جمعرات، 13 ستمبر، 2012

پاکستان میں دو فیکٹریوں میں لگنے والی آگ کی تحقیقات کراچی اور لاہور میں 3 سو سے زائد مزدور جاں بحق ہو گئے



کراچی – پاکستانی حکومت نے 11 ستمبر کو دو فیکٹریوں میں آگ لگنے کے اسباب کا تعین کرنے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے جن میں بعض مزدوروں کے بچوں سمیت 3 سو سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ آگ لگنے کے یہ واقعات ملک کے دو سب سے بڑے شہروں میں پیش آئے۔


کراچی کے بلدیہ ٹاؤن میں 12 ستمبر کو ایک جلی ہوئی فیکٹری کے باہر امدادی کارکن، صحافی اور مرنے والوں کے رشتہ دار جمع ہیں۔ پاکستانی حکومت نے 11 ستمبر کو دو فیکٹریوں میں آگ لگنے کے اسباب کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ لاہور اور کراچی کی فیکٹریوں میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 3 سو سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے
کراچی کے بلدیہ ٹاؤن علاقے میں واقع علی انٹرپرائزز نامی گارمنٹ فیکٹری میں 11 ستمبر کی شب لگنے والی آگ کے باعث کم از کم 2 سو 89 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ کئی افراد نے جان بچانے کے لیے تین منزلہ عمارت کی کھڑکیوں سے نیچے چھلانگ لگا دی جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہو گئے۔ بلدیہ ٹاؤن سے منتخب ہونے والے ایک رکن پارلیمان خواجہ سہیل منصور نے کہا کہ 20 سے 25 کارکن تاحال لاپتہ ہیں۔

اس سے قبل لاہور میں جوتوں کی ایک غیر قانونی فیکٹری میں آگ لگنے سے کم از کم 25 مزدور جاں بحق ہو گئے تھے۔

ذرائع ابلاغ کی خبروں میں صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کے حوالے سے بتایا گیا کہ صدر آصف علی زرداری نے 12 ستمبر کو ہلاکتوں پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان واقعات کی تحقیقات کا حکم دیا اور پنجاب اور سندھ کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ زخمیوں کے لیے بہترین طبی سہولیات کو یقینی بنائیں۔

وزیر داخلہ رحمان ملک نے 12 ستمبر کو سندھ پولیس کے سربراہ فیاض لغاری کو علی انٹرپرائزز فیکٹری کے مالکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی ہدایت کی تاکہ وہ ملک سے فرار نہ ہو سکیں۔ لغاری نے کہا کہ پولیس فیکٹری مالکان شاہد بیلا اور ان کے دو رشتہ داروں کی تلاش میں شہر میں چھاپے مار رہی ہے۔

رحمان ملک نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ دہشت گردی کے روابط کی بھی تحقیقات کر رہا ہے۔ وزیر اعلٰی سندھ قائم علی شاہ نے کہا کہ حکومت سندھ جاں بحق ہونے والے ہر شخص کے اہل خانہ کو 3 لاکھ روپے (3 ہزار 2 سو ڈالر) اور ہر زخمی کو 50 ہزار روپے (5 سو 30 ڈالر) دے گی۔

جہاں تک لاہور میں لگنے والی آگ کا تعلق ہے تو پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف نے بھی اس کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ایکسپریس ٹرابیون نے 11 ستمبر کو اپنی خبر میں بتایا کہ پنجاب حکومت ہر سوگوار خاندان کو 5 لاکھ روپے (5 ہزار 3 سو ڈالر) دے گی جبکہ ہر زخمی مزدور کو 75 ہزار روپے (8 سو ڈالر) اور علاج کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

کراچی میں لگنے والی آگ
ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے بتایا کہ علی انٹرپرائزز کی تین منزلہ عمارت میں باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا اور بہت سے مزدوروں کو عمارت سے باہر نکلنے کا وقت یا موقع نہیں مل سکا۔

امدادی کارکنوں نے ایک شخص محمد ارشد کو زندہ باہر نکالا جس نے بتایا کہ دو دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں اور پھر چند ہی منٹوں میں فیکٹری کی تمام منزلوں پر دھواں بھر گیا۔

ارشد نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ بہت سے لوگوں کو جان بچانے کے لیے کھڑکیوں سے باہر کودنا پڑا جن میں سے درجنوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔

وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی اس فیکٹری میں مبینہ طور پر 7 سو مزدور موجود تھے۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں 17 خواتین اور سات بچے بھی شامل تھے جو اپنی ماؤں کے ہمراہ فیکٹری آئے ہوئے تھے۔

امدادی کارکنوں کو جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد تک پہنچنے میں انتہائی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور آگ شروع ہونے کے 36 گھنٹوں بعد بھی وہ فیکٹری کے جلے ہوئے حصوں کی تلاشی لے رہے تھے۔

کراچی کے آگ بجھانے والے عملے کے اعلٰی افسر احتشام الدین صدیقی نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود آگ بجھانے والے اہلکاروں نے عمارت کے ہر کونے کی تلاشی لی تاکہ کوئی شخص اندر نہ رہ جائے۔

بیشتر متاثرین ایک تہہ خانے میں دھوئیں کے باعث دم گھٹنے کے نتیجے میں لقمہ اجل بنے۔ صدیقی نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فیکٹری میں کوئی بھی ہنگامی دروازے یا فالتو زینے نہیں تھے اور مرکزی دروازے بند تھے۔

لاہور میں لگنے والی آگ
لاہور کی فیکٹری میں آگ اس وقت لگی جب ایک جنریٹر سے نکلنے والی چنگاریاں جوتے بنانے والے ایک کیمیکل پر جا پڑیں۔ بعض مزدور دم گھٹنے سے مر گئے جبکہ دیگر زندہ جل گئے۔

لاہور میں مقیم ٹریڈ یونین کے ایک رکن اصغر حسین نے جنہوں کا فیکٹری کا دورہ کیا تھا کہا کہ بند روڈ پر واقع دو منزلہ ڈیمانڈ شوز فیکٹری میں داخلے یا اخراج کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔

حسین نے بذریعہ فون سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ فیکٹری کا مالک رجب علی اور اس کا بیٹا عیسٰی آگ بجھانے کی کوشش میں جاں بحق ہو گئے۔

ڈیلی ٹائمز نے 13 ستمبر کو اپنی خبر میں بتایا کہ آگ لگنے کے بعد لاہور میں بہت سی غیر قانونی فیکٹریوں اور چھوٹی صنعتی انٹرپرائزز کے مالکان نے ضلعی حکام کی کارروائی کے خوف کے باعث انہیں بند کر دیا۔

ملازمت کی جگہ پر تحفظ
مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دو سانحات کے بعد کم لاگتی گارمنٹ اور ٹیکسٹائل کی برآمدات پر انحصار کرنے والے اس ملک میں ملازمت کی جگہ پر تحفظ کے کمزور انتظامات پر توجہ مرکوز ہو جائے گی۔

مزدوروں کے حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ایک عہدیدار شرافت علی نے کہا کہ برقی ضوابط 1973 کے مطابق ہر فیکٹری انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ متعلقہ محکمے سے اپنے بجلی کے آلات اور دیگر ساز و سامان کی تصدیق کرائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کام کی جگہ پر خطرات کا خاتمہ، کمی یا کنٹرول کیا جا سکے۔

علی نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی فیکٹری میں آگ اس وجہ سے لگی کہ وہاں کوئی حفاظتی انتظامات نہیں تھے، ہنگامی صورت حال میں باہر نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ تمام لوگ اندر پھنس گئے۔

انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2008 میں پاکستان میں ہونے والے صنعتی حادثات کی تعداد بڑھ کر 4 سو 19 ہو گئی جبکہ اس کے مقابلے میں 2000 میں یہ تعداد 3 سو 54 تھی۔ سال 2011 میں ہلاکت خیز حادثات کی تعداد 1 سو 1 تک جا پہنچی۔ گزشتہ سال فروری میں لاہور کی ملتان روڈ پر واقع ادویات تیار کرنے والی ایک فیکٹری میں غالباً بوائلر یا گیس سیلنڈر کے باعث ہونے والے دھماکے میں 23 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

کراچی میں مقیم صحت اور تحفظ کے امور کے ایک تجزیہ کار محمد سلیم نے کہا کہ غیر مؤثر نگرانی کے باعث بہت کم کاروباری ادارے حفاظت اور آگ کی صورت میں ہنگامی اخراج کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔

سلیم نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بیشتر فیکٹریوں اور خریداری مراکز میں تحفظ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے جس کا حکام کو سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے ورنہ مستقبل میں اس سے بھی سنگین سانحات ہو سکتے ہیں۔
 ضیاء الرحمٰن

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...