منگل، 11 ستمبر، 2012

پینے کے پانی کو ضائع کرنا کفرانِ نعمت ہے



ساؤتھ ڈکوٹا سانولےاور زرد رنگ والے پہاڑوں کے باعث شہرت رکھتا ہے، جب کہ تمام سمتوں میں میلوں تک کے رقبے میں پائن رِج رزرویشن کے گِرد زرعی زمینیں پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن، اس بار یہ سر سبز نہیں ہیں، کیونکہ زیادہ تر ملک کی طرح، اس سال یہ علاقہ بھی قلتِ باراں کا شکار ہے




واشنگٹن
​​ 

وائٹ پلم رینچ کے علاقے میں اتوار کا ایک خوشگوار دِن تھا جب ڈکوٹا کے کچھ نوجوان مرد و خواتین مکان کی چھت کے ساتھ تالاب کے پائپ کو جوڑنے کا کام کر رہے تھے۔اُن میں سے ایک جان روز تھے جنھیںWaves for Water کے بانیکے طور پر جانا جاتا ہے۔

اُن کے بقول، یہ ایک غیر منافعہ بخش تنظیم ہے جس کی اغراض و مقاصد میں دنیا  کے مختلف مقامات پر پینے کے پانی کی رسد کو محفوظ بنانا اور رسد پہنچانا شامل ہے۔ جان روز نے بتایا کہ اُن کی تنظیم 13ممالک میں مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے، جِن میں پاکستان سمیت بھارت، افغانستان، انڈونیشا، برازیل اور نکاراگوا شامل ہیں۔ اور یہ فہرست بہت طویل ہے۔وہ ایک سابق Surfer ہیں جنھوں نے 13برسوں تک دنیا کی سیر کی اور اُنھیں ادراک ہے کہ کئی  ایک ملکوں میں صاف پانی ایک بڑا مسئلہ ہے۔اُنھوں نے 2009ء میں Waves for Water نامی تنظیم کا آغاز کیا۔
اُن کی کمپنی وائٹ پلم  کے رہائشی علاقے میں واقع ہے جس کا کام نشیبی خطوں میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا نظام وضع کرنا ہے جو کسی خاندان کے لیے صاف پانی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنے۔
اُن کے علاقے میں یورینیئم کی کانوں کے باعث کئی سالوں سے پائن رِج کے کنووں کا پانی آلودہ ہو چکا ہے۔روز کہتے ہیں کہ، ہماری تنظیم دنیا بھر کے ملکوں میں کئی مقامات پر پانی کو فلٹر کرنے کا کام کرتی ہے۔ اُن کے والد، جیک روز، بارش سے اکٹھا ہونے والے پانی کو محفوظ بنانے کے کام میں شہرت رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ فلٹر کا نظام آسانی سے نصب کیا جاسکتا ہے۔

جس چیز کی ضرورت پڑتی ہے وہ ہے ایک چھت، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے پائپ، ایک ٹینک اور پائپ۔ 
اِس انتظام سے اکٹھا کیے جانے والے پانی کو خشک سالی کے آڑے وقت استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اگر 2.5سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے تو اِس سے اتنا پانی جمع کیا جاسکتا ہے جس سے 2000لٹر صاف پانی حاصل ہو سکے۔  

رینچ کے مالک ، ڈیب پلوم کا کہنا ہے کہ یہ نظام اپنانا ’مرضی نہیں ضرورت ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ  عام حالات میں ہم پانی کا مجرمانہ طور پر غیر ضروری استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہم پانی کو ضائع کرتے ہیں۔ اور پھر امریکہ میں ہم انتہائی غلط کام یہ کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں آنے والے صاف پانی کا چوتھائی حصہ تو ہم صرف ٹائلیٹس کے فلش پر استعمال کر دیتے ہیں۔

اُن کی پوتی، بروکلین ڈنر میں استعمال ہونے والی پلیٹوں کو کنویں کے پانی سے دھو رہی ہیں۔ پلوم کہتے ہیں کہ کسی بھی ذریعے سے حاصل شدہ پینے کا صاف پانی ایک ایسی دولت ہے جسے کسی طور ضائع کرنے کی عیاشی کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...