بدھ، 19 ستمبر، 2012

جوہری توانائی کی پیداوار: 2030 تک 25% سے 100% اضافہ ہو سکتا ہے۔

مستقبل میں جوہری توانائی کی پیداوار سے متعلق عالمی ایجنسی برائے جوہری توانائی کا اندازہЯпония АЭС Хонсю Ои ядерный реактор 13.08.2004

عالمی ایجنسی برائے جوہری توانائی کا اندازہ ہے کہ 2030 تک دنیا میں جوہری توانائی کی پیداوار میں کم سے کم 25% اضافہ ہو جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ اضافے کا حجم 100% بھی ہو سکتا ہے۔
ان اندازوں پر نگاہ ڈالنے سے پرامن جوری ترقی کے دو امکانات کا منظر نامہ سامنے اتا ہے جو اس نوع کی توانائی کے حق میں دیے گئے تمام دلائل سے ہم آہنگ اور اس سے نالاں لوگوں کے مخالف ہیں۔ البتہ کچھ ایسے عوامل بھی ہیں جو خانگی نوعیت کے ہین اور جن پر توجہ نہ دیا جانا ممکن نہیں ہے، جوہری تحقیق کے کورچاتووسکی انسٹیٹیوٹ کے اہلکار آندرے گاگارنسکی کہتے ہیں:"دنیا میں جوہری برقی توانائی کی پیداوار کو محدود کرنے والا زیادہ اہم عامل چرنوبل اور فوکوشیما جیسے سنگین حادثات کے امکان کا خوف ہے، جو ان سانحات کے بعد بنی نوع انسان میں پیدا ہوا ہے۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اصولی طور پر سستے ایندھن کے طفیل جوہری توانائی نامیاتی ایندھن کی نسبت کہیں سستی پڑتی ہے اور بتدریج اس کی جگہ لے سکتی ہے، جبکہ نامیاتی ایندھن مہنگا بھی ہوتا چلا جائے گا۔
بلاشبہ کثیر سرمائے کے خرچ سے جوہری بجلی گھر تعمیر کیے جانے کی استطاعت سبھی ملکوں کے پاس نہیں ہے تاہم غریب ترین ملکوں کی کوشش بھی یہی ہے کہ ان کے پاس جوہری برقی توانائی ہو تاکہ کم ازکم ملکی سلامتی اور وقار بلند تر ہو۔"
معیشت کے مسائل بھی کچھ اہم نہیں ہیں اور یہی وہ مسائل ہیں جو جوہری برقی توانائی کی پیداوار کی جانب راغب کرتے ہیں، مجلّہ"جوہری حکمت عملی" کے مدیر اعلٰی اولیگ دووئنیکوو نے کہا،"یہ بات سبھی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ مہنگی ٹکنالوجی کو تب اختیار کیا جانا چاہیے،جب عوام اور صنعتوں کے لیے بجلی سستی کی جا سکے۔ بجلی گھر بنایا جانا مشکل عمل ہے۔ جب تک وہ بن کر کام نہ شروع کرنے لگ جائے تب تک معیشت میں پیش رفت ممکن نہیں ہوتی۔"
ایشیا اور بحرالکاہل سے منسلک ملکوں میں کچھ عرصہ بعد نئے جوہری بجلی گھر تعمیر کیے جانے کے بہت زیادہ امکانات ہو سکتے ہیں، آندرے گاگارنسکی سمجھتے ہیں:"ا چین کے جوہری بجلی گھر تعمیر کیے جانے کے سب سے زیادہ اور بڑے منصوبے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان، جنوبی کوریا اور مشرق وسطٰی میں بھی بڑے بڑے منصوبے ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر قدرتی وسائل سے مالامال عرب امارات میں بھی ایسا بجلی گھر تعمیر کیا جانے لگا ہے۔ جنوبی امریکی اور افریقی ملک بھی بتدریج اس جانب آ رہے ہیں ،اگرچہ ان کے لیے یہ منصوبے مالی طور پر مشکل ہیں۔"
ہر جگہ جوہری بجلی گھر نہیں بنائے جانے چاہییں، ہر ملک کے سیاسی حالات کے ارتعاشات کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اسی طرح اس محدود ٹکنالوجی کے انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ جانے کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے، اولیگ دووئنیکوو کہتے ہیں:"آج ویڈیو فلم کے ضمن میں دنیائے اسلام میں ہونے والے ردعمل کے پیش نظر اس پیش رفتہ ٹکنالوجی کے حوالے سے اشتراک عمل بارے سوچے جانے کی ضرورت ہے۔ بہر حال اس سب کو عالمی ایجنسی برائے جوہری توانائی کی زیرنگرانی ہونا چاہیے۔ دنیا میں ایک واحد مرکز ہونا چاہیے جو سلامتی کے معاملے کو یقینی بنائے۔"
بیشک یہ کہنا دشوار ہےکہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں پرامن جوہری ترقی کا زائچہ کیا ہوگا۔ تاہم بدھ کو یہ ضرور پتہ چلا ہے کہ جاپان نے سرکاری طور پر جوہری توانائی سے یکسر انکار کی پالیسی سے رسمی طور پر گریز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صدائے روس

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...