ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

قوم پرستانہ نظریات ۔ سادہ دکھنے والے گنجلک افکار;تحریر :جوان بلوچ


گزشتہ دو صدیوں سے قوم پرستی ، سیاست کا ایک اہم مظہر و جز رہا ہے ۔ انسان کی پہچان یا اُسکی شناخت کی سیاسیسات میں اسے بنیادی طور پر دیکھا گیا ہے اور اسکی تعریف ایک ایسی سیاسی جدوجہد کی طرح کی گئی ہے کہ جس کا بنیادی مقصد کسی ایک خاص قوم کے حقوق حاصل کرنا ہے جو کسی قوم کیلئے طاقت کا حصول ، قانونیت ، خود حکمرانی یا خود اختیاریت ہو سکتی ہ
ے ۔ قوم پرستی جیسی نظریات اب تک ہماری جدید دنیا کو ایک مضبوط طاقت کی مانند مسلسل بدلتے ہوئے اُسے نئی شکلیں دیئے جا رہے ہیں ۔ مگر اس نظریے کی ایسی اہمیت کے با وجود یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے سماجی سائنسدان اس نظریے کی مکمل وضاحت کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ وہ مجموعی حوالوں سے ان خیالات کی فیصلہ کن وضاحت دینے سے عموماً قاصر رہے کہ آیا قوم پرستانہ جدوجہد کیسے اور بھلا کیونکر ضروری ہیں ؟یا آیا وہ کیا حقیقی محرکات ہیں کہ جنکے سبب ایک قومی تحریک نمودار ہوتی ہے اور کیوں بھلا ایک قومی تحریک اس قدر کی طویل جدوجہد لگاتار کرنے کو چل نکلتی ہے ؟ اور کیوں اُن ایک جیسے محرکات کا دو مختلف قوموں پر یکساں اثر نہیں ہوتا ؟ اس ضمن میں ہم سندھی و بلوچ قوم کو در پیش حالات کا جائزہ لیتے اُنکی قوم پرستانہ سیاست کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ جہاں ایک جیسے ہی حالات کا مقابلہ کرتے ایک قوم مسلح و عملی مزاحمت (with material tradition) و دوسری (material tradition) سے اجتناب بھرتی ہے ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک جیسے مسائل کا شکار ان قوموں میں کہ جہاں بلوچ ، مسلح مزاحمت کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی پروگرام میں بھی کافی حد تک مزاحمتی رنگ کے ساتھ نمایاں ہے وہاں سندھی قوم پرستانہ سیاست محض غلامی کے اثرات کو ہی حقیقی مسئلہ سمجھتے اُس کو حل کرنے کی تگ و دو میں اپنی توانائی خرچ کرتی ہے جیسے سندھ بھر میں پانی کی قلت یا کالا باغ ڈیم کے خلاف جس طرز کے شاندار جلسوں ، مارچ ، ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ، یہ سب دیکھتے محسوس ہوتا ہے کہ گویا پوری قوم غلامی پہ آمادہ ہوتے ہوئے محض یہ گزارش کر ر ہی ہو کہ اس کا بے جا استحصال نہ کیا جائے ۔ حتیٰ کہ ایسے موضوعات و انکی وجوہات پہ کافی کچھ لکھا جا چکا ہے کہ جن میں اقوام کی نسلی و نفسیاتی امتیاز تک کو زیر مطالعہ کرتے لکھاریوں نے Marshal race جیسی اصطلاحیں بھی کھوج نکالی ہیں مگر میرے نزدیک ایسے بیشتر مواد میں کوئی واضح اتفاق رائے نہیں جبکہ کچھ تو محض خام خیالی ہی نظر آتے ہیں ۔
قوم پرستانہ نظریات کے مطالعے میں مختلف مباحثے کئے جاتے ہیں جو شائد لا تعداد سوالات کو جنم دیتے ہوں مگر ان میں چند ایک انتہائی بنیادی ہیں اور جنکے بیچ بھی کافی اختلافِ رائے موجود ہے مثلاً دانشوروں کے بیچ محض اس اختلافِ رائے میں ہی درجنوں آرائیں موجود ہیں کہ خود ’’قوم ‘‘ کسے کہتے ہیں یا قوم ہوتا کیا ہے ؟ اور اسکی جامع تعریف بھلا کیسے کی جائے ؟ اور دوسرا یہ کہ یہ کہاں سے نمودار ہوئی ؟ کیونکہ بعض کا یہ ماننا ہے کہ اقوام وقت سے ماورا کسی مظہر کے نتائج کا حصہ ہیں اور یہ بنائی یا ایکدم سے نمودار نہیں ہوئی بلکہ ازل سے ہی چلتی آ رہی ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ایسا ہر گز نہیں اور دنیا کی تمام اقوام نہ صرف انسان کی اپنی دانستہ یا غیر دانستہ کوششوں کا نتیجہ ہیں بلکہ یہ انسانوں کے آپسی مفادات کی خاطر وجود میں لائی گئی ہیں ۔ ان دونوں آراؤں کے تخلیق کردہ دانشوروں کے پاس اپنی بات منوانے یا اس بحث کو آگے بڑھانے کیلئے اپنے اپنے دلائل اور واضح مثالیں موجود ہیں ۔ ان میں کچھ مختلف نسلی گروہوں کی تاریخ بتاتے اُنہیں مختلف اقوام میں تقسیم کرتے یہ ثابت کرتے ہیں کہ کیسے مختلف نسلی گروہوں نے خود کو بحیثیت ایک قوم ثابت کرتے یا اپنی خاص پہچان بتاتے اس بات کی تصدیق کی کہ انسان خود ہی اقوام کا وجود چاہتا ہے ۔ ان کی مثالوں میں امریکی قوم یا مذہب کی خاطر ایک سر زمین کی چاہ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے یہودیوں کی ایک اسرائیلی قوم بننے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔
قوم پرستانہ نظریات کے مطالعے میں اس قوائد پر بھی کافی بحث کی جاتی ہے کہ دنیا میں اقوام اور قوم پرستی کیسے نمایاں اور پھر منظم ہوئی ؟ اس قواعد میں یہ سوال بنیادی طور سے کیا جاتا ہے کہ آیا کون پہلے آیا ؟ یعنی قومیت کے نظریے کی ضرورت کو پہلے محسوس کیا گیا یا پھر خود قوم پرستی کے نظریات نے ہی اقوام کی تخلیق کی ؟ اس سوال کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ آیا اقوام پہلے معروض وجود تھے یا قوم پرستی کے نظریات نے پہلے دنیا میں جنم لیتے ہوئے انسانوں کو اقوام کی صورت تقسیم کیا ؟ یہ سوال ’’انڈہ پہلے آیا کہ مرغی ‘‘ جیسی نوعیت کا تو ضرور ہے مگر قوم پرستانہ نظریات کو سمجھنے کیلئے انتہائی اہم کیونکہ اس بنیادی سوال سے ہی قوم پرستی کے تمام نظریات اور اُنکی تاریخ جڑی ہے ۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ قومیں فطری طور سے پہلے سے ہی موجود ہیں تو اس فکر کے مقابل یہ سوچ گہری ہو جاتی ہے کہ اگر اقوام فطری طور سے موجود ہیں تو پھر بھلا کیسے کوئی اُنکے وجود و اُنکی تاریخ کی صحیح وضاحت دے سکتا ہے ؟ اور بھلا کیسے ایک جبلی ، فطری یا قدرتی وجود کی مکمل تشریح کی جا سکتی ہے ؟ جبکہ دوسری جانب اگر اقوام انسانی ضروریات کی مناسبت سے تعمیری طور پر وجود میں لائی گئی تو یہ بات نا گزیر ہے کہ انسان کو اس بات کا اہل ہونا چاہیے کہ وہ اسکی وضاحت کر سکے کہ یہ کیسے اور کیوں وجود میں آتے اتنی نمایاں ہوئی ؟
جیسے کہ اوپر بیان کردہ بحث و محض چند سوالات کو ہی سامنے رکھتے یہ احساس پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں کہ قوم پرستانہ نظریات سے جڑے پریشان کن ، کج مج اور غیر واضح مباحثوں کی اصل بنیاد متعدد افکار یا چیزوں کی مختلف انداز سے بیان کردہ تعریفوں کے سبب ہے کہ جسکی اہم وجوہ مختلف تحقیقوں و مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کے علاوہ خود اس نظریے کا پُر کشش(attractive) ہونا ہے مثلاً ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ کیسے دیگر نظریات سے متفق افراد نے قوم پرستی سے متاثر ہوتے ہوئے اس نظریے کے مختلف افکار کو اپنے مفادات کیلئے بھر پور استعمال کیا مثلاً قومی زبان یا کلچر کی ترویج جیسے قوم پرستی کے جُزوں کا ذاتی مفادات کیلئے استعمال یا نظریہ قوم پرستی کی مقبولیت سے گھبرا کر اسی میں ہی اپنے خیالات کی مداخلت کرنا ، جیسے کے مختلف مذاہب کا قوم پرستانہ سوچ سے مصنوعی پیدا کردہ تکرار یا قوم پرستی کے ہی کسی خیال کو لیتے اپنے ایجنڈے کا پرچار کرنا یا استحصالی طاقتوں کا مختلف مفاد پرست گروہوں کو یکجا کرتے اُنہیں ایک قوم کا نام دیا جانا وغیرہ شامل ہیں ۔ ایسی چیزوں کی واضح مثالوں میں ہم ، پاکستان پرست مولویوں کا بلوچ قوم پرستی سے انکاری ہونے کے ساتھ ساتھ لفظ ’’اُمہؔ ‘‘ کو ایک قوم کے معنوں میں پیش کیا جانا یا خود لفظ ’’پاکستانی قوم ‘‘ ’’مہاجر قوم ‘‘ جیسی اصطلاحوں کو شامل کر سکتے ہیں ۔ اس مد میں ہم موجودہ پشتونستان کی سیاسی صورتحال کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں کہ جہاں خود کو پشتون قوم پرست کہلاوانے والے سیاسی قائدین اپنی سر زمین کی جداگانہ حیثیت و دعویٰ کو چھوڑ ، غلامی کا طوق پہنے پاکستان کا حصہ بنتے اپنے ہی پشتون بھائیوں کی تباہ حالی میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔
اسی طرز کے کنفیوژن آپ کو مغربی بلوچستان کی مزاحمتی تاریخ پڑھنے پہ بھی محسوس ہو گی ، خصوصاً جب آپ ایران جیسے شاتر دشمن جو اپنی قوم پرستی کو مذہبی رنگ دیتے (shia-nationalism) کے ساتھ آپ کا استحصال کرتا ہے تو فطری طور سے اس کے مقابل اُٹھنے والی سنی ازم کو ہم قوم پرستی کہنے سے کتراتے عالمی طاقتوں کے آگے خود کو بنیاد پرست نہ سمجھے جانے کی ترکیب کرتے ہیں حتیٰ کہ یہ تدبیر موجودہ دور میں موثر تو ہے مگر ہم کیسے اُن قربانیوں کو فراموش کر سکیں گے جو ہمارے اپنے لوگوں نے مجبوراً یا پھر شائد دانستہ مذہب کی راہ میں ہی سہی مگر ہمارے قومی دشمن سے جنگ لڑتے دی ، مثلاً مئی 1915 ء کو مغربی بلوچستان میں برطانوی قبضہ گیری کے خلاف جب وہاں کے مذہبی حلقے نے مزاحمت میں جو ناقابلِ تسخیر کردار ادا کیا ہم اُسے آج کی (Anti-Fundamentalism) کے مغربی چرچے و پالیسی کے زیر اثر رہتے کیا کہیں گے ؟ ہم اُس اعلانِ جہاد کو کیا کہیں گے کہ جسکی تائید خود میر بہرام خان اور جاشک کے برکت خان نے کی ؟ ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں اُس تاریخی حقیقت کو کہ میر یار محمد جو برکت خان کے بھتیجے تھے اُنہوں نے خود اُن مریدوں و مذہبی لوگوں کی اس جہاد میں سر براہی کرتے کمان کی ؟ اُس جہاد کہ جس میں کارواں ، بنت ، جاشک اور گیاوان کے مذہبی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ہم آج کیا دشتیاری کے اُس قاضی سید علی کو واقعتا ایک مذہبی جنونی کہیں کہ جنہوں نے بھی اُس جہاد کی حمایت کی ؟ یا 3 مئی 1915 ء میں چاہبار میں قائم برطانوی فوج کے قلعے پہ دھاوا بولنے والے اُن لوگوں کو جو ہم سرمچارلکھیں یا کہ مذہبی جنونی کہ جنہوں نے اپنی جانوں پہ کھیل کر جاشک و چاہبار کے درمیان قائم ٹیلی گراف لائن کاٹتے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ؟ مذکورہ تناظر میں موجودہ بلوچ مزاحمت کی تاریخ میں مالک ریکی جیسے شخصیات کی کردار پر بھی بحث ممکن ہے ۔
مذکورہ بالا بحث کا مقصد محض اس احساس کو بیدار کیا جانا ہے کہ سادہ دکھنے والا یہ نظریہ مختلف خیالات و تعریفوں کی وجہ کیساتھ ساتھ اپنی چند ایک خوبیوں کے غلط استعمال سے دنیا بھر کے اقوام کیلئے اب کافی گنجلک ہو چلا ہے کہ جسکی وجہ سے اب اس بات کو ہر جگہ بڑی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے کہ قومیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی تشہیر و اسکی ترویج کے عمل کے دوران اپنے عوم کے آگے اپنی نظر میں قوم پرستی کے نظریے کو خود بیان کریں کیونکہ یہ دیکھا جا چکا ہے کہ مختلف انسانی گروہ (چاہے وہ سیاسی ہوں ، لسانی ہوں یا کہ مذہبی ) وہ ان نظریات کا استعمال اپنے مفادات و حقوق حاصل کرنے کی مناسبت سے اپنے طور سے کرتی ہیں ، جسکی واضح مثال مختلف مفاداتی گروہوں کا بلوچ قوم پرستی کے نظریے کو استعمال کرنا ہے ۔ اس مد میں بلوچستان کی مختلف پارلیمانی پارٹیاں ، جرائم پیشہ افراد کا کوئی گروہ یا وہ مذہبی تنظیمیں شامل ہیں کہ جو لفظ ’’اُمت ‘‘ کی اپنی بیان کردہ تعریف کرتے بلوچوں کو وفاق سے جڑے رہنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں اب یہ نا گزیر ہو چلا ہے کہ حقیقی بلوچ قوم پرست جماعتیں مختلف سیاسی ماہرین ، سماجی سائنسدان ، تاریخ دان و دانشوروں کی رائے لیتے ’’ بلوچ قوم پرستی ‘‘ و ’’بلوچ وطن‘‘ کی ایسی جامعہ تعریف کریں کہ جو نہ صرف عوام کو گنجلک اصطلاحوں کی بحث سے دور کرے بلکہ ہمارے مذہبی عقائد ، سماجی و ثقافتی اقدار کی بنیادوں پہ بھی ہمیں مطمئن کر سکے کیونکہ بلوچ معاشرہ بھی مختلف مذہبی و ثقافتی روایات کیساتھ مختلف انسانی خوبیوں کا مرکب ہے ۔
تمام بلوچ نبشتاکار دیم ءَ بیا اَنت ءُُ راجی جہد ءِ تہا وتی کِرد ءَ پدّر بکن اَنت ۔۔۔۔
(شہید غلام محمد )

نوٹ : مذکورہ آرٹیکل ، مارٹن ایکس مین کی مشہور کتاب
(Back to the Future)کے سیاق (The Concept Framework : Nations and Nationalism) کے گہرے مطالعے کے بعد قابلِ فہم مثالوں کی روشنی میں ترتیب دیتے ہوئے لکھا گیا تاکہ قارئین سے نہ صرف قوم پرستی جیسے گنجلک موضوع پر سوالات اٹھائیں جائیں بلکہ اُنکے ذاتی مطالعے کیلئے بھی ان سوالات کو بلوچ معاشرے و اُسکے تاریخی پس منظر میں بیان کیا جائے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...