دینی تعلیم، مستقبل بینی؟
ڈاکٹر اسٹیفن کوہن
education, Pakistani Madrassa, Religion, Religious Seminary, Students,
مدارس, مذہب, پاکستانی مدرسہ, تشدد, تعلیم, دینی مکتب, طلبہ
اسٹیفن پی کوہن کی کتاب ”دی آئیڈیا آف پاکستان “ سے دینی مدارس کے متعلق ایک اقتباس کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے ۔ڈاکٹر اسٹیفن کی جنوبی ایشیا کے معاملات پر گہری نظر ہے ،وہ متعدد کتابوں کے خالق ہیں اور معروف تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ایک امریکی ماہر سیاسیات کی رائے جاننا ضروری ہے ۔تاہم اس سے متفق ہوناضروری نہیں۔
پاکستان میں ان جماعتوں کی اساس ایک مخصوص ادارہ پرمشتمل ہے اور یہ ادارہ مدرسہ یا اسلامی مکتب (جمع مدارس) کہلاتا ہے اور انہی مذہبی جماعتوں کی بالیدگی اور اثراندازی کو انہی مدارس کی بڑھوتری کے ساتھ براہ راست کڑی کی حیثیت سے پرکھا جاسکتا ہے۔ (مطلب یہ کہ مذہبی جماعتیں مدارس کی وجہ سے ہیں نہ کہ مدارس جماعتوں سے) اسلامی ریاستوں میں یہ مدار س دینی اور سائنسی علوم و فنون کی ایک بڑی درسگاہوں کے طور پرابھرے۔ خصوصاً ساتویں اور گیارہویں صدی عیسوی کے درمیان، یہ مدارس غیرسیاسی تھے اوران کے اہم مراکز بغداد اور دمشق میں تھے۔ جنوبی ایشیا میں مدارس کی روایات ضرور پڑیں مگر صرف مذہب کی تعلیمات کی حد تک۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان مدارس نے یقینا کچھ بڑے عالم اور استاد پیدا کئے مگر اسلامی فکر کو فرقوں میں کاٹنے میں ان مدارس نے ایک کلیدی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے ان سے فارغ التحصیل طلباء کی سوچ محدود ہوکررہ گئی۔
بٹوارہ کے وقت پاکستان میں صرف 250 دینی مکتب تھے۔ 1987ء میں یہ تعداد بڑھ کر 3000 ہوگئی۔حالیہ تخمینہ کے مطابق ان کی تعداد 10,000 سے لیکر 45,000 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ جس میں 10سے 15 فیصد زہرناک نفرت کا پرچار اور فوجی تربیت اپنے طلباء کو فراہم کرتے ہیں۔ ان مدارس میں طلباء کی تعداد چند طلباء سے لیکر ہزاروں تک ہوتی ہے۔ بڑے مدارس میں ایک بڑا مدرسہ دارالعلوم حقانیہ ہے جو بلوچستان میں واقع ہے اور اس میں15000 رہائشی طلباء، 1000 غیررہائشی طلباء ہیں جو 6 سال اور اس سے بڑی عمر پر مشتمل ہیں۔طالبان قیادت نے اسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کئے اور وہی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ریاست کی سرکاری امداد (یا استحصال) کے سبب آج عربی معلمین، اساتذہ، اسکالر اور ملا پاکستان کی ضرورت سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ مزیدبرآں ان مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء جدیددنیا میں کسی بھی نوکری کیلئے غیرموزوں ہیں۔ اس تقسیم نے ایک مذہبی طبقے کو جنم دیاہے جو بیروزگار ہے اور عملی طور پر اجڈ اور گنوار نوجوانوں کا ایک ایسا ٹولہ ہے جو دینی تعلیم کو سماجی ترقی کا ذریعہ تو سمجھتے ہیں مگر روایتی راستے ان کیلئے جام جبکہ جدید راہیں ان کے واسطے مسدود قرار پاچکی ہیں۔
ریاست کے خلاف تشدد کاعنصر حال میں نظر آیا ہے جبکہ مدارس نے اس قسم کے رجحان کی اہلیت کا مظاہرہ ماضی میں پیش کیا ہے۔ یہ1977 میں بھٹو کی حکومت کاتختہ الٹنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ سیکڑوں اسلامی طلباء نے نومبر1994 میں مالاکنڈ میں ہتھیار اٹھائے اور ان کی حالیہ امریکی حملوں میں طالبان کی مدد قابل ذکر ہے جس میں نوجوانوں کی ایک کثیرتعداد جنگ کے میدان میں ”جہاد کے نام پر“جانے پر رضامند نظر آتی ہے۔ یہ چیزپاکستان کو شدیدتقسیم در تقسیم سے گذار رہی ہے۔ پاکستانی پریس کا مغربی (جسے جمال ملک سامراجی بھی کہتا ہے)طبقہ انہیں ”ملا“ کے نام سے مخاطب کرتا ہے اور منفی انداز میں ان کا ذکر کرتاہے۔
یہ مدارس اس وقت پھیلے جب ضیاء حکومت نے صارفین کے بینک کے کھاتوں سے زکوٰة منہا کرنا شروع کردی تھی۔ اس زکوٰة کو مقامی اداروں (مذہبی مدارس ) کو فنڈ کرنے کیلئے استعمال کیا گیا جو کہ مذہبی قائدین کے نزدیک ایک صالح عمل تھا اور یہیں سے نئے مدارس کے کھلنے اور بڑھنے کی ترغیب شروع ہوئی۔ اسی دوران سرکاری اسکولوں کے فنڈ میں کٹوتی کرنا شروع کردیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب درحقیقت خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب سے ان مدارس کو پیسہ ملنا شروع ہوا جس کا ایک بڑا مقصد ان اسکولوں میں دیوبندی اور وہابی فکر کا پرچار تھا۔ یہ دو آتش گیر کٹر مذہبی نظریات کے امتزاج کا دوسرا نام تھا۔
ان مدارس کی بڑھوتری ایک معاشی جمود، تباہ حال ریاستی اسکول سسٹم، بے آاس والدین اور روایات کے بے جان ہاتھ کی آئینہ دار تھی۔ یہ صورتحال پاکستان کے ابتدائی20 برسوں میں کسی نقصان کا پیش خیمہ نہ تھی کیونکہ ان مدارس کی تعداد بہت کم تھی مگر ضیاء الحق کے دور میں ان کی تعداد میں اضافہ ریاست اور معاشرے دونوں کیلئے سم قاتل ثابت ہوا۔ جہاں جہاں مذہبی شدت پسندی کی تعلیم و ترغیب نہ بھی دی جاتی، وہاں وہاں بھی مدرسہ میں پڑھنے والے طلباء ریاضی اور سائنس سے بے بہرہ رکھے جاتے اور بنیادی واقعات جوکہ انسانی تاریخ کا حصہ ہیں، ان سے بھی نابلد ہی رہتے۔
ایک پاکستانی تحقیق کے مطابق پاکستان کے مختلف اسکولوں میں شدت پسندی اور عدم برداشت ایک سا نہیں پایا جاتا۔ مثال کے طور پر اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان کو بھارت سے ایک کھلی جنگ کے ذریعے کشمیر کو حاصل کرلینا چاہئے، 58 فیصد اردو اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء اور 64 فیصد انگریزی اسکولوں کے طلباء نے اس کا جواب نہیں میں دیاجبکہ مدارس میں پڑھنے والے طالبان کی 59 فیصد اکثریت نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔ اسی طرح جہادی تنظیموں کی امداد اور پاکستان کی بھارت میں سرحد پار دراندازی کے سوالات کے جوابات میں بھی تقریباً یہی تناسب رہا۔ تحمل اور برداشت پر جب احمدیہ فرقہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو 46 فیصد اردو اسکولوں میں پڑھنے والے اور 65 فیصد انگریزی اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء نے جواب دیاکہ احمدیوں کے ساتھ مشترکہ کام کرنے میں برداشت سے کام لیا جانا چاہئے جبکہ 82 فیصد طالبان نے اس کا جواب نہیں میں دیا۔ اسی تناسب سے دوسرے سوالات جس میں عورتوں کیلئے ایک جیسے حقوق پر بھی اسی قسم کے جوابات سامنے آئے۔ جہاں انگریزی تعلیم نظام تھا، وہاں اکثریت لبرل نظریات کا پرچارملا۔ اردو اسکول دوسرے نمبر پر جبکہ مدارس کے طلباء کی ایک بھاری اکثریت اپنے جوابات میں کٹر مذہب پسند نظر آئی۔ جیسے کہ رحمن نے اپنی رپورٹ میں اسی تقسیم در تقسیم کے حوالے سے بتایا ہے۔کہ شاید یہ سوال بہت پریشان کن ہے کہ مدارس کے طلباء اس قدر شدت پسند اس قدر عدم برداشت کے حامل ہیں جو کہ غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ایسے مشاہدہ کیلئے تیارہیں جب یہ الگ تھلگ طبقہ اپنی مذہبی برتری کی فکر پر پاکستان میں ایک انقلاب برپا کردے؟ کیا ایسا انقلاب پاکستان کو ایک ایسی عدم برداشت رکھنے والی ریاست کے طور پر نہیں تبدیل کردے گا جو کہ ہر دوسرے ملک کے خلاف برسرپیکار ہوجائے گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو کیا پاکستان بچ سکے گا؟
مدارس کی اس پریشان کن صورتحال کو نوازشریف کی دوسری مدت حکومت میں اس کے بھائی شہباز شریف نے تشخیص کیا جبکہ وہ پنجاب کا وزیراعلیٰ تھا۔ اس نے ان مدارس کو قابو میں لانے کی حکمت عملی تیارکی چونکہ ان مدارس نے اپنے رابطے مقامی سیاسی شخصیات کے ساتھ بنالئے تھے لہٰذا یہ اصلاحات ناکافی ثابت ہوئیں۔ شہباز شریف نے مدارس کے نصاب کو معیاری بنانے کیلئے کافی کوشش کی مگر یہ بھی ناکام رہا۔ اسی نظریہ کو بہت بعد جنرل مشرف نے اپنایا مگر بہت سے قریبی اہل بصیرت نے اس بات کو محسوس کیا کہ مدارس جدید دنیا سے اس قدر دور تھے کہ کسی بھی قسم کی اصلاحات کا کوئی فائدہ کوئی امید نہ تھی۔
پاکستان میں مدارس کی زیادتی کی بڑی وجوہات میں کچھ وجوہات براہ راست تعلق رکھتی ہیں جن میں بنیادی عوامی تعلیمی نظام کا زوال پذیرہونا، فرقہ بند تشدد میں اضافہ ہونا اور پبلک اور سرکاری افسران کی کثیر رقوم کی امداد شامل ہے۔ اسلام پسندوں کی نظر میں ایک جدید، سیکولر تعلیم دشمن ہے جس کا مقابلہ نظریاتی تعلیم سے کیا جانا چاہئے اور یہی پاکستان کی معاشی اور سماجی مسائل کا حل ہے۔ صرف متوسط اور امیر طبقہ جو جماعت میں شامل ہے وہ تعلیم کو اہم خیال کرتا ہے۔ نہ صرف مردوں کیلئے بلکہ عورتوں کیلئے بھی، حقیقتاً دینی مدارس کاپھیلاؤ اور ان کے حریف انگریزی زبان کے نجی اسکول اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ درحقیقت فری مارکیٹ کا وہ ردعمل تھا جو پاکستانی ریاست کے تعلیمی مسائل پر توجہ نہ دینے کی صورت میں رونما ہوا۔ 9/11 کے اور افغانستان کی جنگ کے بعد دینی مدارس خاموشی سے اپنا کام کررہے ہیں اور بعض نے تو اپنے شدت پسند نظام سے بھی دستبرداری کا اعلان کردیا ہے مگر اس کے باوجود دینی مدارس میں طلباء کی تعداد میں 2002 میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مترجم …قاضی علی القریش
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے