بدھ، 15 جولائی، 2015

ترکی میں سیاسی اسلام اور سیکولر کمال ازم میں کشمکش: از لیونائیداس اویکونوماکِس



ہراکلیون، کریٹی: چند ہفتے پہلے "وال سٹریٹ جرنل" نے ایک مضمون شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا "ترکی کی خونریزی سے پاک خانہ جنگی پر ایک نظر"۔ یہ مضمون ترکی کی اسلام کی طرف جھُکاؤ رکھنے والی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اور مُلک کے اُس پرانے سیکولر طبقہٴ اشرافیہ کے درمیان سرد جنگ جیسے ماحول کے بارے میں تھا جو خود کو "کمالسٹ" کہتا ہے اور مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے یکسر الگ رکھنے کا خواہاں ہے۔ لیکن یہ تو ترکی میں سیاسی اسلام اور سیکولرازم کے درمیان کم وبیش سو سال پہلے شروع ہونے والی "سرد جنگ" کی محض ایک تازہ ترین "جھڑپ" ہے۔ 

اِن دونوں اطراف کی تاریخ اور باہمی تعلق کو اچھّی طرح سمجھنا ترکی میں جاری اس سرد جنگ کو ختم کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے تاکہ مُلک میں امن وسکون قائم ہو سکے۔ 

اس سارے قصّے کا آغاز 1923 میں ہوا تھا جب سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترک جمہوریہ نے جنم لیا۔ جدید ترکی کے بانی مصطفٰے کمال اتا تُرک نے ترک جمہوریہ قائم ہونے کے فوراً بعد ہی "ثقافتی انقلاب" کا نعرہ لگا دیا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ ریاستی امور میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہے اس لئے انہوں نے مذہب کو ریاست کے تابع بنانے کی مہم چلائی: خلافت کو ختم کیا، تمام مذہبی سکول، تنظیمیں اور ادارے بند کر دیئے، اسلامی قوانین کی بجائے سوئٹزر لینڈ کے شہری، جرمنی کے تجارتی و کاروباری اور اٹلی کے تعزیری قوانین نافذ کیے؛ عربی رسم الخط کی جگہ اطالوی کو رائج کیا؛ تعلیم کو لازمی قرار دیا، عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا اور سرکاری اداروں میں مذہبی علامات کی نمائش پر پابندی عائد کر دی۔

لیکن اتا تُرک کا یہ ثقافتی انقلاب 'اُوپر سے نافذ ہونے والا انقلاب' تھا اور کبھی بھی اکثریت کے دلوں اور دماغوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ 

سیاسی اسلام اور ترک سیکولر ازم کے درمیان پہلا بڑا تصادم اتا تُرک کے عروج کے زمانے میں ہونے والا مینمین کا واقعہ تھا جب 1930 میں صُوفیوں کے ایک گروہ نے لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی۔ بغاوت کو سرد کر دیا گیا اور اس کے ذمہ داروں کو ترک فوج نے موت کے گھاٹ اُتار دیا یا اُنہیں جیل میں پھینک دیا گیا۔ 

1938 میں اتا تُرک کی موت کے بعد اور 1950 کے کثیرالجماعتی انتخابات کے دوران سیاسی رہنما اور مستقبل کے وزیرِ اعظم عدنان میندیریس اور اُن کی ڈیمو کریٹک پارٹی نے عربی کو دوبارہ قانونی حیثیت دے کر اور اذان پر عائد پابندی ہٹا کر اسلام کو عوامی زندگی میں دوبارہ شامل کرنے کے نعرے تَلے انتخابی مہم چلائی اور کامیابی حاصل کی۔ تاہم ترک فوج نے 1960 میں کمال اتا ترک کے سیکولر ازم کا پاسبان ہونے کا دعوٰی کرتے ہوئے بغاوت کی اور میندیریس کو آئین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ 

ان حالات میں سیاسی اسلام ایک بار پھر زیرِ زمین ہوگیا اور 1996 میں وزیرِ اعظم نجم الدین اربکان اور اُن کی ویلفیئر پارٹی (آر پی) کی انتخابات میں کامیابی کی صُورت میں دوبارہ اُبھر کر سامنے آیا۔ یہ اربکان ہی تھے جنہوں نے پہلی بار ہیڈ سکارف اوڑھنے کے معاملے کو سیاسی طور پر اچھالا اور مسلم اکثریت والے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ تاہم ترک فوج نے 1997 میں آر پی کا تختہ بھی اُلٹ دیا اور اگلے سال اُس پر پابندی لگا دی گئی۔

پابندی کے باوجود 2001 میں آر پی کا اصلاح پسند دھڑا وجود میں آیا جو آگے چل کر ترکی میں سیاسی اسلام کو آج تک ملنے والی سب سے بڑی کامیابی بن گیا۔ ترکی کے موجودہ وزیرِ اعظم ریسپ طیّپ اردگان کی اے کے پی نے 2002 کے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے اور تب سے مُلک پر حکومت کر رہی ہے۔

اے کے پی ترکی کو یورپی یونین کی دہلیز تک لے گئی ہے، ہیڈ سکارف کے معاملے کو اُچھال کر مذہب کو سیاست زدہ کیا ہے، بیانات اور اعلٰی سطحی پالیسیوں کے ذریعے ترک معاشرے کو خاموشی کے ساتھ قدامت پرست بنانے کی حوصلہ افزائی کی ہے جس سے ہمسایہ معاشروں پر بھی عوام کی سطح تک تیزی سے مذہبی ہونے کے لئے دباؤ پڑ رہا ہے۔

آٹھ سال بعد ترک معاشرہ تیزی سے پولرائزڈ ہو رہا ہے۔ حکومت اور اس کے حامی میڈیا کو قابو کرنے اور پولیس اور عدلیہ کو کمال ازم کے حامیوں کے ہاتھوں سے نکالنے کے لئے مسلسل تگ ودو کر رہے ہیں حالانکہ "زمان" اخبار سمیت مُلک کے بیشتر ذرائع ابلاغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے ہی حکومت کے ساتھ ہیں۔ 

اس کے ساتھ ہی ترکی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے جو مسلم دنیا پر مرکوز ہے اور ترکی اپنے روایتی مغربی اتحادیوں سے دور ہٹ رہا ہے۔ 

لیکن حقیقی نوعیت کی پائیدار ترقی کے لئے ترکی کو ان دونوں اطراف میں سے کسی کو بھی فاتح یا شکست خوردہ بنائے بغیر اپنی اندرونی سرد جنگ سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ترکی کے سیکولر اشراف کو مُلک کے واضح مذہبی منظر نامے اور حساس معاملات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہوگا اور اسی طرح سیاسی اسلام کے علمبرداروں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک مذہب ہے، ریاست چلانے کا طریقہ نہیں ہے اور یہ کہ اسے فرد کا نجی معاملہ ہی رہنا چاہیے۔

یورپی یونین اور اس کا رُکن بننے کی اہلیت پرکھنے کا کوپن ہیگن معاہدے والا معیار، جس میں جمہوریت کا احترام، قانون کی بالادستی، انسانی و اقلیتی حقوق کی پاسداری اور ایک فعال مارکیٹ اکانومی شامل ہے، ہی وہ بہترین راستہ ہے جو ترکی کی ان دونوں دنیاؤں کو ایک نقطے پر لا سکتا ہے تاکہ دونوں اطراف کے لئے قابلِ قبول ایک سماجی وسیاسی فریم ورک کے ذریعے اس مُلک کو داخلی سکون مُیسّر آسکے۔ 

اس مقصد کے حصول کے لئے یورپی یونین کو قیامِ امن میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جس میں اسے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس رقص میں سازندے کا کردار یورپ کے پاس ہے اور رقص کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ موسیقی کا تسلسل قائم رہے۔ 


* لیونائیداس اویکونوماکِس کریٹی یونیورسٹی اور مشرقِ وسطیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے مرکز برائے مطالعہٴ یورپ میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز) کے لئے لکھا گیا ہے۔

ماخذ : کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز

پیر، 13 جولائی، 2015

دنیا اگلے 15 برسوں میں سرد ہو جائے گی: تحقیق


نصرت شبنم

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگلے پندرہ برسوں میں سورج کی سرگرمیوں میں کمی کا امکان ہے جس کی وجہ سے زمین انتہائی سرد ہو سکتی ہے۔


سائنس دانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ 15 سالوں میں زمین 'منی آئس ایج' یا مختصر برفانی دور کا سامنا کرے گی جس کے دوران موسم سرما شدید ترین ہوگا اور برطانیہ کا مشہور دریائے ٹیمز ماضی کی طرح ایک بار پھر سے منجمد ہوجائے گا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگلے پندرہ برسوں میں سورج کی سرگرمیوں میں کمی کا امکان ہے جس کی وجہ سے زمین انتہائی سرد ہو سکتی ہے۔
'یونیورسٹی آف نورتھ امبریا' سے منسلک شمسی توانائی کے محققین نے ایک نیا ماڈل تیار کیا ہے جو سورج کی سرگرمیوں کی پیش گوئی کرتا ہے۔ سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ انھوں نے ماڈل کی مدد سے سورج کی 11 سالہ بے ضابطگیوں کی درست پیشن گوئی کی ہے۔
تحقیق سے وابستہ پروفیسر ویلینتینا کے مطابق سورج کی سطح پر دو مقناطیسی لہروں کے آپس میں ملنے اور ایک دوسرے کو موثر طریقے سے منسوخ کرنے کی وجہ سے سورج پر شمسی سرگرمیاں 60 فیصد کم ہوجائیں گی جس کی وجہ سے 2030ء میں درجہ حرارت ڈرامائی طور پر گر جائے گا۔
سائنس دانوں والٹر ماونڈر نے 300 سال پہلے مختصر برفانی دور میں سورج کے دھبوں میں کمی کا مشاہدہ کیا تھا، جو شمسی سرگرمیوں میں کمی کی طرف اشارہ تھا۔
یہ دور 1645ء سے 1715ء کے درمیان کی مدت پر محیط تھا۔ یورپ کی تاریخ میں اس سرد ترین دور کو 'مونڈر مینیمم' کہا جاتا ہے۔ تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کرہ شمالی میں شدید سردی پڑی تھی اور لندن میں دریائے ٹیمز دو ماہ تک مستقل منجمد رہا تھا جبکہ شمالی یورپ اور امریکہ میں فصلیں تباہ ہونے لگی تھیں اور قحط آنے شروع ہوگئے تھے۔
لگ بھگ پونے دو سو سال پہلے سائنس دانوں نے پہلی بار سورج کے دس سے 12 سال کے سائیکل کے دوران مختلف شمسی سرگرمیوں کو دریافت کیا تھا۔
موجودہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ شمسی سرگرمیوں میں اتارچڑھاؤ زمین پر آب و ہوا میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن ماہرین کو یہ نہیں معلوم ہورہا تھا کہ سورج کے موسموں میں ٹہراؤ اور اس پر اٹھنے والے شعلوں میں کمی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
نئی تحقیق سے وابستہ پروفیسر ویلینتینا زاہرکووا کے مطابق سورج کے اندر ہونے والی حرکت یا شمسی سرگرمیاں پینڈولم کی طرح آگے پیچھے چلتی ہیں۔ سائیکل کے اختتام کے ایک سرے پر کچھ سکون ہوتا ہے اور سورج کے دھبے اور شعلے کم ہوتے ہیں اور دوسرے اختتام پر زیادہ تعداد میں دھبے اور مستقل طوفانوں کا جنم لینا ایک معمول کی بات ہے۔
پروفیسر ویلینتینا کے بقول اگرچہ شمسی سائیکل کے اندر اتار چڑھاؤ کی پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے، لیکن بہت سے ماہرین طبیعات جانتے ہیں کہ سورج کے اندر مخلتف حالتوں کی ذمہ دار ایک ڈائنے مو )انتہائی طاقتور توانائی) ہوتی ہے جو سورج کے ارتعاش اور حرارت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
 لیکن، ان کے بقول، ہماری تحقیق میں سورج کی سطح سے قریب ایک اور ڈائنے مو کے بارے میں پتا چلا ہے جو حیرت انگیز طور پر شمسی سائیکل کی درست وضاحت پیش کرتا ہے۔
پروفیسر ویلینتینا اور ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا ہمیں سورج پر مقناطیسی لہروں کے اجزا جوڑوں میں ملے تھے، جو کہ سورج کی اندرونی سطح کی دو مختلف تہوں میں شروع ہوئے تھے۔ ان کی فریکوئنسی تقریبا گیارہ سال کے برابر ہے، اگرچہ دونوں کے تعدد میں تھوڑا سا فرق ہے اور یہ دونوں لہریں ایک وقت میں آف سیٹ یا غیر متوازن تھیں۔
بقول پروفیسر ویلینتینا مقناطیسی موجیں سورج کے شمالی اور جنوبی مقناطیسی قطب کےدرمیان اتارچڑھاؤ کی حالت میں ہوتی ہیں۔ دونوں لہروں کو جمع کرنے اور موجودہ شمسی سائیکل کے حقیقی اعداد و شمار کا موازنہ کرنے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ ہماری پیش گوئی 97 فیصد درست ہوسکتی ہے۔
نئے مطالعے میں پروفیسر  ویلنتینا نے مقناطیسی میدان کی سرگرمیوں کے تین شمسی سائیکل کا تجزیہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے 1976ء سے 2008ء میں سورج کے اوسط دھبوں کے اعداد و شمار - جنھیں شمسی سرگرمیوں کا مضبوط مارکر کہا جاتا ہے ۔ کے ساتھ اپنی پیش گوئی کا تقابلی موازنہ کیا ہے اور نتائج سے ظاہر ہوا کہ تمام پیش گوئیاں اور مشاہدے ایک دوسرے سے مماثل تھے۔
سائنس دانوں نے اگلے شمسی سائیکل پر منحصر ماڈل سے پیش گوئی کی ہے کہ سائیکل 25 کے دوران مقناطیسی لہریں ایک وقت میں زیادہ غیر متوازن بن جائیں گی جن کا عروج 2022ء میں ہوگا۔
سائیکل 26، جو کہ 2030ء سے 2040ء کی ایک دہائی پر محیط ہے، کے دوران یہ دونوں لہریں ایک دوسرے سے بالک مربوط نہیں ہوں گی اور شمسی سرگرمیوں میں اہم کمی کا سبب بنیں گی۔
پروفیسر ویلینتینا کا کہنا ہے کہ جب یہ دونوں مقناطیسی لہریں تقریبا ایک ہی مرحلے پر عروج پر ہوتی ہیں تو ہمیں مضبوط شمسی سرگرمی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب دونوں مقناطیسی لہریں ایک پوائنٹ پر عروج پر نہیں ہوتیں اور ایک دوسرے سے مطابقت کھو دیتی ہیں تو سورج پر کم سے کم شمسی سرگرمی ہوتی ہے۔ ان کے بقول جس مرحلے میں دونوں لہریں علحیدہ ہوں گی تو ہمیں ایسے حالات ملیں گے جس کا آخری بار 370ء سال پہلے 'مینڈر مینیم' کے دور میں سامنا کیا گیا تھا۔
سورج سے متعلق چند حقائق
سورج ایک درمیانے سائز کا جی ٹو ستارہ ہے اور ایک جی ٹو یا نسبتاً ٹھنڈے ستارے کی اوسط زندگی کی بنیاد پر سورج کی موجودہ عمر 4.6 ارب سال ہے۔ سورج 75 فیصد ہائیڈروجن اور 23 فیصد ہیلیم اور 2 فیصد بھاری عناصر پر مشتمل ہے۔
سورج کا ایک موسمیاتی چکر گیارہ سال پر محیط ہوتا ہے۔ سورج مجموعی طور پر ہر گیارہ سال بعد اپنی مقناطیسی قطب نمائی کی خاصیت الٹتا ہے اور اس کا شمالی مقناطیسی قطب جنوبی قطب اور جنوبی مقناطیسی قطب شمالی قطب بن جاتا ہے۔
سائنس دانوں کو معلوم ہے کہ سورج اپنی تہہ میں جمع شدہ ہائیڈروجن کو اگلے پانچ ارب سال تک جلانا جاری رکھے گا اور اس کے بعد ہیلیم سورج کا بنیادی ایندھن بن جائے گا۔
سورج نطام شمسی کا مرکزی ستارہ ہے اس کی بھاری کمیت اسے اتنی ہی اندرونی کثافت فراہم کرتی ہے جس سے اس کے مرکز میں مرکزی ائتلاف کا عمل ہوسکے۔ مرکزی ائتلاف کے نتیجے میں بہت بڑی مقدار میں توانائی پیدا ہوتی ہے جس کا زیادہ تر حصہ مقناطیسی لہروں اور روشنی کی شکل میں خلا میں بکھیر جاتا ہے
۔

اتوار، 12 جولائی، 2015

امریکہ میں تیل کی پیداوار، عالمی منڈی میں تہلکہ


واشنگٹن — تیل کی پیداوار سے متعلق عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ میں تیل کی تیزی سے بڑہتی ہوئی پیداوار عالمی منڈی 
میں ایک تہلکہ مچا دے گی۔



پیرس میں قائم  اِس ادارے نے منگل کے روز بتایا کہ شمالی امریکہ کی  ریاست نارتھ ڈیکوٹا میں تیل کی اضافی پیداوار اور کینیڈا کے’آئل سینڈز‘ اگلے پانچ برسوں میں تیل کی عالمی منڈی میں اِسی طرح  تبدیلی لائیں گے جس طرح چین میں گذشتہ 15 برسوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی طلب  سامنے آئی ہے۔
ادارے کی انتظامی سربراہ، ماریہ وین ڈر ہووین کا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ کی یہ  پیش قدمی تیل کی  عالمی منڈی میں تھرتھلی مچا دیگی۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں شمالی امریکہ کا شمار مشرق وسطیٰ  کے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم  (اوپیک)  سے باہر تیل پیدا کرنے والے اُن ممالک میں ہوگا جو دنیا  میں پیدا ہونے والے کُل تیل کا دو تہائی  پیدا کرتے ہیں۔ ’اوپیک‘ ممالک اِس وقت دنیا میں 35 فیصد تیل کی مصنوعات پیدا کر رہے ہیں۔  تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیے استعمال کی جانے والی جدید تکنیک شمالی امریکہ میں تیل کے اضافہ کا سبب بنی۔اِس تکنیک میں پانی کی تیز دھار اور دیگر عناصر کو پہاڑوں کے بیچ  تیزی سے چھوڑا جاتا ہے،  تاکہ پہاڑ سے تیل کے ذخائر کے  مادوں کو کھدائی کے لیے نرم کیا جاسکے۔
شمالی امریکہ میں تیل کی پیداوار میں آنے والی یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سال سنہ  2020میں امریکہ دنیا کے سب سے بڑے تیل  پیدا کرنے والے ملک، سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔
 توانائی کے عالمی ادارے نے پیش گوئی کی ہے کہ 2017ء تک امریکہ خام تیل کی پیداوار میں سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ کر تیل نکالنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آجائے گا۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کی حالیہ پیش گوئی ادارے کی ماضی کی اپنی ہی رپورٹوں کے قطعی برعکس ہے جن میں کہا جاتا رہا ہے کہ سعودی عرب 2035ء تک دنیا میں خام تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک کی اپنی حیثیت  برقرار رکھے گا۔













































































فہرست ممالک بلحاظ پیداوار تیل


اپنی تفصیلی  سالانہ رپورٹ میں 'آئی ای اے' کا کہنا ہے کہ امریکہ میں توانائی کے ذخائر کی بازیافت اور ان کی ترقی کی عمل تیزی سے جاری ہے جس کے اثرات صرف شمالی امریکہ اور توانائی کی عالمی صنعت پر ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے بھی محسوس کیے جائیں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایندھن درآمد کرنے والے دیگر ممالک  کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درآمدات پر انحصار بڑھے گا۔ لیکن اس کے برعکس امریکہ کی تیل کی درآمدات میں بدستور  کمی آرہی ہے اور 2035ء تک امریکہ ایندھن کی اپنی تقریباً تمام تر ضروریات داخلی ذخائر سے پوری کرنے کے قابل ہوچکا ہوگا۔

واضح رہے کہ امریکہ اس وقت اپنی ایندھن، یعنی تیل و گیس کی ضروریات کا تقریباً 20 فی صد بیرونی دنیا سے درآمد کرتا ہے۔
اس وقت تیل اور گیس کی پیداوار میں بالترتیب سعودی  عرب اور روس دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ تاہم عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ 2015ء تک گیس کی پیداوار میں روس کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گا جب کہ 2017ء تک دنیا میں سب سے زیادہ تیل نکالنے والا ملک  بھی بن چکا ہوگا۔

'آئی ای اے' کے مطابق امریکہ میں تیل کی پیداوار 2015ء تک 10 ملین بیرل یومیہ ہوجائے گی جب کہ 2020ء تک یہ پیداوار 1ء11 ملین بیرل یومیہ تک بڑھ جانے کی توقع ہے۔

عالمی ادارے کے مطابق سعودی عرب کی تیل کی یومیہ پیداوار 2015ء میں 9ء10 ملین بیرل ہوگی جو 2020ء تک گھٹ کے 6ء10 ملین بیرل تک آجائے گی۔تیل کی پیداوار کے عالمی ادارےکا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ میں تیل کی یہ پیداوار شاید اگلے چند برس تک وہیں محدود رہے۔ لیکن، تیل نکالنے کا جدید طریقہ دیگر کمپنیوں کو یہ موقع دے سکتا ہے کہ وہ اُن مقامات  سے تیل پیدا کرنے کی کوشش کریں  جنہیں اب تک  پُرخطر اور  گراں سمجھ کر مسترد کر دیا گیا ہے۔  وین ڈر ہووین کا کہنا ہے کہ اِس صورتحال میں تیل کی عالمی منڈی کی جانب سے شدید ردِعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔ کل ‘ میں توانائی میں خودکفالت سے




 متعلق ایک تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر امریکہ توانائی کے لیے دوسرے ملکوں کا دستِ نگر نہ بھی رہا پھر بھی اُس سے قیمتیں کم ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

اخبار کہتا ہے کہ مِٹ رامنی اور براک اوبامہ دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کو غیر ملکی تیل پر انحصار سے چھٹکارا دلائیں گے اور یہ کہ وہ شمالی امریکہ کو توانائی میں  خودکفیل بنا دیں گے۔

اخبار کہتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں کوئی بھی کیوں نہ ہو، امریکہ اِس وقت جِس راہ پر گامزن ہے اُس کی مدد سے وہ اپنی تیل اور گیس کی ضروریات ملک کے اندر ہی پورا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

یہ اُس فنیاتی ترقی کی بدولت ممکن ہوگیا ہے جس سے سنگلاخ چٹانوں کے اندر سے تیل کے ذخائر نکالے جاسکیں گے۔

لیکن، ملک کے اندر جو وافر ذخائر موجود ہیں اُن سے توانائی کی قیمتیں کم ہونے کی ضمانت نہیں ملتی اور اگر شمالی امریکہ مکمل طور پر تیل کی درآمد سے آزاد  بھی ہو گیا پھر بھی امریکہ عالمی مارکیٹ کے ساتھ بندھا  ہوا  ہوگا۔


سعودی عرب کے وزیر تیل، علی النعیمی کا کہنا ہے کہ یہ سوچنا درست نہ ہوگا کہ مشرق وسطیٰ کےتیل پر انحصار کیے بغیر امریکہ کا گزارا ممکن ہے۔

ااُنھوں نے کہا کہ وہ امریکی تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی پیداوار کا خیرمقدم کرتے ہیں، جو امریکی معیشت اور دنیا کی تیل کی رسد کے لیے سود مند ہے۔

تاہم، اُنھوں نے کہا کہ توانائی میں خودانحصاری کا خیال حقیقت پر مبنی نہیں، کیونکہ، اُن کے بقول، توانائی کی عالمی منڈیاں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔

سنہ 1970میں مشرق وسطیٰ کے تیل پر لگنے والی پابندی کے معاملے پرمتعدد امریکیوں نے، جن میں صدر اوباما اور اُن کے پیش رو شامل ہیں، کہہ چکے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ امریکہ غیر ملکی تیل پر انحصار ترک کر دے۔ اُن کے خیال میں توانائی پر انحصار نہ کرنا امریکی قومی سلامتی کے لیے مفید ہے۔








2011
ملک
پیداوار (بلین پیرل یومیہ)
عالمی فیصد
 دنیا
84,820,000
100%
1
 سعودی عرب
11,150,000
12.06%
2
 روس
10,210,000
11.01%
3
 ریاستہائے متحدہ امریکہ
9,023,000
8.91%
4
 ایران
4,231,000
4.77%
5
 چین
4,073,000
4.56%
6
 کینیڈا
3,592,000
3.90%
10
 عراق
2,638,000
3.75%
8
 میکسیکو
2,934,000
3.56%
7
 متحدہ عرب امارات
3,087,000
3.32%
11
 برازیل
2,633,000
3.05%
9
 کویت
2,682,000
2.96%
13
 وینزویلا
2,453,000
2.93%
14
 ناروے
1,998,000
2.79%
12
 نائجیریا
2,525,000
2.62%
15
 الجزائر
1,885,000
2.52%
16
 انگولا
1,840,000
2.31%
17
 قازقستان
1,635,000
1.83%
19
 برطانیہ
1,099,000
1.78%
21
 انڈونیشیا
982,900
1.66%
18
 قطر
1,631,000
1.44%
20
 آذربائیجان
987,000
1.20%
23
 بھارت
897,300
1.04%
22
 کولمبیا
1,011.99
0.97%
25
 سلطنت عمان
890,500
0.95%
26
 ارجنٹائن
796,300
0.93%
27
 ملائشیا
693,700
0.82%



گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...