اتوار، 12 جولائی، 2015

آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا قیام: بریٹن وڈز معاہدہ


بریٹن ووڈز کا ماونٹ واشنگٹن ہوٹل جہاں 1944 میں بریٹن ووڈز کا عالمی معاہدہ طے ہوا۔
سن 1900 سے امریکی سونے کے ذخائر اور سونے کی قیمت۔ 1950 سے امریکی سونے کے ذخائر میں تیزی سے کمی آنے لگی اور 1970 تک امریکہ اپنا 60 فیصد سونا کھو چکا تھا۔ اپنا سونا بچانے کے لئے اس نے بریٹن ووڈ کا معاہدہ توڑ دیا جس کی وجہ سے سونے کی قیمت بڑھنا شروع ہو گئی۔ 1976 میں آئی ایم ایف نے 777 ٹن سونا بیچا جس سے قیمت تھوڑی سی کم ہوئی۔1999-2000 میں آئی ایم ایف نے اسی مقصد سے مزید 435 ٹن سونا بیچا۔
دوسری جنگ عظیم تک دنیا بھر کے عوام میں کاغذی کرنسی کا رواج مستحکم ہو چکا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ مرکزی بینک آپس میں کس طرح لین دین (بزنس) کریں۔ کوئی بھی مرکزی بینک کسی دوسرے مرکزی بینک کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور سونے کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے دوسری جنگ عظیم کے دوران جولائی 1944 میں بریٹن ووڈز، نیو ہیمپشائر، امریکہ کے مقام پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (المعروف آئی-ایم-ایف) اور ورلڈ بینک وجود میں آئے۔ اس کانفرنس میں 44 اتحادی ممالک کے 730 مندوبین نے شرکت کی تھی جس میں روس بھی شامل تھا مگر جاپان شامل نہیں تھا۔ اسکے ایک سال بعد ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا۔
اس کانفرنس کے انعقاد کے وقت دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے پاس موجود کل سونے کا %75 امریکہ کے پاس تھا۔

اس کانفرنس کے دوران ہندوستان کے مندوب نے سوال پوچھا کہ gold convertible exchange سے کیا مراد لیا جائے گا۔ اسکا گول مول جواب دیا گیا کہ امریکی ڈالر سے جتنا چاہیں سونا خریدا جا سکتا ہے اس لئے اس ایکسچینج سے ڈالر ہی مراد لیا جائے۔
اس معاہدے کے مطابق 35 امریکی ڈالر ایک اونس سونے کے برابر طے پائے تھے اور امریکہ 35 ڈالر کے عوض اتنا سونا دینےکا پابند تھا۔ دنیا کی دیگر کرنسیوں کی قیمت امریکی ڈالر کے حساب سے طے ہوتی تھی۔ اس معاہدے میں بڑی چالاکی سے سونے چاندی کی بجائے ڈالر کو کرنسی کا معیار مقرر کیا گیا یعنی سونے کی بجائے معیار سونا کی آڑ میں "معیار ڈالر" لایا گیا۔ اس کانفرنس کے معاہدے کا مسودہ انگریز ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے بنایا تھا جو بینک آف انگلینڈ کا ڈائریکٹر تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک ہی عالمی کرنسی ہو جو نہ سونے سے منسلک ہو نہ سیاسی دباو کے تحت آئے مگر وہ مندوبین کو اس پر قائل نہ کر سکا۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کینیز اپنے آقاوں کے لئے کام کر رہا تھا۔ دو سال بعد اسکا انتقال ہو گیا۔
خود کینیز کے مطابق بریٹن وڈز کا یہ معاہدہ گولڈ اسٹینڈرڈ کا عین اُلٹ تھا۔ فرانسیسی مصنف Jacques Rueff کے مطابق یہ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ "مغربی ممالک کا مالیاتی گناہ" تھا۔ اُس نے دس سال پہلے یہ پیشنگوئی کر دی تھی کہ یہ سسٹم چل نہیں سکتاَ۔

اس معاہدے کے بعد دوسرے ممالک اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر سے ایک مقررہ نسبت پر رکھنے پر مجبور ہو گئے چاہے اس کے لئے انہیں ڈالر خریدنے پڑیں یا بیچنے۔ اس اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ اب دنیا بھر میں کاغذی ڈالر زیر گردش آنے والا تھا۔ اس معاہدے سے امریکی بینکاروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائ میں آ گیا۔


اس معاہدے کی کامیابی کا بڑے زور و شور سے چرچا کیا گیا۔ لیکن جس بات کا چرچا نہیں کیا گیا وہ یہ تھی کہ 35 ڈالر میں ایک اونس سونا خریدنے کا حق عوام کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ حق امریکہ کی طرف سے صرف اور صرف دوسرے ممالک کے سینٹرل بینکوں کو دیا گیا تھا۔ گویا عوام کے لئے صرف کاغذی کرنسی اور امرا کے لئے سونے کی کرنسی طے پائی۔ اس وقت امریکی عوام کو سونا رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
1971 میں ویتنام کی جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت سخت دباو کا شکار تھی اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اپریل 1971 میں جرمنی نے امریکی دباؤ میں آ کر پانچ ارب ڈالر خریدے تا کہ امریکی ڈالر کو سہارا مل سکے۔ مئی 1971 میں جرمنی نے بریٹن ووڈ معاہدے سے ناطہ توڑ لیا کیونکہ وہ گرتے ہوے امریکی ڈالر کی وجہ سے اپنےجرمن مارک کی قیمت مزید نہیں گرانا چاہتا تھا۔ اسکے صرف تین مہینوں بعد جرمنی کی معیشت میں بہتری آ گئی اور ڈالر کے مقابلے میں مارک کی قیمت %7.5 بڑھ گئی۔ امریکی ڈالرکی گرتی ہوئی قیمت دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک نے امریکہ سے سونے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ سویزر لینڈ نے جولائی 1971 میں پانچ کروڑ ڈالر کا 44 ٹن سونا امریکہ سے وصول کیا۔ امریکہ نے سفارتی دباو ڈال کر دوسرے ممالک کو سونا طلب کرنے سے روکنا چاہا مگر فرانس نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے 19.1 کروڑ ڈالر امریکہ سے 170ٹن سونے میں تبدیل کروائے۔ اس طرح امریکہ اور فرانس کے تعلقات خراب ہو گئے جو آج تک بہتر نہ ہو سکے۔ 12 اگست 1971 کو برطانیہ نے بھی 75 کروڑ ڈالر کے سونے کا مطالبہ کر دیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسوقت امریکہ اپنے پاس موجود سونے سے تین گنا زیادہ ڈالر چھاپ چکا تھا۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ رہے ہوں گے۔
1971 تک امریکہ کے پاس موجود سونے کی مالیت صرف 15 ارب ڈالر تھی جبکہ دوسرے ممالک کے پاس 50 ارب امریکی ڈالر کے ذخائر جمع ہو چکے تھے۔ اگر سارے قرضے شامل کر کے حساب لگایا جائے تو اس وقت امریکہ ہر ایک ڈالر کے سونے کے عوض 44 ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔
15 اگست 1971 کو امریکہ اپنے بریٹن ووڈز کے وعدے سے یک طرفہ مکر گیا جسے نکسن دھچکا کہتے ہیں۔ امریکی صدر نکسن نے اعلان کیا کہ اب امریکہ ڈالر کے بدلے سونانہیں دے گا۔  اس وقت تک امریکہ کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر اس کے بدلے عربوں سے اتنا تیل خرید چکا تھا کہ عرب اگر ڈالر کے بدلے سونے کا مطالبہ کر دیتے تو امریکہاپنا پورا سونا دے کر بھی یہ قرض نہ چکا سکتا تھا۔ 1971 کے اس امریکی اعلان سے عربوں کے اربوں ڈالر کاغذی ردّی میں تبدیل ہو گئے۔ قانون قدرت یہ ہے کہ ایک کا نقصان کسی دوسرے کا فائدہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے اس نقصان کا سارہ فائدہ امریکہ کو ہوا۔
بریٹن ووڈز کے معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نکسن نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپکے ڈالروں کی قوت خرید کل بھی اُتنی ہی ہو گی جتنی آج ہے۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ صرف ایک اور سفید جھوٹ تھا۔
بریٹن ووڈز کا معاہدہ توڑنے سے پہلے امریکہ نے چھ بڑے صنعتی ملکوں سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ یہ ممالک بیرونی ممالک سے سونا نہیں خریدیں گے تاکہ سونے کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔

ڈالر سے سونے کا تعلق ٹوٹنے کے بعد 1972 میں جب ایران اور سعودی عرب نے اپنے ڈالروں سے امریکی کمپنیاں خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا تو امریکی حکام نے متنبہ کیا کہ امریکہ اسے اعلان جنگ سمجھے گا۔
بریٹن ووڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ہر ملک کو اپنی مرضی کے مطابق کاغذی کرنسی چھاپنے کا اختیار مل گیا۔ اس طرح 1971 کے بعد ہارڈ کرنسی یا زر کثیف کا دور ختم ہو گیا اور زر فرمان (Fiat currency) نے مستقل جگہ بنا لی۔ لیکن ان 27 سالوں میں امریکہ کا کاغذی ڈالر بین الاقوامی کرنسی بن چکا تھا۔ امریکی بینکار 1944 میں بریٹن ووڈز کے معاہدے میں جو کچھ حاصل نہیں کر سکے تھے وہ اب بڑی حد تک انہیں حاصل ہو گیا۔ سوئزر لینڈ وہ آخری ملک تھا جس نے سنہ 2000 میں اپنی کاغذی کرنسی کا سونے سے ناطہ توڑا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...