اس حکومتی پالیسی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تھائی لینڈ چاول کی برآمدات کے حوالے سے پہلے سے تیسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ دارالحکومت بنکاک کے شمال میں واقع صوبے پاتھوم تھانی میں فصل کی کٹائی جاری ہے۔ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے سیلاب آنے کا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے فصلوں کی کٹائی میں جلدی سے کام لیا جا رہا ہے۔
یہاں کے ایک پینتالیس سالہ کسان سُلاسک مونتیمُون کہتے ہیں کہ ہر سال ہی سیلاب کا خطرہ موجود رہتا ہے لیکن حکومت نے بچاؤ کے بہتر انتظامات کر رکھے ہیں اور یہ کہ حکومت کی طرف سے انہیں چاول کی خریداری پر، مقامی مارکیٹ کی نسبت، فی ٹن پچاس فیصد زائد رقم ادا کی جاتی ہے۔ ’یہ حکومتی اقدام انتہائی اچھا ہے، اب پیسہ آڑھتیوں کی بجائے سیدھا ہماری جیب میں آتا ہے۔‘
برسر اقتدار جماعت Phuea Thai Partei نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی کسانوں کو مراعات دی جائیں گی۔ اب آڑھتی اور برآمدکنندگان تو فارغ بیھٹے ہیں لیکن حکومتی گودام چاولوں سے بھر چکے ہیں۔ بنکاک میں ’رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن‘ کے سربراہ Chookiat Ophaswongse کہتے ہیں، ’’حکومت کی طرف سے کسانوں کے لیے پچاس فیصد اضافی رقم مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اس سے ہماری مقابلہ بازی کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ تھائی لینڈ سالانہ بیس ملین ٹن چاول پیدا کرتا ہے۔ دس ملین ٹن سے ملکی ضروریات پوری کی جاتی ہیں جبکہ دس ملین ٹن برآمد کر دیے جاتے ہیں لیکن اتنی زیادہ قیمت پر نہیں، جتنی حکومت کسانوں کو ادا کر رہی ہے۔ مارکیٹ میں ہمیں بھارت اور ویتنام جیسے مضبوط حریفوں کا سامنا ہے، جو پہلے ہی ہمیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔‘‘
رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ کے مطابق ان کے پاس کچھ بیچنے کو نہیں ہے اور حکومت کم قیمت پر چاول بیچنا نہیں چاہتی اور اس وجہ سے ملک میں بھی اس جنس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
تھائی رائس فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ ایک برس میں تھائی لینڈ کی چاول کی برآمدات چوالیس فیصد کم ہوئی ہیں اور دس ملین ٹن چاول حکومتی گوداموں میں پڑے ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کے مطابق اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ہمسایہ ملکوں سے بھی چاول اسمگل کرتے ہوئے تھائی لینڈ لائے اور حکومت کو بیچ دیے جائیں گے۔ اس طرح بین الاقوامی سطح پر بھی چاول کی قیمت بڑھ سکتی ہے۔
بنکاک یونیورسٹی کے پروفیسر Pitch Pongsawat کہتے ہیں کہ چاولوں کی سیاست نہ صرف ایک معاشرتی بحران کھڑا کر سکتی ہے بلکہ ملکی حکومت بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ حکومتی گوداموں میں ذخیرہ شدہ چاولوں کی کوالٹی زیادہ پرانے ہو جانے کی وجہ سے خراب ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی ’چاولوں کی سیاست‘ جاری رکھنا چاہتی ہے۔
ڈوئچے وَیلے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے