ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو

میں تو یہاں تک سوچا کرتا ہوں کہ بعض ہی اہم نیکیاں مذہب کے علمبرداروں میں نہیں ملتیں۔ وہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مذہب کے باغی ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو نیکیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیںاور وہ راست بازی اور ذہنی دیانت ہیں۔ ذہنی دیانت سے میری مراد پیچیدہ مسائل کو ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر حل کرنے کی عادت ہے۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ جب تک کافی ثبوت 
اور شہادتیں دستیاب نہ ہوں، تب تک ان مسائل کو غیر حل شدہ ہی رہنے دیا جائے۔ ------- تحقیق کی حوصلہ شکنی ان میں سب سے پہلی خرابی ہے۔ لیکن دوسری خرابیاں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ قدامت پسندوں کو قوت و اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ تاریخی دستاویزات میں اگر کوئی بات عقیدوں کے بارے میں شبہات پیدا کرنے والی ہو تو ان کی تکذیب شروع کردی جاتی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر منحرف عقیدے رکھنے والوں کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ پھانسیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور نظر بندی کے کیمپ بنا دیے جاتے ہیں۔ میں اس شخص کی قدر کرسکتا ہوں جو یہ کہے کہ مذہب سچا ہے لہٰذا ہم کو اس پر ایمان رکھنا چاہئے (اور سچائی ثابت کرے) لیکن ان لوگوں کے لیے میرے دل میں گہری نفرت کے سوا کچھ نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب کی سچائی کا مسئلہ اٹھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور یہ کہ ہم کو مذہب اس لئے قبول کرلینا چاہئے کہ وہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر سچائی کی توہین کرتا ہے ، اس کی اہمیت کو ختم کردیتا ہے اور جھوٹ کی بالادستی قائم کردیتا ہے۔ ------ اشتراکیت کی برائیاں وہی ہیں جو ایمان کے زمانوں میں مسیحیت میں پائی جاتی تھیں۔ سوویت خفیہ پولیس کے کارنامے رومن کیتھولک کلیسا کی قرون وسطیٰ کی عدالت احتساب کے کارناموں سے صرف مقداری طور پر ہی مختلف تھے۔ جہاں تک ظلم و ستم کا تعلق ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس پولیس نے روسیوں کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو ایسا ہی نقصان پہنچایا جیسا کہ مذہبی احتساب کی عدالت نے مسیحی اقوام کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو پہنچایا تھا۔ اشتراکی تاریخ کی تکذیب کرتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ تک چرچ بھی یہی کام کیا کرتا تھا۔ ------ جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔ (برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ قاضی جاوید، ص 81-86 )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...