ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

فرانس کا ماضی: مسلم۔غیرمسلم تعلقات کی کلید



پیرس ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ثقافتی طور پر فرانس اب ایک متنوع ملک ہے اور بعض اوقات اپنے تنوع سے معاملہ کرتے ہوئے اسے مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ حتٰی کہ آج بھی عصری فرانسیسی معاشرے اور فرانس میں بسنے والے مسلمانوں اور غیرمسلموں کی اجتماعی یادداشت کی صورت گری میں تاریخ اور اس کی میراث ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ 
ملک میں مختلف کمیونٹیوں کے انداز تعامل اور مسلمان آبادی کے ساتھ ریاست کے تعامل کے طریقے پر بھی تاریخ اثرانداز ہوتی ہے۔ فرانس اور شمالی افریقہ بالخصوص الجزائر (جسے کبھی ایک فرانسیسی خطہ ہی سمجھا جاتا تھا) کی باہم عمیق پیوست تاریخیں اور بالعموم متصادم یادیں ہیں۔ فرانسیسی اور شمالی افریقی کمیونٹیوں اور فرانسیسی ریاست اور اس کی مسلمان اقلیت کے درمیان بہتر تعلقات کے فروغ کے لئے ان پر توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ 
مسلمانوں اور غیرمسلموں کے تعلقات کم از کم انیسویں صدی سے فرانسیسی حکایت کا حصہ ہیں جب فرانس مسلمان شمالی افریقہ میں ایک نوآبادیاتی طاقت بنا۔ اور حالیہ دور میں فرانس کی سابقہ نوآبادیوں بالخصوص الجزائر، مراکش اور تیونس سے کارکنوں اور طلبا کے گروہوں کی یکے بعد دیگرے ہجرت سے فرانس کی اپنی سرحدوں کے اندر یہ داستان جاری رہی ہے۔ ان تارکین وطن کی اولاد میں سے زیادہ تر اب فرانسیسی شہری ہیں اور غالب تعداد مسلمان ہے۔ 
فرانسیسی مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بہتر مکالمے کے فروغ کے لئے مخصوص تاریخی حقائق کا وسیع علم اہم ہے۔ مثال کے طور پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانسیسی فوج میں شمالی افریقی مسلمان سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد بھرتی کی گئی جو "ٹکوس" کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ ان میں سے اکثر 1916 کی جنگ وردن میں خندقوں میں مارے گئے۔ 1926 میں پیرس کی گریٹ مسجد (جی ایم پی) دراصل ان مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے قائم کی گئی جو فرانس کے لئے لڑے تھے۔ یہ فرانسیسی سرزمین پر اسلام کی موجودگی کا پہلا بڑا علامتی اور سرکاری اعتراف تھا۔ 
اس وقت اور بالخصوص 1962 میں الجزائروی جنگ کے خاتمے کے بعد سے جو فرانسیسی نوآبادیاتی دور کے خاتمے کا باعث بنی، فرانس اپنی مسلمان اقلیت سے زیادہ تر ریاستی اداروں کے ذریعے تعامل کرتا رہا ہے۔ 
2003 میں سابق صدر نکولس سرکوزی نے فرانس کی مسلمان کونسل (سی ایف سی ایم) قائم کی۔ ان کا مقصد اسلام کی نمایاں شاخوں اور جی ایم پی سمیت مختلف اسلامی تنظیموں کو اکٹھا کرنا تھا جن سب کے الجزائر، مراکش اور تیونس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ 
ان کمیونٹیوں کے حوالے سے فرانس کے نوآبادیاتی ماضی کا از سر نو جائزہ فرانس کی شمالی افریقی کمیونٹی اور غیرمسلموں کے درمیان آج بہتر تعلقات کے فروغ میں ممد ہو سکتا ہے۔ 
اس سمت میں کوششیں کی جا رہی ہیں۔ در حقیقت صدر فرانکوئس ہالینڈ نے، جن کا اختتام سال سے قبل الجزائر کا دورہ طے ہے، 5 جولائی کو الجزائر کے یوم آزادی کے موقع پر صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کو ایک خط بھیجا۔ انہوں نے فرانس کے "نوآبادیاتی ماضی کے واضح اور ذمہ دارانہ جائزے" کے بارے میں بات کی۔ اس کا مطلب مئی 1945 میں الجزائر کے علاقوں سطیف اور قالمہ میں آزادی کے لئے مظاہروں کے دوران قتل عام کی ذمہ داری کا فرانس کی طرف سے سرکاری اعتراف ہو سکتا ہے۔ 
اس طرح کے اقدامات "یادوں کی جنگ" کو ختم کر سکتے ہیں اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر نو میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جو اب بھی بعض اوقات ماضی کی وفاداریوں پر تقسیم ہو جاتا ہے۔ "یادوں کی جنگ" کی اصطلاح سرکردہ فرانسیسی مؤرخ بینجمن سٹورا نے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان نوآبادیاتی ماضی کو دیکھنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے استعمال کی تھی۔ 
فرانس کا ماضی کیا تھا، اس حوالے سے ایک زیادہ متوازن نقطہ نظر فراہم کرنا نہایت اہم ہے۔ یہ صرف "تہذیب سکھانے کا مشن" نہیں تھا۔ مفاہمت کی غرض سے فرانس کو نوآبادیاتی نظام کے مسائل کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ فرانس میں مسلمانوں کے ماضی کے حصے کا اعتراف بھی کرنا چاہئے، مثلاً وہ مسلمان جنہوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں خدمات سرانجام دیں۔ اور یہ بھی یقینی بنانا چاہئے کہ تاریخ کی کتابیں اور سکولوں کے نصاب اور تعلیمی پروگرام اس اعتراف کی عکاسی کریں۔ 
مزید برآں بحیرہ روم کی دونوں جانب سے مؤرخین کو مشترکہ یادداشت سے متعلقہ منصوبوں پر اکٹھے کام کرنا اور الجزائر کے ساتھ ساتھ دیگر شمالی افریقی ممالک میں فرانس کی نوآبادیاتی میراث کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔ فرانسیسی مؤرخ بینجمن سٹورا اور الجزائروی مؤرخ محمد حربی اس حوالے سے ایک مثال بنے رہے ہیں۔ 
سٹورا اور حربی نے مل کر The war in Algeria, 1954-2004: the end of amnesia تصنیف کی اور اس کام کے لئے اس شعبے میں دنیا کے بہترین ماہرین کو اکٹھا کیا جنہوں نے اس موضوع پر معروضی معلومات فراہم کرنے کے مشکل ہدف کے لئے مل کر کام کیا۔ مستقبل میں ایک مشترکہ تاریخی حکایت کی تیاری کے لئے دونوں ملکوں فرانس اور الجزائر میں تاریخی آرکائیوز تک مشترکہ رسائی دونوں طرف کے مؤرخین کے درمیان مضبوط روابط کے قیام میں مدد دے سکتی ہے۔ 
صدر فرانکوئس ہالینڈ کے حالیہ انتخاب کے ساتھ فرانسیسی معاشرہ ایک بار بھر فرانس میں اسلام کے مقام پر غور کر رہا ہے۔ ہالینڈ کی صدارت پرامید طور پر ایک زیادہ مشمولہ معاشرے کے لئے ایک نئے باب کے آغاز کی علامت ہے۔ اور اس مقصد کی طرف پیش قدمی کے لئے تاریخ پر نظر ڈالنا ایک اہم اقدام ہے۔ 

###

٭ کاٹیا یزلی پیرس میں مقیم ایک فری لانس لکھاری ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...