بدھ، 19 ستمبر، 2012

Pericles پیری کلیس کا خطاب: شہدا کو خراجِ عقیدت



 پیدائش: 495ق م

وفات: 429 ق م

قدیم یونان کا سیاست دان۔ ڈیموکریٹک پار ٹی کا لیڈر ۔ 460 ق م سے وفات تک ایتھنز کی شہری ریاست پر حکمرانی کی۔ ایتھنز کو سپارٹا کے خلاف فوجی اعتبار سے مضبوط کرکرنے کے ساتھ ساتھ شہر کو علوم کا مرکز اور دنیا کا حسین ترین شہر بنانے کی کوشش کی۔ پارتھینن ، اوڈین اور پروپائلا کے علاوہ اور بھی کئی عمارتیں تعمیر کرائیں۔ دربار میں ملک کے بڑے بڑے علما و فضلا کو جمع کیا جن میں فیدیاس اور انکسا غورث بھی شامل تھے۔ 
طاعون کا شکار ہو کر چل بسا۔

میرے ہموطنو، ہمارے آبا واجداد کا حق ہے کہ آج کے مقدس دن کی ابتدا ان کے نام سے کی جائے۔ ان کی ہر نسل اس مٹی کی گود میں پل کر جوان ہوئی اور انہوں نے اپنی جراُت اور شجاعت کے سبب اس بات کو ممکن بنایا کہ آج انکی آل اولاد اس سرزمین میں آزاد اور خود مختار ہے۔ اگر ہمارے اجداد تعظیم کے مستحق ہیں تو ان سے زیادہ ہماری پچھلی نسل تعریف کی مستحق ہے کہ اس نے اپنی وراثت میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔
آج میرے پاس شہدا کے والدین کے لیے تعزیت کے بجائے تسلی اور دلاسہ کے الفاظ ہیں۔ زندگی کی اونچ نیچ میں لاتعداد لمحے آتے ہیں جو انسان کی دنیا بدل سکتے ہیں لیکن ان کی اولاد کے حصے میں شہادت کا وہ جام آیا ہے جوکسی کسی کونصیب ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں میرے الفاظ وہ مرہم نہیں جو ان کے زخموں پر رکھے جا سکیں کیونکہ انکے زخم آس پاس سے ان پھولوں کی مہک سے تازہ ہو جائیں گے جو آج ان کے گھر نہیں رھے۔ دکھ اور الم کسی چیز کے سرے سے موجود نہ ہونا نہیں بلکہ کسی چیز کے چھن جانے کا نام ہے۔ آپ میں سے جن کی قسمت میں جوانی کی مزید بہاریں ہیں، انہیں خداووں سے اپنے آنگن میں مزید پھول کھلنے کی دعا کرنی چاہئے کیونکہ مزید اولاد جانے والوں کی جگہ لے سکتی ہے۔
مجھے مرنے والوں کے بیٹوں اور بھائیوں کا مستقبل کٹھن نظر آتا ہے کیونکہ انکی باقی زندگی اپنے عزیز شہید بھائیوں اور باپوں کی عظمت اور شہرت کے درجے کے برابر پہنچنے اور اسے داغ نہ لگنے کی کوشش میں گزرے گی۔ مرنے والوں کی بیواوّں کے لیے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ان میں سب سے عظیم وہ ہو گی جو سب سے کم مردوں کی گفتگو کا موضوع بنے گی۔ شہدا کے خون کا حق ہم کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے لیکن قوم کے دل میں انکی عظمت کی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی اور تاریکی میں ہمیں راہ دکھائیں گی۔ شجاعت کی یہ بازی جیتنے والے شہدا ہمیشہ زندہ رہیں گے اور اس کے انعام میں ریاست ان کے ورثا کے اخراجات بلوغت کی عمر تک اٹھانے کا اعلان کرتی ہے۔
میرے ہموطنو، تم ہماری سیاسی اور فوجی تاریخ سے بخوبی آگاہ ہو جس میں ہماری فتوحات اوربیرونی جارحیت سے وطن عزیز کے دفاع کی کہانی سنہری حروف میں درج ہے۔ لیکن، میرا موضوع آج کچھ اور ہے۔ میرا موضوع وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم آج اپنی موجودہ طاقت و حشمت کے امین ہیں، وہ طریقِ حکمرانی ہے جس نے قوم کی عظمت کو جلا بخشی اور وہ معاشرتی رسوم و رواج ہیں جن سے وہ طریقِ حکمرانی اخذ ہوا۔
ہمارا آئین ہمسایہ ممالک کے دستورکی نقل نہیں ہے، بلکہ یہ ہم ہیں جو اپنے پڑوسیوں کے لیے ایک نمونہ ہیں۔ ہمارے دستورکے جمہوری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی روح اکثریت کی ضروریات کو اقلیت کی خواہشات پر ترجیح دیتی ہے۔ ہمارا دستوراور ہمارا معاشرہ ہر شخص کو قانون کی نظر میں برابر گردانتا ہے۔ سرکاری نوکریوں اور سیاسی عہدوں کے لیے مال و دولت اور طبقاتی برتری کی جگہ اہلیت کی موجودگی فیصلہ کن ہے۔ اسی طرح کسی کا غریب یا مفلس ہونا سیاسی معاملات میں اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں ہے۔
جن آزادیوں کو ہم اپنے سیاسی اور سرکاری نظام میں پاتے ہیں، انکی جھلک ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی عیاں ہے۔ ایک دوسرے پر حسد بھری کڑی نگاہیں رکھنے کی بجائے ہم اپنے کسی ہمسائے کی ذاتی پسند و ناپسند یا مختلف اور قابل اعتراض طرزِ زندگی سے رنجیدہ نہیں ہوتے۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں کسی کی ذاتی زندگی کو کسی شہری یا حکومت کی طرف سے قابل اعتراض قرار دینا اور اس کی اصلاح کی کوشش کرنے کو بد تہزیبی اور دخل اندازی سمجھا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہم ایک سرزمینِ بے قانون نہیں ہیں۔ ان تمام نجی آزادیوں کے ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ بےلگام غیر قانونیت سے محفوظ ہے۔ بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ ہمارے معاشرے میں قانون کا احترام ان آزادیوں ہی کی وجہ سے ہے۔ ان آزادیوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہ صرف قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں میں ہے بلکہ اس بے لکھے ضابطہءِحیات کا حصہ ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والے کے مقدر میں ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس سے بڑھ کر، ہماری عوامی اور سیاسی زندگی دماغ کی تھکن کو دور کرنے اور روز مرہ کی اونچ نیچ اور نجی ناچاقیوں کو بھلانے کا بھرپور سامان مہیا کرتی ہے۔ ہمارے روزوشام فوجی مقابلوں، رقص و سرود کی محفلوں اور کھیل تماشوں کی رونق سے سجے رہتے ہیں۔ اپنے گھروں کی تزئِین وآرائش ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں میں خوش اور مصروف رکھتی ہے۔ اور ہمارے ملک کی جاہ و حشمت کی بدولت دنیا بھر کی انواع و اقسام کی پیداواردور دور سے آ کر ہماری دکانوں اور منڈیوں کی زینت بنتی ہے۔ ہمارے باشندےغیر ممالک سے آنے والے پھل، سبزیاں اور دیگر پیداوارسے اسی طرح مانوس ہیں جیسے مقامی اشیاء سے۔
اگر ہم اپنی فوجی پالیسی کی طرف نظر ڈالیں تو ثابت ہوتا ہے کہ ہم اپنے دشمن ممالک سے بہت مختلف ہیں۔ ہم نے اپنے ملک کے دروازے دنیا کے لیے کھول دیے ہیں اورہر غیر ملکی کو اجازت ہے کہ وہ آئے اور ہمارے عسکری، معاشی اور سیاسی نظام کو دیکھے اور سیکھے۔ بے شک اس چیز میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ ہمارا دشمن ہماری اس کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے فائدہ اٹھا جائے، لیکن ہمارا بھروسہ نظام اور پالیسی کے بجائے اپنے شہریوں کی جدت طرازی، ایجاد پسندی، اصل شناسی اور روحِ تجدید پر ہے۔
اسی طرح، نظام تعلیم میں بھی، جہاں ہمارے دشمن اپنے بچوں کو بچپن سے ہی شدید فوجی اور مزہبی نظم و ضبط کی مدد سے مردانگی، جنگ و جدل اورجراُت پسندی کی تعلیم دیتے ہیں، ہم، اپنے ملک میں، اپنے بچوں کومکمل آزادی دیتے ہیں کہ وہ زندگی میں خوشی کے حصول کے لیے اپنا رستہ خود ڈھونڈیں، اورحیران کن طور پر، پھر بھی، ہمارے شہری، اپنے ملک کے دفاع کے لیے ہمارے دشمن سے زیادہ تند و تیز اور جری و بہادر ثابت ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، ہمارے دشمن ہم پر کبھی بھی، تنہا نہیں، بلکہ ہمیشہ اتحادیوں کے بل بوتے پر، یا چھپ کر، حملہ کرنے کی جراُت کرتے ہیں۔ دوسری طرف، ہم، اپنے دشمن کی زمین پر ہمیشہ تنہا حملہ آور ہوکر دشمن کو انتہائی آسانی سے اس کے پچھواڑے میں شکست دے دیتے ہیں۔ آج تک کسی دشمن کا سامنا ہماری متحد اور مربوط طاقت سے نہیں ہوا کیونکہ ہمیں اپنی بحری اور بری ضرورتوں کے سبب اپنی سپاہ کو ہمیشہ منقسم رکھنا پڑتا ہے۔ آبادی اور افرادی گنتی کی بنیاد پر ہمارے دشمن اور ہمارے درمیان مماثلت ہونے کے باوجود اگر ہمارے دشمن کو ہماری فوج کے چند دستوں پرفتح نصیب ہو جائے تو وہ اسے ہماری پوری قوم کی شکست تصور کر کہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ پھر بھی، آرام پسند، آرٹ و موسیقی کے دلدادہ، حسن و شاعری کے پرستاراور طاوس و رباب کے عاشق اس ملک کے شہری، بوقتِ جنگ، شمشیر و سناں سے خائف نہیں ہوتے۔ ہمارے دشمن اپنی آرام کی گھڑیاں جنگ کے خوف اور تیاری میں گزارتے ہیں اور بقوتِ جنگ اس خوف کے بوجھ تلے دب کر لڑتے ہیں، دوسری طرف، ہم، اپنی آرام کی گھڑیاں فنون لطیفہ کی جستجو اور حسن و عشق کی حمد و ثنا میں گزارنے کے بعد، بوقتِ جنگ، مسکراتے ہوئے میدانِ جنگ میں اترتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ، ہمارا آرٹ اور ہمارا فلسفہ، فرد کی شخصیت کوآرام طلب بنائے بغیر نفاست عطا کرتا ہے، عقل کو کج ارادہ کیے بغیر علم عطا کرتا ہے۔ ہم میں سے جو دولت مند اور صاحب ثروت ہے وہ اپنی دولت کی نمود و نمائش سے زیادہ اس کا معتدل استعمال کرنا جانتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں غربت اور پسماندگی باعثِ شرمندگی نہیں ہے، بلکہ، انکے خلاف جدوجہد کو ترک کر کے اپنی تقدیر سے سمجھوتا کرنا باعث ملامت سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے سیاستدان، سیاست سے ہٹ کر، اپنے ذاتی کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ہمارے عام شہری، سیاسی اور عوامی معاملات میں بھرپور دلچسپی لیتے ہوئے انصاف پسندی سے اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ، برعکس دیگر اقوام، ہمارے ہاں، سیاست اور عوامی معاملات میں شمولیت سے اجتناب کرنے والے کوشریف آدمی سمجھنے کی بجائے ، ناکارہ اور ناشکرا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے شہری عدلیہ اور جیوری کے فرائض سر انجام دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ہم بحث مباحثہ کو عملی اقدام کی راہ میں بیکار رکاوٹ سمجھنے کی بجائے انہیں کسی بھی عملی قدم سے پہلے آنے والا انتہائی اہم ابتدائی مرحلہ سمجھتے ہیں۔
ہمارا شہرتمام یونان کا مدرسہ ہے۔ دنیا نے ایسے انسان ابھی پیدا نہیں کیے جو زمانے کی اونچ نیچ اور تقدیر کے مدوجزر سے مقابلے میں ایتھنز کے کسی باشندے کے برابر آ سکیں۔ ہماری ریاست کی طاقت اور حشمت ایتھنز کے شہریوں کی شخصیت اور انکی عادات کے ارتکاز کا نتیجہ ہے۔ ہر آنے والا زمانہ ہمارے شہر اور ہماری تہزیب و تمدن کے گن گائے گا ۔ ہم نے اپنی جمہوریت کی عظمت کے شواہد پہاڑوں اور سمندروں کو اپنے رستے کی گردِ پا بنا کر دیے ہیں۔ لہزا یہ وہ تہزیب ہے جس کے دفاع اور عظمت کے لیے ان شہیدوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ یہ وہ شہر ہے جس کی مٹی کی آبیاری کے لیے ان جری بہادروں نے اپنی رگیں کھول دیں۔ یہ شہید مجاہد جانتے تھے کہ جن شہری اور جمہوری آزادیوں کے تحفظ میں یہ جامِ شہادت نوش کر رہے ہیں وہ انکے دشمن کو میسر نہیں ہیں اور انکے خلاف لڑنے والے انکا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
ان شہیدوں نے مر کر اپنے ایتھنائی ہونے کا ثبوت دے دیا۔ اور تم، انکے وارث، اپنی تہزیب کی عظمت کو میرے الفاظ کا کرشمہ سمجھ کر نظر انداز کرنے کی بجائے اپنی آنکھوں سے اپنے ملک اور اسکے اداروں کو دیکھو۔ اس نظامِ حکومت کے کرشموں کو سمجھو تا کہ تمہارا دل اپنے ملک، اپنی تہزیب، اپنے شہر اور اپنے ہموطنوں کی محبت سے لبالب بھر جائے اورتم اس جزبے کو سمجھ سکو جس سے سرشار ہو کر ان شھیدوں نے اپنی زندگیاں مقدس ایتھینا کے قدموں میں رکھ دیں۔ ہمت، جرآت، سوچ اور عمل کی آزادی، فرض شناسی، اور قومی غیرت و حمیت وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن کے ملنے سے ایتھنز کا آئین بنتا ہے۔ جاو اور ایتھنز کے دشمنوں سے کہ دو، ان شہیدوں کا مقبرہ اور انکے زخم خوردہ لاشے ہی ہمارے شہر کا آئین اور ہماری قوم کا دستور ہیں۔
بے شک خداوّوں کی یہ تمام زمین، مشرق سے مغرب تک، اس بہادر قوم کے سپوتوں کا مقبرہ ہے۔ اپنے وطن سے ہزاروں قوس دور اجنبی مٹی کی گود میں سوئے ہوئے ایتھنز کے بیٹوں کی یادگاریں اجنبیوں کے دلوں میں ہیں اور ہزاروں سال بعد بھی انکی عظمت کی داستانیں اجنبی زبانوں میں گائی جائیں گی۔ میرے ہموطنو، ان شہیدوں کی موت و حیات کی سرگزشت کو اپنی زدگیوں کے لیے چراغِ راہ بنا لو اور جان لو کہ خوشیوں کا پھل انفرادی آزادی کے تناور درخت پر لگتا ہے۔ اور آزادی کی کونپلیں بہادروں کے خون سے ہی سینچی جاتی ہیں۔ میرے ہموطنو گواہ رہنا کہ آج میں نے اپنا فریضہ ادا کردیا۔

پاکستان :سیکس ورکرز



پاکستان میں سیکس ورکرز کی تعداد 15لاکھ ہوگئی جبکہ لاہور میں تعداد ایک لاکھ سے اوپر چلی گئی۔ 


انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ(IHRM) 
کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جسم فروشی کے پیشے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان جسم فروش عورتوںمیں44فیصد خواتین غربت ،32فیصد دھوکے اور فریب،18فیصد جبر وتشدد،4فیصد وہ خواتین جو انہی گھرانوں میں پیدا ہوئیں اور 2فیصد اپنی مرضی سے شامل ہیں۔ ان میں سے 41.8فیصد خواتین 18سے 25سال کی ہیںجبکہ 6.21فیصد لڑکیاں18سال سے کم عمر کی ہیں۔56.79فیصد خواتین ان پڑھ ہیں اور 47فیصد سیکنڈری سکول کی تعلیم سے لیکر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں جبکہ30 فیصد غیر شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ70فیصد شادی شدہ خواتین شامل ہیں۔ ان خواتین میں نہ صرف لوکل بلکہ گزشتہ 10 برسوں میں بنگلہ دیش سے 5 لاکھ خواتین ،برما سے 20 ہزار ،افغانستان سے ایک لاکھ اور روسی ریاستوں اور دیگر ممالک سے ہزاروں خواتین پاکستان آئیں اور جسم فروشی کے پیشہ سے منسلک ہوگئیں۔ دوسری طرف اس بے راہ روی کے نتیجے میں ایڈز جیسی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور اب تک80ہزار کے قریب افراد اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خواتین سیکس ورکرز کے مقابل جسم فروش لڑکوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جن میں نو عمر بچوں کی زیادہ تعداد قابل تشویش ہے۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہاں ایک عام لڑکی اس پیشے میں25سے30 ہزار روپے کما تی ہے وہاں یہ لڑکے50سے70ہزار روپے کما لیتے ہیں۔
لاہور پولیس کے مطابق نہ صرف شہر میںجگہ جگہ جسم فروشی کے اڈے کھل گئے بلکہ نجی اور سرکاری اداروں میں بھی ایسے افراد موجود ہیںجبکہ بڑی مارکیٹوں ، سڑکوں ، درباروں،باغوں ، پارکوں اور اہم علاقوں میں بھی چلتے پھرتے ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں۔ 5سال قبل شہر میں200کے قریب قحبہ خانے تھے جن کی تعداد اب بڑھ کر 445کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس طرح لاہور میں 5سال کے دوران جسم فروشی میں دوگنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور شہرمیں 1 لاکھ سے زائد جسم فروش خواتین اور لڑکے ہیں جن میں 12\13 سال کی عمر سے لیکر 40\45 سال تک کی عمر کے افراد شامل ہیں اور ان کی تعداد میں 100 سے لیکر 200 افرادتک کا ماہانہ اضافہ ہو رہا ہے۔
جسم فروشی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون(نائیکہ )نے بتایا کہ جسم فروشی میں معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں ان میں ایسی خواتین بھی ہیں جو صرف100 روپے میں اپنی عزت بیچ دیتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو اپنے آپ کو پیش کرنے کیلئے لاکھوں روپے وصول کر تی ہیں۔ غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی خواتین انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہی ہیں اور ان کے بچے دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں جبکہ بعض خواتین نے پوش علاقوں میں عالیشان مکانات بنائے ہوئے ہیں اور ان کی ہلکی سی مسکراہٹ پر سونے چاندی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ کیسی بد قسمتی کی بات ہے کہ جہاں پر ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے وہاں عورت کی عصمت سستی ہوتی جا رہی ہے۔چند سال پہلے تک جس معیار کی لڑکی5000روپے میں ملتی تھی اب اسی معیار کی لڑکی کی قیمت صرف ایک ہزار روپے ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے اس پیشے میں لاتعداد لڑکیاں شامل ہو گئی ہیں۔کیونکہ مال اب زیادہ ہو گیا ہے اور گاہک کم پڑ گئے ہیں۔گاہک کم پڑ جانے کی وجہ بھی اس نے مہنگائی اور بےروزگاری کو قرار دیا اور بتایا کہ اب یہ کام صرف امیر زادوں کا رہ گیا ہے یا جو دو نمبر کمائی کے ذرائع رکھتے ہیں۔اب گاہکوں میں متوسط اور کم آمدنی والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ورنہ پہلے کم آمدنی والے افراد بھی یہ شغل کر لیا کرتے تھے مگر اب ان کی جیب اجازت نہیں دیتی۔ اس نے بتایا کہ اس پیشے میں سامنے نظر آنے والی خواتین اور لڑکوں کے علاوہ پس پردہ بڑے بڑے افراد اورگروہ کام کر رہے ہوتے ہیںجن کے رکن مختلف طریقوں اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں اس کام کی جانب راغب کرتے ہیں اور اس گروہ کے افراد نوعمر بچوں اور بچیوں کو ورغلا کر اغوا بھی کر لیتے ہیں اوربعد ازاں انہیں زبردستی اس دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ جب کشمیر اور دیگر علاقوں میں زلزلہ آیا تھا تب لاہور کے بعض بڑے کوٹھی خانوں کی مشہور خواتین زلزلہ زدہ علاقوں سے بے سہارا لڑکیوں کو ورغلا کر لاہور لے آئی تھیں جن میں سے بیشتر کو اسی کام پر لگا دیا گیا جبکہ اب سیلاب زدہ علاقوں سے بھی کئی لڑکیاں لاہور میں یہ کام کرتی ہیں۔
سیکس ورکرز کے حوالے سے کام کرنے والے ایک رکن نے بتایا کہ جسم فروشی میں اگرچہ ہیجڑوں کا بھی کردار ہے مگر موجودہ دور میں نو عمر بچوں کی شمولیت خاصی تشویش کی بات ہے۔کچھ عرصے سے سیکس ورکر لڑکوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں14/15سال کے لڑکوں سے لیکر25/30سال تک کے لڑکے شامل ہیں۔انھوں نے بتایا کہ لڑکوں کی جسم فروشی اس معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔ انھوں نے برطانوی رائٹر Richard Francis Burton کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا جو 1842میںایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہونے کے بعد بھارت میں آئے اور اس دوران مختلف شہروں میں تعینات رہے۔کراچی کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ”کراچی میںایک ایسا قحبہ خانہ موجود تھا کہ جہاں صرف لڑکے ہی ملا کرتے تھے اورافغان علاقوں میں کم عمر لڑکے کی دوستی کو برا نہیں سمجھا جاتا“۔ جبکہ اب تو تقریباً ہر شہر میں ایسے مخصوص علاقے موجود ہیں کہ جہاں پر لڑکے بطور سیکس ورکر کام کرتے ہیں۔ کراچی کے حوالے سے انھوں نے مزیدبتایا کہ اس کام میں زیادہ تر اپر اور مڈل کلاس خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے شامل ہیں۔جو ویڈیوگیم شاپس، ریسٹورنٹس، کولڈ ڈرنک اور فاسٹ فوڈز سپاٹ پرملتے ہیں جبکہ لوئر کلاس خاندانوں کے لڑکے زیادہ تر گلشن اقبال، سبزی منڈی، کھارادر، لی مارکیٹ ، لانڈھی ، ملیر اور لیاری کے علاقوں میں ملتے ہیں۔ جیسے ان لڑکوں کے گاہک ہوتے ہیں ویسے ہی یہ لڑکے بھی اپنا شکار بس سٹاپوں، شاپنگ سنٹرز، سنیما، فلم اندسٹری، ہوٹل کی لابی، پارکس، ریلوے اسٹیشن، ہسپتال، سکولوں کالجوں کے گرا?نڈ، نجی عمارتوں کی سیڑھیاں اور لفٹیں ، تاریخی مقامات میں خود بھی ڈھونٹتے ہیں۔ ان لڑکوں میں، ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ گریجویٹ سطح کی تعلیم رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ یہ لڑکے50ہزار سے70ہزار روپے تک ماہانہ کماتے ہیں جبکہ وہ لڑکے جو غیر ملکی سیاحوں وغیرہ کیلئے کام کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ کماتے ہیں جبکہ انگریزی زبان بھی بولنا جانتے ہیں۔ ان لڑکوں میںایک ایسی قسم ہے جو صرف ہوٹلوں کے کمروں تک اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جبکہ دوسرے گاہک کے گھر یا اس کی جگہ پر بھی جاتے ہیں۔ چھوٹی عمر کے کچھ ایسے لڑکے بھی ہیں جو پارٹ ٹائم یہ کام کرتے ہیں اور دوران سفر کار میں یا رات کے وقت باغات اور دیگر جگہوں پر ہی اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔ پارٹ ٹائم کام کرنے والوں میںزیادہ تر طالب علم، بطور سیلز مین کام کرنے والے لڑکے،ہوٹل اور گیراجوں میں کام کرنے والے لڑکے شامل ہیں جو مزید پیسوں کے حصول کیلئے کام کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے لڑکے بھی موجود ہیں جو صرف یہ کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کو کسی جگہ پر باآسانی لے جا سکتا ہے شاید اسی سہولت کی وجہ سے لڑکوں کے کام کو فروغ ملا۔
کراچی کی سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ کے ریجنل پرموشن منیجر سلام دریجو کا کہنا ہے کہ اگرچہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیمیں تو بہت ہیں مگر خصوصاً سیکس ورکر بچوں کے حوالے سے کوئی خاص کام نہیں ہو رہا۔ ابھی تک شہر میں اس پیشے سے منسلک بچوں کی حتمی تعداد کا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکا کیونکہ ان میں30ہزار سے زائد سٹریٹ چلڈرن ) یتیم، بے سہارا، گھروں سے بھاگے ہوئے) بچے بھی شامل ہے جبکہ لوکل لڑکوں کی بھی کمی نہیں۔اس کام سے منسلک ہونے والے لڑکوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر لڑکے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے ساتھ پہلے کسی نے زبردستی یہ عمل کیا ہوتا ہے جو بعد ازاں اس کام کو پیسے کے حصول کیلئے شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے مختلف بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں مگر اس کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں کیا جا رہا حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
شمائلہ نامی ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ(IHRM) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس پیشے سے منسلک کل خواتین میں سے44فیصد غریب ہیں اور56.69فیصد ان پڑھ ہیں جن کی ضروریات زندگی ہی بمشکل پوری ہوتی ہیں اور بیماری کی صورت میں اپنا علاج نہیں کرا سکتیں اور نہ ہی بیماری سے بچا? کے طریقوں سے واقف ہے۔انھوں نے کہا کہ اب چونکہ یہ کام کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے تو اس حوالے سے دیگر تنظیموں کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور کراچی کی طرز پر ایسی ورکشاپس اور سیمینارز کراوئیں کہ جن میں ان سیکس ورکرز کو محفوظ سیکس کے حوالے سے تعلیم دی جا سکے تاکہ ایڈز اور دیگر موذی امراض سے بچا جا سکے۔ کیونکہ1987ئ میں پاکستان میں ایڈز کا پہلا مریض رپورٹ کیا گیا تھا جبکہ اب 70سے80ہزار افراد ایڈز میں مبتلا ہیں اور یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برس اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے منعقد کردہ اس ورکشاپ میں خواتین سیکس ورکرز کو محفوظ جنسی طریقوں سے آگاہی دی گئی تھی۔ ورکشاپ میں شرکت کرنے والی خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں اس ورکشاپ میں شرکت کرنے سے پہلے ان طریقوں سے اتنی زیادہ آگاہی نہیں تھی اور یہ ورکشاپ ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔
یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ یعنی یو این ایف پی اے کے پراجیکٹ افسر ڈاکٹر صفدر کمال پاشا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کے پاس پورے پاکستان کے مکمل اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اس وقت ایک سروے کے مطابق کراچی میں ڈیرھ لاکھ سے زیادہ اور لاہور میںایک لاکھ سے زائد خواتین بطور سیکس ورکرز کام کررہی ہیں اور ان میں محفوظ جنسی طریقوں کے بارے میں آگاہی سے ایڈز کے پھیلاو میں بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک مسلم ملک یعنی بنگلہ دیش میں اس کاروبار کو قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن پاکستان میں اسے قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ورکشاپ کو منعقد کرنے سے پہلے یہ خدشات تھے کہ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خوف سے سیکس ورکرز اپنے آپ کو ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے شرکت نہیں کریں گی۔لیکن اس ورکشاپ کے اختتام پر ایک سو سے زیادہ تعداد میں سیکس ورکرز کی شرکت سے ہماری امیدوں سے بڑھ کر حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن خواتین سیکس ورکرز نے یہاں محفوظ جنسی طریقوں کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے امید ہے وہ اپنے ساتھ کام کرنے والیوں کو بھی اس بارے میں آگاہی دیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ورکشاپ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اگلی ورکشاپ لاہور میں منعقد کی جائے گی اور پھر اسی موضوع پر اگلے برس قومی کنونشن بھی منعقد کرنے کا ارادہ ہے جس میں ملک بھر سے سیکس ورکرز کو مدعو کیا جائے گا۔
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ کے ایک سروے کے مطابق گزشتہ 10 برسوں میں بنگلہ دیش سے 5 لاکھ خواتین ،برما سے 20 ہزار ،افغانستان سے ایک لاکھ اور روسی ریاستوں اور دیگر ممالک سے ہزاروں خواتین پاکستان آئیں اور جسم فروشی کے پیشہ سے منسلک ہوگئیں ان میں سے متعدد خواتین ایسی ہیں کہ جنہوں نے اس پیشہ کواپنی مرضی سے اپنایا جبکہ اکثریت ایسی خواتین کی ہے کہ جن کو ان کی مجبوریاں اس پیشہ میں لانے کا سبب بنیں۔ان لڑکیوں کو لانے والے گروہوں کے ارکان بنگلہ دیش اور برما سے نوجوان لڑکیوں کو ملازمت اور مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر لاتے ہیں اوربعد میںانھیں ملک کے مختلف شہروں میں فروخت کر دیا جاتا ہے اور یوں یہ لڑکیاں بازار حسن کی زینت بن جاتی ہیں۔لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بعض ایسے کوٹھی خانے موجود ہیں کہ جہاں پر غیر ملکی خصوصاً روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین موجود ہیں۔کراچی ،لاہور اورحیدرآباد کے بعد اب پشاور میں غیر ملکی سیکس ورکرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔جب سے افغانستان میں امریکی اور یورپی فوجوں نے ڈیرے ڈالے ہیں اور کابل میں ڈالروں کی بھرمار کے علاوہ کلب قائم ہوئے تب سے امریکہ ،مشرقی یورپ، یورپ اور روسی ریاستوں کی سیکس ورکرز خواتین نے کابل کا رخ کر لیا۔
جسم فروشی سے متعلق کام کرنے والی ایک تنظیم کے رکن نے پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی جسم فروشی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں غربت و افلاس کے مارے لوگ کئی برسوں سے متواتر مہنگائی کی صعوبتیں برداشت کرتے آ رہے ہیںاور اس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہو رہے ہیں۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے جہاں پر بنیادی ضروریات زندگی کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے وہاں امیر اور غریب کے درمیان بھی تیزی سے ایک خلیج پیدا ہو رہی ہےجس وجہ سے نو جوان لڑکے مجبور ہو کر اپنی مالی حالت بدلنے کے لیے چوری چکاری اور ڈاکے ڈالنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جوان لڑکیاںبھی پیسے کمانے اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنے جسموں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔اس بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے دن بدن اس پیشے سے وابستہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے مہنگائی کے حوالے سے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں غربت کے حوالے سے پانچویں اور دنیا میں ایک سو ایک ویں نمبر پر تھا۔ پچھلے سال تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 5.5 فی صد اور بے روزگارافراد کی تعداد 29 لاکھ تھی۔ملک کی 22.6 فیصد آبادی یومیہ سوا ڈالر سے کم آمدنی پر زندگی بسر کررہی ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے سات ممالک میں سے پاکستانی عوام کو بدترین مہنگائی کا سامنا ہے جس کے باعث عوام کیلئے زندگی کی گاڑی چلانا ممکن نہیں رہا۔ سفید پوش عوام کا جینادوبھر ہوکر رہ گیا ہے۔
ایک دیگر تنظیم کی رکن کا کہنا ہے کہ جسم فروشی میں شامل خواتین کی 3اقسام ہیں۔ ایک وہ جنہیں دھوکے، فریب یا زبردستی اس پیشے میں لایا جاتا ہے، اسی قسم میں غربت کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری خواتین وہ ہوتی ہیں کہ جو ایسے ہی گھرانوں میں پیدا ہوتی ہیں اور تیسری وہ قسم ہے کہ اپنی مرضی سے یہ پیشہ اختیار کر لیتی ہیں۔ انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پہلی قسم کی لڑکیاں زیادہ تر قحبہ خانوں اور کوٹھی خانوں میں ملتی ہیں جبکہ دوسری قسم کی لڑکیاں ہیرامنڈی سے تعلق رکھنے والے خاندانوں سے ہوتی ہیں اور ان کی تربیت ان کی والدہ، خالہ یا خاندان کی کوئی اوربڑی عمر کی عورت کرتی ہے۔تیسری شوقیہ قسم کی لڑکیاں اکثر سڑکوں اور بس سٹاپوں پر ملتی ہیں جنہیں کال گرل بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ تعلق بننے کے بعد انھیں ٹیلی فون پر بھی بلایا جا سکتا ہے جبکہ یہ اپنی دوسری دوستوں کو بھی متعارف کراتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کال گرل قسم کی لڑکیوں کا سلسلہ اب بہت وسیع ہو چکا ہے۔
انھوں نے موبائل سیکس ورکرز کی دیگر اقسام کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان میں زیادہ ترانفرادی طور پر کام کرنے والی لڑکیاں شامل ہوتی ہیں جبکہ اجتماعی گروہ بھی موجود ہیں۔انھوں نے بتایا کہ لاری اڈوں ، ٹرک اڈوں اور ویگن اڈوں پر کام (ڈرائیوروں اور اڈے کے دیگرملازمین کو بطور سیکس ورکر اپنی خدمات پیش کرنا ) کرنے والی سیکس ورکرز میں زیادہ تر لاہور کے گردو نواح کے علاقوں ، مریدکے، شرقپور،پتوکی اور قصور وغیرہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں شامل ہیں، جنہیں رات بھر بھی ساتھ رکھا جا سکتا ہے جبکہ مارکیٹوں،ہسپتالوں ، کچہریوں اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی عموماً شہر سے ہی تعلق رکھتی ہیں اور انھیں شام تک اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا ہوتا ہے۔ موبائل سیکس ورکرز کی ایک تیسری قسم کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس قسم کی لڑکیاں کئی کئی دن کیلئے جانے پر تیار ہوتی ہیں۔ جیسے تفریحی مقامات پر انھیں کئی ہفتوں کیلئے بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ بیرون ملک جا کر اپنی خدمات پیش کرنے والی لڑکیاں زیادہ تر فلم انڈسٹری سے منسلک ہیں جو مختلف طائفوں کی صورت میں بیرون ملک بھی جاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گرمیوں کی آمد آمد ہے اور کچھ ہی عرصے میں مزید گرمی بڑھنے سے تفریحی مقامات کیلئے بکنگ شروع ہو جائے گی جبکہ بیشتر گروپ اپنی لڑکیوں کے ساتھ وہاں شفٹ ہو جائیں گے۔
سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر میںجسم فروشی کے حوالے سے پولیس ذرائع نے بتایا کہ نہ صرف دیگر سرکاری اور نجی اداروں بلکہ لاہور پولیس میں بھی خواتین سیکس ورکرز موجود ہیں۔ لیڈی پولیس کی کچھ اہلکار اس دھندے میں شامل ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق لیڈی پولیس انسپکٹر شافیہ بخت کواس کاروبار کی سرغنہ کہا جاتا ہے،جس نے مبینہ طور پر دو لیڈی پولیس کانسٹیبلز کو ’ڈیوٹی‘ کے بہانے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک بلڈنگ انسپکٹر رانا شفقت شہزاد کے پاس بھیجا۔جب رانا شفقت اور اس کے ساتھیوں نے مبینہ طور پرلیڈی پولیس کانسٹیبل کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تو انہوں نے مزاحمت کی جس پر لڑکیوں کو چھوڑ دیا گیا لیکن ا نہیں اس شرط پرجانے دیا گیا کہ وہ اس معاملے کو نہیں اچھالیں گی۔ تاہم لیڈی کانسٹیبل (ز) نے تھانہ سبزہ زار میں ان افراد کے خلاف درخواست دے دی اور ایس ایچ او نے اس واقعہ کی اطلاع اعلیٰ افسران تک پہنچائی۔جس پر لاہور پولیس کے آپریشنل انچارج شفیق احمد نے جنسی دھندے میں ملوث ہونے کے الزام میں انسپکٹر شافیہ بخت سمیت چار کانسٹیبلز کو نوکری سے معطل کردیا۔
لاہور کی ایک سیکس ورکر رخشندہ نے بتایا کہ اس کاروبار میںمعقول آمدنی ہو جاتی ہے۔ جبکہ بعض اوقات ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں کہ جن کے بعد اس پیشے کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کرنے کو دل چاہتا ہے مگر مجبوریاں پھر اس کام کی طرف لے آتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بعض اوقات کوئی ایک شخص کسی لڑکی کو بک کرتا ہے مگر جب وہ اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاتا ہے تو وہاں پانچ سات تک لڑکے ہوتے ہیں جو زبردستی ساری رات زیادتی کرتے ہیں۔ زبردستی شراب بھی پلائی جاتی ہے جبکہ کبھی ایسے جنونیوں سے بھی واسطہ پڑ جاتا ہے جو نہ صرف تشدد کرتے ہیں بلکہ سگریٹ سے جسم کو بھی داغتے ہیں۔
ہیرا منڈی لاہور کی طوائفوں کی تنظیم کے ایک سابقہ رکن نے لاہور میں سیکس ورکرز کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ لاہور میں موجودہ بازار حسن(ہیرا منڈی) سینکڑوں سال قبل قائم ہوا۔ اس بازار میں شاہی دربار ، وزرا اور امرا کی محفلوں میں لوک گیت گانے اور روایتی رقص پیش کرنے والی طوائفیں اور ان کے سازندے رہا کرتے تھے یہاں بسنے والے یہ خاندان بڑے مہذب اور با اخلاق ہوتے تھے اور ان کے پاس شہر کے رئیس اپنی اولادوں کو تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا کرتے تھے.جبکہ جسم فروش عورتیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع موجودہ لنڈے بازار میں رہا کرتی تھیں۔ یہ بازار سکھوں کے دور حکومت تک قائم رہا۔ سکھاشاہی کے دوران اس بازار میں بیٹھی چندخواتین کی وجہ سے جب لاہور میںہندو مسلم فسادات ہوئے تو کشمیر کے مسلمان راجہ نے لنڈا بازار کی تمام عمارتیں خرید لیں اور یہاں سے تمام افراد کو نکال دیا گیاچنانچہ یہاں پر آباد خاندان پرانی انارکلی کے علاقے میں منتقل ہو گئے مگر انگریز دور حکومت میں یہاں قائم ہونے والی فوجی بیرکوں کی وجہ سے حکومت نے ان سے یہ علاقہ بھی خالی کروا لیا جس پر ان میںسے متعدد خاندان ہیرامنڈی میں منتقل ہو گئے اس طرح ہیرامنڈای میں بھی جسم فروشی کے اڈے قائم ہو گئے۔ یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا مگرجب جنرل ضیا ئ الحق کے دور میں بازار حسن کو بند کر دیا گیا اور یہاں پر کسی بھی قسم کی پرفارمنس ممنوع قرار دے دی گئی تو یہاں کے رہنے والے خاندان شہر کے مختلف علاقوں میں شفٹ ہو گئے اور یوں ایک محضوص علاقے میں قائم ہیرامنڈی پورے شہر میں پھیل چکی ہے اور اب یہاں نہ صرف لاہور بلکہ فیض آباد، پتوکی اور حیدرآباد کے کئی خاندان بھی شفٹ ہو چکے ہیں۔
پیپلز لائرز فورم لاہور کے صدر شاہد حسن ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جسم فروشی دنیا کا ایک قدیم پیشہ ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ انسان کے اندر حیوانی جبلت اور نفسانی خواہش کی موجودگی ہے۔ اس پیشے کو جہاں پر بعض لوگ اپنی مرضی سے اپناتے ہیں وہاں پر خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں جبر و استحصال کے سبب اس پیشے میں شامل ہونا پڑتاہے۔اس کی دیگر وجوہات میں نہ صرف غربت اور بے روزگاری ہے بلکہ تعلیم کی کمی، معاشرے کی بکھرتی ہوئی انسانی قدریں ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح ، آبادی میںبے پناہ اضافہ ، مردوں کا خواتین پر بے جا جبر وتشدد ، قانون کی عدم حکمرانی ، اسلامی تعلیمات سے دوری ، بے راہروی ، ڈش اور انٹر نیٹ تک عام رسائی شامل ہے۔ انھوں نے بتایا کہ امتناع زنا حدود آرڈیننس1979ئ کے تحت بطور سیکس ورکر اپنی خدمات پیش کرنا جرم ہے جبکہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ377کے تحت لڑکوںسے سیکس کرنا بھی جرم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سیکس ورکرز سے متعلق ہر ملک اور معاشرے کے مختلف اصول و ضابطے ہیں بعض قوموں نے اسے قبول کر کے ان سے متعلق قانون وضع کر لیے اور انھیں کچھ حقوق بھی دیے جبکہ دیگر ممالک میں سخت سزائیں موجود ہیں مگرقانون کی موجودگی یا عدم موجودگی کی پروا کیے بغیر اس پیشہ کے افراد تمام دنیا میں موجود ہیں۔
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ، سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ، یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ اور لاہور پولیس کی جنوری 2010ئ کی مرتب کردہ رپورٹس میں دیے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں پاکستان بھر ، کراچی اور لاہور میں جسم فروشوں کی تعداد اور قحبہ خانوں کی تفصیل
پاکستان میں کل تعداد: 15لاکھ سے زائد
خواتین سیکس ورکر کی کم ازکم آمدنی: 25ہزار روپے ماہانہ
میل سیکس ورکر کی کم ازکم آمدنی: 50   ہزار روپے ماہانہ
کراچی ; ڈیرھ لاکھ سے زائد
کراچی; جسم فروش لڑکے…. 30ہزار سے زائد
لاہور; ایک لاکھ سے زائد
لاہور کل قحبہ خانے445
ماڈل ٹاﺅن ڈویڑن میں 128‘ صدر میں 96‘ سٹی میں 75‘ اقبال ٹا?ن میں 52‘ سول لائن میں 52 اور کینٹ ڈویڑن میں 42 ، جبکہ19موبائل قحبہ خانے شامل ہیں۔

امریکہ اور القاعدہ: دشمن یا اتحادی؟ افغانستان میں سوویت یونین' لیبیا اور شام کے خلاف لڑائی میں "القاعدہ" نیٹو کے شانہ بہ شانہ

۔ 

اسلامی دنیا میں مننازعہ فلم "مسلمانوں کی معصومیت" کے خلاف احتجاجات کے طوفان کی وجہ سے "القاعدہ" مزید معروف ہوتی جا رہی ہے۔ مصر میں احتجاجات میں ایسے لوگ بھی شامل ہوئے جنہوں نے اسامہ بن لادن کی تصویروں والے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے۔ تیونس میں نوجوانوں نے " جان لو اوبامہ، ہم سب کے سب ہیں اسامہ" کے نعرے لگائے۔
کیا اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ یہ انتہا پسند جال اپنے رہنما کے مارے جانے کے اعلان کے بعد بھی خطے میں اثر و رسوخ رکھتا ہے؟ یا پھر امریکہ کی حرکات سے نالاں عام لوگوں نے ہی جذبات کے وفور میں انتہا پسندی کی علامت کو اجاگر کیا ہوا تھا؟
مشرق وسطی کے بارے میں ماہر وکتور نادین رائیوسکی سمجھتے ہیں کہ دونوں امکانات ہو سکتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں انتہا پسند تنظیم کے اثر کا غلط اندازہ نہیں لگانا چاہیے،" امریکہ میں مستقلا" یہی کہا جاتا ہے کہ "القاعدہ" ایک ایسی دشمن تنظیم ہے جس سے مفاہمت ممکن نہیں اور اس کے خلاف لڑائی اس کی بیخ کنی کی خاطر کی جا رہی ہے لیکن عملی طور ہم اس کا کبھی مشاہدہ نہیں کر پائے ہیں۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑائی ان دونوں نے مل کر لڑی تھی۔ لیبیا میں بھی ایسا ہی ہوا کہ "القاعدہ" نیٹو کے شانہ بہ شانہ رہی۔ بلاشبہ امریکہ اور "القاعدہ" کے تزویری مفادات مختلف ہیں۔ امریکہ کا مقصد توانائی کے وسائل سے مالا مال اور اہم تزویری مقامات کے حامل وسیع تر مشرق وسطٰی کے زیادہ سے زیادہ حصے پر عملداری کا حصول ہے۔ انتہا پسند سلفی سیکیولر حکومتوں کو ختم کرکے وہاں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے عہد والا مذہبی نظام رائج کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس حوالے سے ان دونوں کی خواہش خطے میں حکومتوں کے موجودہ نظام کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ اور بنیاد پرست سلفیوں کے مقاصد مماثل ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خطے میں بنیاد پرست حکومتوں کے خلاف کوئی جدوجہد شروع نہیں کی جا سکی ہے۔ اب جو کچھ شام میں ہو رہا ہے، جہاں امریکہ اور القاعدہ ایک بار پھر مشترکہ مقصد کی خاطر بر سر پیکار ہیں ،اس سے معاملہ کہیں زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔"
شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی مبصر یوگینی یرمولائیو نے یوں کہا،"اس سے پہلے شام میں امریکہ کی "القاعدہ" پر نگاہ نہیں پڑی تھی۔ جبکہ وہ حکومت سے لوگوں کے نالاں ہونے کے اظہار میں محرک تھی اور ہے۔ یہ بھی راز نہیں تھا کہ القاعدہ شام میں کب سے حکومت کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اس برس کے اوائل میں عراق میں امریکی فوج کے کمانڈر نے القاعدہ کی شام کے واقعات میں دلچسپی کے بارے میں بتایا تھا۔ پھر ماہ اگست میں امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا تھا کہ امریکہ شام میں حزب مخالف کی سرگرمیوں میں القاعدہ کی شرکت کا مخالف ہے۔ اس بیان کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ اپنا کام کرے گا اور القاعدہ اپنا؟ دراصل یہ دونوں ہی شام میں اپنا اپنا کام کر رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ القاعدہ اور امریکہ کے افعال میں تال میل آئندہ بھی رہے گا۔ امریکہ اس خطے میں ایران کو اپنا اصل دشمن قرار دیتا ہے۔ مستقبل میں اس کے خلاف کاروائی کیے جانے کی خاطر میدان صاف کرنے کے لیے خطے میں اور زیادہ صفائی کیے جانے کا امکان موجود ہے۔ اس ضمن میں تا حتٰی ترکی یا خلیج فارس سے منسلک عرب ریاستین بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کر پائیں گی۔ تباہی کے ذریعے کے طور پر برتی جانے والی القاعدہ یہاں کارگر ہوگی۔ سلفی ہمیشہ ہی امریکہ کے خلاف سب سے زیادہ شوریدہ خاطر رہے ہیں جیسے موجودہ حالات میں متنازعہ فلم کی مخالفت میں، جس سے بظاہر حکومت امریکہ کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ کام تو القاعدہ اور واشنگٹن ایک سا ہی کر رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ امریکہ مخالف مظاہروں میں "القاعدہ" کی شرکت کے بارے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان:اسقاط حمل


منصور مہدی

صوفیہ اپنی بڑی بہن کے ساتھ گذشتہ ایک ہفتے سے شہر کے مختلف ہسپتالوں میں گھوم رہی تھی مگر کسی بھی جگہ سے اس کے پیٹ میں پلنے والے ناجائز بچے کی آمد کو روکنے کی کسی تدبیر کی کوئی امید نہ بندھ سکی ۔ ابھی صوفیہ کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی چنانچہ جس ہسپتال بھی جاتی تو ڈاکٹر کہتے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ اب وقت بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ دوسرے ڈاکٹر شوہر کو ساتھ لانے کو کہتے جو موجود نہیں تھا۔
ڈاکٹروں کے سوالات پر دونوں بہنیں کوئی مناسب جواب نہ دے پاتی تو ان کی چوری پکڑی جاتی۔ کچھ ہسپتالوں کے ملازمین نے انھیں بلیک میل بھی کرنا چاہا مگر قسمت اچھی تھی کہ ایک نئے چنگل میں پھنسنے سے بچ گئیں۔ مگر وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور نئے مہان کو روکنے کا کوئی وسیلہ نہیں بن رہا تھا۔ جس وجہ سے صوفیہ تو پریشان تھی ہی مگر بڑی بہن از حد رنجیدہ اور مایوس تھی ۔
وہ سوچتی تھی کہ شکر ہے سردیوں کے موسم کی وجہ سے صوفیہ نے بڑی سی جرسی سے لی ہوئی ہے جس وجہ سے ابھی اس کا بھانڈہ نہیں پھوٹا مگر کب تک؟۔وہ سوچتی اگر بھائیوں، ماں یا باپ کو پتہ چل گیا تو صوفیہ کی تو جو درگت بنے گی وہ تو بنے مگر بدنامی کتنی ہوگی؟ یہ سوچ کر ہی اس کا سانس رکنے لگتا۔ کیونکہ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی ایک دن صوفیہ یہ دن دکھائے گی۔
صوفیہ ایک شریف گھرانے کی لڑکی تھی مگر جب کالج میں داخل ہوئی تو وہاں اس کی ایک لڑکی سے دوستی ہوگئی۔ صوفیہ کا ان کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا ۔ اس دوران صوفیہ کو سہیلی کے بھائی سے محبت ہوگئی۔ یہ محبت اس حد تک بڑھی کہ آج یہ ہسپتالوں کے دھکے کھا رہی ہے۔ مگر کوئی ان کی مدد کرنے کی حامی نہیں بھر رہا تھا۔
صوفیہ کی بہن کو اس کی ایک دوست نے بتایا کہ ایسے کیسز کے لیے ریگل چوک کے پاس ٹیمپل روڈ پر کئی پرائیویٹ کلینک ہیں ۔چنانچہ اگلے ہی دن وہ دونوں وہاں پہنچ گئیں اور ایک کلینک میں لیڈی ڈاکٹر سے ملاقات کی مگر اس ڈاکٹر نے بھی انہیں یہی کہا کہ اب وقت بہت زیادہ ہو چکا ہے لہذا اسقاط کرنا ممکن نہیں ہے۔
وہ دونوں بہت مایوس ہو کر ہسپتال سے باہر آگئےں۔ جونہی وہ باہر آئےں تو کلینک کا ایک ملازم بھی باہر آ گیا اور انھیں کہنے لگا کہ اصل میں ڈاکٹر یہاں اسقاط حمل پر بات نہیں کرنا چاہتی کیونکہ یہ ایک جرم ہے لہذا آپ ان کے گھر چلی جائے جہاں انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک کلینک بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی اس نے انھیں ڈاکٹرکا وزٹنگ کارڈ دیا جس پر ان کے گھر کے کلینک کا ایڈریس درج تھا۔ وہ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحبہ40ہزار روپے لے گی اور ان کا کام ہوجائے گا۔
پاکستان میں بھی اسقاط حمل ایک غیرقانونی فعل ہے اور جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 338کے تحت اس جرم میں 10سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود اسقاط کا عمل جاری ہے۔ پاکستان میں اگرچہ اسقاط حمل (قانونی ، غیر قانونی ) کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں بنایا جاتا مگر ڈاکٹروں کا کہنا ہے ہر سال تقریباً 8لاکھ50ہزار سے زائد خواتین اسقاط حمل کرواتی ہیں ۔ ان میں سے 76فیصد کے قریب شادی شدہ خواتین اور24فیصد کے قریب غیر شادی شدہ لڑکیاں شامل ہوتی ہیں۔
جبکہ ”پاتھ فائینڈر“ نامی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ حمل ضائع کرائے جاتے ہیں جو ماو ¿ں کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت کا سبب ہے۔”پاتھ فائینڈر“ کے پاکستان میں سربراہ ڈاکٹر فہیم احمد کا کہنا ہے کہ اسقاط حمل کی اتنی زیادہ شرح ہونے کی وجوہات شعور کی کمی کے علاوہ ایک بڑی آبادی کو ضبط حمل کی اشیاءاور ادویات کی عدم دستیابی اورمعاشرے میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق پائی جانے والی مخالفت ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسقاط حمل کے دوران ماﺅں کی ہلاکت کے واقعات میں اضافہ ایک تشویش ناک بات ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کا کہنا ہے پاکستان میں ہر سال زچگی کے دوران 5لاکھ سے خواتین ہلاک ہوجاتی ہیں جبکہ 30ہزار کے قریب خواتین اسقاط حمل اور اس سے متعلق پیچیدگیوں کے سبب ہلاک ہوجاتی ہیں۔
پاکستان میں ماو ¿ں کی بلند شرح اموات کی اہم وجوہات میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقہ کو نہ اپنانا اور غیر محفوظ اسقاط حمل کے طریقے، کم عمری کی شادیاں، زیادہ بچے، حمل اور پیدائش کے وقت طبی سہولتوں کا نہ ملنا، غذائی قلت، غربتتربیت یافتہ دائیوں سمیت علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر مانع حمل کے طریقے اپنا کر خواتین اسقاط حمل سے بچ سکیں تو ان کی شرح اموات میں کم از کم دس فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین غیر محفوظ طریقوں سے غیر مطلوبہ حمل ختم کرنے کی وجہ سے مہلک انفیکشن کے خطرے میں مبتلا رہتی ہیں اور صحت کے حوالے سے ناقابل تلافی نقصان کا سامنا بھی کرتی ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی کمی، عطائیوں کی زیادتی، پرانے طریقہ کار پر عمل ، غیر قانونی میٹرنٹی ہومز اور نجی اسپتالوں میں ناقص سہولیات اور غیر تربیت یافتہ عملے کے ہاتھوں کئی خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ جبکہ دائیوں کے طریقوں سے لاتعداد خواتین انتہائی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ اس حوالے سے گائنی کی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ غیر محفوظ اسقاط حمل کے ذریعے مائیں فوری پیچیدگیوں، خون کے زیادہ بہہ جانے کے باعث کمزوری کا شکار ہو جاتی ہیں جبکہ طویل المدت اثرات میں گردے کی خرابیاں، بچہ دانی کے ٹیوب کا بند ہو جانا اور ڈپریشن وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم” شرکت گاہ” کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے امراض سے متعلق 60 فیصد سے زائد پریکٹیشنرز غیر تربیت یافتہ ہیں۔ جب قانونی علاج کے لیے بھی تربیت یافتہ عملہ ضرورت سے کم ہے، تو اسقاط حمل تو ویسے ہی غیر قانونی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں محفوظ علاج کی صورت حال کیا ہے۔ اسی وجہ سے کافی مراکز پس پردہ اسقاط حمل کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔“پاکستان میں کئی ایسی خواتین ہیں جو مجبوراً اسقاط حمل کے لیے غیر قانونی اور انتہائی خطرناک طریقوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ جس سے ا ±ن کی صحت کے لئے خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسقاط حمل ایک غیر قانونی عمل ہے اور اس میں 10سال تک قید کی سزا ہے ۔ تاہم کچھ ایسی صورتیں ہیں کہ جہاں قانون اسقاط کی اجازت دیتا ہے ۔جیسے ماں کی زندگی کو جہاں بچانا مقصود ہو یا پیٹ میں پرورش کرنے والے بچہ کسی بیماری کی وجہ سے ماں کی موت کا باعث بن رہا ہو۔ تاہم زیادتی کی وجہ سے ٹھہرنے والے حمل کے اسقاط کو بھی غیر قانونی قراردیا گیا ہے۔ بیٹیوں کی کثرت سے پیدائش اور الڑا ساﺅنڈ کے ذریعے بیٹی کا انکشاف ہونا بھی اسقاط کی ایک اہم وجہ ہے۔ زیادتی کا شکار اور ایسی خواتین کے جن کے سسرال اور خاند کی طرف سے بیٹی پیدا ہونے پر طلاق کی دھمکی کا سامنا ہو ان کے پاس سوائے اسقاط کے اور کوئی حل نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ ایسے ہی غیر محفوظ طریقوں کا استعمال کرتی ہیں۔ جیسے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے کئی علاقوں میں ابھی تک جھاڑو کے تنکے اور افیون سے اسقاط حمل کیاجاتاہے۔ جبکہ اسٹیل ہینگر سے بھی کام لیاجاتاہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حاملہ خواتین میں سے ہر چھٹی موت غیر قانونی اسقاط حمل کے نتیجے میں ہوتی ہے۔
ورلڈ پاپولیشن فاو ¿نڈیشن پاکستان کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں اسقاطِ حمل کا فیصلہ کسی ایک وجہ سے سامنے نہیں آتا۔ مثلاً پاکستان میں بڑی عمر کی ایسی خواتین جو اپنی مرضی کی تعدادمیں بچے پیدا کرچکی ہیں، مزید بچوں کی پیدائش ان کے معاشی معاملات میں دباو ¿ بڑھائے گی، اس لیے اس گروپ کی سب سے زیادہ تعداد اسقاطِ حمل کے لیے رجوع کرتی ہے۔ یہی وہ گروپ ہے جہاں بچے کی جنس پر مبنی معلومات کے بعد اسقاطِ حمل کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔
پاکستان کے معاشی اور معاشرتی نظام میں موجود ناہمواریوں اور ناانصافیوں کے سبب اسقاط حمل کے حوالے سے عورت تین طبقوں میں تقسیم نظرآتی ہے۔ مقتدر اور مراعات یافتہ طبقے کی خواتین کے لیے عام صحت اور زچگی کے دوران صحت کی سہولیات کی دستیابی کا دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس طبقے میں روپے پیسے کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ان خواتین کے مردوں کا نسبتاًآزاد خیال ہونا کوئی بعید ازقیاس نہیں، اسقاطِ حمل کا فیصلہ عام طور پر باہمی رضا مندی سے کرلیا جاتا ہے( البتہ جاگیرداری روایات کے حامل خاندانوں میں عورتوں کے لیے مسائل کی شدت بالکل غریب عورتوں جیسی ہے)۔ اسقاطِ حمل کے لیے اس طبقے کی خواتین کو انتہائی مہنگے ہسپتالوں میں ماہرترین ڈاکٹروں کی خدمات دستیاب ہیں۔
دوسرے طبقے کی خواتین کو اگرچہ مالی وسائل میں کمی جیسے مسائل کا سامنا نہیں لیکن اس طبقے میں بچہ نہ پیدا کرنے کا فیصلہ یا اسقاطِ حمل بہرحال مرد کی رضا مندی سے مشروط ہے۔ متذکرہ دونوں طبقات میں ایک قابل توجہ قدر مشترک یہ ہے کہ ماورائے قانون ازدواجی تعلقات کے نتیجے میں اس طبقے کی خواتین کے لیے اسقاطِ حمل کے مواقع حاصل کرنا کسی بھی ملک اور کسی بھی دور میں مشکل نہیں رہے۔ چونکہ اس طبقے کی خواتین اپنے ذاتی مالی وسائل کے ذریعے کسی بھی ماہر ڈاکٹر کی خدمات حاصل کرسکتی ہیں۔
تیسرا طبقہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح عورتوں کی تولیدی صحت کے حوالے سے بھی انتہائی مظلومیت کی تصویر دکھائی دیتا ہے۔ جہاں غربت بھی ہوتی اور غیرت بھی ہوتی ہیں۔ اس طبقے کی خواتین زندگی انتہائی بے بسی اور بیچارگی کی ہوتی ہے۔ اور سب سے زیادہ اس طبقہ کی عورتیں اس عمل سے گزرتی ہیں۔ جبکہ غربت کی وجہ سے اسی طبقے کی زیادہ عورتیں غیر محفوظ طریقوں کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔ حتیٰ کہ اس طبقے میں عورت کو اسقاط کے حوالے سے خود فیصلے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔سسرال یا شوہر نے جو فیصلہ کردیا بس اسی پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسقاطِ حمل پر پابندی، معاشرتی رسم و رواج اور مردانہ سوچ کے غلبے سمیت معاشی بدحالی کے سبب غریب خاندانوں کی اکثر خواتین غیر ہنرمند اور غیر تعلیم یافتہ نرس اور دایہ کے پاس جاتی ہے جہاں پیسے تو کم خرچ ہوتے ہیں لیکن بدلے میں ماں بننے کی صلاحیت سے محرومی سمیت موت بھی ملتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اگر15سے44 سال تک کی شادی شدہ اور کنواری عورتوں کو ان کے ماہوار محفوظ دنوں کے تعین میں مدد دی جاسکے تو اتفاقیہ حمل یا غیر ضروری حمل کی شرح میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ حمل سے بچاو ¿ کے تمام جدید طریقوں اور ادویات کی رسد میں اضافہ کیا جائے۔

اسقاطِ حمل رحم سے جنین (fetus) کے اخراج یا ہٹادینے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ اسقاطِ حمل ادویات یا سرجری کے ذریعے ہوتا ہے ۔ اور ازخود بھی ہوسکتا ہے۔ وقت زیادہ گزرنے پر ماں کی جان جانے کو بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں اسقاطِ حمل کا عمل ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔ البتہ انسانی تہذیب کے آغاز سے یہ اخلاقی اور قانونی حوالے سے مباحث کی زد میں رہا ہے۔ کبھی اس کی مکمل یا شرائط کے ساتھ اجازت دی گئی اور کبھی ایسا کرنے والوں کو بدترین سزاوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انسانی تاریخ میں اب تک کی دریافتوں کے مطابق سب سے قدیم 2,600 قبل مسیح کی ایک چینی تحریر ملی ہے جس میں اسقاطِ حمل کے لئے پینے کی ایک دوا کا ذکر ہے۔ قدیم مصر میں بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لیے ادویات بنانے کی نشانیاں تقریباً 1,850سال قبل مسیح کی ہیں۔
قدیم روم اور یونان میں اسقاطِ حمل کو قبول کیا جاتا تھا۔ رومی اور یونانی پیدائش سے پہلے بچے کے زندہ رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہوتے تھے اور اسقاطِ حمل پر اعتراض اس وقت ہوتا تھا جب والد نئے بچے کا شدید خواہش مند ہو۔ارسطو کے مطابق ”جب جوڑوں کے ہاں بچے زیادہ ہوں تو حس اور زندگی کی شروعات سے قبل اسقاطِ حمل ہوجانے دیجئے۔ ان معاملوں میں کسے قانونی حیثیت حاصل ہونی چاہیے اور کسے نہیں، اس کا انحصار حس اور زندگی پر ہے“۔ ابتدائی یونانی فلسفی عموماً ماں کے پیٹ میں موجود بچے میں حس اور زندگی کے آثار کو 40 سے 80 دنوں بعد دیکھتے تھے۔
مغربی تہذیب کے ابتدائی دور میں اگرچہ اسقاطِ حمل کو بری چیز نہیں سمجھا جاتا تھا مگر عیسائیت کے فروغ اور سماج میں اس کے اثرورسوخ میں اضافے کے ساتھ مذہبی پیشواوں کے نقطہ نظر میں سختی آتی گئی۔انگلستان میں قانون سازی کے حوالے سے اسقاطِ حمل کا ذکر سب سے پہلے 13ویں صدی میں ملتا ہے۔یہ قانون چرچ کی اس اجازت کے تحت بنایا گیا تھا جس میں پیٹ میں بچے کی حرکت سے قبل اسقاطِ حمل کو قبول کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت چرچ کا خیال تھا کہ حرکت کے بعد جنین میں روح آ جاتی ہے۔
عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں تولید پر کنٹرول کے لئے دائیاں اہم کردار ادا کرتی تھی اور اس مقصد کے لئے بنائی گئی ادویات یا طریقہ کار ایک علم کی صورت عورتوں میں نسل درنسل منتقل ہوتا تھا۔ اس دور میں جادوگرنیوں کے خلاف مہم (witch-hunt) جس میں ہزاروں (اور بعض اندازوں کے مطابق لاکھوں) عورتوں کو مارا گیا،کی وجوہ پر مختلف توجیہات بیان کی جاتی ہیں اور تاریخ دانوں میں اس حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔ایک نظر یہ یہ ہے کہ ان عورتوں کے پاس، جنہیں جادوگرنیاں قرار دیا جاتا تھا، مانع حمل طریقوں کا خاصا علم ہوتا تھا۔
عورت انسانی تاریخ کی ابتدا سے آج تک ماں بننے یا نہ بننے کا فیصلہ کرتی آئی ہے۔ کبھی چھپ کر اور کبھی کھل کر، اور اس بات کا انحصار معاشرے یا ریاست میں اس عمل کی قبولیت کی شرح پر ہوتا تھا اور ہے۔
اسقاطِ حمل کے معاملے پر انگلستان میں1803میں قانون بنایا گیا، جس کے تحت پیٹ میں بچے کی حرکت کے بعد اسقاطِ حمل کی سزاموت تھی۔ اس سے پہلے کی سزائیں نرم تھیں۔ 1837 میں پیٹ میں حرکت سے قبل اوربعد میں جنین کے اخراج کے عمل کی تفریق کو ختم کرتے ہوئے سزائے موت رکھ دی گئی۔ برطانوی سامراج کے پھیلاو کے ساتھ اسی نوعیت کے قوانین نو آبادیوں میں بھی نافذ ہوئے۔
سوویت یونین پہلا ملک تھا جہاں 1920 میں اسقاطِ حمل کو قانونی طور پر جائز قراردیا گیا۔ البتہ 1936 میں ،جب بیوروکریسی کا اثرورسوخ خاصا بڑھ چکا تھا، جوزف اسٹالن نے لینن کی رہنمائی میں ہونے والی قانون سازی میں بڑی تبدیلیاں کیں اور اسقاطِ حمل پر مختلف پابندیاں لگادی گئیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ”سوشلسٹ“ ریاستوں کے قیام اور تحریکِ حقوقِ نسواںکی تحریک کے یورپ اور شمالی امریکہ میں پھیلنے کے بعد ان براعظموں میں اسقاطِ حمل کی اجازت ملنا شروع ہوئی۔حقوقِ نسواں کی اس دور کی تحریک میں اسقاطِ حمل کی اجازت کے سوال کو خاص اہمیت حاصل رہی اور اس نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔البتہ یورپ اور شمالی امریکہ میں آج بھی بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں فیصلے کا مکمل اختیار عورت کے پاس نہیں۔

امریکہ ادارہ صحت کے مطابق امریکہ میں ہر سال اسقاط حمل 13لاکھ70ہزار عورتیں کرواتی ہیں جن میں سے 67فیصد عورتیں غیر شادی شدہ ہوتی ہیں ان میں سے پروٹسٹنٹ عقیدے سے تعلق رکھنے والی عورتوں کا تناسب 43فیصد ہے جبکہ کیتھولک سے تعلق رکھنے والی 27فیصد عورتیں شامل ہیں۔
امریکہ میں اتنی بڑی تعداد میں اسقاط کی بنیادی وجہ امریکہ میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے جرائم بھی ہیں ایک اندازے کے مطابق ہر دومنٹ بعد امریکہ میں ایک زیادتی کا کیس ہوتا ہے جو سالانہ سات لاکھ75ہزار کے قریب ہوتا ہے۔ امریکہ کی ہر ساتویں عورت زیادتی کا شکار ہوتی ہے ۔ 44 فیصد زیادتی کے جرائم میں عورتوں کی عمر 18 سال جبکہ 15فیصد کیسوں میں لڑکیوں کی عمر 12 سال سے بھی کم ہوتی ہے۔
برطانوی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر سال 1,98,000سے زائد اسقاط کے کیسز ہوتے ہیں۔19سال یا س سے زائد خواتین میں ہر ایک ہزار میں 36خواتین اور 18سال سے کم عمر کی ہر ایک ہزار لڑکیوں میں سے 18.6لڑکیاں اسقاط حمل کرواتی ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ناجائز طور پر حاملہ ہونے والی بالغ لڑکیوں کی تعداد39 ہزار ہے جن میں سے 45فیصد ابتدائی ایام میں ہی اسقاط کروالیتی ہیں۔ ان میں 8ہزار ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی عمریں 16سال سے بھی کم ہوتی ہیں۔ صرف شمالی آئرلینڈ میں سالانہ 96 فیصد لڑکیاں بن بیاہی ماں بن جاتی ہیں جو اپنے ان غیر قانونی بچوں کو پالنے لئے وسائل نہیں رکھتیں چنانچہ اسقاط کا سہارا لیتی ہیں۔
برطانیہ میں نوجوان اور کم عمر لڑکیوں میں اسقاط حمل کرانا عام معمول بن گیا ہے۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق برطانیہ میں 2010 میں 38 ہزار 269 کم عمر لڑکوں نے اسقاط حمل کرانے کی درخواستیں دیں جو کم از کم 2 با ر اس عمل سے گزر چکی ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق ان میں دو لڑکیاں 7 ویں بار اسقاط حمل کروا رہی تھیں۔ جبکہ 4 کے لیے چھٹی بار اور 14 لرکیوں کا یہ 5واں بوقع تھا۔ اسی طرح 57 لڑکیاں چوتھی جبکہ 457 لڑکیاں تیسری بار اسقاط حمل کرانا چاہتی تھیں۔ برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ملک کا سنگین مسلہ ہے کہ کم عمر لڑکیاں لگا تار اسقاط حمل کرا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں کے اسقاط حمل سے نہ سرف امراض کی شرح بڑھ رہی ہیں بلکہ اس سے مستقبل میں بچوں کی پیدائش متاثر ہو سکتی ہے۔
اسقاط حمل سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کو کم کرنے کے لیے اسقاط حمل کے زیادہ تر واقعات چین،کوریا،تائیوان، سنگاپور، ملائیشیا، بھارت اور پاکستان کے علاوہ ایشیا اور شمالی افریقہ کے بہت سے ممالک میں ہوتے ہیں۔2006 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے سات کروڑ 90 لاکھ کم ہے جس کی وجہ اسقاطِ حمل اور طفل کشی (infanticide) ہے۔ کئی معاشروں میں لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں کم خوراک دی جاتی ہے اور ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی جس سے وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پاتیں۔ اسقاطِ حمل کا یہ وہ مکروہ پہلو ہے جس کے خلاف بھارت میں حال ہی میں قانون سازی کی گئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ”ہر عورت کو“ جو اسقاط حمل چاہتی ہے، جس قدر ممکن ہو اعلیٰ ترین معیار کی دیکھ بھال لازماً مہیا کی جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ دیکھ بھال کی ہر سطح پر اعلیٰ معیار کو یقینی بنانے کے لیے مربوط طریق کار اپنایا جائے“۔جن ممالک میں اسقاطِ حمل قانوناً جائز ہے وہاں عورتیں جدید طبی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوتی ہیں۔ اگرچہ سرکاری سطح پر مہیا کی جانے والی سہولیات کو اب بھی ناکافی تصور کیا جاتا ہے، مگر عمومی طور پر محفوظ اسقاطِ حمل تک ان کی رسائی کی زیادہ صلاحیت انہیں بعدازاں پیش آنے والی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ غیر محفوظ اسقاطِ حمل زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے اور اس کی سب سے زیادہ شرح افریقہ، لاطینی امریکہ کے ممالک میں ہے۔ ان سے کچھ ہی نیچے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کا نمبر ہے، جبکہ یورپ اور شمالی امریکہ میں غیر محفوظ اسقاطِ حمل کی شرح انتہائی کم ہے۔
2008 میں” غیر محفوظ اسقاط حمل اور اس کے نتائج “ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر سال اندازاً 21 کروڑ عورتیں حاملہ ہوتی ہیں اور ان میں ہر پانچ میں سے ایک اسقاطِ حمل کے عمل سے گزرتی ہے۔ سالانہ چار کروڑ چھ لاکھ اسقاطِ حمل میں سے ایک کروڑ 90 لاکھ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔اس تحقیق کے مطابق غیر محفوظ اسقاطِ حمل کی وجہ سے ہر سال تقریباً 6,800 عورتیں مرجاتی ہیں اور 53 لاکھ عارضی یا مستقل معذوری کاشکار ہوتی ہیں۔

اسقاط حمل شرعی نقطہ نظر سے
بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے اور حمل کے 4 ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ حمل کے پہلے 4 ماہ کے دوران کسی معقول وجہ کی بناء پر حمل ضائع کرنا جائز ہے جبکہ 4 ماہ گزرنے کے بعد حمل کو ضائع کرنا بچہ کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
عذر شرعی سے مراد یہ ہے کہ اگر حمل کے 4 ماہ گزرگئے ہوں لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو، جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو، تو ایسی صورت میں 4 ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائز ہے بلکہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں ماں اور بچہ دونوں کی ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے۔ پیٹ میں موجود بچے کی نسبت ماں کی جان بچانا زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس صورت میں اسقاط کرانا واجب ہے۔

اے انسانو۔۔۔۔اے میرے ہم وطنو

آو پیارے میرے ہم وطنو،آو اہل علم، آو اہل دانش ،آو ذی ھوش لوگو
آو کمر باندیں۔مذہبی جنونیوں ،مذہبی دیوانوں اور مذہبی بد معاشوں کو مار کے گرادیں۔
بے مزہ تقریروں۔بےھودہ مغالطوں اور جھوٹی تاریخ نگاریوں،اور بیکراں سیاسی لغویات،سیاسی خرافات کو برباد کرکے رکھ دو۔
جو لوگ ھوش وحواس میں ہیں جو لوگ انسانیت کے نام پر جیتے ہیں،انہیں احمق جانوروں کا غلام نہ بننے دو۔
آنے والی نسل کو عقلی ترقی کی ضمانت دو۔
آنے والی نسل کو آزادی کی ضمانت دو۔
آنے والی نسل کو تفرقوں سے پاک دین اسلام دو۔
آنے والی نسل کو نسل پرستی سے پاک معاشرہ دو۔
آنے والی نسل کو سیاست کی شخصیت پرستی سے بچاو۔
کیا آنے والی نسل کی آزادی اور عقلی ترقی کے ہم ضامن نہیں ہیں؟
یہ نہیں کر سکتے تو آنے والی نسل کی لعن وطعن کیلئے تیار رھو۔
کہ آنے والی نسل آئے گئی ہمارے روکنے سے نہیں رکے گی۔
یہ نہ ھو ہماری قبریں ھوں اور آنے والی نسل کے غلاظت کے نذرانے و نیازیں ھوں۔

اسیران بلوچ قومی آزادی کے نام




BALOCH- A NATION STILL LIVING IN ERA OF “GESTAPO” 
ہم رہتے ہے اُس بستی میں 
جہا ں ظلم کی رات ابھی نہیں ڈھلی 
جہا ں اب بھی گُھپ اندھیرا ہے 
جہا ں خوف کے بادل چائیں ہیں 
جہا ں ہر کرن کی تاک میں 
اک ایسا قاتل بیٹھا ہے 
جسے ہر حال میں ، ہر کرن کو روکھتے 
یہاں ھمیشہ اندھیر ارکھنا ہے 

قدیر بلوچ

نظم شہید جلیل ریکی کے دورانِ اسیری میں ایسے ہی کیمپ کا دورہ کرنے کے دوران لکھی گئی کہ جسکی قیادت قدیر بلوچ اپنے عظیم بیٹے کی شہادت کے بعد بھی کر رہے ہے ۔ قدیر بلوچ ، ہر بلوچ اسیر کو اپنی اولاد تصور کرتے آج تک اپنے نظریے کا دفاع کرتے اس ریاست سے بر سرے پیکر ہے 

چین امریکہ بھارت سرد جنگ : بحر ہند کے تجارتی راستوں کی اہمیت


کیا بحر ہند میں امریکہ، بھارت اور چین کی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے؟
منصور مہدی
بر طانوی اخبار ’ٹائمزنے اپنی ایک تازہ اشاعت میں لکھتا ہے کہ دنیا کی سب سے مصروف ترین بحری گزرگاہ سے تقریباً 10 میل دور سری لنکا کے شمالی ساحل Hambantota کے مقام پر چین نے1.5 ارب ڈالر کی لاگت سے جدید طرز کی بندر گاہ تعمیر کر لی ہے جس کا افتتاح سری لنکا کے صدرمندرا راجا پکسے نے15اگست2010کو کیا ہے۔ اس سے چین کی نیوی بحر ہند میں گشت کرے گی اور سعودی عرب و دیگر ممالک سے اپنے لیے تیل کی رسد کی حفاظت بھی کر ے گی۔سری لنکا حکومت نے ہیمبن ٹوٹا کی بندرگاہ کو مزید وسعت دینے اور نئے برتھ بنانے کےلئے چین کی کمپنیوں چایئنہ ہاربر انجئنیرنگ کمپنی اور ساینو ہائیڈرو کارپوریشن کے ساتھ اس منصوبے کی مارچ 2007ءمیں منظوری دے دی تھی اور جس کی تعمیر جنوری2008میں شروع ہوئی۔بندرگاہ کی تعمیر تین فیز پر مشتمل ہے اور جس پر کل لاگت کا اندازہ600ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق ان اخراجات کا85فیصد حکومت چین اور15فیصد سری لنکا پورٹ اتھارٹی برداشت کرے گی۔ بندرگاہ کا پہلا فیز مکمل ہونے کے بعد ہیمبن ٹوٹا کی بندرگاہ سری لنکا کی جدید بندرگاہ ہو گئی۔ جہاں اب ایک ہی وقت میں 22میٹر گہری اور600میٹر طویل برتھ پر 20بھاری جہاز، 310میٹر طویل برتھ پر14آئل ٹینکر کھڑے ہو سکیں گے۔اس کے علاوہ عام جہازوں کیلئے120میٹر طویل برتھ علیحدہ سے بنائی گئی ہے۔ بندرگاہ کے تینوں فیز جو2014تک مکمل ہو جائیں گے کے بعد نہ صرف یہاں50ہزار افراد کیلئے روزگار کھل جائے گا بلکہ یہ جنوبی ایشیاءکی سب سے بڑی بندرگاہ کا درجہ حاصل کر لے گی۔

قدیم دور میں سلک روٹ سے ملانے والی ہیمبن ٹوٹا کی بندرگاہ 250سال قبل مسیح میں قائم ہوئی تھی جہاں چین اور عرب ممالک کے تاجر اپنا سامان تجارت لاتے تھے۔ یہ بندرگاہ بحر ہند کے اس تجارتی راستے پر واقع ہے جوایشیاءکو یورپ سے منسلک کرنے کیلئے آبنائے ملاکا کو نہر سویز سے ملاتا ہے۔آبنائے ملاکا جزیرہ نما ملائشیا اور انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے درمیان ایک آبی گزرگاہ ہے۔ اقتصادی لحاظ سے یہ نہر سویز اور نہر پاناما کی طرح دنیا کی اہم ترین بحری گزرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان بحری جہازوں کے گزرنے کا مرکزی راستہ فراہم کرتی ہے اور اس طرح دنیا کے تین گنجان آباد ترین ممالک بھارت، انڈونیشیا اور چین کو منسلک کرتی ہے۔ آبنائے میں سے سالانہ 50 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں جو دنیا کی کل تجارت کا ایک پانچواں حصہ اور تیل کے جہازوں کا ایک چوتھائی حصے کے حامل ہوتے ہیں۔ جبکہہیمبن ٹوٹا سے اندازاًسالانہ 36ہزار بحری جہاز بشمول 4500آئل ٹینکر گزرتے ہیں۔
سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ کے دور میں بحرالکاہل کی جو اہمیت تھی وہی اہمیت اب بحر ہند کو حاصل ہو چکی ہے۔ اس وقت بحرالکاہل تنازات سے بھرپوردنیا کا خطرناک ترین بحری خطہ تھا مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بحرالکاہل تنازعات سے پاک ہوگیا ۔بحر ہند بحرالکاہل کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے۔اب چونکہ معاشی ترقی کے لئے توانائی کا حصول ساری قوموں کے لئے پہلی ترجیح بن چکا ہے اورتیل و گیس توانائی کے بنیادی عنصر بن چکے ہیں۔دنیا میں استعمال ہونے والا سترفیصد تیل سمندری راستوں سے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہورہا ہے اور دنیا کی دیگر برآمدات اور درآمدات کا نوے فیصد بحری جہازوں کےذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہا ہے۔ یوں جنوبی ایشیا کی دوبڑی قوتوں بھارت اور چین کے علاوہ امریکہ ، ایران اورپاکستان کے مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر ان ممالک کی ساری توجہ اب بحر ہند پر مرکوز ہو چکی ہے۔ مڈل ایسٹ کے تیل پیدا کرنے والے ملک اور خلیجی ریاستیں یا تو بحرہند میں موجود ہیں یا بحرہند کے راستوں پر واقع ہیں۔ آبنائے ہرمز،خلیج عدن اور خلیج فارس بحرہند کا حصہ ہیں۔خلیجی ریاستوں سے یورپ اور دیگر براعظموں تک جانے والا تیل بحرہند سے گزرتا ہے۔
سری لنکا اپنے محل ووقوع ، مذہب ، تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہمیشہ بھارت کے قریب رہا مگرتامل لڑائی میں بھارت کے تاملوں سے تعلق کی وجہ سے دونوں ممالک میں دوریاں ہوتی چلی گئی۔ سری لنکا کے پاکستان اور چین سے بھی ہمیشہ قریبی اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں اور بعض مقامات پر سری لنکا نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان اور چین کو زیادہ سپورٹ کیا۔ اگرچہ سری لنکا کو فوجی امداد فراہم کرنے میں امریکہ کا کردار بھی خاصا اہم ہے۔ جون2007میں ہیومن رائٹس فیچرز کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ سری لنکا کی حکومت کو انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام کے تحت سالانہ 0.5ملین ڈالر اور دیگر مد میں1ملین ڈالر کی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔لیکن سری لنکا کو امداد فراہم کرنے والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ جاپان بھارت اور چین کا نام بھی شامل ہے۔چین نوے کی دہائی کے آغاز سے ہی سری لنکا کو سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والا ملک رہا جبکہ2007 سے اس عمل میں مزید اضافہ ہوگیا۔ گذشتہ سال چین نے سری لنکا کو 6 ایف7جیٹ طیارے مفت فراہم کیے ہیں۔چین نے تامل باغیوں کے خلاف سری لنکا کوتمام ممکنہ امداد،اسلحہ اور سفارتی حمایت فراہم کی اور مغرب کی طرف سے کسی بھی پریشانی کی صورت میں مکمل ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی ، جس کے نتیجے میں سری لنکا کیتین دہائیوں سے جاری خونی بغاوت سے جان چھوٹی ہے ۔تامل ٹائیگرز کی شکست نے عالمی سیاست خصوصاً علاقائی پاور پاکٹس کو شدید متاثرکیا ہے۔ ان کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد خطے میں ایک نئی ”سرد جنگ” نے جنم لیا ہے جس میں سری لنکا کی اسٹریٹجک اہمیت اجاگر ہوئی ہے۔
سری لنکا نے 2007میں جب چین سے Hambantota پورٹ کی تعمیر کا معاہدہ کیا تب سے بھارت سری لنکا سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ ادھر چین کا کہنا ہے کہ یہ پورٹ تجارتی بنیادوں پر تعمیر کی جارہی ہے اس کا مصرف صرف تجارتی ہی رہے گا جب کہ امریکی اور بھارتی اعلیٰ منصوبہ سازوں کے قریب یہ چین کی اسٹریٹجک پالیسی کا حصہ ہے ۔جس کے تحت وہ Hambantota کے علاوہ پاکستان میں گوادر بندر گاہ کی تعمیر، برما میں Kyauk Phyu کے مقام پر بندر گاہ کی تعمیر اور چین کے صوبے Yunnan کے دارالحکومت کن منگ تک 1,950کلو میٹر طویل ہائی وے، 15جون 2010کوبنگلہ دیش کے چین کے ساتھ اسکے ساحلی شہر چٹاگانگ میں ڈیپ سی پورٹ کی تعمیراور بنگلہ دیش کے پہلے سیٹلایٹ کو خلا میں بھیجنے کے معاہدے،ایران سے توانائی کے معاہدے ، نیپال تک ریلوے ٹریک کی تعمیرکے علاوہ بحر ہند اور بحر اوقیانوس کے ممالک سے تجارتی، اقتصادی اور مزید دوستانہ معاہدے قائم کر رہا ہے ۔اس کے علاوہ افریقہ میں چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے جس کی ایک مثال افریقی ملک انگولا کا امریکی اور یورپی امداداور قرضوں کو مسترد کر کے چین کی طرف سے پیش کئے جانے والے قرضوں کو قبول کرنا ہے۔

ایسے حالات میں بھارت بھی بحر ہند کے پانیوں پر حکمرانی کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔چین کے مقابلے میں خود کو علاقائی طاقت سمجھنے کی وجہ سے بھارت نے بھی بحر ہند اپنے قدم مضبوط کرنے شروع کر دیے ہیں۔ بھارت نے بھی ایرانی علاقے چاہ بہار اور بحرہند کے ساتھ ملحق جزائر ماریشس میں ایک طرف بندرگاہیں اور دوسری طرف قوت کا توازن اپنے پاس رکھنے کے لئے کئی آبی پراجیکٹس پر کام شروع کر دیا ہے۔ سری لنکا میں بندرگاہ کی تعمیر پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ نے متنبہ کیا کہ چین اس علاقہ میں کوئی نئی مصیبت کھڑی نہ کردے۔اگرچہ بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نرمل ورما نے کہا ہے کہ بحر ہند میں چینی بحریہ کی سرگرمیوں سے ہندوستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ چینی بحریہ کی تعیناتی کسی دوست ملک کی مدد کے لیے بھی ہوسکتی ہے جس کے چین سے اچھے تعلقات ہیں ، تاہم بھارت بحر ہند میں اپنے مفادات کے تحفظ اور ضروریات کے لیے تمام تر اقدامات کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے دیگر سیاستدان اور تجزیہ کار مسلسل اس بندرگاہ کی تعمیر اور چینی نیوی کی بحر ہند میں موجودگی پر تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔
اس کااظہار اس وقت منظر پر آیا جب سری لنکا کے صدر مندرا راجا پکسے نے جنوری 2010 میں بھارت کا دورہ کیا۔تب بھارتی حکومت کی شہہ پر تامل بھارتی باشندوں نے تامل ناڈو کے صوبائی دارالحکومت چنائی میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سری لنکا کے قونصلیٹ کے باہر ہونے والے اس مظاہرہ سے تامل ٹائیگرز کے سابقہ حامی سیاستدان وائیکو اور دیگرنے خطاب کرتے ہوئے کہا:”سری لنکا کے صدر کو بھارت داخلے کا کوئی حق نہیں۔ ان کے ہاتھ تامل باشندوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔”اس موقع پر مظاہرین نے سری لنکا کے صدر کا پتلا بھی نذرِ آتش کیا۔ دورے کے دوران بھارتی حکمران کانگریس اور اس کے اتحادی DMK کے تامل ایم پی ایز نے بھی سری لنکا کے صدر سے ملاقات کی اور انہیں اپنے خدشات اور تحفظات سے آگاہ کیا۔ ان ملاقاتوں پردہلی انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز کے ریسرچ سکالر سکندر رحمان کا کہنا تھا کہ ”بھارت کی قابل ذکر تامل آبادی سری لنکا کی تامل آبادی سے مکمل یکجہتی رکھتی ہے، لیکن ساتھ یہ احساس بھی ہے کہ ان کی شدید تنقید سے چین اسٹریٹجک پوزیشن پر نہ آ جائے۔”اسی طرح ایک طرف تو بھارتی حکومت سری لنکا کے صدر کے ساتھ بھاری چارے اور مفاہمت کی بات کر رہی تھی تو دوسری طرف بھارتی میڈیا اپنے مہمان صدر کی ٹیم کا میڈیا ٹرائیل کرنے میں مصروف رہا۔ یہ سب باتیں اصل میں چین کی بحر ہند میں رسائی پر ردعمل کا اظہار تھیں۔دوسری طرف امریکہ اور مغرب نے بھی بحرہند پر اپنی اٍستبدادیت قائم کرنے کے لئے نئی صف بندیاں شروع کردی ہیں۔ امریکی بحری بیڑوں کی بحر ہند میں مسلسل آمد اور ڈیگوگارشیا کی از سرنو ترتیب اس امر کی غمازی کرتے ہیں۔ کیونکہ خود امریکہ اور دیگر یورپی طاقتیں بحر ہند میںچین کے بڑھتے ہوئے اثر سے بخوبی آگاہ ہیں اور چین کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لئے کوشاں بھی ہیں۔جس کا مظاہرہ خود امریکہ کی طرف سے کئی ایک بار ہو چکا ہے۔ کبھی چینی مصنوعات پر پابندی لگانے کی صورت میں اور کبھی بنیادی انسانی حقوق کی آڑ میں۔ 16اگست2010کو پینٹاگان کا یہ پیغام کہ تیل اور گیس کے سمندری راستوں پر چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان علاقوں میں اپنی فوجی قوت کو بڑھانے کی کوششیں چین کے مستقبل کے ارادوں کو ظاہر کر رہے ہیں ۔

بحر ہند میں بڑی طاقتوں کی جاری کشمکش پر پاکستان کی بھی مسلسل نظر ہے پاک بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل محمد افضل طاہر کا کہنا ہے کہ اس وقت بحر ہند عالمی مفادات کا مرکز بن چکا ہے، خلیج سے تیل کے آزادانہ بہاو ¿ کے باعث دنیا اس علاقے میں اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کیلئے توجہ دے رہی ہے جبکہ و سطی ایشیائی ریاستوں کے قدرتی وسائل بھی دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور ان کی نقل و حمل بحر ہند سے باآسانی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک بحریہ ایک متوازن اور مستحکم قوت ہے جو بحری جنگ کے تمام پہلووو ¿ں کے حوالے سے جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ مستقبل کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے پاک بحریہ نے دو نکاتی حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت جدید ہتھیارو ں اور سینسرز کی تنصیب سے موجودہ اثاثوں کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نئے بحری جہاز، ایئر کرافٹ اور سب میرین بھی حاصل کی جارہی ہیں۔ اس پالیسی کے تحت چین کے ساتھ چار ایف 22 پی فریگیٹس کی تیاری کے سمجھوتے کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 8 پی تھری سی میری ٹائم پٹرول ایئر کرافٹ حاصل کئے جارہے ہیں۔ ہم نئی آبدوزیں حاصل کرنے کا بھی جائزہ لے رہے ہیں تاہم ہماری سب سے اہم پالیسی خود کفالت کا حصول ہے جس کی سب سے بڑی مثال ایس ایم حمزہ کی لانچنگ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری 95فیصد سے زائد تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ تجارت کے حوالے سے سمندر کی کتنی اہمیت ہے۔
قرائن سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب بحر ہند میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں چین کے ساتھ پاکستان، ایران، سری لنکا، بنگلہ دیش، برما کے علاوہ دیگر ممالک ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ بھارت کھڑا نظر آ رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکی ایٹمی معاہدہ اس کی ایک مثال ہے۔ بحر ہند میں چین کے ساتھ سرد جنگ میں اب امریکہ بھارت کو مقابلے پر لانے کیلئے کوشاں ہے۔ کیونکہ امریکہ کی عراق سے واپسی اور افغانستان میں شکست کے بعد ان آبی راستوں پر اپنی حکمرانی کھونا نہیں چاہتا۔ عالمی امور پر اتھارٹی سمجھے جانیوالےکئی تجزیہ کاروں اوردانشوروں نے اکیسویں صدی کو بحرہند کی صدی سے منسوب کیا ہے۔امریکن نیوی کے سابق کمانڈر رابرٹ ڈی کپلان نے معروف امریکی جریدے فارن افیرز میں لکھے جانے والے اپنے ارٹیکل “اکیسویں صدی بحرہند اور طاقت کے کھیل “میں شہرہ افاق عسکری محقق الفریڈ تھائر مین کا یہ جملہ اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں ہر اس ملک نے جنگوں میں برتری حاصل کیجسنے نہ صرف اپنے بحری آثاثوں کا تحفظ کیا بلکہ ہر مشکل وقت میں اپنے بحری راستوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔
ماہرین کی رائے ہے کہ مستقبل کی متوقع سپرپاور چین کو اپنی معیشت کو ترقی دینے اور اس خطے میں امن قائم کرنے کیلئے بحرہند کے تجارتی راہوں کو اپنی دسترس میں لانا ہوگا۔اور بحرہند کے گرد و نواح میں واقع ملکوںکے علاوہ سعودی عرب اور شنگھائی تنظیم کے ممبر ممالک کو کوئی ایسا پلان مرتب کرنا ہو گا کہ جس سے بحر ہند امریکہ سوویت یونین کے زمانے کا بحر الکاہل کا بن سکے۔کیونکہ مستقبل میں عالمی قیادت کا تاج پہننے کے لئے بڑی طاقتوں کے درمیان اور وسط ایشیا اور براعظم افریقہ کے توانائی کے زخائر پر غلبے کی جنگ کا آغاز ہوچکاہے۔

نقل مکانی کاالمیہ اور اردو ڈراما ‘‘گاندھی پارک“


Gandhi Park
عنبر شمیم
جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، دہلی کے‘‘رنگ بیار’’ ڈراما فیسٹِول میں ‘ونگس کلچرل سوسائٹی’ کے ذریعہ اردو ڈراما ‘‘گاندھی پارک’’کی پیشکش مورخہ ۶ اپریل کو پارتھا سارتی باہری اسٹیج پر رات ۹ بجے ہوئی۔ ایک تو شام کا خوش گوار موسم اوپر سے باہری اسٹیج پار ک کی شکل میں سجا ہوا ۔ ناظرین کی تعداد دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ فلموں کی مقبولیت کے با وجود لوگ تھیٹر سے ویسا ہی جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں جیسے یہ ان کے اپنے شب و روز کی ترجمانی کرنے والا واحد ذریعہ ہو۔یہ ڈراما فیسٹول گزشتہ ماہ مارچ کی ۱۳تاریخ سے ۷،اپریل تک چلا۔ ‘‘گاندھی پارک’’ مشہور ڈراما نگار مانوکول کے ڈڑاما ‘‘پارک’’ پر مبنی ہے جس کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کا کام اور ہدایت کے فرائض کا انجام جناب طارق حمید نے دیا۔کہا جاتا ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے اسی طرح ڈرامہ ادبی فن پارہ ہونے کے ساتھ ساتھ تمام فنون لطیفہ کا گلدستہ بھی ہے، جس میں ، فن عمارت سازی، فن موسیقی، رقص، منظوم و منثور ادب کی کئی اصناف، مصوری، پینٹنگ کا فن وغیرہ وغیرہ یک جا باہم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اور ان میں ہم اپنے سماج و ثقافت کے تجربوں کی خوشبو و رنگ و روغن پاتے ہے۔ ڈراموں میں دو طرح کے رجحان کافی اہم رہے ہی۔ ایک المیہ اور دوسرا رجحان طربیہ۔ نئی پیشکشوں میں ہمیں کئی دفع المیہ و طربیہ دونوں پہلو بیک وقت ایک ہی ڈرامے میں دیکھنے کو ملتے ہے۔ اسی طرح کی ایک پیش کش ‘ونگس کلچرل سوسائٹی’ کے پیش کردہ ڈرامے ‘‘گاندھی پارک’’ میں دیکھنے کو ملی۔ اس ڈرامے کا اہم موضوع نسل انسانی کی جبراً نقل مکانی ہے۔ نقل مکانی آج کی تاریخ کا نہایت سنگین المیہ ہے۔آج دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے پر یہ المیہ مسلط ہے ۔یوں تو نقل مکانی یا ہجرت کے عمل سے نسل آدم ہمیشہ جوجھتی آئی ہے۔ لیکن گزشتہ چند دہوں میں انسانی آبادی کو بڑی تکلیف کے ساتھ جبراً نقل مکانی کا سامنا ہے۔ مثلاً: فلسطین جو کہ چند دہے قبل تک ایک آباد ملک تھا آج اس کا نقشہ صرف چند نقطے کی شکل بن کر رہ گیا ہے اور فلسطین کا باقی حصہ اسرائیل کہلانے لگا ۔پوری عالمی برادری حیران ہے کہ آخر فلسطین کے نقشے کے ساتھ ساتھ وہاں کی انسانی آبادی کہاں چلی گئی؟ عراق و افغانستان پر امریکی و ناٹو حملے کے بعد وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے آج تک بھٹک رہا ہے۔ جاپان کے فوکوشیما شہر پر ۱۱ مارچ ۲۰۱۱ کو سونامی کے عضاب اور جوہری کارخانے میں آئی تباہی سے جان و مال کے نقصان کے بعد دور دراز علاقے تک کے لوگوں کو منتقل ہوتے ہوئے سب نے دیکھا ہے۔ تمل ناڈو کے کوڈنکولم گاؤں کا احتجاج ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں جوہری پلانٹ چل رہے ہیں ان کے آس پاس کی بستیاں بغیر کسی مناسب معاوضے کے خالی ہو چکی ہے ‘‘خصوصی اقتصادی زون“ (SEZ) کے تحت آنے والا ہندوستان کا تمام علاقہ جبران خالی کروا یاجا رہا ہے۔ ہر سال سیلاب سے متاثرہ علاقے کے لوگ کئی مہینوں کے لیے بے گھر یا خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ملکوں کی آپسی نا اتفاقی اور جنگ کے خطروں سے دوچار ملک کی سرحدی بستیاں وقت سے پہلے خالی ہو جاتی ہیں اور لاکھوں ،کروڑوں کی آبادی کو نقل مکانی کے المیے سو دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح کئی اور وجہوں سے مجبوراً انسان کو نقل مکانی کے المیے کا سامنا ہے۔ ڈراما ”گاندھی پارک“ میں انہی مسئلوں کے تئیں ایک حس بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ڈرامہ پوری طرح سے طنز و مزاح کا رنگ لیے ہوئے ہے۔
ڈرامے میں پیش کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک نوجوان اُدے (نیلیش) جو ذہنی طور پہ خود کو بیمار محسوس کرتا ہے اور علاج کے لیے ایک ماہر نفسیات کے پاس آتا ہے ۔ لیکن اس کی یہ ڈاکٹر اس سے اور اس کی بیماری سے پہلے سے واقف تھی لہذا اُدے کو اپنے کلنک میں نہ بلا کر اسے اس گاندھی پارک میں بلاتی ہے۔ ڈرامے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے۔ اُدے جب پارک میں پہنچتا ہے حسین (سورج) کوجس کی عمر تقریبا ۵۱ سال ہو گی، تنہاجھوم جھوم کر رقص کرتے ہوئے پاتا ہے۔ وہ اس کا رقص خاموشی سے دیکھنے لگتا ہے، جب حسین رقص مکمل کر چکا ہوتا ہے تو اُدے اس کے فن کی داد دیتا ہے اور زور زور سے تالیاں بجانے لگتا ہے۔ حسین جو اب تک کسی اور کی موجودگی سے بے خبر تھا سہم جاتا ہے اورپارک میں موجود تین بنچ میں سے ایک بنچ کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ حسین بھی ذہنی طور پہ ذرا کمزور ہے۔ادے اس کو اپنے پاس بلا کر کچھ کھانے کو دیتا ہے اور بات چیت کرتا ہے۔ بات چیت کے دوران پتہ چلتا ہے کہ آج اس کا پانچویں کا نتیجہ آنے والا ہے لیکن اس نے امتحان ہی نہیں دیا اور باپ کی ناراضگی کے ڈر سے اس پارک میں وقت گزار رہا ہے۔ ادے کے سمجھانے پر وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے تبھی ڈاکٹرایتی (فرح) آتی ہے اور اس کا مسئلہ سن کر بغیر علاج کیے واپس چلی جاتی ہے۔ اُدے کو اور بھی الجھن ہونے لگتی ہے۔ اپنی الجھن دور کرنے کے لیے بینچ پر بیٹھ  جاتا ہے اور کچھ سوچنے لگتا ہے۔ وہاں اس کے چہرے پر بہت تیز دھوپ پڑتی ہے۔ ادے وہیں پاس کی دوسری بنچ پر جا تا ہے کہ وہاں بھی دھوپ ہے آخر کار تیسری بینچ پر جا کر سکون پاتا ہے کہ تبھی پارک میں ایک اور ادھیڑ عمر کا شخص نواز (راج کمار) وارد ہوتا ہے۔ نواز خالی بینچ میں سے ایک پر جاتے ہی لیٹ جاتا ہے۔ لیکن دھوپ کی شدت سے پریشان ہو کر اٹھ جاتا ہے۔ دیکھتا ہے کہ ادے جس بنچ پر بیٹھا ہے وہاں سایہ ہے لہذا ادے سے گزارش کرتا ہے کہ اس کا سونا بہت ضروری ہے دوسری دونوں بنچوں پر تیز دھوپ ہے اسی لیے نواز کو اپنی بینچ پر سونے دے ۔ ذرا سی نوک جھونک کے بعد ادے پہلے والی بنچ پر جا بیٹھتا ہے۔ اب ایک اور صاحب مدن (طارق حمید) آتے ہیں۔ ادے جہاں بیٹھا ہے مدن وہیں بیٹھنا چاہتا ہے کیوں کہ وہاں سے اس کی ایک تاریخ جڑی ہے۔ انہی تین بنچوں اور ایک دوسرے کو ہٹانے اور جگہ تبدیل کرنے کے حوالے سے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ملکی و عالمی سطح کے کئی مسئلوں پر گفتگو ہوتی ہے جس میں نقل مکانی کا موضوع مرکزی حیسیت سے زیر بحث ہے۔
طارق حمید صاحب کی سمجھ بوجھ کی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے ایک چھوٹے سے پارک میں اتفاق سے وارد ہوئے تین آدمی کی بات چیت و نوک جھونک کو اتنے گٹھے اور سدھے ہوئے انداز میں پیش کر دیا کہ ناظرین عش عش کرتے رہ گئے۔ ساتھ ہی ڈرامے میں بحثوں کے دوران جو پیغام تھے ان کی رسائی مکمل طور پر ہوئی۔ کیوں کہ سیاسی سطح پر کسی مناسب حل کے لیے حکومتیں و ممالک کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔ کیا عالمی برادری اتنی بے حس ہو گئی ہے کہ انہیں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں جان پڑتا۔ جبکہ بس، ریل، یا پارک میں اپنی سیٹ پر بیٹھے کسی فرد واحد کو ذرا اپنی جگہ سے محض ہٹنے، یا کھسکنے کے تقاضے پربڑا واویلا کھڑا ہوتے ہم اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔ ڈراما ‘‘گاندھی پارک’’ میں انہی مسئلوں کے تئیں ایک حس بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈرامے کے سبھی اداکاروں نے اپنے کردار بخوبی نبھائے ۔ بالخصوص نواز کے کردار میں راج کمار، ڈاکٹر ایتی کے کردار میں فرح ناز، اُدے کے کردار میں نِلیش سنگھ اور مدن کے کردار میں ڈرامہ کے ہدایت کار خود طارق حمید قابل ذکر ہیں۔ یہ ڈرامہ پوری طرح سے طنز و مزاح کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس ڈرامے کی پیشکش اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ اردو میں پیش کیا جانے والا ڈرامہ ہے۔ اردو میں ڈراموں کی پیشکش شاذ و نادر چیز ہو کر رہ گئی ہے۔ حالانکہ دہلی اردو کادمی کا منعقدہ ڈرامہ فیسٹول اردو ڈراموں کے لیے مختص ہے لیکن اس میں اردو کے کتنے ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں اس حقیقت سے اردو ڈراموں کے ناظرین خوب واقف ہیں۔ اور ‘نیشنل اسکول آف ڈرامہ’ کے ‘بھارنگم’ میں تو صرف پاکستانی ڈراموں کو ہی اردو کا ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ ایسے میں ‘ونگس’ کے ذریعہ اردو ڈرامہ ‘‘گاندھی پارک’’ کی پیشکش قابل ستائش ہے اورجواہرلعل نہرو یونیور سٹی کے ڈرامہ فیسٹول میں اردو ڈرامے کا شامل ہونا اپنے آپ میں اردو کے شائقین کے لیے بہت ہی خوش آئند بات بھی ۔ ‘ونگس کلچرل سوسائٹی’ کے ذریعہ پہلے بھی اردو کے کئی کامیاب ڈرامے کھیلے جا چکے ہیں، جن میں ‘‘انتقام ہمارا نعرہ ہے’’ ، چند روز اور مری جان’’، وسیم’’ وغیرہ ڈراموں کو اردو حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔ اس ڈرامہ فیسٹول ‘‘رنگ بیار’’ کے تحت دہلی کے ‘بیلا تھیٹر’ کے ذریعہ ہندی کے مشہور زمانہ ڈرامہ نگار موہن راکیش کا لکھا ‘‘اساڑھ کا ایک دن’’ ، ‘اپٹا ‘ جے این یو کے ذریعہ ڈراما‘‘خطرہ’’ ، ‘بہروپ’ کے ذریعہ ڈراما ‘‘سوال اپنا اپنا’’ ہندی میں پیش کیے جا چکے ہیں، جن کی کامیابی کے چرچے دہلی بھر میں ہیں۔ ‘ونگس کلچرل سوسائٹی’کے ذریعہ کھیلا جانے والا اردو کا یہ بہت ہی مقبول ومعروف ڈرامہ ”گاندھی پارک“ ۶ اپریل کو جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے پارتھا سارتی باہری اسٹیج پرپیش کیا گیا۔ خیال رہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کایہ پارتھا سارتی باہری اسٹیج وہی اسٹیج ہے جو کبھی اردو کے عالمی شہرت یافتہ ڈرامہ نگار وشاعر حبیب تنویر کا پسندیدہ اسٹیج رہا ہے۔
عنبر شمیم
رسرچ اسکالر
شعبہ اردو، گوتم بُدھا یونیور سٹی
گوتم بُدھا نگر، نوئیڈا، اتر پردیس

آنگ سان سوچی برما میں جمہوریت کےفروغ لیے اورعورتوں اور نوجوان لڑکیوں کے لیے طاقت کی ایک علامت ہیں، خاص طور سے اُن خواتین کے لیے جو سیاسی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔


گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...