ان لوگوں کا تعلق پاکستان کی پڑھی لکھی متوسط طبقے کی شہری آبادی سے ہے. انکا تعلق اس ملک کے ان خوش قسمت لوگوں سے ہے جنکے پاس زبان اور بنیادی سمجھ بوجھ کے بنیادی اوزار موجود ہیں. اور اگر کھلے ذہن سے انکا استمال کریں تو یہ لوگ کائنات کی حقیقت اور اس دنیا کے نظم و ضبط کو سمجھ سکتے ہیں. تو آخر مسلہ کیا ہے ؟ ان لوگوں کا خیال ہے کہ وہ طریقہ جسنے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دی کہ یہ دنیا کیسے چلتی ہے، وہ تو انسانی ایجاد ہے، جو خطاوار اور نااہل ہیں ، لہذا انکی تخلیق ناقص اور بے ڈھنگ ہے. سائنس جس نفاست سے اس کائنات کے بارے میں بیان کرتی ہے، اور ہمارے اعتقادی گمانوں کو چلنج کرتی ہے، اسکو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور اسکو مُضحِکہ خیز انداز میں انتہائی ہٹ دھرمی سے چلینج کیا جاتا ہے.
ان لوگوں میں یہ روایت بن گئی ہے کہ یہ ایک طرف تو سائنس کے اصولوں پر “کافروں” کی بنائی گئی ٹیکنالوجی کا استمال کرتے ہیں اور دوسری طرف بڑی آسانی سے جہالت میں ڈوب کر نچرل سائنسز کو رد کرتے ہیں. لہٰذا یہ کوئی انہونی نہیں ہے کہ آپکو کوئی ایسا شخص ملے جو نظریہ ارتقا، جدید نسلیات یا کائنات کے بگ بینگ ماڈل کو تو رد کرتا ہو مگر اپنی اولاد کی پدریت معلوم کرنے کے لئےاسکا ڈی- این- اے ٹیسٹ کرائے یا پھر جدید دنیا کی وائرلیس ایجادات کا بھرپور استمال کرے جنکی وجودیت کا سہرا طبیعیات کے نظریہ برقی مقناطیسیت کو جاتا ہے.
اس سے زیادہ مضحکہ خیر اور کیا ہوگا کہ ایک مذہبی جنونی انٹرنٹ اور کمپیوٹر کا استمال کرتے ہوے سائنس کی صداقت سے انکار کرے ؟ تشویشناک بات تو یہ ہے ان لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ انکے دعوے کتنے اوٹ پٹانگ اور بیہودہ ہیں. انکو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جی پی ایس آلات، بلیک بیری فون, کمپیوٹر اور شمار کرنے والے تمام تر آلات انجینئرنگ کے شائستہ کارناموں کا مظہر ہیں جن کی بنیاد نیچرل سائنس کی بنیادی پیشگوئیاں اور نظریات ہیں.
آج کے دور کا کوئی بھی شماریاتی آلہ لے لیجئے (جیسے کمپیوٹر یا موبائل فون ) یہ بہت سے مختلف مائیکرو پراسسنگ آلات سے مل کر بنتا ہے. یہ ایک عام سی بات ہے کے آج کے دور کا ایک مائیکرو پروسیسر، جو کہ خود ڈاک کے ایک ٹکٹ جتنا ہوتا ہے، لاکھوں ایمبدڈڈ برقی سوئچوں سے مل کر بنتا ہے اور ایک سیکنڈ میں یوں کروڑوں دفع آن اور آف ہوتا ہے کہ کسی بھی بنیاد پرست کے دماغ کو آسانی سے مشتعل کر دے کیونکہ وہ اس طرح کے اعداد و شمار کا عادی نہیں ہوتا. یہ بڑی قدرتی سی بات ہے کیونکہ ان بنیاد پرستوں کے مطابق تو زمین کی عمر بھی کچھ ہزار سال ہے حالانکہ اسکی اصل عمر اربوں سال ہے.
آج کی یہ سٹیٹ آف دی آرٹ کمپیوٹنگ ٹیکنالاجی یونہی وجود میں نہیں آ گئی. نہ تو یہ درختوں پر اگی تھی اور نہ عرش سے زمین پر اتری. اسکو اڑن طشتریوں میں سفر کرنے والی کسی خلائی مخلوق نے بھی ہم تک نہیں پہنچایا. اسکو سائنسی نظم و ترتیب اورعقل و شعور کے ساتھ بُہَت اِحتیاط اور بارِیک بینی سے بنایا گیا. انکی بنیاد نیچرل سائنس کی چند نہایت اہم دریافتیں ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ قدرت کے سلیکون نامی ایک عنصرکا ردعمل کچھ مخصوص حالات میں کیسا ہوتا ہے. سائنس بیان کرتی ہے کہ اس برقی ردعمل کی وجہ مادے کے مبادی حصے الیکٹران یا برقیہ کا بہاؤ ہے.
اگر ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچ لیا جاے کہ مادے میں الیکٹران نامی کوئی عنصر موجود نہیں ہوتا، یا کہ الیکٹران کے بہاؤ میں کوئی حقیقت نہیں ہے، تو سائنسی علم کی وہ عمارت گر جائے گی جسکی بنیاد پر آج کی یہ دنیا کھڑی ہے. آج کی جدید ٹیکنالوجی کی بنیادیں کھوکلی ہو جایئں گی. لہٰذا، جب بھی کوئی بنیاد پرست اپنے کمپیوٹر سے آنلائن مباحثے میں بڑی ہٹ دھرمی سے جاہلانہ، متکبرانہ اور ختمی نظریہ پیش کرتا ہے کہ سائنس بےبنیاد اور قابل اعتماد نہیں ہے تو وہ خود تضادی اور ذہنی تنزل کی ایک بہترین مثال بنا ہوتا ہے.
اوپر دی گئی مثال کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ کیسے نیچرل سائنس کی درست وضاحتوں اور بلیغ پیشنگویوں کی وجہ سے ٹیکنالوجی وجود رکھتی ہے. اسی دلیل کو اطلاقی سائنسز جیسے کہ میڈیکل سائنس (طب)، میکانیکی اور سطحی انجینئرنگ وغیرہ کو بنیاد بنا کر بھی پیش کیا جا سکتا ہی. لہٰذا جب بھی سائنس کو رد کرنے والا ایک گھمنڈی بنیاد پرست علاج معالجے کے لئے ایک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، ایک پیچیدہ سرجری (جراحی) کے عمل سے گزرتا ہے، موٹر گاڑی چلاتا ہے، ہوائی جہاز پر سفر کرتا ہے، ہوا سدھار (ایئر کنڑشنر) آن کرتا ہے،اپنی پسند کی جہادی تنظیم کے اکاؤنٹ میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے رقم منتقل کرتا ہے یا پھر بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک مسخرے کی بے بنیاد تقریر سننے کے لئے ٹی وی آن کرتا ہے، تو وہ مذہب کے نام پر خود کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے. ایک طرف وہ سائنس کو بےبنیاد اور غلط قرار دیتا ہے اور دوسری طرف یہ سب کر کے وہ ان سائنسی نظریات اور پیشنگویوں کو ضمناً تسلیم کر رہا ہوتا ہے جنکی بنیاد پر یہ ٹیکنالوجی موجود ہے. نیچرل سائنس ان تمام سائنسی عیاشیوں کی ٹھوس بنیاد ہے جنکو یہ ہٹ دھرم اور بدحواس بنیاد پرست بڑے شوق سے اپنی دعوت و تبلیغ میں منافقت کو انجان نوجوانوں تک پھیلانے کے لئے استمال کرتے ہیں.
سائنٹفک میتھڈ یا سائنسی طریقہ کار
سائنٹفک میتھڈ انسانوں کو علم کے گھیرے کو پھیلانے میں مدد کرتا ہے. سائنسدانوں کے اپنائے ہوے یہ طریقے ہمیں کائنات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں. سائنس نہایت شائستگی اور خوبصورتی سےانسانی شعور اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروۓکار لاتی ہے اور ساتھ ہی مشاہدات اور شواہد میں درستگی اور کھرا پن مانگتی ہے. سائنسی طریقہ کار کے اہم نقاط:
1 – فطری یا قدرتی مظہر کا مشاہدہ.2 – مفروضہ قائم کرنا – انسانی دماغ کی تخلیقی صلاحیتوں کا ایک ایسا جمالیاتی نتیجہ جو کہ قدرتی مظاہر کے مشاہدات کو بیان کرے3 – قائم کیے گئے مفروضے کو استمال کر کہ ایک نئے مظہر کی پیشنگوئی یا پھر ماڈل کے ایسے نتائج جنکو پرکھا جا سکے4 – تجربات کی مدد سے پیشنگویوں کو پرکھنا تاکہ مفروضے کو پرکھا جا سکے کہ وہ صحیح ہے یا غلط
اس طریقے کے مسلسل استمال سے، انسانوں نے علم کو دائرے کو اس قدر وسعت دی ہے کہ آج سیکولر اور بنیاد پرست، سب کے لئے بقا کے مواقعے اپنے آباؤاجداد سے کہیں زیادہ ہیں.
سائنس نے بلاشبہ ہمیں نوخیز شرح اموات کو کم کرنے میں مدد کی ہے. اسنے بہتر طبی سہولیات کے سبب ہمیں لمبی اور صحت مند زندگی گزارنے کے قبل کیا ہے. اسنے ہمیں خوفناک توہمات سے باہر نکالا جیسے کہ بوڑھی خواتین کو کم فصلی پیداوار کا ذمےدار ٹھہرا کر جادوگرنی کہ کر زندہ جلانا. آسیب، بھوت پریت اور نحوست بدروحیں جو کہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں طوفان اور سیلاب سے تباہی مچاتی تھیں، ان سب سے سائنس نے ہمیں نجات دلائی. اسی کی بدولت ہم اب نفسیاتی مریضوں کا باقاعدہ علاج معالجہ کرتے ہیں، نہ کہ اپنے آباؤ اجداد کی طرح بھوت پریت پر دم درود. اور یہاں تک کہ اسی سائنس کی بدولت ہم نے الوہی حق کہ کر جابرانہ حکومت کرنے والوں کو چلینج کیا ہے.
سائنس ایک استمراری اور با نظام طریقہ ہے جو کہ نامعلوم پر تفسیش کرنے اور جواب تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے. سائنس مطالبہ کرتی ہے کہ حقائق کا احترم کیا جائے اور اتنی جرّت، ہمّت اور قابلیت پیدا کی جائے کہ دنیا میں موجود ایسے قیاس اور نظریات کو رد کر دیا جائے جنکے خلاف شواہد موجود ہوں.
سب سے اہم یہ کہ سائنس طریقیاتی فطرت پرستی کے اصول پر چلتی ہے، یعنی یہ کائنات، جسکا مطالعہ کیا جانا ہے، وہ مُنحَصَربَہ خُود سسٹم ہے جہاں ہم نامعلوم کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں. مگر اس سسٹم میں جو کچھ بھی نامعلوم رہتا ہے، اسکا تعلق کسی فوقِ الفطرت یا ملکوتی شے سے نہیں ہے. وہ صرف تب تک نامعلوم رہتا ہے کہ جب تک اسکو کھوجا نہ جائے، اس پر تحقیق و تفشیش نہ کی جائے ، اسکی وضاحت نہ تلاش کر لی جائے اور تب وہ دنیا کے با نظم سائنسی مطالعے کی وجہ سے نامعلوم سے معلوم بن جاتا ہے.
اگر سائنسدان بھی اس عادت میں مبتلا ہوتے کہ اپنے کام کے دوران جو سمجھ میں نہ آیا ، جسکی وضاحت معلوم نہ کی جا سکے، اسکو فوقِ الفطرت قرار دے دیتے، تو ہم آج کی دنیا، یہ جدیدیت اور ٹیکنالاجی کبھی نہ دیکھ سکتے. اگر بنجمن فرینکلن اور مائکل فیراڈے نے برقی چارج کو سمجھنے کے لئے تجربات کے بجائے فوقِ الفطرت وضاحتوں پر انحصار کیا ہوتا تو آج کے بنیاد پرست کبھی بھی ٹی وی پر آ کر بےشرمی سے سائنس کی دریافتوں کا انکار نہ کر سکتے. اگر گلیلیو اور بعد میں آنے والے فلکیات کے ماہروں ( جن میں بہت سے مسلم ماہر بھی شامل ہیں ) نے نظام شمسی کو سمجھنے اور اسکا ماڈل بنانے میں مشاہدے کے بجاے روایت پر انحصار کیا ہوتا تو آج کے “سٹیج مسخرے” اپنے مہلک اور غلط دلائل دے کر بیان کر رہے ہوتے کہ صحیفوں کے مطابق کائنات میں سورج سمیت سب کچھ زمین کے گرد گھومتا ہے.
اگر نیوٹن نےاشیا کی حرکت اور انکے زمین کی طرف گرنے کو اس با ترتیب کائنات کے خلقی قوانین کے بجاے ایک الوہی موجودگی سے جوڑا ہوتا، تو ہم میکانیات کے بنیادی نظریات بھی نہ بنا سکتے اور “موسیقار سے بنیاد پرست” بننے والے لاکھوں ڈالر مالیت کی ایس-یو-وی میں سفر کر کے تبلیغ کرنے نہ جا سکتے. حتیٰ کہ کوئی بنیاد پرست موٹر گاڑی نہ چلا سکتا، جہاز کا سفر نہ کر سکتا، نہ ہی ان جہازوں اور گاڑیوں کو امارات سے ٹکرا سکتا کیونکہ کوئی گاڑیاں یا جہاز ہوتے ہی نہ.
جدید فلکیات نے ثابت کیا کہ یہ کائنات انتہانی وسیع ہے. ہم ایک چھوٹے سے سیارے پر رہتے ہیں، جو کہ درمیانی قامت کے ایک ستارے کے گرد گھومتا ہے ، جو ایک ایسی کہکشاں (گلیکسی) کا حصہ ہے جسمیں اربوں ایسے ستارے ہیں. اور یہ بھی یاد رہے کہ ہماری کائنات پھیل رہے ہے یا کہ وسعت پذیر ہے لہٰذا ممکن ہے کہ ایسی کروڑوں کہکشائیں ہوں. اور اس بات کا بھی کم سے کم نظری امکان تو ضرور ہے کہ ایسی بہت سی کائناتیں ہوں. یہ دنیا وہی ہے جو ہمارا دماغ ہمیں دکھاتا ہے. یہ ہماری ذہنی قابلیت اور سوچنے کی صلاحیت ہی ہے جو ہمیں بےجان مادے اور جانوروں سے مختلف بناتی ہے. اس کائنات کی حقیر سی مخلوق ہونے کے ناطے، سوچنے سمجھنے اور کھوجنے کی صلاحیت ہی ہمیں خاص بناتی ہے. یہ نظریہ زندگی کی خوبصورتی کو سراہنے کے نئے دروازے کھولتا ہے. انسان ہونے کے احساس پر عاجزانہ سا فخر کرنا اور دوسرے انسانوں کا احساس اور خیال کرنے کے قابل ہونا کوئی خاص بری بات تو نہیں.
8 اپریل 2009 کو اویس مسعود کے بلاگ The Dissection پر شائع ہوا. روشنی ٹیم نے اکتوبر 2010 میں اردو ترجمہ کیا.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے