر منموہن سنگھ صاحب سے ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہماری ملاقات ہوئی تھی، میڈم سونیا گاندھی سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ان تک صحیح بات پہنچے کہ مسئلہ ہے اور مسئلے کے حوالے سے کشمیر کے لوگ خود بہت زیادہ حساس ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ ہے اور اس مسئلے پہ بات چیت کے ذریعے ہی کوئی حل نکل سکتا ہے۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ یہ آزادی کی لڑائی آپ لوگوں نے خود بھی لڑی ہے۔ ہرکشن سنگھ سرجیت صاحب، جو اب اِس دنیا میں نہیں ہیں، ان کے ساتھ بھی میری کافی ملاقاتیں ہوئیں جب میں جیل سے باہر آیا اور اندرجیت گپتا صاحب تھے، جو ہوم منسٹر بھی رہے ہیں، ان سے بھی میری کافی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہم نے کوشش کی کہ ہندوستان میں جن لوگوں کی باتیں سنی جاتی ہیں اور جن کا ایک رول ہے، اگر وہ سرکار میں نہیں ہیں، سرکار سے باہر بھی ہیں ، لیکن ان کی بات کو سنا جاتا ہے اور ان کے ساتھ، جب ایسے ایشوز آتے ہیں، تو مشاورت ہوتی ہے۔ بہت کوشش کی ہم نے سیمیناروں، کانفرنسوں، میٹنگوں میں، ہر جگہ پہنچنے کی۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں بھی ہم گئے اور ہم نے اپنی بات پہنچائی کہ بر صغیر میں کشمیر ایشو کو لے کرغیر یقینی کی صورتِ حال ہے۔ پانچ لاکھ لوگوں کی قربانیاں ہماری بھی ہیں۔ تین جنگیں آپ لوگوں نے بھی لڑی ہیں۔ آپ کے معاہدے بھی ہوئے ہیں، چاہے وہ شملہ معاہدہ ہو یا لاہور ڈکلریشن، لیکن بات آگے نہیں چل پائی۔ جنگیں بھی ہوئی ہیں اور اس کے بعد آپ مذاکرات کی میز پہ بھی آئے۔ لیکن اس میں جو بنیادی فریق ہے، جو کشمیری لوگ ہیں، آپ لوگوں نے ان کو ان تمام چیزوں میں شامل نہیں کیا۔ مسئلہ ہمارا ہے، لڑائی ہم لڑ رہے ہیں، پریشان ہم ہو رہے ہیں یہاں۔ جب تک آپ اس چیز کو مان کر نہیں چلیں گے، تب تک کوئی حل نہیں نکلے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر کی وجہ سے یا دیگر ایشوز کی وجہ سے، آپ دونوں (ہندو پاک) کی جو دشمنی ہے، وہ دوستی میں تبدیل ہو جائے۔
میڈیا کا بھی رول کشمیر کے معاملے میں کافی متعصبانہ رہا ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، ہندوستانی میڈیا اس کو صحیح طریقے سے کور نہیں کرتا ہے۔ یہاں پر اگر گیس سلنڈر کسی گاڑی میں بلاسٹ ہو جاتا ہے، تو اسے بھی ٹورسٹ پر گرینیڈ اٹیک بتا دیا جاتا ہے۔ یہاں جو قتل عام ہوتا رہتا ہے، یہاں جو فرضی انکاؤنٹرس میں لوگ مارے گئے، یہاں پر جو لوگ لاپتہ کیے گئے، ان کی گم نام قبروں کے بارے میں اب ساری دنیا کو پتہ چلا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے بھی بیان آیا ہے کہ لوگ لاپتہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی عوام کے سامنے صحیح بات پہنچے۔ ہم ہندوستان کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ ہم بھی وہی حق مانگ رہے ہیں جس کے لیے ہندوستان کے لوگوں نے آزادی کی لڑائی لڑی ہے۔
پاکستان کے سابق صدر، جیسے صدر فاروق لغاری صاحب اور پرویز مشرف صاحب سے اور وہاں کے جتنے بھی وزیر خارجہ رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی میرا بڑا انٹریکشن رہا ہے۔ میرے پاس پاسپورٹ تو ہے نہیں، لیکن جب وہ دہلی تشریف لاتے ہیں، تب ان کے ساتھ ہماری میٹنگیں ہوتی رہتی ہیں۔ ہم نے ان سے بھی کہا کہ ہم آپ کی دوستی کے بیچ میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی دشمنی جب دوستی میں تبدیل ہوگی، تبھی کشمیر ایشو پر بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ آپ کے بہت سارے ایشوز ہیں، جیسے واٹر ہے، بڑا اہم ایشو ہے۔ سر کریک ہے۔ سیاچین بھی ہے، حالانکہ وہ جموں و کشمیر کا ہی حصہ ہے۔ لیکن اگر آپ ان ایشوز کو لے کر چلیں گے اور کشمیر کو پیچھے چھوڑ دیں گے تو بات آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ ہمارا ماننا ہے کہ ان چیزوں کو بھی آپ کو ایڈریس کرنا چاہیے، ان چیزوں کو بھی آگے بڑھانا چاہیے، لیکن جو کور ایشوز ہیں، اس پر بھی ایک شروعات ہونی چاہیے۔ جس وقت اٹل بہاری واجپئی صاحب وزیر اعظم تھے، تو کے سی پنت صاحب میرے غریب خانہ پر تشریف لائے تھے۔ وہ میرے پاس وزیر اعظم کا ایک خط لے کر آئے تھے کہ مسئلہ کشمیر پر وہ ہم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ مثبت جواب دیاہے، لیکن شاید انہوں نے اس چیز کو ہماری کمزوری سمجھا۔ جب کبھی ہم نے negotiation کی بات کہی ہے، نتیجہ خیز با معنی ڈائیلاگ کی بات کہی ہے، تو شاید انہوں نے اسے ہماری کمزوری سمجھا۔
ہندوستان میں کوئی نہیں ہے، جس سے ہماری بات نہیں ہوئی ہے۔ چاہے وہ ہندوستان کے دانشور حضرات ہوں یا رائٹرس ہوں یا پھر خارجہ سکریٹری ہوں، یہاں سبھی آئے ہیں۔ لیکن ایسا لگا کہ بس وقت گزاری ہے۔ آگے کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔ اور اس کے عوض میں کیا ہوا؟ یہاں فیک انکاؤنٹرس میں لوگوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا ہے۔ چاہے وہ عمر عبداللہ کی حکومت ہو، چاہے مفتی سعید صاحب کی حکومت ہو یا غلام نبی آزاد صاحب کی حکومت ہو۔ ابھی پچھلے چھ سات مہینوں میں رفیع آباد کا واقعہ ہے، بانڈی پور کا واقعہ ہے، جو گورنمنٹ بھی مان کر چلتی ہے، اس پر کمیشن بھی بٹھاتی ہے، لیکن پھر آگے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ بات چیت کے حوالے سے ہم نے کبھی سردمہری نہیں دکھائی، لیکن میں صرف فوٹو سیشن نہیں چاہتا۔ وزیر اعظم کی طرف سے مجھے باقاعدہ دعوت نامہ ملا بات چیت کے لیے، لیکن میں نے یہی کہا کہ مجھ سے پہلے عمر فاروق صاحب کی قیادت میں لوگ گئے ہیں، سجاد لون صاحب، یاسین ملک صاحب بات چیت کے لیے گئے ہیں، ان سب نے اپنی بات رکھی اور میں بھی وہی بات کہنا چاہتا ہوں، لیکن اب ہم صرف فوٹو سیشن کے لیے نہیں آنا چاہتے۔ میں سمجھتا تھا کہ اٹل بہاری واجپئی صاحب میں فیصلہ لینے کی پاور تھی، حالانکہ جس جماعت میں وہ تھے، ان لوگوں نے ان کو گھیرا ہوا تھا۔ جب جنگ کی نوبت پہنچی تھی دونوں ملکوں کے درمیان، اس وقت واجپئی صاحب نے کشمیر میں ہی ایک تقریر کی تھی۔ لیکن اس کے بعد جتنے بھی وزیر اعظم آئے، ان لوگوں نے کشمیر کے بارے میں کچھ بھی نہیں کیا۔
میڈیا کا بھی رول کشمیر کے معاملے میں کافی متعصبانہ رہا ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، ہندوستانی میڈیا اس کو صحیح طریقے سے کور نہیں کرتا ہے۔ یہاں پر اگر گیس سلنڈر کسی گاڑی میں بلاسٹ ہو جاتا ہے، تو اسے بھی ٹورسٹ پر گرینیڈ اٹیک بتا دیا جاتا ہے۔ یہاں جو قتل عام ہوتا رہتا ہے، یہاں جو فرضی انکاؤنٹرس میں لوگ مارے گئے، یہاں پر جو لوگ لاپتہ کیے گئے، ان کی گم نام قبروں کے بارے میں اب ساری دنیا کو پتہ چلا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے بھی بیان آیا ہے کہ لوگ لاپتہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی عوام کے سامنے صحیح بات پہنچے۔ ہم ہندوستان کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ ہم بھی وہی حق مانگ رہے ہیں جس کے لیے ہندوستان کے لوگوں نے آزادی کی لڑائی لڑی ہے۔ لیکن چاہے الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، ان کی طرف سے ہماری بات کو ہندوستانی عوام کے سامنے اس طرح رکھا جاتا ہے کہ جیسے ہم ہندوستان کے دشمن ہیں، ہم پاکستان کے اشاروں پر ناچتے رہتے ہیں، ہم آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی عوام تک صحیح بات پہنچے۔ آپ نے دیکھا کہ بیس سالوں میں ایسٹ تیمور میں ریفرنڈم ہوگیا، سوڈان میں بھی ریفرنڈم ہوگیا، یہاں بھی ریفرنڈم کروا دیجئے، تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ عوام کی جو بھی خواہش ہوگی ہم اس کو سپریم مانتے ہیں، ہم عوام پر اپنی رائے تھوپنا نہیں چاہتے۔ ہم جہاں مسلمانوں کی بات کرتے ہیں، وہیں یہاں کے پشتینی باشندوںکی، جو یہاں کے اسٹیٹ سبجیکٹ ہولڈرس ہیں، ان کی بھی بات کرتے ہیں، چاہے وہ کشمیری پنڈت ہیں، چاہے وہ سکھ ہیں، چاہے وہ بودھ ہیں، ان کا بھی رائٹ ہے یہاں رہنے کا، لیکن ہمارے درمیان خلش اور دوری پیدا کی جا رہی ہے۔ یہ سب باتیں ہندوستان کے عوام تک پہنچنی چاہئیں، تب وہ سمجھیں گے کہ ہم ہندوستان کے دشمن نہیں ہیں، ہندوستانی عوام کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کشمیر مسئلہ کی وجہ سے ہے۔ منی شنکر ایّر صاحب نے بھی ابھی کچھ دن پہلے ایک سیمینار میں یہ بات کہی ہے کہ کشمیر ہمارے لیے اب سفید ہاتھی بن چکا ہے اور اب ہمیں کشمیر ایشو کو ایڈریس کرنا ہی پڑے گا۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں سیاح بڑی تعداد میں آ رہے ہیں، تو یہاں پر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ یہاں جوں کے توں حالات ہیں۔ جو بھی لوگ وہاں سے آتے ہیں، چاہے وہ امرناتھ یاترا کے لیے آتے ہیں، تو ہم اپنے کندھوں پر اٹھا کر، پالکیوں میں بیٹھا کر انہیں گپھا تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن اس کا بھی 2008 میں غلط رنگ پیش کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیریوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے، بڑا تشدد ہو رہا ہے، زیادتیاں بھی ہو رہی ہیں۔ میری ہی مثال لے لیجئے۔ دوسروں کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ مجھے دو سال ہو گئے جیل سے باہر آئے ہوئے۔ دو سال میں، سات مہینے 19 دن مجھے ہاؤس اریسٹ میں رکھا گیا۔ اس دوران میں صرف 9 بار جمعہ کی نماز ادا کر سکا۔ گیلانی صاحب اور دوسرے قائدین کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں کانگریس، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی سب کو جلسے جلوس کرنے اور تقریر دینے کی آزادی ہے، ان پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن ہمیں تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، یہاں تک کہ تعزیتی میٹنگ میں بھی ہمیں جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ ہمیں لوگوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے تو حالات بدلیں گے نہیں۔ ہندوستان تو سب سے بڑی جمہوریت ہے، تو ہمیں بھی ہمارے رائٹس دیے جانے چاہئیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے۔ پتھروں کے بدلے گولیاں ماری جاتی ہیں۔ مہاراشٹر میں دیکھ لیجئے، ہریانہ میں دیکھ لیجئے، جب وہاں کروڑوں کا نقصان ہو تا ہے، اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے جاتے ہیں، تو اس پر کمیشن بیٹھایا جاتا ہے۔ ہرن کو مارا جاتا ہے تو اسپیشل ٹاسک فورس بنائی جاتی ہے۔ کتوں پر زیادتی ہوتی ہے تو ان کی جان کی حفاظت کے لے باضابطہ این جی او قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو انسانوں کو مارا جارہا ہے، یہاں انسانوں کو کاٹا جا رہا ہے، بھائی کے سامنے بہن کی چادر سروں سے اتاری جا رہی ہے۔ آخرکار، ہندوستان میں بھی انسانی دل ہیں، وہ دیکھیں کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ جب ہم پرامن طور سے اسٹرائک کرتے ہیں، حالانکہ ہمارے ہاتھ میں کوئی بندوق نہیں، کوئی کلاشنکوف نہیں، کوئی گرینڈ نہیں، اور جب ہم سڑکوں پر آتے ہیں احتجاج کرنے کے لیے تو اس کے عوض میں بھی ہمیں گولیاں اور لاٹھیاں ملتی ہیں۔ اس کے بعد بھی ہم اس بات کو مان کر چلتے ہیں کہ راستہ صرف ایک ہی ہے، اور وہ بات چیت کا ہی راستہ ہے اور ہم سے حق خود ارادیت کا جو وعدہ کیا گیا تھا، وہ۔ اب آپ کہیں گے کہ آج 1991 کے حالات نہیں ہیں، اب سب کچھ نارمل ہے۔ کسی حد تک حالات نارمل ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ نارمل ہمیشہ رہے گا۔ یہاں سینٹی مینٹس ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ہم نے جو 20 سالوں تک مار کھائی ہے، اسے نہیں بھلایا جاسکتا۔ آپ پنن پوش پورہ چلے جائیے، جو کپواڑہ ضلع میں ہے، وہاں ہماری بیٹیاں، ہماری بہنیں شادیاں کرنے کے قابل نہیں رہ گئی ہیں۔
آج ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوریاں بھی ہیں، تلخیاں بھی ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی ہو رہی ہے۔ ان سب کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ حالات کبھی بھی کوئی بھی رخ لے سکتے ہیں۔ جموں میں اب بھی ہمارے سینکڑوں لوگ جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں، ہماری نوجوان قیادت جیلوں میں بند ہے۔ اب بھی لوگ مارے جا رہے ہیں۔ یہاں انسانوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ جب بھی ہندوستان کے لوگ یہاں آتے ہیں، تو میں یہاں جتنے بھی سیاحتی مقام ہیں، وہاں جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ ان کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ یہاں جو ہمارے بھائی آتے ہیں، ہماری بہنیں آتی ہیں، ہماری بیٹیاں آتی ہیں، ہم ان سے کہتے ہیں کہ دیکھئے ہمارے اوپر کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ کسی نے کشمیر کو ’فردوس بر روئے زمین است‘ کہا تھا، لیکن اب یہ فردوس نہیں رہا۔ یہاں بستیوں کی بستیاں جلا دی گئیں، یہاں یتیموں کی فوج ہے، بیواؤں کی فوج ہے۔ کوئی کشمیری اگر ریاست کے باہر جاتا ہے تو اس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کو فرضی معاملوں میں پھنسا کر تہاڑ جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ دہلی میں اگر کوئی کشمیری کسی ہوٹل میں جاتا ہے تو پولس سے منظوری لینی پڑتی ہے، باقاعدہ آئڈنٹیٹی دکھانی پڑتی ہے، اگر داڑھی ہے تو اس پر القاعدہ اور مجاہدین اور آئی ایس آئی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ یہاں 7 لاکھ فوج ہے۔ عمر عبداللہ صاحب نے پچھلے سال ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سردیوں کے موسم میں راجدھانی کو جموں منتقل کرنے سے پہلے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ کو کچھ ڈسٹرکٹ سے ہٹائیں گے، اس کے عوض میں آپ دیکھ لیجئے کہ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوا۔ ان حالات میں بھی وہ یہی سمجھیں گے کہ ان کو دبا دو، ان کو مار دو، ان کو تذلیل کرو، ان کو انسان ہی مت سمجھو، یہ خود تھک جائیں گے، مر جائیں گے، تو کیسے چلے گا۔ گاندھی جی نے اپنی ایک کتاب میں کوٹ کیا ہے کہ جب آپ کسی معصوم کو قتل کرتے ہیں، تو اس کے خون کے ایک قطرے سے 999 لوگ اور جنم لیتے ہیں۔ تو جب کسی کا بھائی مارا گیا ہے، کسی کی بیٹی کی عزت لوٹی گئی ہے، سروں سے چادر اتاری گئی ہے، کسی کا گھر جلادیا گیا ہے اور آج بھی یہ سب ہو رہا ہے۔ یہاں کے حالات ابھی نارمل نہیں ہیں۔
ہمارا مسئلہ آزادی کا ہے۔ آزادی کے حوالے سے ہمارا جو اسٹینڈ ہے، ہم نے اس میں لچک بھی دکھائی۔ ہم نے اس بات کو بھی منظور کیا کہ ہم بات چیت کی میز تک جائیں گے، لیکن یہ بات چیت دو طرفہ نہیں ہوگی۔ یہ بات چیت دہلی اور سرینگر کے درمیان ہونی چاہیے یا پھر دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بات ہونی چاہیے۔ لیکن ماضی کا تجربہ ہمارے سامنے ہے کہ وہ بات آگے چلی نہیں۔ اگر آپ سنجیدہ ہیں اس ایشو کو ایڈریس کرنے کے لیے، تو اس کے لیے سب سے پہلے ایسا سازگار ماحول بنانا چاہیے جس کو دیکھ کر کشمیر کے لوگوں کو لگے کہ اب ہندوستان کی حکومت کشمیر مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ اس طرح کا ماحول بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جیلوں میں جن لوگوں کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے ان کی رہائی عمل میں آنی چاہیے، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ ختم ہونا چاہیے، پبلک سیفٹی ایکٹ ختم ہونا چاہیے، ڈی ملٹرائزیشن ہونا چاہیے، کیوں کہ یہاں 7 لاکھ فوج ہے، ایسے میں ہمیں اپنی حق بات کہنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر کو ایک متنازع خطہ تسلیم کیا جانا چاہیے، کیوں کہ کچھ دنوں پہلے امریکی صدر براک اوبامہ نے بھی ہندوستان کی سرزمین پر آ کر کہا تھا کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے۔ اسی طرح یوروپی یونین نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کشمیر کو متنازع خطہ کہا تھا، اس لیے ہندوستان کو بھی اسے متنازع خطہ تسلیم کرنا چاہیے، تبھی تو ایک ماحول بنے گا، تبھی تو ہماری بات چیت ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو پارلیمنٹ میں کوئی بل نہیں پاس کروانی ہے۔ اسی طرح سی پی آئی، سی پی ایم، این ڈی اے، یو پی اے سب کو ملا کر ایک کمیٹی بننی چاہیے ہندوستان میں، جو کشمیر سے شروعات کرے۔ اس طرح بھارت سرکار کو سازگار ماحول بنانے کے لیے ایک پہل کرنی چاہیے۔ پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت کرنی چاہیے، کیوں کہ پاکستان بھی اس میں ایک پارٹی ہے۔ پاکستان ٹریک ٹو کے تحت ہندوستان کے ساتھ ناروے میں، ہانگ کانگ، سنگاپور میںبات کرتا رہا ہے۔ ہم اس کے بھی خلاف نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہاں بھی ایک ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگوں کے پاسپورٹ نہیں بنائے جاتے ہیں، انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بہت کم لوگوں کے پاسپورٹ ہیں، لیکن میرا کوئی پاسپورٹ نہیں ہے، حالانکہ میرے پاس باہر سے دعوتیں آتی ہیں، میں نے تو ایک چیونٹی کو بھی نہیں مارا ہے، اس کے باوجود میرا پاسپورٹ نہیں بننے دیا جاتا۔ اس سے تو دوریاں بڑھتی ہی ہیں۔ ہمیں بندوق اٹھانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ہم نے تو بہت اچھا اور مثبت ردِ عمل دکھایا ہے، لیکن ہماری بات ہی نہیں سنی جاتی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو صاحب نے پارلیمنٹ کے باہر اور خود کشمیر میں آکر یہاں کے لوگوں کو وقت آنے پر رائے شماری کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں سے کیے گئے وعدے کو پورا کیا جائے، پھر یہاں کے لوگ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ہم سب کے لیے سپریم ہوگا۔بس ایک شروعات ہونی چاہیے، ہم اس میں کسی بھی طرح رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
ہندوستان میں کوئی نہیں ہے، جس سے ہماری بات نہیں ہوئی ہے۔ چاہے وہ ہندوستان کے دانشور حضرات ہوں یا رائٹرس ہوں یا پھر خارجہ سکریٹری ہوں، یہاں سبھی آئے ہیں۔ لیکن ایسا لگا کہ بس وقت گزاری ہے۔ آگے کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔ اور اس کے عوض میں کیا ہوا؟ یہاں فیک انکاؤنٹرس میں لوگوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا ہے۔ چاہے وہ عمر عبداللہ کی حکومت ہو، چاہے مفتی سعید صاحب کی حکومت ہو یا غلام نبی آزاد صاحب کی حکومت ہو۔ ابھی پچھلے چھ سات مہینوں میں رفیع آباد کا واقعہ ہے، بانڈی پور کا واقعہ ہے، جو گورنمنٹ بھی مان کر چلتی ہے، اس پر کمیشن بھی بٹھاتی ہے، لیکن پھر آگے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ بات چیت کے حوالے سے ہم نے کبھی سردمہری نہیں دکھائی، لیکن میں صرف فوٹو سیشن نہیں چاہتا۔ وزیر اعظم کی طرف سے مجھے باقاعدہ دعوت نامہ ملا بات چیت کے لیے، لیکن میں نے یہی کہا کہ مجھ سے پہلے عمر فاروق صاحب کی قیادت میں لوگ گئے ہیں، سجاد لون صاحب، یاسین ملک صاحب بات چیت کے لیے گئے ہیں، ان سب نے اپنی بات رکھی اور میں بھی وہی بات کہنا چاہتا ہوں، لیکن اب ہم صرف فوٹو سیشن کے لیے نہیں آنا چاہتے۔ میں سمجھتا تھا کہ اٹل بہاری واجپئی صاحب میں فیصلہ لینے کی پاور تھی، حالانکہ جس جماعت میں وہ تھے، ان لوگوں نے ان کو گھیرا ہوا تھا۔ جب جنگ کی نوبت پہنچی تھی دونوں ملکوں کے درمیان، اس وقت واجپئی صاحب نے کشمیر میں ہی ایک تقریر کی تھی۔ لیکن اس کے بعد جتنے بھی وزیر اعظم آئے، ان لوگوں نے کشمیر کے بارے میں کچھ بھی نہیں کیا۔
میڈیا کا بھی رول کشمیر کے معاملے میں کافی متعصبانہ رہا ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، ہندوستانی میڈیا اس کو صحیح طریقے سے کور نہیں کرتا ہے۔ یہاں پر اگر گیس سلنڈر کسی گاڑی میں بلاسٹ ہو جاتا ہے، تو اسے بھی ٹورسٹ پر گرینیڈ اٹیک بتا دیا جاتا ہے۔ یہاں جو قتل عام ہوتا رہتا ہے، یہاں جو فرضی انکاؤنٹرس میں لوگ مارے گئے، یہاں پر جو لوگ لاپتہ کیے گئے، ان کی گم نام قبروں کے بارے میں اب ساری دنیا کو پتہ چلا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے بھی بیان آیا ہے کہ لوگ لاپتہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی عوام کے سامنے صحیح بات پہنچے۔ ہم ہندوستان کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ ہم بھی وہی حق مانگ رہے ہیں جس کے لیے ہندوستان کے لوگوں نے آزادی کی لڑائی لڑی ہے۔ لیکن چاہے الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، ان کی طرف سے ہماری بات کو ہندوستانی عوام کے سامنے اس طرح رکھا جاتا ہے کہ جیسے ہم ہندوستان کے دشمن ہیں، ہم پاکستان کے اشاروں پر ناچتے رہتے ہیں، ہم آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی عوام تک صحیح بات پہنچے۔ آپ نے دیکھا کہ بیس سالوں میں ایسٹ تیمور میں ریفرنڈم ہوگیا، سوڈان میں بھی ریفرنڈم ہوگیا، یہاں بھی ریفرنڈم کروا دیجئے، تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ عوام کی جو بھی خواہش ہوگی ہم اس کو سپریم مانتے ہیں، ہم عوام پر اپنی رائے تھوپنا نہیں چاہتے۔ ہم جہاں مسلمانوں کی بات کرتے ہیں، وہیں یہاں کے پشتینی باشندوںکی، جو یہاں کے اسٹیٹ سبجیکٹ ہولڈرس ہیں، ان کی بھی بات کرتے ہیں، چاہے وہ کشمیری پنڈت ہیں، چاہے وہ سکھ ہیں، چاہے وہ بودھ ہیں، ان کا بھی رائٹ ہے یہاں رہنے کا، لیکن ہمارے درمیان خلش اور دوری پیدا کی جا رہی ہے۔ یہ سب باتیں ہندوستان کے عوام تک پہنچنی چاہئیں، تب وہ سمجھیں گے کہ ہم ہندوستان کے دشمن نہیں ہیں، ہندوستانی عوام کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کشمیر مسئلہ کی وجہ سے ہے۔ منی شنکر ایّر صاحب نے بھی ابھی کچھ دن پہلے ایک سیمینار میں یہ بات کہی ہے کہ کشمیر ہمارے لیے اب سفید ہاتھی بن چکا ہے اور اب ہمیں کشمیر ایشو کو ایڈریس کرنا ہی پڑے گا۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں سیاح بڑی تعداد میں آ رہے ہیں، تو یہاں پر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ یہاں جوں کے توں حالات ہیں۔ جو بھی لوگ وہاں سے آتے ہیں، چاہے وہ امرناتھ یاترا کے لیے آتے ہیں، تو ہم اپنے کندھوں پر اٹھا کر، پالکیوں میں بیٹھا کر انہیں گپھا تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن اس کا بھی 2008 میں غلط رنگ پیش کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیریوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے، بڑا تشدد ہو رہا ہے، زیادتیاں بھی ہو رہی ہیں۔ میری ہی مثال لے لیجئے۔ دوسروں کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ مجھے دو سال ہو گئے جیل سے باہر آئے ہوئے۔ دو سال میں، سات مہینے 19 دن مجھے ہاؤس اریسٹ میں رکھا گیا۔ اس دوران میں صرف 9 بار جمعہ کی نماز ادا کر سکا۔ گیلانی صاحب اور دوسرے قائدین کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں کانگریس، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی سب کو جلسے جلوس کرنے اور تقریر دینے کی آزادی ہے، ان پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن ہمیں تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، یہاں تک کہ تعزیتی میٹنگ میں بھی ہمیں جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ ہمیں لوگوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے تو حالات بدلیں گے نہیں۔ ہندوستان تو سب سے بڑی جمہوریت ہے، تو ہمیں بھی ہمارے رائٹس دیے جانے چاہئیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے۔ پتھروں کے بدلے گولیاں ماری جاتی ہیں۔ مہاراشٹر میں دیکھ لیجئے، ہریانہ میں دیکھ لیجئے، جب وہاں کروڑوں کا نقصان ہو تا ہے، اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے جاتے ہیں، تو اس پر کمیشن بیٹھایا جاتا ہے۔ ہرن کو مارا جاتا ہے تو اسپیشل ٹاسک فورس بنائی جاتی ہے۔ کتوں پر زیادتی ہوتی ہے تو ان کی جان کی حفاظت کے لے باضابطہ این جی او قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو انسانوں کو مارا جارہا ہے، یہاں انسانوں کو کاٹا جا رہا ہے، بھائی کے سامنے بہن کی چادر سروں سے اتاری جا رہی ہے۔ آخرکار، ہندوستان میں بھی انسانی دل ہیں، وہ دیکھیں کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ جب ہم پرامن طور سے اسٹرائک کرتے ہیں، حالانکہ ہمارے ہاتھ میں کوئی بندوق نہیں، کوئی کلاشنکوف نہیں، کوئی گرینڈ نہیں، اور جب ہم سڑکوں پر آتے ہیں احتجاج کرنے کے لیے تو اس کے عوض میں بھی ہمیں گولیاں اور لاٹھیاں ملتی ہیں۔ اس کے بعد بھی ہم اس بات کو مان کر چلتے ہیں کہ راستہ صرف ایک ہی ہے، اور وہ بات چیت کا ہی راستہ ہے اور ہم سے حق خود ارادیت کا جو وعدہ کیا گیا تھا، وہ۔ اب آپ کہیں گے کہ آج 1991 کے حالات نہیں ہیں، اب سب کچھ نارمل ہے۔ کسی حد تک حالات نارمل ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ نارمل ہمیشہ رہے گا۔ یہاں سینٹی مینٹس ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ہم نے جو 20 سالوں تک مار کھائی ہے، اسے نہیں بھلایا جاسکتا۔ آپ پنن پوش پورہ چلے جائیے، جو کپواڑہ ضلع میں ہے، وہاں ہماری بیٹیاں، ہماری بہنیں شادیاں کرنے کے قابل نہیں رہ گئی ہیں۔
آج ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوریاں بھی ہیں، تلخیاں بھی ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی ہو رہی ہے۔ ان سب کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ حالات کبھی بھی کوئی بھی رخ لے سکتے ہیں۔ جموں میں اب بھی ہمارے سینکڑوں لوگ جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں، ہماری نوجوان قیادت جیلوں میں بند ہے۔ اب بھی لوگ مارے جا رہے ہیں۔ یہاں انسانوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ جب بھی ہندوستان کے لوگ یہاں آتے ہیں، تو میں یہاں جتنے بھی سیاحتی مقام ہیں، وہاں جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ ان کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ یہاں جو ہمارے بھائی آتے ہیں، ہماری بہنیں آتی ہیں، ہماری بیٹیاں آتی ہیں، ہم ان سے کہتے ہیں کہ دیکھئے ہمارے اوپر کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ کسی نے کشمیر کو ’فردوس بر روئے زمین است‘ کہا تھا، لیکن اب یہ فردوس نہیں رہا۔ یہاں بستیوں کی بستیاں جلا دی گئیں، یہاں یتیموں کی فوج ہے، بیواؤں کی فوج ہے۔ کوئی کشمیری اگر ریاست کے باہر جاتا ہے تو اس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کو فرضی معاملوں میں پھنسا کر تہاڑ جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ دہلی میں اگر کوئی کشمیری کسی ہوٹل میں جاتا ہے تو پولس سے منظوری لینی پڑتی ہے، باقاعدہ آئڈنٹیٹی دکھانی پڑتی ہے، اگر داڑھی ہے تو اس پر القاعدہ اور مجاہدین اور آئی ایس آئی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ یہاں 7 لاکھ فوج ہے۔ عمر عبداللہ صاحب نے پچھلے سال ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سردیوں کے موسم میں راجدھانی کو جموں منتقل کرنے سے پہلے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ کو کچھ ڈسٹرکٹ سے ہٹائیں گے، اس کے عوض میں آپ دیکھ لیجئے کہ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوا۔ ان حالات میں بھی وہ یہی سمجھیں گے کہ ان کو دبا دو، ان کو مار دو، ان کو تذلیل کرو، ان کو انسان ہی مت سمجھو، یہ خود تھک جائیں گے، مر جائیں گے، تو کیسے چلے گا۔ گاندھی جی نے اپنی ایک کتاب میں کوٹ کیا ہے کہ جب آپ کسی معصوم کو قتل کرتے ہیں، تو اس کے خون کے ایک قطرے سے 999 لوگ اور جنم لیتے ہیں۔ تو جب کسی کا بھائی مارا گیا ہے، کسی کی بیٹی کی عزت لوٹی گئی ہے، سروں سے چادر اتاری گئی ہے، کسی کا گھر جلادیا گیا ہے اور آج بھی یہ سب ہو رہا ہے۔ یہاں کے حالات ابھی نارمل نہیں ہیں۔
ہمارا مسئلہ آزادی کا ہے۔ آزادی کے حوالے سے ہمارا جو اسٹینڈ ہے، ہم نے اس میں لچک بھی دکھائی۔ ہم نے اس بات کو بھی منظور کیا کہ ہم بات چیت کی میز تک جائیں گے، لیکن یہ بات چیت دو طرفہ نہیں ہوگی۔ یہ بات چیت دہلی اور سرینگر کے درمیان ہونی چاہیے یا پھر دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بات ہونی چاہیے۔ لیکن ماضی کا تجربہ ہمارے سامنے ہے کہ وہ بات آگے چلی نہیں۔ اگر آپ سنجیدہ ہیں اس ایشو کو ایڈریس کرنے کے لیے، تو اس کے لیے سب سے پہلے ایسا سازگار ماحول بنانا چاہیے جس کو دیکھ کر کشمیر کے لوگوں کو لگے کہ اب ہندوستان کی حکومت کشمیر مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ اس طرح کا ماحول بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جیلوں میں جن لوگوں کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے ان کی رہائی عمل میں آنی چاہیے، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ ختم ہونا چاہیے، پبلک سیفٹی ایکٹ ختم ہونا چاہیے، ڈی ملٹرائزیشن ہونا چاہیے، کیوں کہ یہاں 7 لاکھ فوج ہے، ایسے میں ہمیں اپنی حق بات کہنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر کو ایک متنازع خطہ تسلیم کیا جانا چاہیے، کیوں کہ کچھ دنوں پہلے امریکی صدر براک اوبامہ نے بھی ہندوستان کی سرزمین پر آ کر کہا تھا کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے۔ اسی طرح یوروپی یونین نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کشمیر کو متنازع خطہ کہا تھا، اس لیے ہندوستان کو بھی اسے متنازع خطہ تسلیم کرنا چاہیے، تبھی تو ایک ماحول بنے گا، تبھی تو ہماری بات چیت ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو پارلیمنٹ میں کوئی بل نہیں پاس کروانی ہے۔ اسی طرح سی پی آئی، سی پی ایم، این ڈی اے، یو پی اے سب کو ملا کر ایک کمیٹی بننی چاہیے ہندوستان میں، جو کشمیر سے شروعات کرے۔ اس طرح بھارت سرکار کو سازگار ماحول بنانے کے لیے ایک پہل کرنی چاہیے۔ پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت کرنی چاہیے، کیوں کہ پاکستان بھی اس میں ایک پارٹی ہے۔ پاکستان ٹریک ٹو کے تحت ہندوستان کے ساتھ ناروے میں، ہانگ کانگ، سنگاپور میںبات کرتا رہا ہے۔ ہم اس کے بھی خلاف نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہاں بھی ایک ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگوں کے پاسپورٹ نہیں بنائے جاتے ہیں، انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بہت کم لوگوں کے پاسپورٹ ہیں، لیکن میرا کوئی پاسپورٹ نہیں ہے، حالانکہ میرے پاس باہر سے دعوتیں آتی ہیں، میں نے تو ایک چیونٹی کو بھی نہیں مارا ہے، اس کے باوجود میرا پاسپورٹ نہیں بننے دیا جاتا۔ اس سے تو دوریاں بڑھتی ہی ہیں۔ ہمیں بندوق اٹھانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ہم نے تو بہت اچھا اور مثبت ردِ عمل دکھایا ہے، لیکن ہماری بات ہی نہیں سنی جاتی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو صاحب نے پارلیمنٹ کے باہر اور خود کشمیر میں آکر یہاں کے لوگوں کو وقت آنے پر رائے شماری کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں سے کیے گئے وعدے کو پورا کیا جائے، پھر یہاں کے لوگ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ہم سب کے لیے سپریم ہوگا۔بس ایک شروعات ہونی چاہیے، ہم اس میں کسی بھی طرح رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے