ہفتہ، 9 جنوری، 2016

ہائیڈروجن بم (Hydrogen bomb)

ہائیڈروجن بم (Hydrogen bomb)
 مرکزی یا جوہری اسلحہ (نیوکلیئر ویپن) سے تعلق رکھنے والے بم (بـم) کی ایک قسم ہے۔ مرکزی اسلحہ کی دو بنیادی اقسام ہیں
ایک انشقاقی (fission) اور
دوسری ائتلافی (fusion)
پہلی انشقاقی قسم کو جوہری بم (ایٹم بـم) کہا جاتا ہے جسکے ليے دیکھیۓ مرکزی اسلحہ
دوسری ائتلافی قسم کو ہائیڈروجن بم (ہائڈروجن بـم) کہا جاتا ہے۔ اور یہ پہلی انشقاقی قسم کی نسبت ہزار گنا زیادہ تباہ کن صلاحیت رکھتے ہیں۔ انکو ' ہائیڈروجن بم (ہائڈروجن بم)' کے علاوہ حرمرکزی بم (thermonuclear bomb) اور ا‏ئتلافی بم (fusion bomb) بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے (درست کہ غلط) کہ صرف 9 ممالک؛ امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس، ہندوستان پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل ایسے ہیں جو ہائیڈروجن بم رکھتے ہیں۔
مرکزی اسلحہ (nuclear weapon) جسکو عام طور پر جوہری اسلحہ یا جوہری ہتھیار بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا اسلحہ ہے کہ جو اپنی تباہ کاری کی صلاحیت یا طاقت، انشقاق (fussion) یا اتحاد (fusion) جیسے مرکزی تعاملات (نیوکلیئر ری ایکشنز) سے حاصل کرتا ہے۔ اور انشقاق اور ائتلاف (اتحاد) جیسے مرکزی طبیعیاتی عوامل سے توانائی اخذ کرنے کی وجہ سے ہی ایک چھوٹے سے مرکزی اسلحہ کا محصول (یعنی اس سے نکلنے والی توانائی یا yield)، ایک بہت بڑے روائتی قـنبلہ (bomb) کے مقابلے میں واضع طور پر زیادہ ہوتی ہے، اور ایسا صرف ایک بم یا بم ہی تمام کا تمام شہر غارت کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
خلاصہ
ہائیڈروجن بم (ہائیڈروجن بم) کی ساخت شمسی عمل کی نقل ہے۔ سورج کروڑوں سالوں سے حرارت اور روشنی کی زبردست مقدار خارج کر رہا ہے۔ اس سے زمین دوسرے سیارے اور سیارچے وغیرہ تابندگی پاتے ہیں۔ سورج میں کوئی کوئلہ یا اسطرح کا ایندھن نہیں ہے۔ بلکہ وہاں دراصل ہائیڈروجن گیس ہے جو زبردست دبائو اور حرارت کی وجہ سے ہیلیم گیس میں منتقل ہو رہی ہے۔ ہائیڈروجن کے ایٹم مسلسل ائتلاف کے عمل میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ اور ان کی توانائی بے انتہا روشنی اور حرارت پیدا کرتی ہے۔ وہاں تو ہائیڈروجن ایٹم کے بننے اور فنا ہونے کا سلسہ خود بخود جاری رہتا ہے۔ کسی مصنوعی انتظام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن ہمیں اس کی نقل کرنے میں مصنوعی طریقے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ہائیڈروجن بم کا مرکزی حصہ ایٹم بم پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وہ مرکزی حصہ پھٹتا ہے تو زبردست حرارت اور دبائو پیدا ہوتا ہے۔ یہ دبائو اور حرارت ہائیڈروجن گیس کے جوہر کو متحد کر کے ہیلیم گیس میں تبدیل کرتے ہیں۔ بھاری ہائیڈروجن (ہائیڈروجن) کے ایٹم بڑی تیزی سے ادھر اُدھر گردش کرتے ہیں اور تپش کی وجہ سے اور بھی تیز ہو جاتے ہیں۔ ایٹموں کے مرکز میں ہیجان پڑنے سے بڑے پیمانے پر قوت خارج ہوتی ہے۔ جو قوت کیمیائی طور پر پیدا ہوتی ہے وہ اس جوہری توانائی (atomic energy) کے مقابلے میں لاکھوں گنا کم ہوتی ہے۔ جوہروں کے یوں ائتلاف کرنے سے جو قوت نکلتی ہے وہ جوہری بم چلنے کی قوت سے تقریباًً تیس لاکھ گنا ہوتی ہے۔ ہائیڈروجن بم قریباً بیس بیس میل تک تباہی مچا سکتا ہے۔ اس سے خطرناک شعاعیں بھی نکلتی ہیں جو ہوا کو زہریلا بنا دیتی ہیں۔

ہائیڈروجن کے ہم جاء کا شقوق
ہائیڈروجن بم، اپنی ساخت و فعل میں ٹیلر الم طرحبند (Teller Ulam design) سے استفادہ کرتا ہے جس میں اصل ہائیڈروجن بم منفجر ہونے یا پھٹنے سے قبل ایک مخصوص خانے میں ایٹم بم پھٹتا یا منفجر ہوتا ہے، یعنی یوں کہ سکتے ہیں کہ پہلے انشقاقی بم پھٹتا ہے اور پھر اسکے بعد دوسرا ائتلافی بم پھٹتا ہے۔ پہلے انشقاقی بم کے دھماکے سے پیدا ہونے والی گاما اور ایکس شعاعیں، ایک کیسہ (کیپسول) پر جو کہ ٹرائٹیم، ڈیوٹریم یا لیتھم ڈیوٹرائید کا بنا ہوتا ہے دباؤ ڈال کر ائتلافی تعمل (fusion reaction) کی ابتداء کرتی ہیں اور اس ا‏‏ئتلاف کے نتیجے میں تعدیلے یا نیوٹرونز بنتے ہیں جو کہ ائتلافی ایندھن کے گرد موجود ختسہ یورنیم (depleted uranium) میں آخری مرحلے کا انشقاقی عمل شروع کرکے نہ صرف ائتلافی تعمل کے محصول میں بہت زیادہ اضافہ کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی مرکزی برسات (nuclear fallout) میں بھی۔ ہائیڈروجن بم میں موجود یہ تمام اجزاء، مرحلہ (اسٹیج) کہلاتے ہیں؛ یعنی پہلا انشقاقی بم یا جوہری بم، ابتدائی اور دوسرا ایتلافی بم یا ہائیڈروجن بم، ثانوی مرحلہ کہلایا جاتا ہے۔ اور اس طرح درجہ بہ درجہ طاقتور ہوتے ہوۓ جوہری ایندھن کو سلسلہ وار جوڑ کر، بے اندازہ قوت اور تباہ کار حرمرکزی اسلحہ (thermonuclear weapon) تیار کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک اس طریقہ پر بنایا جانے والا سب سے بڑا بم Tsar Bomba ہے جو کہ روس نے تیار کیا اور اسکی توانائی 50 میگاٹن ٹی این ٹی ہے (ایک میگاٹن = دس ارب کلوگرام)۔

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...