پاکستانی سیاست میں جاری شعلہ بیانی کے دوران سربراہوں کے تیور دیکھ کر کوئی بھی دیکھنے والا یہ ماننے کو تیار ہو جائیگا کہ کسی میکاولی قانون کی مانند طاقت ہی سب کچھ ہے۔
مگر سیاسی سرکس میں ایک ناممکن کارنامے سے دوسرے تک وقت کساتھ معزول وزیراعظموں اور اداروں کے تصادم کی خبروں کے بیچ ریاست کے نظرانداز کردہ ان خاموش مظلوموں کی داستانیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں جن کی فلاح و بہبود ریاست کی ذمے داری ہے۔
پچھلے ہفتے،یہ جان کر پاکستانیوں کے ہوش اڑگئے کہ طاقتور گروہوں کے مذموم مقاصد سے تباہ شدہ مزدوروں کی جانچ کے نظام نے اڑھائی سو سے زائد افراد کو اسطرح موت کے گھاٹ اتار دیا جسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسی دوران بارشوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کردیں،خاص طور پر بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں۔ بلوچستان کے صرف دو اضلاع یعنی نصیرآباد اور جعفرآباد میں ہی چھ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
توقعات کے عین مطابق،نقصان ہوجانے کے بعد ریاست خاموشی سے امدادی کوششوں میں مصروف ہے۔ کیا ریاستی انتظامیہ ایمانداری سے یہ کہہ سکتی ہے کہ بارشوں سے جڑی تباہی سے نمٹنے کیلئے قبل ازوقت ہر ممکنہ تیاری کی جاچکی تھی؟پچھلے دو برسوں کے تجربات کے تحت ، ریاست کو مزید بہتر طور پر تیار ہونا چاہئے تھا ، خاص طور پر لوگوں کے انخلاء اور کیمپوں کی منصوبہ بندی ، مستقبل کی ضروریات کے مطابق راشن کے ذخیرے اورایک مربوط شدہ حفاظتی حکمت عملی کیلئے۔
اسکے برعکس نظر یہ آرہا ہے کہ معمو ل کے مطابق مختلف ایجنسیاں بشمول فوج،وفاقی و صوبائی ڈزاسٹرمینجمنٹ سیل وغیرہ اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں مگر یوں جیسے انہیں گہری نیند سے جگا دیا گیا ہو۔کئی برسوں سے آب و ہوا میں تبدیلی یا کلائمٹ چینج کے بارے میں تنبیہات موجود ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان پر بھی انکا اثر پڑیگا۔
ملک کو لگاتار تیسرے برس میں ایک اور تباہ کن مون سون کا سامنا ہے۔ محکمہ موسمیات رواں ہفتے کے دوران ملک کے شمالی علاقاجات میں تیز بارشیں ہونے کی پیشین گوئی کر چکا ہے اور پانی جنوب کا رخ کریگا۔ آنے والی طغیانی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے کیلئے ابھی بھی اگلے ہفتوں اور مہینوں کا وقت موجود ہے۔بہترطریقہ کار اور نظام کو جلد از جلد لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک وہ تربیت یافتہ ، ضروری سامان سے لیس اور اپنے کام میں دلچسپی نہ رکھیں اس سے قبل ہنگامی حالت میں کام کرنے والے اداروں کا قیام ناکافی ہی رہے گا۔
کئی ممالک میں موثر ترین طریقہ یہی دیکھا گیا ہے کہ ایسے معاملات میں مقامی قیادت اور علاقائی منتظمین کو بحالی کے عمل میں استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ زمینی حقائق اور معلومات کی روشنی میں علاقے کی فلاح کیلئے کام کرسکیں۔ کیا سیاست بازی کو تھوڑی دیر کیلئے موقوف کرکے سیاسی اشرافیہ سے ملک کے لاکھوں بے سہارا افراد کی فلاح کیلئے جمع ہوجانے کا مطالبہ غیر ضروری ہوگا ؟
ڈان اخبار
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے