’’تاجر پرندوں کی طرح ہوتے ہیں، وہ ہریالی اور بہترین جگہوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لیکن اب وہ افغانستان سے پرواز کر رہے ہیں۔‘‘
افغانستان کے امیر طبقے کی طرف سے دبئی میں جائیداد کی خرید میں ایک واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات ہیں۔ افغانستان کے امیر طبقے کی طرف سے دبئی میں جائیداد کی خرید میں ایک واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات ہیں۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران افغانستان کے امراء کی طرف سے دبئی میں 220 ملین درہم یعنی 60.7 ملین امریکی ڈالر کی سرمایا کاری کی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغانستان کے امیر طبقے کی طرف سے دبئی میں جائیداد کی خرید میں اضافہ دراصل افغانستان میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال ہے۔ رقوم کی بیرون ملک منتقلی
افغانستان کے امیر طبقے کی طرف سے دبئی میں جائیداد کی خرید میں ایک واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات ہیں۔ افغانستان کے امیر طبقے کی طرف سے دبئی میں جائیداد کی خرید میں ایک واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات ہیں۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران افغانستان کے امراء کی طرف سے دبئی میں 220 ملین درہم یعنی 60.7 ملین امریکی ڈالر کی سرمایا کاری کی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغانستان کے امیر طبقے کی طرف سے دبئی میں جائیداد کی خرید میں اضافہ دراصل افغانستان میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال ہے۔ رقوم کی بیرون ملک منتقلی
روئٹرز کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران دبئی میں کی جانے والی سرمایا کاری 2011ء کی پہلی ششماہی کی سرمایا کاری کے مقابلے میں 27 فیصد زائد ہے۔ روئٹرز نے یہ اعداد و شمار دبئی حکام سے حاصل کیے ہیں۔
محمد داؤد بھی ایک ایسے افغان باشندے ہیں، جو دبئی میں جائیداد خرید رہے ہیں۔ کابل میں داؤد نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’کوئی نہیں جانتا کہ 2014ء کے بعد یہاں کیا ہو گا۔ اگر یہاں سکیورٹی کی صورتحال بگڑتی ہے تو میں اپنے کنبے کو دبئی لے جاؤں گا۔ ہم دبئی میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔‘‘
ہر سال افغانستان سے آٹھ بلین ڈالر کی رقوم بیرون ملک لے جائی جاتی ہیں
افغان دبئی کونسل کے چیئرمین حاجی عبید اللہ صدر خیل کہتے ہیں کہ دبئی میں کی جا رہی سرمایا کاری کے حوالے سے موجود اعداد و شمار حقیقت میں چار گنا سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ بہت سی ٹرانزیکشنز رجسٹر ہی نہیں کی جاتیں۔ انہوں نے کہا، ’’میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، جنہوں نے پندرہ سے بیس ولاز خریدے ہیں۔‘‘
ریئل اسٹیٹ ایجنٹس سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق خوشحال افغان شہری دبئی میں لگژری ولاز نقد رقوم کے ساتھ خرید رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکا اور اس کے اتحادی ممالک افغانستان میں حکومت کی رٹ قائم کرنے اور سکیورٹی کو ممکن بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔
مغربی اتحادی ممالک کی پریشانی
یہ اعداد و شمار مغربی اتحادی ممالک کے لیے پریشان کن ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ افغان عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش میں ہیں کہ 2014ء میں نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد نہ تو بین الاقوامی کمیونٹی افغانستان کو تنہا چھوڑے گی اور نہ ہی طالبان کے ساتھ لڑائی میں شدت پیدا ہو گی۔
افغانستان کے مرکزی بینک کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق گزشتہ برس افغان شہری کسٹم حکام کو بتا کر کابل کے ہوائی اڈے سے 4.5 بلین امریکی ڈالر کی رقم ملک سے باہر لے کر گئے۔ افغان حکام کے بقول 2010ء کے مقابلے میں یہ رقم دو گنا ہے۔ بینک کے محتاط اندازوں کے مطابق ہر سال افغانستان سے آٹھ بلین ڈالر کی رقوم بیرون ملک لے جائی جاتی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ رقم افغانستان کے گزشتہ برس کے مالی بجٹ سے تقریباً دگنی ہے۔
ملک میں سرمایا کاری نہ کرنے کی وجہ سے وہاں کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکے گی
افغان حکومت نے اگرچہ رقم کے بیرون ملک لے جانے کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے تاہم بدعنوانی کو روکنے کے سلسلے میں اس سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ افغانستان کے مرکزی بینک کے نائب گورنر خان افضل نے روئٹرز کو بتایا، ’’لوگ ابھی بھی کیش ملک سے باہر لے جا رہے ہیں۔‘‘
بدعنوانی ایک مسئلہ
بکسوں اور سوٹ کیسوں میں رقوم کی بیرون ملک منتقلی کی وجہ سے ایسے خدشات بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ ملکی صدر حامد کرزئی ملک میں پائی جانے والی بدعنوانی کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح افغان سرمایا کاروں کی طرف سے اپنے ملک میں سرمایا کاری نہ کرنے کی وجہ سے وہاں کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکے گی۔ افغانستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کے ملکی بجٹ کے لیے رقوم بڑی حد تک بین الاقوامی ڈونرز مہیا کرتے ہیں۔
افغانستان کے ممتاز تاجر اور چیمبرز آف کامرس کے نائب چیئرمین خان جان الُکوزئی کہتے ہیں، ’’تاجر پرندوں کی طرح ہوتے ہیں، وہ ہریالی اور بہترین جگہوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لیکن اب وہ افغانستان سے پرواز کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے بیشتر تاجروں کو خوف ہے کہ اگر حکومت نے بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تو وہ ان تمام آسائشوں سے محروم ہو جائیں گے، جو انہوں نے حاصل کر رکھی ہیں،’’ان کے لیے یہ ایک اچھا وقت ہے کہ وہ جتنا کچھ ملک سے باہر لے جا سکتے ہیں، لے جائیں۔‘‘
ab / aa (Reuters)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے