ایک ناکام قوم پرست کا اقبالیہ بیان
ہارون رشیدبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
یہ کہانی ہے تو ایک شخص کی لیکن بیان بہت کچھ کرتی ہے اور ان سوچوں، منصوبوں اور ارادوں سے پردہ اٹھاتی ہے جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بقول مصنف کے دائمی تلخیوں اور تلفات کی وجہ بنتی چلی آ رہے ہیں۔
یہ داستان شروع ہوتی ہے 1970 کی دہائی سے جب پاکستان کی پشتون قوم پرست جماعت نیپ نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مسلح جدوجہد کا ارادہ کیا تھا۔
جمعہ خان صوفی نے اس تحریک کے ہراول دستے کے طور پر جلاوطنی کے 20 سال افغانستان میں گزار دیے۔
اس دوران انہوں نے کن کن اہم رہنماؤں کو انتہائی قریب سے دیکھا، ان کی سوچ اور کردار کو جانا۔ ان رہنماؤں میں افغان صدر داؤد بھی تھے اور مرحوم ولی خان بھی، مرحوم اجمل خٹک بھی اور جی ایم سید بھی، نواب مری اور دیگر بلوچ رہنما بھی دکھائی دیے ہیں۔
اس میں پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کے لیے صدر داؤد کی سرپرستی بھی ہے، بھارت کی مدد بھی اور پاکستان کی جانب سے بعد میں جواب میں مجاہدین رہنماؤں کی حمایت بھی نظر آتی ہے۔ غرض یہ کہ یہ سب کچھ اور جو کچھ افغانستان میں پاکستانی جلا وطن رہنماوں نے کیا سب کا اعتراف موجود ہے۔
بظاہر یہ ایک ناکام قوم پرست کا اقبالیہ بیان ہے۔
صوابی کے جمعہ خان صوفی نے ان سب واقعات کے 40 برس بعد اپنی خاموشی توڑی ہے اور اپنی کتاب ’فریبِ ناتمام‘ میں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کیا ہے۔ وہ پاکستانی تاریخ کے اہم موڑ کے نہ صرف چشم دید گواہ ہیں بلکہ خود بھی اس کا حصہ رہ چکے ہیں۔
سکول کے رجسٹر میں درج تاریخ پیدائش کے مطابق جمعہ خان 15 نومبر 1948 کو ضلع صوابی ضلع میں امبارس خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد باچا خان کے ساتھی اور کانگریسی (خدائی خدمتگار) تھے۔
بچپن سے ہی’باغی‘ تھے اور والد کے ساتھ اکثر بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ اسلامیہ کالج میں تعلیمی کے دن گزارے، لیکچرار کی ملازمت ملی تو نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے کندھے سے کندھا ملاتے رہے۔ پشتون قوم پرست سیاست کی سدھ بدھ انھی دنوں میں حاصل ہوئی۔
کابل اور ماسکو میں روپوشی کے دنوں میں شناخت بدلنے کی خاطر داڑھی رکھ لی، اسی بنا پر پختون رہنما اجمل خٹک اور دیگر نے صوفی کہہ کر بلانا شروع کیا اور پھر یہ نام کا لازمی جزو بن گیا۔
کابل میں سابق افغان صدر نجیب اللہ کے ساتھ تعلق بن گیا اور کئی مرتبہ ان کے گھر پر مہمان بنے۔
1972 میں ماسکو میں زیر زمین پروپیگنڈا، کمیونزم اور فلسفے کی تربیت حاصل کی جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
چار دہائیوں بعد کتاب لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’قلم کاغذ سے میری محبت پرانی ہے۔ سو جب بھی موقع مل پایا اپنی اہم یاداشتیں تحریر کر لیں۔ ایک دن نہ جانے کس رو سے میں نے ان ڈائریوں سے جان چھڑانے کا سوچا لیکن پھر خیال آیا کہ بےشک میری زندگی ناکام رہی، میں اپنے متعین کردہ مقاصد حاصل نہ کر پایا لیکن ان میں کچھ ایسے حقائق ہیں جو تاریخ کی امانت ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’میری چند یاداشتیں افغانستان میں نجیب اللہ کے دورِ حکومت کے خاتمے کے وقت میرے مکان کو لوٹنے والے اپنے ساتھ لے گئے لیکن جو بچ پایا اسے 2008 میں غنیمت جان کر اکٹھا کیا اور یہ کتاب لکھ دی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پشتونوں کی تاریخ بھی عجیب تاریخ ہے بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تاریخ ہمیشہ اپنوں کی بجائے کسی اور نے لکھی ہے۔ ’المیہ یہ ہے کہ یہ تاریخ نویس جہاں ہمارے مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں وہاں وہ ہماری داستان سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم خود سچ بولنا، سچ لکھنا اور سچ سننا برداشت نہیں کرتے۔ ہم ہر کام منطق کی بجائے توکل سے کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔‘
ان کا خیال میں ’مقام افسوس ہے کہ اہل بصیرت ہمیشہ تاریخ یا پھر اپنوں کی بےوفائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں مرحوم اجمل خٹک سے جھوٹ اور سچ کا سرا کہیں کھو گیا تھا۔ چنانچہ اس تلاش کا بوجھ میں نے اپنے سر لے لیا۔ تاکہ میں نے جو کچھ دیکھا، جو کچھ سنا اور جو کچھ مجھ پر گزری، اسے بیان کر دوں اور تاریخ کے سامنے سرخرو ہو سکوں۔‘
پاکستان اور افغانستان میں شدت پسندی کا ذمہ دار کون؟
افغان تـجزیہ نگاروں کی اس بارے میں تین رائے ہیں۔ نمبر ایک کہ یہ داود خان اس تمام قضیہ کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر آئندہ کی بغاوتوں کا راستہ ہموار کیا، دو وہ جو اپریل 1978 کے ثور انقلاب کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں جس کے نتیجے میں خون بہنا شروع ہوا اور بیرونی قوتوں کو مداخلت کی دعوت کا سلسلہ شروع ہوا اور تیسرے وہ جو افغانستان میں سویت یونین کی افواج کے داخلے کو اس کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔
دوسری جانب آذاد، لبرل اور بائیں بازو کے ماہرین بھی منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ 1974، 1975 میں پاکستان کی جانب سے گلبدین حکمت یار، براہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود کو منظم کرنے اور فوجی تربیت دینے کو اس تنازع کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ دوسرا وہ جو اس معاملے کی اصل جڑ پاکستان کی جانب سے افغان انقلاب اور سویت یونین کے خلاف مجاہدین کی تربیت کرنا، انہیں اسلحہ دینا اور پاکستان میں ان کے کیمپ قائم کرنا کو آغاز قرار دیتے ہیں۔
تاہم سب ایک اہم عنصر کو نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ ان تمام المیوں کی ذمہ داری نیشنل عوامی پارٹی، خصوصا ولی خان کا 1973 میں بھٹو اور پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کا فیصلہ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے کردار سے آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نیشنل عوامی پارٹی نے غوث بخش بزنجو کی رضامندی کے بغیر تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا۔
اگرچہ نیپ کے اس فیصلے میں بعض دیگر بلوچ رہنما اور کمیونسٹ بھی شامل تھے لیکن اصل فیصلہ عبدالولی خان کا ہی تھا۔ باچا خان کے بیٹے کے طور پر انھوں نے افغانستان میں اپنے اعتبار کا فائدہ اٹھایا۔ باچا خان نے مصلحتا خاموشی اختیار کی اور اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے۔ نیپ کی جانب سے پرتشدد راستہ 14 فروری 1973 میں اختیار کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سرحد اور بلوچستان میں گورنر برطرف کر دیئے گئے اور بلوچستان میں عطا اللہ مینگل کی حکومت ختم کر دی گئی۔ صوبہ سرحد میں نیپ اور جعمیت کی مخلوط حکومت نے احتجاجاً استعفی دے دیا۔
غوث بخش بزنجو ان حالات میں بھی بھٹو سے مذاکرات کے خامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو کے ساتھ جنگ میں نقصان ہمارا ہی ہوگا۔ بزنجو اکیلے رہ گئے اور ولی خان کی منطق جیت گئی۔ افغانستان کی بربادی میں جو جتنا زیادہ حصہ لیتا ہے اتنا ہی زیادہ معتبر ٹھرتا ہے۔
ولی خان کی جانب سے پختون نوجوانوں کو افغانستان بھیجنے اور مسلح کرنے کے جواب میں پاکستان نے 1974 ، 1975 میں اخوانی عناصر کو مہمان بنانا، انہیں فوجی تربیت دینا اور مسلح کیا تھا۔اس تمام تباہی کے محرکین وہی لوگ ہیں جو آج عدم تشدد کے لبادے میں لپٹے ہیں۔ صدر داود کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو وہ غیرجانبدار رہتے یا ولی خان کی تحریک کا ساتھ دیتے۔
انھوں نے طبعی طور پر اپنے پرانے تعلق کی وجہ سے دوسری بات کا ساتھ دیا۔ میں افغانوں کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ افغانستان میں پاکستان کی مداخلت کا الزام عائد کرنے والے اپنے اعمال پر توجہ کیوں نہیں دیتے، کہ کھیل تو اصل میں کس نے شروع کیا تھا۔ اب دونوں اطراف اعتراف کریں کہ ان سے غلطیاں ہوئیں اور اس کا آغاز اپنی خود احتسابی سے کریں۔
’آٹھ فروری 1975 کی شام کو دنیا بھر کے ریڈیو سٹیشنز سے یہ خبر نشر ہوئی کہ خیبر پختونخوا (اس وقت صوبہ سرحد) میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور سینیئر وزیر اور وزیر داخلہ حیات محمد خان شیرپاؤ کو پشاور یونیورسٹی کے ہسٹری ہال میں ایک تقریب میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔
جب یہ خبر نشر ہوئی تو افغان صدر سردار داؤد نے فوراً کابل میں موجود پختون جلا وطن رہنما اجمل خٹک سے فون پر رابطہ کیا اور دریافت کِیا کہ کیا یہ کارروائی آپ لوگوں نے کی ہے۔ اس پر اجمل خٹک نے لاعلمی کا اظہار کیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بالکل مکرگئے۔
اس واقعے کے دوسرے روز اس تخریبی کارروائی کے دونوں کردار بلا خان (حبیب اللہ خان) اور اس کے بھائی معز اللہ خان افغانستان چلے گئے۔
اس واقعے کی روداد یہ ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی کے مطابق انوار اور امجد نے ایک ٹیپ ریکارڈ میں بم نصب کر لیا تھا۔ اصل پروگرام یہ تھا کہ سات فروری کو ٹیکنکل کالج پشاور میں طلبہ کی ایک تقریب میں جس میں حیات شیرپاؤ شرکت کر رہے تھے بم دھماکہ کرنا تھا۔ لیکن اس روز سٹیج پر پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر افراسیاب خٹک بھی بیٹھے ہوئے تھے، چنانچہ منصوبے پر عمل نہ ہوسکا۔
دوسرے روز انور اور امجد نے اپنا ٹیپ ریکارڈ شعبۂ تاریخ کے روسٹرم پر مائیک کے ساتھ رکھ دیا۔ جب شیرپاؤ روسٹرم پر آئے تو دھماکہ ہوگیا۔
امجد اور انور کو چارسدہ جاتے ہوئے پولیس نے شک کی بنیاد پر حراست میں لے لیا۔ بلا خان کو خبر ہوئی تو وہ پولیس کے پاس آئے اور اسے ڈرایا دھمکایا اور دونوں کو اپنا مہمان ظاہر کرتے ہوئے رہا کروا لیا۔
بعد میں بلا خان نے انھیں براستہ مہمند ایجنسی افغانستان روانہ کیا۔ چند روز قندوز میں گزارنے کے بعد یہ لوگ کابل پہنچ کر ہمارے پاس ہی آگئے۔ ان کے آنے سے بات تو بالکل واضح ہوگئی۔ پاکستان میں پولیس نے ان دونوں کی یونیفارم کی شیروانیوں سے ان کی بطور انور باچا اور امجد باچا شناخت کرلی۔
اس قتل کا الزام بیگم نسیم ولی خان، اسفندیار خان اور نثار محمد خان پر لگایا گیا۔ نیپ پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس کے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان پر حیدر آباد ٹرائبیونل میں غداری کا مقدمہ بنا دیا گیا۔
اجمل خٹک نے ہندوستان کے تعاون سے اردو زبان میں ’قومی جمہوری انقلاب‘ کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا۔ میں نے اس پمفلٹ کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اس کے ساتھ مختون زلمے کی کارروائیاں کی فہرست منسلک کر دی۔ اسے میں نے ’گولی کا جواب گولی‘ کا عنوان دیا۔
یہ کتاب ہم نے انگلینڈ میں موجود ڈاکٹر خورشید عالم کو وہاں سے شائع کروانے کے لیے بھیج دی۔ ابھی یہ شائع ہونی تھی کہ حیات شیرپاؤ کی ہلاکت کی خبر آ گئی۔ ڈاکٹر خورشید نے فورا اس واقعہ کو بھی پختون زلمے کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے شائع کر دیا۔
یہ کتاب حکومت پاکستان کے بھی ہاتھ لگی۔ یہ ایک مضبوط ثبوت تھا جسے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ خود بھٹو نے اسے عوامی اجتماعات میں لہرا کر دکھایا۔ اجمل خٹک اور میرے نام سامنے آ گئے۔ ایک طرح سے یہ کتاب نیپ کے خلاف گواہ بن گئی۔
حالات سنگین ہوگئے۔
پاکستان نے شیرپاؤ کے قتل کی ذمہ داری ہمارے ساتھ ساتھ افغانستان پر بھی ڈال دی۔ اجمل خٹک نے اس حوالے سے اقوام متحدہ سمیت مختلف اہم لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور خطوط لکھے۔ ان میں کابل میں بھارتی سفیر سے بھی ملنے ان کے گھر گئے۔ بھارت وہ ملک تھا جو اس طرح کے راز اور خفیہ معلومات میں دلچسپی رکھتا تھا۔