بدھ، 24 دسمبر، 2014

ایک قوم کا غم..فاطمہ بھٹو




میں نے گزشتہ روز پشاور میں ایک خاندانی دوست سے فون پر بات کی اور دریافت کیا کہ کیا حال ہیں ؟ میرے پاس کوئی ایسی زبان نہیں جو میں اپنے احساسات بیان کر سکوں ۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں ٹیلویژن پر دکھائے جانے والے خوفناک منظر بیان کرسکوں یا ٹوئیٹر جو مجھے مسلسل حالات سے آگاہی فراہم کرتا رہتا ہے۔

’’اے میرے اﷲ‘‘ اس نے کہا وہ کتنے کم سن اور خوبصورت تھے ان میں سے بیشتر کی عمریں 12اور16 سال کے درمیان تھیں۔فون پر میں نے ایک ایسے بچے کی داستان بھی سنی جو اسکول میں پھنس گیا تھا اسے کندھے اور جبڑے پر گولی لگی تھی لیکن وہ زندہ ہے۔

طالبان نے پشاور آرمی پبلک اسکول پر اس لئے حملہ کیا کہ ان کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ پاکستان اس دردکی شدت کو محسوس کرے لیکن معروف شاعر فیض احمد فیض نے ایک شعر میں لکھا ہے کہ پاکستان درد و الم کا ایک سمندر بن گیا ہے کوئی قوم اس سے زیادہ اور کیا غم برداشت کرسکتی ہے؟

’’یہ بیٹا میرا خواب تھا‘‘ایک غمزدہ باپ نے پشاور میں کہا ’’آج میں نے اپنے خواب کو دفن کردیا‘‘ آج ہمارے جیسے بہت سے نوجوان شہری پہلی بار یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان اب خوابوں سے خالی ہے ایسا غم جس کا کوئی نام نہیں۔

جب کسی کا باپ مرجائے تو یتیم اور شوہر مرجائے تو بیوہ کہلاتے ہیں لیکن میری معلومات کے مطابق جو باپ اپنے بیٹے کو دفن کرے اسے کس نام سے پکارا جائے دنیا کی کسی زبان میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں۔ ہمارے پاس ایسی کوئی زبان نہیں جو ایسے والدین کی کیفیت بیان کرسکے جب وہ اپنے بچے کو وقت سے پہلے دھرتی کے سپرد کرتے ہیں۔سو اب ہم کس زبان سے مرنے والوں کا ذکر کریں؟یہ ناقابل برداشت غم ہے ۔

لیکن آج پاکستان میں غم کے ساتھ ایک غصہ بھی پایا جاتا ہے یہ غصہ ان کے خلاف ہے جو دہشت گردی سے منہ موڑ لیتے ہیں اور جس پر ہمیں انسانی جانوں کے ذریعے اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔ یہ غصہ ان پر بھی ہے جو قاتلوں کے سامنے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ان کی نام سے مذمت کرنے سے گریز کرتے ہیں یہ غصہ ان پر بھی ہے جو معصوم افراد کی اموات پر مصلحت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
یہ غصہ ہے !یہ غصہ ہے اور شرمساری بھی یہ پڑھ کر شرم محسوس ہوتی ہے کہ ان تین انسٹرکٹر کو بھی اس وقت قتل کیا گیا جس وقت وہ آرمی پبلک اسکول میں بچوں کو ہنگامی طبی امداد کی تربیت دے رہے تھے یہ معلوم ہونے پربھی شرم محسوس ہوئی کہ جن بچوں اور دیگر کو قتل کیا گیا ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں ، ہم ان کے سامنے شرمسار ہیں کہ ہم ان کے ساتھ معذرت بھی نہیں کرسکتے ۔ اس پر بھی شرم آتی ہے کہ ملک کے شہری انہیں تحفظ فراہم بھی نہیں کرسکے۔ سولہ سالہ شاہ رخ نے پریس کو یہ خوفناک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ افراد جو انہیں اور ان کے کلاس فیلوز کو قتل کرنے آئے تھے انہوں نے اسکول کے بینچوں کے نیچے بھی دیکھا تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا ۔ شاہ رخ جسے دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگی تھیں انہوں نے اپنی ٹائی اپنے منہ میں دبائی تاکہ اپنے آپ کو چیخنے سے روک سکے ۔ ہمارے پاس کون سے الفاظ ہیں جن کے ذریعے ہم شاہ رخ کو یقین دلا سکیں ؟ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں۔

طالبان عربی میں طالب علم کو کہا جاتا ہے۔

یہ کس قسم کے طلباء ہیں جنہوں نے سیکھنے کی جگہ خون آلودہ کردی؟
پشاور میں اس نسل کشی کے بعد بھارت نے تمام درسگاہوں میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے غم اور یکجہتی کا اظہار کیا ، ترکی نے ایک دن کا یوم سوگ منانے کا اعلان کیا او رپاکستان کے اندر ہم لفاظی میں مصروف ہیں۔

ایک عورت کو اپنے طلباء کے سامنے مرنے تک جلا نے کے واقعے کو آپ کیسے فراموش کر سکتے ہیں ؟

یہ کیسے طالبان ہیں جن سے عوامی شخصیات ، اینکر پرسن، سیاستدان اور غیر متاثر نوجوان اور کچھ نہیں صرف نفرت ہی کرتے ہوں؟ ہم اس طویل دہشت گردی کے بارے میں کیسے بات کر سکتے ہیںجس کا ہم نے کابل میں واقع استقلال اسکول پر حملہ کے موقع پر سامنا کیا جس کے نتیجہ میں 6 افغانی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ۔ عورت جسے دہلی میں بس میں رات کے وقت سفر کرتے ہوئے ہوس کا نشا نہ بنایا گیا اور پشاور کے معصوم بچے جنہیں بے رحمانہ طور پر قتل کیا گیا ۔

نوحہ کی شاعری جو غم کی علامت ہے آج ہم پاکستان میں ان اموات پر نوحہ کی شاعری پڑھ رہے ہیں تاکہ ہم بے انتہا غمزدہ لوگوں کی دلجوئی کیلئے نوحہ خواں ہوں۔

محمد حنیف جو ہمارا نہات بیباک اور نڈر مصنف ہے نے گزشتہ منگل کو لکھا ’’پشاور میں قتل ہونے والے بچوں کیلئے دعائے مغفرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سولہ سالہ بچہ کیا گناہ کر سکتا ہے ، پاکستان کے سیاستدانوں اور فوج سے درخواست ہے کہ وہ ان معصوم بچوں کے بعد از مرگ حشر کی فکر نہ کریں جب وہ دعا کیلئے ہاتھ بلند کریں تو وہ اپنی بخشش کیلئے دعاگو ہوں اور انہیں اپنے ہاتھ بغور دیکھنے چاہئیں تاکہ کہیں ان کے ہاتھ بھی خون آلودہ تو نہیں؟

لیکن میں بلبل پشاوررحمٰن بابا کی طرف واپس آئوں گی کہ ’’ہم سب ایک جسم ہیں ‘‘ 
شاعرنے لکھا ہے کہ’’ جو کسی اور کو اذیت دیتا ہے وہ خود کو زخمی کرتا ہے‘‘۔


منگل، 16 دسمبر، 2014

16 سالہ بچوں کے لیے دعائے مغفرت کیسی؟ محمد حنیف


میرا خیال ہے یہ دعا غیر ضروری ہے۔
میٹرک کرنے والے یا مڈل سکول میں پڑھنے والے یا پرائمری جماعت کے طالب علم نے آخر کیا گناہ کیا ہوگا کہ اس کی کی بخشش کے لیے دعا مانگی جائے۔
ہو سکتا ہے کسی نے کینٹین والے کا بیس روپے ادھار دینا ہو، ہو سکتا ہے کسی نے اپنے کلاس فیلو کو امتحان میں چپکے سے نقل کرائی ہو۔ کسی نے ہو سکتا ہے کرکٹ کے میچ میں امپائر بن کر اپنے دوست کو آؤٹ نہ دیا ہو، کوئی کسی سے ایزی لوڈ لے کر مکر گیا ہو۔ ہو سکتا ہے کسی نے کلاس میں کھڑے ہوکر استاد کی نقل اتاری ہو، ہو سکتا ہے کسی شریر بچے نے سکول کے باتھ روم میں گھس کر اپنا پہلا سگریٹ پیا ہو۔
خبروں میں آیا ہے کہ جب سبز کوٹوں اور سبز جرسیوں اور سبز چادروں پر خون کے چھینٹے پڑے تو سکول میں میٹرک کی الوداعی تقریب بھی چل رہی تھی۔ اس تقریب میں ہو سکتا ہے کہ کسی نے کوئی غیر مناسب گانا گا دیا ہو۔
اگلے ہفتے سے سردیوں کی چھٹیاں آنے والی ہیں کئی بچوں نے اپنے رشتہ داروں کے پاس چھٹیاں گزارنے کا پروگرام بنایا ہو گا جہاں پر ساری رات فلمیں دیکھنے یا انٹرنیٹ پر چیٹ کرنے کے منصوبے ہوں گے۔
آخر سولہ سال تک کی عمر کے بچے اور بچیاں کیا گناہ کرسکتے ہیں جس کے لیے اس ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت ہاتھ اٹھا کر دعائے مغفرت کرے؟
ہوسکتا ہے سکول میں ایک دوست نے دوسرے سے وعدہ کیا ہو کہ چھٹیوں کے بعد ملیں گے۔ اب ان میں سے ایک واپس نہیں آئے گا کیوں کہ وہ پشاور کی مٹی میں ایک ایسی سرد قبر میں دفن ہے جو کہ ایک ایسا کلاس روم ہے جہاں کوئی کلاس فیلو نہیں اور جہاں کبھی چھٹی کی گھنٹی نہیں بجتی۔
تو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے درخواست ہے کہ وہ ان بچوں کی آخرت کے بارے میں پریشان نہ ہوں اور جب کل دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اپنی مغفرت کی دعا مانگیں اور دعا کے لیے ان ہاتھوں کو غور سے دیکھیں کہ ان پر خون کے دھبے تو نہیں۔

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...