بدھ، 19 ستمبر، 2012

اعلٰی عہدوں والی خواتين ميں کچھ غرور ضروری ہے


جرمنی ميں تقريباً ہر شعبے ميں خواتين کو نماياں نمائندگی دينے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس مناسبت سے خواتين ميں اونچے اور سربراہانہ عہدوں پر کام کرنے کے ليے ايک قسم کا غرور بھی ہونا چاہيے۔
جرمنی کے صنعتی کاروباری اداروں کو مشورے فراہم کرنے والے پيٹر موڈلر کا کہنا ہے کہ مرد اُس طرز عمل کو بالکل نارمل سمجھتے ہيں جسے بہت سی خواتين غير مہذب يا بہت سخت محسوس کرتی ہيں۔ اس سلسلے ميں مردوں کے جوان يا معمر ہونے کی کوئی اہميت نہيں ہے۔
مردوں اور عورتوں کی صرف جسمانی بناوٹ ہی ايک دوسرے سے مختلف نہيں بلکہ وہ نفسياتی اور جذباتی لحاظ سے بھی ايک دوسرے سے بہت مختلف ہيں۔ عورتوں کا کسی بات پر رد عمل اور اس سے متعلق جسمانی حرکات و سکنات بھی مردوں سے بہت مختلف ہوتی ہيں۔
پيٹر موڈلر اونچے عہدوں والی خواتين کو غرور کی تربيت ديتے ہوئے
پيٹر موڈلر اونچے عہدوں والی خواتين کو غرور کی تربيت ديتے ہوئے
پيٹر موڈلر کا کہنا ہے کہ کيونکہ اکثر اونچے عہدوں پر مرد ہی فائز ہيں اس ليے عورتوں کو يہ معلوم ہونا چاہيے کہ اُن کو ان اداروں ميں کس طرح کام کرنا چاہيے۔ موڈلر کے خيال ميں ايک ايسا ادارہ زيادہ کامياب ہوتا ہے جہاں عورتيں اور مرد دونوں کام کرتے ہوں۔
57 سالہ پيٹر موڈلر اس موضوع پر ايک کتاب ’غرور کا اصول‘ لکھنے کے علاوہ اب تک 3000 عورتوں کو تربيت دے چکے ہيں کہ وہ کس طرح اونچے عہدوں پر کام کرنے کے ليے بوقت ضرورت ’غرور‘ کا ہتھيار استعمال کر سکتی ہيں۔ انہوں نے کہا: ’’عام زندگی ميں غرور کو ميں بھی اسی طرح برا سمجھتا ہوں جيسے کہ بہت سے دوسرے لوگ۔‘‘ اُن کا کہنا ہے کہ وہ اونچے غہدوں پر فائز خواتين کو جس قسم کے غرور کا مشورہ ديتے ہيں وہ بعض صورتوں ميں ايک ہتھيار کے طور پر ’غرور‘ کا استعمال ہے۔ يہ وہ صورتيں ہوتی ہيں جب کوئی اُن کی بات پر دھيان نہ دے رہا ہو يا دوران گفتگو اُن کو سنجيدگی سے نہ ليتے ہوئے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
اس سلسلے ميں امريکی ماہر سماجيات ڈيبرا ٹينن کا حوالہ بھی ديا جاتا ہے۔ اُن کے مطابق عورتيں دوران گفتگو ہم آہنگی، برابری کی سطح اور مساوی حيثيت پر زيادہ زور ديتی ہيں جبکہ مرد ايک واضح نظام مراتب کو زيادہ اہم سمجھتے ہيں جس ميں اپنے دائرہء اثر کو منوانے کے ليے بار بار کشمکشيں ہوتی ہيں۔ اکثر مرد اس دوران اپنی جسمانی حرکات و سکنات سے بھی کام ليتے ہيں۔
45 سالہ باربرا ايک سماجی ادارے کی سربراہ ہيں۔ انہوں نے شہر کولون ميں پيٹر ڈوملر کے سمينار ميں شرکت کے بعد کہا کہ وہ اب دفتر ميں اپنے انداز ميں تبديلی لائيں گی۔ وہ مختصر بات کريں گی اور آہستہ۔ وہ ميٹنگ کے کمرے ميں دُبکے نہيں بلکہ خود اعتمادی کے انداز ميں اپنی کرسی کی طرف بڑھيں گی اور جارحانہ انداز ميں شرکا سے مخاطب ہوں گی۔ وہ يہ اشارہ ديں گی: ’ميں موجود ہوں اور اب يہ ميرا اسٹيج ہے۔‘ يہی وہ غرورآميز رويہ ہے جس کا مشورہ پيٹر موڈلر اعلٰی عہدوں پر فائز خواتين کو ديتے ہيں۔
A.Grunau,sas/A.Lichtenberg,ia

ڈوئچے ویلے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...