ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

مُسلم اور مسیحی: ابلاغ نہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ موجود ہی نہیں: از صفیہ عودے


اسکندریہ، مِصر: ’اب ہم کچھ بھی لِکھ سکتے ہیں!‘۔ یہ جُملہ مِصری اخبار ’الاہرام‘ کی ایک ایڈیٹر کا تھا جو اُس نے حال ہی میں اسکندریہ میں منعقدہ ایک کانفرنس ’سماجی تبدیلی اور جمہوریت میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘ میں شرکت کے لئے ڈنمارک سے آنے والے شرکا کے ساتھ قاہرہ میں بات کرتے ہوئے ادا کیا تھا۔ مِصر کے انقلاب نے آزادیِ تقریر اور مِصری ذرائع ابلاغ میں سیاسی بحث کو آگے بڑھانے میں یقیناً عمل انگیز کا کام کیا ہے لیکن انقلاب کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری سے کچھ نقصان بھی ہوا ہے۔ ’الاہرام‘ کی ایک اور ایڈیٹر نے خبردار کیا کہ مِصر میں ذرائع ابلاغ پر اب سیاسی جمود طاری ہے اور بسا اوقات وہ مِصر کے عوام کو فرقہ وارانہ تشدد کی تحریک اور غلط معلومات بھی دے سکتے ہیں۔
کانفرنس اور میڈیا کے تغیر پذیر منظر نامے نے تمام شرکا پر یہ واضح کر دیا کہ تبدیلی کے اس دور میں مِصر میں عمومی ذرائع ابلاغ اور مسیحی مُسلم مکالمہ دونوں ہی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ شُرکا نے یہ بھی دیکھا کہ میڈیا میں مثبت مکالمے کو فروغ دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ نیا میڈیا، بالخصوص یُو ٹیوب، فیس بُک یا ٹویٹر جیسی سوشل میڈیا سایٹس کی بدولت ابلاغیات کے میدان میں نئے کھلاڑی اُتر آئے ہیں اور ’پرانے‘ مروّجہ ذرائع ابلاغ کی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں۔
ایک ڈینش مندوب پیٹر فِشر نیلسن نے نشاندہی کی کہ ریاستی سنسرشِپ نے میڈیا کے کردار کو محدود کر رکھا تھا۔ یہ محدودیت انقلاب کے نتیجے میں کِسی حد تک دُور ہوئی ہے لیکن میڈیا میں کس چیز پر بحث ہونی چاہیے اور کس پر نہیں، اس حوالے سے کوئی پابندی نہ ہونے کی موجودہ صورت حال مزید تصادم کی طرف لے جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں اور گروہوں کے درمیان براہِ راست مکالمہ پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
اس کانفرنس میں مُسلمان اور مسیحی ایکٹوسٹ اور رہنما اسی لئے اکٹھے ہوئے تھے کہ وہ مذہبی میڈیا اور ابھی تک جاری مِصری انقلاب پر تبادلہ خیال کریں اور یہ کہ اس صورت حال میں کیا کیا جا سکتا ہے۔ فورَم برائے بین الثقافتی مکالمہ کے زیرِ اہتمام یہ کانفرنس اکتوبر کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوئی تھی اور اس میں مِصر کی کاپٹک ایوینجلیکل آرگنائزیشن فار سوشل سروسز (سی ای او ایس ایس) اور ڈنمارک کی مسیحی تنظیم ڈینمِشن کا تعاون بھی شامل تھا۔
اس کثیر الثقافتی فورَم میں مِصر اور ڈنمارک دونوں مُلکوں کے شرکا موجود تھے۔ ڈینش مُسلمان جو ایک عیسائی مُلک میں رہنے والی مُسلم اقلیت کی نمائندگی کرتے تھے، اور مِصری عیسائی جو ایک مُسلم مُلک میں رہنے والی عیسائی اقلیت کی نمائندگی کر تے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ مِلے اور اپنے تجربات اور مُستقبل سے وابستہ توقعات پر تبادلۂ خیال کیا۔
مکالمے کا بنیادی مقصد میڈیا پر مذہبی تنظیموں کے نقطۂ نظر کے حوالے سے بحث کرنا تھا: مِصر میں جمہوریت لانے کے عمل میں ذرائع ابلاغ نے کیا کردار ادا کیا تھا اور آزاد پریس اور سوشل میڈیا کے نئے ذرائع مثلاً یُوٹیوب اور فیس بُک وغیرہ کا استعمال مِصر کی سیاسی فضا میں کتنی اہمیت رکھتا ہے؟
جب قاہرہ کے التحریر چوک میں پُرامن احتجاج کرنے والے کاپٹک عیسائیوں اور فوج کے درمیان تصادم ہوا تو کانفرنس کے شرکأ فرقہ واریت سے پیدا ہونے والے مسائل اور ذرائع ابلاغ میں اس کی کوریج کے انداز کے چشم دید گواہ بن گئے۔
لیکن مِصری میڈیا اور سول سوسایٹی کے ساتھ اُمیدیں اب بھی قائم ہیں۔ کانفرنس میں کاپٹک عیسائیوں اور مُسلمانوں نے تعاون پر مبنی کوششوں کے ذریعے فرقہ وارانہ تعصب کا مقابلہ کرنے کی تازہ ترین کوششوں سے آگاہ کیا مثلاً جب مُسلمانوں نے گرجا گھروں کی حفاظت کی اور مُسلمانوں اور مسیحیوں نے مِصر کی سالمیت اور خوشحالی کے لئے ذرائع ابلاغ میں اکٹھے آواز بلند کی وغیرہ۔ اس ضمن میں ایک مثال پانچ کاپٹک رہنماؤں اور سابقہ عسکریت پسند مُسلم گروہ جماعۃ اسلامیہ کے سات رہنماؤں کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والا مشترکہ بیان ہے جس میں انہوں نے مُسلمانوں اور مسیحی نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ عقل اور شعور کی باتوں کو توجہ سے سُنیں اور مذہب کا احترام کریں۔ کانفرنس کے دوران شرکا نے ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کا احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بہت سے انتہائی اہم اور حساس موضوعات پر بھی گفتگو کی۔
اس مکالماتی کانفرنس نے یہ ثابت کیا کہ متنوع گروہوں کے درمیان کھُل کر اور مُہذّب طریقے سے بحث کرنا نہ صرف مُمکن ہے بلکہ درحقیقت ہو رہا ہے۔
گیزہ کے اہراموں کا دورہ کرتے ہوئے ایک کاپٹک ایکٹوسٹ نے ڈینش وفد کو بتایا: "مِصر کے انقلاب کا خطرناک حصّہ مذہبی تنوع نہیں ہے۔ ہم سب مِصری ہیں۔ خطرناک یہ ہے کہ بعض مفاداتی گروہ اس بات کو تسلیم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں کہ ہم سب مِصری ہیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ سلسلۂ کلام جاری رکھیں۔"
کانفرنس کے اختتام پر شرکا نے مکالمے کی اہمیت اور آزاد میڈیا کے بارے میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ کاپٹک ایوینجلیکل آرگنائزیشن فار سوشل سروسز، جس کا شمار مِصر میں اقتصادی ترقی، حفظانِ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں غریب کمیونٹیز کی مدد کرنے والی سب سے بڑی تنظیموں میں ہوتا ہے، کی ڈائریکٹر ڈائلاگ سمیرا لُوکا نے کہا: " ہمیں اپنی زندگیاں خوف اور تعصب کی بنیاد پر بسر نہیں کرنی چاہئیں۔ مکالمے اور پُرامن بقائے باہمی کے لئے ہمارا کام محض ایک کام نہیں، بلکہ یہ ہمارا نصب العین ہے۔"
مِصریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک اور مِصری مندوب نے ایک تربیتی ورکشاپ کے دوران کہا کہ "اگر آپ بات نہیں کرتے تو آپ کوئی وجود نہیں رکھتے!" ان کا یہ بیان نہ صرف مِصری انقلاب کے مسائل کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مُلک میں مسیحی مُسلم بقائے باہمی کے مُستقبل کا بھی آئینہ دار ہے۔
###
* صفیہ عودے کوپن ہیگن میں رہنے والی ایک وکیل اور رایٹر ہیں جو ڈنمارک کی جنوبی یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کر رہی ہیں۔ وہ کوپن ہیگن یونیورسٹی میں اسلام اور بلقان کے مطالعہ پر بھی توجہ دے رہی ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...