گبس پاکستانی شائقین کو”جانوروں کا ریوڑ “ کہنے پر پشیمان نہیں
نسیم احمد
جنوبی افریقہ کے سرکردہ بلے باز ہرشل گبس نے اپنی سوانح حیات میں کئی سنسنی خیز انکشا فات کئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں کرکٹ حلقوں میںسخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔انٹر نیشنل کرکٹ میچوں میں پاکستانی کرکٹ کھلاڑےوں اور شائقین کی بدتمیزی اور ہلڑ بازی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ہندستان کے خلاف پچ پر پاکستان کے عظیم بلے باز جاوید میاں داد اور لارڈز کے میدان پر شائقین کا تماشہ آج بھی لوگوں کو یاد ہوگا۔
گبس نے اپنی سوانح حیات میں تحریر کیا ہے کہ انہیں پاکستانی شائقین کو”جانوروں کا ریوڑ“ کہنے پر کوئی افسوس یا پچھتاوا نہیں ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نسل پرست ہیں اور خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں۔ اپنی کتاب میں 2007کے سنچورین ٹیسٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوںنے لکھا ہے کہ پوری جنوبی افریقی ٹیم میچ کے دوران پاکستانی تماشائیوں کے رویے سے سخت پریشان اور ناراض تھی۔ وہ بے انتہا شور شرابا کر رہے تھے حتیٰ کہ ڈریسنگ روم کے باہر بیٹھے میرے بیٹے اور بیوی کو بھی ان کی نشستوں سے اٹھا دیا گیا۔ ہم تمام کھلاڑی ان کے رویے پربرہم تھے۔ میں اور گریم اسمتھ وکٹوں کے قریب کھڑے تھے، میں نے پاکستانیوں کا یہ رویہ دیکھتے ہوئے کہا ”حیوانوں کی طرح حرکتیں کرنا بند کرو، میرے یہ الفاظ وکٹ ا سٹمپس میں لگے مائیکرو فونز نے کیچ کر لئے۔ مجھے یاد تو نہیں مگرا سمتھ نے بھی کچھ کہا تھا۔ پوری ٹیم نے اس روز کچھ نہ کچھ کہا لیکن آخر میں میری آواز کی ہی شناخت ہوگئی۔ا سمتھ کی آواز بھی صاف سنی گئی۔ اسمتھ آج بھی ہنستا ہے کہ کیسے ان الزامات سے بچ نکلے۔ “یاد رہے کہ گبس کو اس حرکت کے سبب دوٹیسٹ میچوں کی پابندی کی سزا ملی تھی جسے بعد میں ایک ٹیسٹ، ایک ٹونٹی ٹونٹی اور ایک ون ڈے کی سزا میں بدل دیا گیا تھا۔ نسل پرستی کے الزام پر آج بھی برہم گبس کا کہنا ہے کہ آپ مجھے جو کچھ مرضی کہہ لیں لیکن میں نسل پرست ہرگز نہیں ہوں اور وہ بھی خصوصاً مسلمانوں کے حوالہ سے۔ مجھ پر خدا کی رحمتیں ہیں۔ میری چار خالائیں اور دس کزن مسلمان ہیں سو میں کس طرح نسل پرست ہوسکتا ہوں۔ میرا زیادہ تر خاندان مسلمان ہے۔
اس پر دو تین قسم کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ ”عام“ ردعمل گالی اور دوسرا ردعمل یہ کہ اس غیر ملکی مہمان نے جو کچھ کہا وہ میرٹ پر کس حد تک صحیح یا غلط ہے؟ اور اگر صحیح ہے تو ایسا کیوں ہے؟ اور اس کا علاج کیا ہے؟ ”ڈسپلن“ اسلامی تعلیمات کا بنیادی جزو ہے اور تو اور مسلمانوں کی تمام تر عبادات کے لئے بھی یہ لازمی ہے۔ ”نماز کے وقت صف بندی “ اس کی سادہ ترین مثال ہے۔لیکن آج بھی پاکستانی ”عام“ ردعمل گالی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ہرشل گبس نے اپنی سوانح حیات”ٹو دی پوائنٹ“ (TO THE POINT)میں آسٹریلیا کی خواتین کے بارے میں بھی کئی انکشاف کئے ہیں لیکن آسٹریلیا کامعاشرہ اور کلچر وہی ہے اس لئے آسٹریلیا کو گبس سے کوئی شکایت نہیں ہے۔لیکن پاکستان میں گبس کے انکشافات پر بے سبب تیکھا رد عمل ہے جہان عام آدمی تو عام صحافی حضرات بھی اپنے جذبات پر قابو رکھنے میں ناکام ہیں ۔پاکستان کے معروف صحافی حسن نثارصاحب نے گبس کے معاملے کے تعلق سے اپنے جذبات کا اظہا ر کچھ اس طرح کیا ہے۔
”پچھلی بار چند ہفتے قبل لندن گیا تو ”ٹاور آف لندن“ میں آوارگی کے دوران مسلسل سوچتا رہا… یہ سوال سانپ کی طرح ڈستا اور ہانٹ کرتا رہا کہ یہ اتنے وحشی، اجڈ، گنوار، غیر منظم، منتشر اور سفاک لوگ اتنے مہذب اور منظم کیسے ہوگئے؟ ان میں اتنی ترتیب، تمدن، سلیقہ، قرینہ کہاں سے آگیا؟ غلیظ ماحول میں رہنے والے یہ غلیظ ترین لوگ اتنے صاف ستھرے کیسے ہو گئے؟ ”ٹاور آف لندن“ کے ایک ایک انچ پر ظلم و ستم اور جبر جہالت کی ان گنت کہانیاں رقم ہیں لیکن آج دنیا کی سپر پاور رہ چکنے اور دو عالمی جنگیں سہہ چکنے کے بعد بھی دنیا میں ان کا کردار مائدانہ ہے تو ایسا کیوں ہے؟“
اگر دیکھا جائے توہرانسان کے اندر ایک حیوان بھی ہوتاہے۔یہ اشرافیہ کا کام ہے کہ انسان کی نشوونما کے لئے سازگار ماحول تخلیق کرے یا حیوان کی پرورش والا ماحول پیدا کردے … جیسے ”رول ماڈل“ ہوں گے ویسا معاشرہ ہی معرض وجود میں آئے گا۔ اشرافیہ قانون اور انصاف کی دشمن ہوگی توعوام اپنی اوقات کے مطابق اسی رنگ میں رنگے جائیں گے۔ اوپر لوٹ مار ہوگی تو ریڑھی والا بھی اس کلچر میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالے یا نکالے گا، اوپر افراتفری انتشار ہوگا تو نیچے بھی یہی کچھ دکھائی دے گا۔ اوپر حیوانیت طاری ہوگی تو نیچے بھی حیوانیت ہی جاری و ساری ہوگی۔
(مضمون نگار سے 09873709977یا naseem987@yahoo.co.in سے رابطہ کیا جا سکتا ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے