جمعرات، 13 ستمبر، 2012

قازقستان افرادی قوت کے حصول کے لئے روس کے ساتھ مسابقت پر پرعزم



یوں لگتا ہے کہ قازقستان نے اہل پیشہ ور کارکنوں کے لئے اپنے نزدیک ترین ہمسائے روس کے ساتھ مسابقت شروع کردی ہے۔ دونوں ملکوں کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اب تک قازقستان کا پلہ بھاری ہے۔ وسطی ایشیائی جمہوریہ کی جانب سے آنے والی پیشکشیں کسی حد تک زیادہ دلکش ہیں اور وہ اپنے پیشہ ور کارکنوں کو تربیت دینے کے معاملے میں کہیں بہتر ہے۔

سقوط سوویت یونین کے بعد ناتجربہ کار آزاد جمہوریاؤں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں کمزور اقتصادی صورت حال کے باعث آبادی میں اضافے کی سطح میں کمی اور ملک سے ذہین اور باکمال طبقے کی بیرون ملک نقل مکانی شامل تھے۔ اندازہ ہے کہ 1990 کی دہائی میں 30 لاکھ کے قریب نسلی جرمن باشندے قازقستان کو چھوڑ کر چلے گئے اور 40 لاکھ سے زائد روسی اپنے تاریخی آبائی وطن واپس لوٹ گئے۔ ملک چھوڑنے والے ان لوگوں کا تعلق متوسط طبقے سے تھا اور ان میں سے بیشتر اعلٰی تعلیم یافتہ اور اہل پیشہ ور افراد تھے۔

اس کے ردعمل میں، قازقستانی حکام نے 1917 کے اکتوبر انقلاب سے قبل قازقستان چھوڑ جانے والے قازق النسل افراد کی واپسی کی حوصلہ افزائی کا ایک پروگرام اختیار کیا۔ یہ متمول قازق افراد تھے جنہوں نے اس وقت سوویت افواج کی مخالفت کی تھی۔ تاہم اس حکمت عملی سے صورت حال کا کوئی بہتر حل نہیں نکلا: چین، منگولیا اور ازبکستان سے 20 لاکھ کے قریب قازق باشندے واپس لوٹ آئے۔ واپس آنے والے بیشتر افراد (قازق زبان میں 'اورلمینی') معاشی تارکین وطن تھے جن کی واپسی کی خواہش کا محرک قازقستان لوٹ کر اپنی مالی حالت سدھارنا تھا۔

افرادی قوت کی صورت حال آبادی میں (ناکافی) قدرتی اضافے کے موجودہ مسئلے میں اضافہ کرتی ہے۔ اس نے روس اور قازقستان دونوں کو کئی لحاظ سے ایک ہی طرح متاثر کیا ہے۔ تاہم، قازقستان کے طویل المیعاد تحقیق انسٹیٹیوٹ کی ڈپٹی ڈائریکٹر مریم ابی شیفا کا کہنا ہے کہ ملک مشکلات سے بہتر انداز سے نمٹ رہا ہے مگر اسے ابھی سقوط سوویت یونین سے قبل پائے جانے والے آبادی میں اضافے اور مجوعی متوقع عمر سے مطابقت حاصل کرنی ہے۔ "سوویت ایام میں صحت سروس اور معیار زندگی کے تمام اشاریے بلند تھے،" انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔

ابی شیفا نے مزید بتایا کہ جدید ترین طبی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف روس، قازقستان سے کافی کچھ سیکھ سکتا ہے جو کہ اپنی زیادہ تر سرمایہ کاری پیشہ ور افراد کی تربیت پر مرکوز کرتا ہے۔ اپنے شمالی ہمسائے کے برعکس، قازقستان میں ایک ریاستی تعلیم کا پروگرام، 'بولاشک' پروگرام، چل رہا ہے جس میں طلباء کو تربیت کے لئے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔ انگریزی میں 'بولاشک' کا مطلب 'مستقبل' ہے۔

یہ پروگرام قازقستان کے صدر کی مالی اعانت سے قائم کیا گیا ہے اور اس میں ہر برس 3,000 طلباء اور طالبات ممتاز غیرملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک جاتے ہیں۔ وہ عام طور پر امریکا، یورپ اور ایشیا میں قائم عالمی شہرت یافتہ تعلیمی مراکز کا انتخاب کرتے ہیں۔ مزید برآں، صدارتی امداد پر ایک کوٹہ نظام کا نفاذ کیا جاتا ہے، اوسطاً تقریبا ً6000$ [امریکی ڈالر] سالانہ، جس کا انحصار ملک کے کسی مخصوص شعبے میں اہل پیشہ وروں کی ضرورت پر ہے۔

فی الوقت، قازقستانی حکام نوجوان ڈاکٹروں، انجنئیروں اور زراعت کے ماہرین کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پروگرام کے پس پردہ افراد کا خیال ہے کہ قازقستان کی روزگار کی مارکیٹ میں اس وقت قانونی اور اقتصادی ماہرین کی تعداد ضرورت سے تجاوز کر چکی ہے۔ "میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے صدارتی پروگرام کے تحت تین برس ماسکو میں تعلیم حاصل کی" ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری کے سند یافتہ اور بولاشک پروگرام کے تحت امداد وصول کرنے والے سرجے ریویاکن نے بتایا۔ "اب جبکہ میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے والا ہوں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جمہوریہ کے پیشہ وروں کی تربیت میں صدارتی امداد ایک بیش قیمت سرمایہ کاری ہے۔ سب سے پہلے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نوجوان افراد سکون سے رہ سکتے ہیں۔ آپ تعلیم کے لئے اپنے ادارے اور ملک کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ چونکہ میں انگریزی نہیں بول سکتا تھا لہٰذا مجھے روس آکر تعلیم حاصل کرنا پڑی۔"

ریویاکن نے بتایا کہ امداد وصول کرنے والوں کو اپنی تعلیم کی تکمیل پر ملازمت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ "ہمارے ساتھ قازقستان میں چھ برس تک لازمی ملازمت کرنے کا معاہدہ کیا جاتا ہے. صدر نذر بائیف کی بولاشک پروگرام کے فارغ التحصیل افراد پر مسلسل توجہ ہمارے لئے انتہائی مددگار ہے۔" یہ بات مشہور ہے کہ قازقستان کے سربراہ مملکت اپنے پروگرام کے فارغ التحصیل افراد کے مستقبل کو فروغ دینے کے لئے ذاتی طور پر مداخلت کرتے ہیں۔ قومی ایجنسی برائے سرکاری ملازمت گابیدولا ابراخیموف کی زیر قیادت کام کررہی ہے جو کہ خود بھی اس پروگرام کے فارغ التحصیل ہیں۔ صدر کے پروٹوکول کے سربراہ، بارزہان بیبک، بھی ایک جرمن انسٹیٹیوٹ کے فارغ التحصیل ہیں۔" افرادی قوت کی شرح میں اتار چڑھاؤ سرحدی علاقوں کو خالی کرنے کے لئے کافی ہے۔ قازقستان اور روس دونوں کو افرادی قوت کی کمی کے ایک جیسے انتہائی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ماسکو اور آستانہ کو اس صورت حال سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ اور یوریشیائی اقتصادی کمیونٹی کی سطح پر افرادی قوت کی نقل مکانی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ ازبکستان، کرغزستان اور تاجکستان سمیت افرادی قوت فراہم کرنے والے دیگر ممالک کا دعوٰی ہے کہ وہ آجر ممالک کے ساتھ معاہدے کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے کسی بھی متعلقہ دستاویز پر دستخط نہیں کیے۔ کارکن خود بھی موجودہ صورت حال سے خوش ہیں جہاں وہ اپنی کمائی گئی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اپنے آبائی وطن واپس بھجوا دیتے ہیں۔ اس کا ان کے آبائی ملکوں کی خام ملکی پیداوار میں ایک غیر معمولی حصہ ہے۔

2008 کے آغاز میں، روس کی وفاقی ترک وطن سروس (FMS) نے بیرون ملک سے آنے والے تارکین وطن کے لئے کوٹہ مقرر کردیا ہے۔ سال کے اختتام تک، یہ زیادہ سے زیادہ 20 لاکھ تارکین وطن کارکنوں کو قبول کرے گی، جو کہ 2007 میں ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد کا ایک تہائی ہے۔ سرکاری سطح پر اس کم تعداد کے داخلے کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر تارکین وطن ماسکو یا سینٹ پیٹرسبرگ جیسے شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں ان سب خواہش مندوں کے لئے جگہ ناکافی پڑ جاتی ہے۔

دوسری جانب قازقستان تارکین وطن کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ جب روسی کوٹہ میں کمی کررہے تھے تو حکومت قازقستان نے اس میں اضافہ کردیا تاکہ بیرون ملک سے غیر ملکی کارکنوں کو راغب کیا جاسکے۔ ایک حکومتی فرمان کے ذریعے، موجودہ برس کا کوٹہ جمہوریہ کی کام کرنے والی آبادی کے 1.6 فی صد کے مساوی ہے۔ ان میں سے، 0.6 فی صد پہلے اور دوسرے زمرے کے کارکن (منیجران اور متوسط تعلیم کے حامل ماہرین) ہیں؛ 0.93 فی صد زمرہ 3 (ماہر پیشہ ور) میں ہیں؛ اور 0.07 فی صد کا تعلق زمرہ 4 (کھیتوں میں موسمی مزدوری کرنے والوں) سے ہے۔ اس کوٹہ کا ہندسوں میں تخمینہ لگانے کے لئے، اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ فی الوقت کتنے قازق افراد اس وقت برسر روزگار ہیں۔ حکومت کے مطابق، ان کی تعداد 80 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس سے مراد ہے کہ قازقستان میں تقریباً 128,000 غیر ملکیوں کی گنجائش ہے۔
انور رائیموف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...