ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

انڈونیشیا کی اسلامی ریاست اور اسلامی اصولوں کا تقابل

انڈونیشیا کی اسلامی ریاست اور اسلامی اصولوں کا تقابل
از بلیک ریسپینی اور ہرڈی سحراسد
سان فرانسسکو، کیلی فورنیا / جکارتہ: ریاست میں اسلام کے خصوصی کردارکو تسلیم کرنا انڈونیشیا کے جمہوری مستقبل کا ایک اہم عنصر ہے۔ چونکہ بیشتر انڈونیشی مسلمان چاہے اسلامی ریاست تشکیل دینے کے حق میں نہ بھی ہوں تو بھی چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت اسلامی رسومات کا احترام کرے اس لئے اسلامی قانون کی تائید اور مخالفت کے درمیان موجود امتیازی لکیر اکثر دھندلا جاتی ہے۔
بہت سے انڈونیشی باشندے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو صرف نام کی حد تک مسلمان ہیں، قدامت پسند اقدار کے حامل ہیں اور سخت اخلاقی قوانین کے حامی ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ انہیں خالصتاً مذہبی یا شرعی یعنی اسلامی اصولوں پر مبنی سمجھتے ہوں۔ یہ بہت آسان ہے کہ کسی قدامت پسند اخلاقی قانون کی حمایت کو غلطی سے سیاسی اسلام کی حمایت سمجھ لیا جائے حالانکہ یہ رویّہ محض بنیادی قدامت پسند اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔
اسی طرح انڈونیشیا کے بہت سے مسلمان بعض ایسے سماجی انتظامات اور رواجوں کو مسترد کرتے ہیں جنہیں مغرب میں بالعموم جمہوریت سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ ان میں ہمارا کثرتیت اور سیکولر ازم کا انداز بھی شامل ہے۔ لیکن اس سے وہ مذہب پرست نہیں بن جاتے اور نہ ہی انہیں جمہوریت دشمن قرار دیا جا سکتا ہے۔
سیاسی مباحثوں کا موضوع اکثر اسلام پسندوں اور غیر اسلام پسندوں کا موازنہ ہوتا ہے لیکن ان کے درمیان امتیازی لکیریں اس سے کہیں زیادہ مبہم ہیں اور جمہوری گفت وشنید میں تمام فریقوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ مِل بیٹھ کر کامن گراؤنڈ تلاش کر سکیں۔
اس حوالے سے سِڈنی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی اور اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر احمد شبول ہمیں یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا اور اسے عمومی طور پر معاشرے سے باہر نکالنا دو مختلف باتیں ہیں اور مغربی دنیا کی سب سے سیکولر حکومتوں نے بھی کبھی مذہب کو معاشرے سے باہر رکھنے کی کوشش نہیں کی۔
ڈاکٹرشبول کہتے ہیں کہ عرب سیاست کو سیکولرائز کرنے کی امریکی کوششوں کے نتیجہ میں ممکنہ طور پر ردعمل نے سیاسی اسلام کے فروغ میں کردار ادا کیا ہے۔ مغرب والے اگر یہ یاد رکھیں تو بہتر ہوگا کہ جمہوری معاشرے کی ایک سے زیادہ شکلیں بھی ہو سکتی ہیں۔
درحقیقت ہمیں یہ یاد رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ مغرب میں بھی اس حوالے سے بے شمار آرأ موجود ہیں کہ جمہوریت دراصل ہوتی کیا ہے اور یہ اندازِ فکر وقت گزرنے کے ساتھ بہت بدل چُکا ہے۔
جیسا کہ بوسٹن یونیورسٹی میں بشریات کے پروفیسر اور ثقافت، مذہب اور عالمی امور کے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رابرٹ ڈبلیو ہیفنر نے نشاندہی کی ہے مغربی ثقافت کی مرکزی بنیاد کبھی کُنبے کو سمجھا جاتا تھا لیکن آج شخصی آزادی کو خاندان کی یکجہتی پر فوقیت دی جاتی ہے۔ مزید برآں کُنبے کے تصوّر کی بھی از سرِ نو تعریف وضع کی جارہی ہے کیونکہ امریکی شہری مقامی شراکت، سول یونین اور ہم جنس پرستوں کی شادیوں جیسے کئی دیگر انتظامات کو بھی اہمیت دینے لگے ہیں۔
بہت سی مرکزی اقدار پر ہمارے اتفاق رائے کے باوجود مغربی معاشرے انفرادی حقوق اور کمیونٹی کی ضروریات، مساوات اور آزادی یہاں تک کہ سیاست میں مذہب اور اخلاقیات کے کردار کے درمیان مناسب توازن قائم کرنے کے ضمن میں شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ جس طرح مغرب کے مختلف جمہوری معاشرے ان میں سے ہر ایک کی کسی حد تک مختلف طریقے سے تشریح کرتے ہیں بالکل اسی طرح مسلم جمہوریاؤں میں بھی کثرتیت کا اپنا الگ انداز ہو سکتا ہے۔
شریعت کی بنیاد پر قانون سازی کی منظوری پر جاری بحث انڈونیشیا میں اپنی جمہوریت کی بنیادی صُورت سے متعلق انتہائی مرکزی سوالات کا احاطہ کرنے میں دلچسپی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس بحث کا محور یہ نہیں کہ شریعت اچھّی ہے یا بُری بلکہ یہ ہے کہ اس کا صحیح مفہوم کیا ہے، اس کا ریاست سے کیا تعلق ہے اور اس طرح پانچاسِلا کے قومی نطریے کے ساتھ کیا رِشتہ ہے۔ یہ نظریہ انڈونیشیا کی بنیادی کثرتیت کی تجسیم ہے جس پر اسلامی، ہندو، بُدھسٹ اور مغربی افکار کا اثر ہے۔
حتمی طور پر یہ انڈونیشی قوم کے مطلب اور اس سوال پر پُر مغز بحث کی عکاسی کرتی ہے کہ انڈونیشی ہونے سے دراصل کیا مُراد ہے۔ ہم سب ایک سے زیادہ تشخّص رکھتے ہیں۔ ہم خود کو طالب علم، سکالر، شوہر، بیوی، کھلاڑی، موسیقار اور اسی طرح کے اُن بے شمار حوالوں میں سے کسی کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں جو ہماری مُرکّب ذات کی تخلیق کرتے ہیں۔ تاہم کسی قومی ریاست کی کامیابی کے لئے لازم ہے کہ اُس ملک کے باشندے جن مُجسّم تصوّرات کو اپنائے ہوئے ہوں اُن میں سے کوئی ایک اُس کا قومی تشخّص بھی ہو۔
صرف امریکی، جرمن، انڈونیشی یا تُرک ہونا کافی نہیں ہے۔ کسی قوم کے فعال ہونے کے لئے لازمی ہے کہ ایک شخص کا قومی تشخّص کمیونٹی کے مشترکہ جذبے اور مشترکہ اقدار کی نمائندگی کرتا ہو۔
بیشتر اقوام مشترکہ ماضی کی ایک طویل تاریخ سے تشکیل پاتی ہیں۔ مغربی یورپ کے زیادہ تر حِصّے میں یہ مشترکہ تاریخیں مشترکہ زبانوں، مذاہب اور ثقافتی رسومات کے ذریعے آپس میں جُڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ اطالوی اور فرانسیسی آبادیوں کی اکثریت کیتھولک تھی لیکن باہم مختلف ہونے کے بارے میں بڑھتی ہوئی آگاہی قومیّت پرستی کا اظہار بن گئی۔
اِسی طرح انڈونیشیا کے باشندے کُرّہ ارض کے دیگر حصّوں میں آباد بہت سی اقوام کی طرح ایک ہی اسلام کے پیروکار ہو سکتے ہیں لیکن اسلام قومیّت پرستی کے تصوّر کا صرف ایک جُزو ہے۔ یہ بات اس لئے بھی درست ہے کہ انڈونیشیا میں لاکھوں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو مسلمان نہیں ہیں۔
اِس وقت انڈونیشیا کو جو چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کے لئے ایسی جگہ تلاش کرے جو نہ تو انڈونیشیا کی انفرادیت کو باقی اسلام سے الگ کرے اور نہ ہی اس سے انڈونیشیا میں آباد غیر مُسلم باشندوں کا مرتبہ کم ہو۔
###
* بلیک ریسپینی سان فرانسسکو سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات میں لیکچرار اور ہرڈی سحراسد پیرا میڈیا یونیورسٹی جکارتہ کے مرکز برائے اسلام اور ریاستی علوم کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...