اتوار، 30 نومبر، 2014

سرحدوں کے بغیر زراعت کا تعارف

سرحدوں کے بغیر زراعت کے تمام پوری دنیا میں کسانوں اور زرعی تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں جس کا مقصد ایک independant غیر سرکاری تنظیم ہے. اس کی حمایت کے کام کے لئے مصنوعات اور پارشرمک کے لئے مناسب قیمتوں کی بنیاد پر پیداوار، پروسیسنگ اور ویاوساییکرن، کے طریقے بہتر بنانے کے لئے موثر انداز میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے. زرعی شعبے، انسانی اور سماجی سرمایہ کے لئے اس کی پیداوری اور دیکھ بھال کو بہتر بنانے میں، بہتر حالات زندگی، تعلیم، صحت، رہائش، پانی کی فراہمی اور افراد، خاندانوں اور دیہی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لئے کافی حصہ ہے.وژن اور مقاصدمیں لوگوں اور برادریوں کو ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں. تمام دنیا بھر کے کسانوں کو مال و دولت اور خوشحالی اور تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے فوائد میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے. وہ ایک دوسرے پر اور علم کی دنیا سے منسلک کیا جا سکتا ہے، اور جدید کاشتکاری کے بارے میں معلومات کے لئے اور فارم آدانوں، فنانس، مارکیٹنگ، ٹیکنالوجی اور دیگر مفید مہارت تک رسائی حاصل ہونا ضروری ہے.سرحدوں کے بغیر زراعت، ایک آزاد غیر سرکاری تنظیم کے طور پر، رابطے اور عوام اور دنیا بھر میں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کی کمیونٹیز کے درمیان مہارت کے تبادلے کو متحرک کرنا چاہتی. ایک خوشحال زراعت بہترین کھلا رویوں اور افراد اور کمیونٹیز کے درمیان رابطے کی طرف سے خدمت کی ہے. یہ باہمی افہام و تفہیم کے لئے حصہ ہے اور انسانی آفات کی قیادت یا زراعت اور اقتصادی تعاون کی ترقی راہ میں حائل رکاوٹیں تشکیل دے جس میں تنازعات کو روکتا ہے.سرحدوں کے بغیر زراعت اس کے خواب میں مستقبل کی نسلوں پر مشتمل ہے اور اس وجہ سے، زمین، جانور بہبود، ماحولیاتی اور سماجی ماحول کی نوعیت کی دیکھ بھال، ایک پائیدار انداز میں کام کرنے کے لئے کرنا ہے. سرحدوں کے بغیر زراعت کی دیکھ بھال کرتے ہیں جو کمیونٹیز اور لوگوں کی ایک عالمی گاؤں ہونا اور ایک دوسرے کے لئے اور ہماری مشترکہ سیارے کا احترام کرنا پڑے گا جس میں مستقبل کی دنیا میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے.زراعت سرحدوں کے بغیر: آلات اور سرگرمیاں1. سرحدوں کے بغیر زراعت ہمارے وقت کی ضروریات کو سمجھتا ہے اور اکال، صحت کے مسائل، تنازعات، قدرتی آفات اور دنیا میں بحرانوں میں مبتلا ان لوگوں کے لئے زرعی امداد اور خوراک فراہم کرنے کے لئے سب سے پہلے ضرورت کے طور پر دیکھتا ہے. urgencies اور دنیا بھر میں بنیادی ضروریات کے پیش نظر اس کے کھانے کے لئے بڑھتی ہوئی عالمی طلب کرنے کے لئے اور ایک منصفانہ میں شراکت کرنے کے لئے زمین کی دستیابی، فارم آدانوں اور (کھانے) کی پروسیسنگ کاشتکاری،، خوراک کی پیداوار پانی کی فراہمی کو مدد دینے کے لئے اہم ہے کسانوں اور ان کے خاندانوں کے لئے آمدنی.2. انسانی عنصر دنیاؤں کے مستقبل کے لئے سب سے بڑا اثاثہ ہے. لہذا یہ کسانوں اور زرعی تنظیموں کی تعلیم و تربیت کے ذریعے، اور مزید جدید مواصلات کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے میں تازہ ترین معلومات فراہم کریں، تحقیق کے نتائج اور تکنیکی مہارت کے لئے دستیاب بنانے کے لئے انتہائی اہم اہمیت کا حامل ہے. ای لرننگ ایسی زبان، فاصلے، رنگ، ثقافت اور مذہب کے طور پر دنیا کے لوگوں کے درمیان رکاوٹوں کو توڑ سکتا ہے.، سرحدوں کے بغیر óè زراعت، óè3. مضبوط زور جدید ٹیکنالوجی، اعلی معیار کے بیجوں اور جانوروں کی نسلوں، سامان، کھاد، جدید گلہ جیسے اہم معاملات پر فیڈ اور مہارت، پائیدار پیداوار، فوڈ پروسیسنگ، خوراک کے نئے طریقوں پر دنیا کے تمام کسانوں کی رسائی پر ڈال دیا جائے گا کسانوں سے صارفین کی نقل و حمل کی سٹوریج اور موثر ذرائع.4. تمام کسانوں کو تازہ ترین معلومات اور مہارت کی دستیابی پائیدار زراعت کی بہت زیادہ صلاحیتوں کا ادراک کرنے میں مدد، اور آب و ہوا کی تبدیلیاں اور اس طرح کے فضلہ اور جنگلات کی کٹائی، توانائی کی پیداوار اور کھپت کے طور پر دیگر ماحولیاتی مسائل، صاف پانی کی فراہمی، صحت عامہ کے ساتھ نمٹنے میں مدد کر سکتے ہیںاور جدید مواصلات.5. تحقیق اور ٹیکنالوجی کے مواد اور پائیدار کھاد لگانے، بہتر بیج متعارف کرانے، کیمیائی کھاد، کیڑے مار ادویات اور herbicides کے استعمال کو کم کرنے کے لئے مدد کر سکتے ہیں، اور ینتریقرن، آب پاشی اور پانی کی فراہمی کے لئے جدید طریقوں کو لاگو کرنے کے لئے. اچھا قیادت پیداوار کے آلات کے لئے انتہائی ضروری ہے: مٹی، پانی، توانائی اور دیگر وسائل ایک ذمہ دار انداز میں کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے. پیداوار کے جدید طریقوں، Äúcarbon فٹ پرنٹ، AU کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور مستقبل کی نسلوں کے لئے ایک بہتر دنیا کو چھوڑنے کے لئے.6. سرحدوں کے بغیر زراعت ایسی دوسری این جی او، Äôs اور تعلیم اور سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت اور خزانہ میں سرکاری اور نجی تنظیموں کے طور پر بہت سے ممالک میں مختلف خصوصی معاونین اور ملحقہ کمپنیاں، کے ساتھ تعاون پر اس کے کام میں انحصار کرتا ہے. سرحدوں کے بغیر زراعت آزادانہ طور پر تمام ریاستوں اور سرکاری اداروں، تمام سیاسی اور اقتصادی اثرات فورسز اور مذاہب کے چلاتا ہے.7. سرحدوں کے بغیر زراعت تمام کسانوں اعلی کی واپسی کے قابل بنانے اور ان کی خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے پلیٹ فارم پر حصہ لینے والے کی طرف سے مالیاتی پروگراموں کے استعمال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جہاں دنیا کی فنڈنگ ​​میکینکس سے زائد مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر میں تیار کرے گا.8. سرحدوں کے بغیر زراعت مالیاتی اداروں اور دنیا کے تمام حصوں میں عطیہ دہندگان کے تعاون سے چلتی ہے اور اس کے مقاصد کا احساس کرنے اور کسانوں کی حمایت کرنے کے، اگے، مائیکرو کریڈٹ کی طرح دستیاب مالی وسائل بنانے کے لئے تجارت کی فنڈنگ ​​کے طریقوں کی کوشش کرتا ہے، اور زرعی اور دیگر تنظیموں جس میں ان مقاصد کی وصولی میں شراکت. زرعی شعبے کے اندر اندر کاشتکاری کے خاندانوں، دیہی معاشرے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کے ساتھ ساتھ صنعتی فارموں اور کمپنیوں پر خصوصی توجہ ہے. 9. سرحدوں کے بغیر زراعت، زرعی شعبے کے معیار اور پیداوار میں بہتری کو انتہائی اہمیت دیتا لہذا معیار کی تصدیق اور پیداوری کو بہتر بنانے کے لئے دوسرے طریقوں کی حمایت کرتا ہے. معیار کو بہتر بنانے کے پیش نظر پیش رفت کی اور منصوبوں کے نتائج کی نگرانی کی جائے گی.مضبوط زور دینے کا مطلب ہے اور مالی امداد فراہم کی جاتی ہے جس کے لئے منصوبوں کی وصولی کے استعمال میں شفافیت اور ذمہ داری پر لگایا جاتا ہے.    

’موٹاپے کے عالمی معیشت پر اثرات تمباکو نوشی کے برابر‘



ایک نئی تحقیق کے مطابق عالمی معیشت پر موٹاپے کے اثرات دنیا بھر میں جاری مسلح تنازعات یا تمباکو نوشی کے اثرات کے برابر ہی ہیں۔
میک کِنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موٹاپے کی وجہ سے کام کے دنوں میں کمی اور صحت عامہ کی مد میں ہونے والے اخراجات بیس کھرب روپے سالانہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں دو ارب دس کروڑ افراد یا دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی، موٹاپے کا شکار افراد پر مشتمل ہے اور سنہ 2030 تک دنیا کی نصف آبادی کے موٹاپے کا شکار ہونے کا اندیشہ ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موٹاپے کی وجہ سے ہونے والی مالیاتی نقصانات بڑھ رہے ہیں جن میں موٹے افراد کے علاج معالجے پر آنے والے اخراجات اور بیماری کی صورت میں کام نہ کرنے سے ہونے والے نقصانات شامل ہیں۔
ان کے مطابق اس معاملے سے نمٹنے کے لیے دور رس پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں انفرادی تبدیلیوں کی بجائے حالات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں اس سلسلے میں جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں ڈبہ بند خوارک کے ’پورشن کنٹرول‘ اور فاسٹ فوڈ کے فارمولے میں تبدیلی کی بات کی گئی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تجاویز زیادہ چکنائی اور نشاستے والی خوارک پر زیادہ ٹیکس اور صحتِ عامل کی مہم چلانے جیسی تجاویز سے کہیں زیادہ کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا ہے کہ موٹاپے پر قابو پانے کے لیے اب کارگر حکمتِ عملی بنانا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ بات اب بحرانی سطح تک پہنچ رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگوں میں موٹاپے کا بڑھتا رجحان، ذیابیطس، پھیپھڑوں کی بیماری اور مختلف قسم کے کینسر کی وجہ بن رہا ہے۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے ماہرِ غذائیت ڈاکٹر ایلیسن ٹیڈسٹون کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ موٹاپے پر جاری بحث میں کارآمد اضافہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ صرف تعلیمی پیغامات موٹاپے پر قابو پانے کے لیے کافی ثابت نہیں ہو سکتے۔

چین ہمارا سچا دوست، کیا واقعی؟ عدنان رندھاوا

جس طرح فلموں میں بدحال ہونے کے بعد ولن ہیرو کو بلیک میل کرنے کے لیے اس کی بہن یا ماں کو اُٹھا کر لے آتا ہے، اسی طرح شہباز شریف اور پرویز رشید کی قیادت میں مسلم لیگ ن نئے پاکستان کے مبینہ ہیرو سے زچ ہو کر ’’پاک چین دوستی‘‘ کا مقدس رشتہ اٹھا لائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر عمران خان ان کی خاندانی حکومتوں کے خلاف مہم جوئی سے باز نہ آئے تو پاک چین دوستی ’’خطرے‘‘ میں پڑ جائے گی۔معلوم نہیں پروپیگنڈا کے ماہرین بات گھمانے کے اس صحافیانہ کرتب کو عوامی ذہن گمراہ کرنے کے حوالے سے کس حد تک موثر قرار دیں، لیکن میرے نزدیک بہت دور کی کوڑی ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاک چین دوستی نہ تو کوئی مقدس رشتہ ہے اور نہ ہی عمران خان کے کئی مہینے سے جاری احتجاج سے اسے کوئی نقصان پہنچا ہے۔ چین کے ساتھ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی والی باتیں خود کو اور عوام کو بیوقوف بنانے کی علاوہ کچھ نہیں۔ میری رائے غلط ہو سکتی ہے لیکن چین میں گزارے اپنے دو سالوں کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ چینی عوام کو پاکستان کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں، اور ان کی پاکستان کے بارے میں معلومات تو اس سے بھی کم ہیں۔
ایسے چینی جن کے دانت اب گر چکے ہیں، ان میں تو پاکستان کے بارے میں تھوڑی بہت گرمجوشی کبھی کبھار مل سکتی ہے، باقی تمام چینیوں میں پاکستان کا تعارف ایک ایسے ملک کا ہے جہاں آئے روز دھماکے ہوتے ہیں، حادثے ہوتے ہیں یا پھر قدرتی آفات میں لوگ مرتے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں پاکستان کو تھوڑی بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن ایسا صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ چین اپنے بارڈر پر واقع چودہ کے چودہ ملکوں کو اہمیت دیتا ہے۔ چین کے حکومتی حلقوں میں پاکستان کی ایک اور وجہ شہرت بھی ہے کہ پاکستان سے جو بھی آتا ہے کچھ نہ کچھ مانگنے کی بات ضرور کرتا ہے۔
مسلم لیگ ن آج کل اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے چورن کو نواز شریف کی تصویر لگا کر بیچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے گویا چین صرف پاکستان کی نواز حکومت میں ہی دلچسپی لیتا ہے۔ رہی سہی کسر بیرونی دورے کا عوامی ٹیکس کے پیسے سے مفت مزہ لوٹنے والے صحافیوں کی دیومالائی کہانیاں، قصے اور رپورٹیں پوری کر دیتی ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں، چین افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بیسیوں ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اور سرمایہ کاری کا مقصد کھربوں ڈالر کا اضافی سرمایہ، انتہائی بلند شرحِ منافع، چین کے لیے نسبتاً سازگار ماحول اور عالمی طاقت بننے کا خواب ہے نہ کہ شریف برادران جیسے حکمرانوں کی سفارتی کامرانیاں۔
پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے بھی کئی پہلو ایسے ہیں جو بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں ہیں۔ اول، چین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی شفافیت پر بہت سے سوالیہ نشانات ہیں۔ دوم، ان معاہدوں کی شرائط میں چین اور چینی کمپنیوں کوبہت زیادہ بے جا فوائد دینے کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی اگر یہ بات درست ہو بلکہ میں اس وقت حیران ہوں گا اگر یہ بات غلط نکلے۔ وجہ سیدھی سی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ انتہا درجے کا کرپٹ ہے اور چینی حکومت و کمپنیاں دنیا بھر کے کرپٹ حکمرانوں کو تھوڑا سا پروٹوکول اور بہت سارا کمیشن دے کر ایسے معاہدے کرنے میں شہرت رکھتی ہیں جن سے سارا فائدہ چینیوں کو ہوتا ہے۔ سوم، جو منصوبے کاروبار کے ساتھ ساتھ سٹریٹجک اہمیت بھی رکھتے ہیں، ان منصوبوں میں چینی حکومت بھی اپنا ’’اثر رسوخ‘‘ خوب استعمال کرتی ہے اور دنیا بھر میں سڑیٹجک اہمیت والے منصوبوں میں اپنا کنٹرول بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بہت سے ماہرین اسے چین کے سامراجی پھیلاؤ کا نام دیتے ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر اپنا حلقہ اثر وسیع کر رہا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں شاہراہِ ریشم، بلوچستان کے معدنی ذخائر اور خصوصی طور پر گوادر کے منصوبوں کے حوالے سے بعض حلقوں میں خوف کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہمارے کرپٹ حکمران پاکستان کی حاکمیت اور نئی نسلوں کی آزادی کو چین اور چینی کمپنیوں کے ہاتھوں گروی رکھ رہے ہیں جن کے انتہائی دوررس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ ہے وہ ’’مقدس رشتہ‘‘ جس کے خطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے شریف برادران عمران خان سے خاصے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ اور دوسری بات کہ جس مفروضے کو مسلم لیگ ن بڑی شدومد کے ساتھ فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ عمران خان کے دھرنوں سے پاک چین دوستی کو نقصان پہنچا ہے ، اس کا بھی میری دانست میں حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ تو عمران خان کا خود ایسا کوئی ارادہ ہے اور نہ ان کے احتجاج کا اسکرپٹ لکھنے والوں پر آج تک کبھی کسی کو گمان ہوا کہ وہ جیسی تیسی بھی پاک چین دوستی ہے، اس کے خلاف کوئی کام کر رہے ہیں۔
پاک چین دوستی کی مبالغہ آمیز شاعرانہ پرواز والی دوستی کے ہمالیہ سے اگر ہم نیچے تشریف لے آئیں اور اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ ہم چین کی معجزانہ ترقی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں، توشاید ہمیں کچھ افاقہ ہو۔ ہمارے سفارتی، عسکری اور ذرائع ابلاغ کے حلقے نہ صرف اس مبالغہ آرائی کے خود رسیا ہیں بلکہ انہوں نے پوری قوم کو بھی یہ افسانہ ازبر کروا رکھا ہے۔ چین کے بارے میں ان کے طرزِعمل سے بعض اوقات گاؤں کے ماحول میں چوہدری اور مزارع والی وہ کہانی یاد آجاتی ہے جس میں نکھٹو مزارع چوہدری سے اپنے انتہائی قریبی تعلقات کی ڈینگیں مارتا رہتا ہے اور چوہدری اس کی ڈینگوں سے اس لیے صرفِ نظر کرتا رہتا ہے کہ وہ اسے اپنا ڈیرا چلانے کے لیے اور خود کو چوہدری کہلوانے کے لیے اس طرح کے کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جی حضوری اور چھوٹے موٹے کام بھی چلتے رہتے ہیں۔ دل رکھنے کے لیے چوہدری کبھی کبھار اس کی چھوٹی موٹی ضرورت بھی پوری کر دیتا ہے۔
چین اور پاکستان کا تعلق ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ المیہ یہ ہوا کہ پاکستان بتدریج زوال کا شکار ہوا اور چین بتدریج عروج کی راہ پر چلتا رہا۔ بہت پرانی بات نہیں جب چین دنیا بھر میں رسوا تھا اور بڑے ملکوں نے اس کے ٹکڑے کر کے اسے آپس میں بانٹا ہوا تھا۔ پوری قوم کو افیون کا عادی بنا دیا تھا۔ اس کی خود مختاری، خود داری، سالمیت، حاکمیت، معیشت بری طرح مجروح تھی۔ غربت اورآبادی اپنی انتہاؤں پر تھے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے جب چین کو آزاد کروایا تو اس نے تنگ نظری، مذہبی انتہاپسندی، جنگجوئی،علم دشمنی، توہم پرستی، کرپشن، بدعنوانی، بدانتظامی، جیسی خصوصیات کو فروغ دے کر چین کی تقدیر نہیں بدلی۔ اڑسٹھ سال ہمارے بیت گئے، مزید اڑسٹھ سال بھی اگر ہم ان نسخوں کو آزماتے رہے تو نتیجہ یہی نکلے گا، اندرونی انتشار اور دنیا بھر میں رسوائی۔
ایسے میں جب ہمارے اوپر ہر طرف سے افتاد پڑی ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا تو آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟ زوال زدہ قوموں کے حالات اسی طرح ہوتے ہیں، اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی سات ہزار سال کی تاریخ پڑھیں تو کئی موقعوں پر ہم نے بھی عروج دیکھا ہے۔ دور کیوں جاؤں، میں اس وقت جس جگہ بیٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں، چند کلومیٹر کے فاصلے پر ٹیکشاشلا کے نام سے دنیا کی چند ابتدائی اور انتہائی اہم یونیورسٹیوں میں سے ایک واقع تھی۔ ٹیکشاشلا یونیورسٹی اپنے زمانے کی آکسفورڈ اور کیمبرج کا درجہ رکھتی تھی۔ دور و نزدیک سے علم کے متلاشی یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اور تو اور راجوں مہاراجوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے اس یونیورسٹی کی ڈگری ضروری خیال کی جاتی تھی۔ تنگ نظری اور انتہاپسندی کی انتہاؤں کو چھونے والی ہماری قوم میں سے کتنے لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں؟ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ چین کی عوام پاکستانیوں کی نسبت ٹیکسلا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتی ہے۔ ان کی لوک کہانیوں، تاریخی کتابوں، مذہبی قصوں کہانیوں میں ٹیکسلا کا ذکر بہت آتا ہے۔ کیا یہ سوال پریشان کن نہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد اور ان کے عروج کے بارے میں چینی تو خوب جانتے ہیں اور یہاں کسی کو ابتدائی معلومات بھی نہیں؟
زوال سے عروج کے سفر میں دو باتیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، قیادت اوراس کا تصورحیات۔ دنیا میں تو افراد کی طرح قوموں کو بھی دنیاوی ترقی کے معیار پر پرکھا جاتا ہے اور دنیاوی ترقی کے لیے علم دوستی، سائنس، ٹیکنولاجی، کشادہ خیالی، اپنے اصل کی پہچان، عقلیت پسندی جیسی صفات بہت ضروری ہیں۔ چین نے چند عشروں میں انہی باتوں پر عمل کیا، مغرب اور جاپان پہلے ہی اس راہ پر چل نکلے تھے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ بھارت میں البتہ ایک ترقی معکوس کا عمل نظرآ رہا ہے۔ تیس چالیس سال کی سیکولر اور علم دوست پالیسیوں کے ثمرات سمیٹنے کے بعد وہاں اب مذہبی انتہاپسندی اور توہم پرستی کا رجحان غالب نظر آرہا ہے۔ پاکستان کی بعد از ریٹائرمنٹ توسیع پر چلنے والی موجودہ قیادت سے کسی بہتری کی توقع کرنا فضول ہے۔ پاکستانی قوم اور نئی ابھرنے والی قیادت کے سامنے دونوں راستے کھلے ہیں، ان کا انتخاب فیصلہ کرے گا کہ ہمیں مزید زوال اور انتشار میں زندہ رہنا ہے یا پھر ہمارا عروج کی طرف سفر شروع ہونے والا ہے۔

ہفتہ، 29 نومبر، 2014

کولیسٹرول = جویریہ صدیق


انسانی جسم میں جگر قدرتی طور پر کولیسٹرول بنانے کا سبب ہے یہ انسانی جسم میں خلیوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کولیسٹرول کی دو اقسام ہیں۔ مفید کولیسٹرول HDL
مضر کولیسٹرول LDL
مفید کولیسٹرول میں اومیگا تھری اور اومیگا سکس شامل ہیں اور سبزیوں کے تیل ، زیتون ،گری ،سویابین،سورج مکھی،مکئی اور خشک میوہ جات میں پایا جاتا ہے۔مضر کولیسٹرول بڑے گوشت،مکھن،مارجرین،چربی اور بیکری کی اشیاء میں شامل ہے اور یہ سیچوریٹیڈ فیٹس کہلاتے ہیں۔ اگر کولیسٹرول کی مقدار کا تناسب برقرار رکھے تو یہ جسم کے لیے مفید ہے یہ جسم میں جمتا نہیں ہے اور زائد کولیسٹرول کو جسم سے خارج کردیتا ہے۔نقصان دہ کولیسٹرول میں یہ شریانوں میں جمع جاتا ہے اور شریانوں کو تنگ کردیتا ہے۔اس کی بڑی وجہ چکنائی سے بھرپور اشیاء کا استعمال ہے جس کی وجہ سے جسم میں کولیسٹرول کی مقدار بڑجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سگرٹ نوشی ،ذہنی پریشانی ، جسمانی ورزش کی کمی،روغنی غذا کا استعمال آپ کو کولیسٹرول کی زیادتی میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اگر خون میں کولیسٹرول کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ جائے تو دل کی بیماری لاحق ہونے کے سو فیصد امکان ہے کیونکہ دل کو خون فراہم کرنے والی شریانوں پر کولیسٹرول کی تہہ جمتی جاتی ہے اور دل کو خون کی فراہمی میں کمی جاتی ہے اور دل کا دورہ پڑنے کا اندیشہ غالب آجاتا ہے۔ کولیسٹرول کی زیادتی سے بچنے کے لیے گھی،چربی،انڈے کی زردی،بالائی،بڑے گوشت،مکھن،پنیر، بسکٹ اور بیکری کی اشیاء سے ہر ممکن پرہیز کرنا چاہئے۔اگر چکنائی کا استعمال ناگزیر ہو تو کینولا، مکئی، سورج مکھی کا تیل استعمال کیاجائے اور دیگر چکنائی زیتون مچھلی، خشک میوہ جات، اجناس سے حاصل کی جاسکتی ہے یہ چکنائی مضر صحت نہیں لیکن اس کو بھی اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ پھل، سبزیاں، اناج اور دالیں زیادہ استعمال کی جائیں اور ہری سبزیوں اور سلاد جیسی غذا سے ایک طرف وزن گھٹانے میں معاون ہو گی دوسری طرف کولیسٹرول کو بھی اعتدال میں رکھے گی۔معالج کی طرف سے دی جانے والی ادویات کو بھی باقاعدگی سے کھائیں اور ان کی اجازت کے بنا ادویات کی مقدار کو کم یا زیادہ نا کریں۔اپنا تمام میڈیکل ریکارڈ محفوظ رکھیں اور تما م ٹیسٹ وقت پر کراتے رہیں۔ غذا کو متوازن کرنے کے بعد ورزش بھِی کولیسٹرول کو کنٹرول رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے روزانہ پندرہ سے پچیس منٹ چہل قدمی یا سائیکلنگ اور تیراکی مفید ہے۔ تمباکو نوشی کا بھی کولیسٹرول بڑھانے میں کلیدی کردار ہے اس لے بتدریج یہ عادت ترک کرکے صحت مندانہ زندگی کے طریقوں کی طرف راغب ہونا چاہئے۔اگر تمباکو نوشی ترک نا کی جائے تو یہ بھی کولیسٹرول کو دل کو خون فراہم کرنے والی شریانوں پر کولیسٹرول کو تہہ لگانے میں معاونت دیتا ہے جس سے دل کو خون کی فراہمی کم ہو جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک صحت مند انسان کو یومیہ صرف تیس گرام چکنائی کی ضرورت ہے۔ اس سے زائد چکنائی کا استعمال آہستہ آہستہ ایک صحت مند انسان کو بیماریوں کی طرف لے جاتا ہے۔ علاج کے ساتھ ساتھ اگر مکمل احتیاط کی جائے تو بیماری کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ جو لوگ اس بیماری کا شکار نہیں انہیں بھی کھانے میں اعتدال پسندی کا مظاہرکر نا چاہئے مرغن، چربی چکنائی والے کھانوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔اجناس،دالیں، سبزیوں سلاد کا استعمال زیادہ کرنا چاہئے اور ہر سال اپنا کولیسٹرول لیول چیک کروانا چاہیے۔اس سے ہم صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ - 

اردو شاعری


بلوچستان کی چمن فالٹ سید عاصم محمود 

پاکستانی و امریکی ماہرین کی ایک ٹیم اس پہ تحقیق کرے گی تاکہ مستقبل کے زلزلوں کی پیش گوئی کر سکیں ***** ہماری زمین مختلف ارضی پلیٹوں(Tectonic Plates) کا مجموعہ ہے، جو انتہائی معمولی رفتار سے مسلسل حرکت میں رہتی ہیں۔ یہ پلیٹیں زیر زمین 100 میل کی گہرائی اور بہ لحاظ خطہ چھوٹا یا بڑا سائز رکھتی ہیں۔ ہمارے براعظم سات بڑی اور آٹھ نسبتاً چھوٹی پلیٹوں کا مجموعہ ہیں، جس جگہ دو یا زیادہ پلیٹیں ٹکرانے لگیں، وہاں زمین کے وسیع و عریض علاقے ٹکرائو کی شدت کے باعث اوپر یا نیچے ہوجاتے ہیں۔وقتاً فوقتاً جنم لینے والا یہی ٹکرائو بہ لحاظ شدت چھوٹے بڑے زلزلوں کو جنم دیتاہے۔ زمین اوپر کا رخ کرے، تو پہاڑ جنم لیتے ہیں۔ نیچے بیٹھے تو کھائیاں اور فالٹیں(Fault) پیدا ہوتی ہیں۔یاد رہے، ارضیاتی اصطلاح میں دو پلیٹوں کے ٹکرائو کا مقام ِ اتصال ’’فالٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ دنیا میں بعض ایسے مقامات ہیں،جہاں بیک وقت تین پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔یہ مقام ارضیاتی اصطلاح میں ’’ٹرپل جنکشن‘‘ (Triple junction) کہلاتا ہے۔ ان گنے چنے مقامات میں ہمارا صوبہ بلوچستان بھی شامل ہے۔ بلوچستان میں دنیا کی دو بڑی پلیٹیں… یورشیائی(Eurasian Plate) اور انڈو- آسٹریلین ( Indo-Australian Plate) جبکہ ایک چھوٹی پلیٹ، عربین( Arabian Plate) آپس میں ٹکرا رہی ہیں۔ اسی ٹکرائو کے باعث ایسی بڑی فالٹ ظہور پذیر ہوئی، جو ’’چمن فالٹ‘‘ کہلاتی ہے۔ چمن فالٹ خشکی پہ موجود دنیا کی بڑی فالٹوں میں سے ایک ہے۔ یہ ساحل مکران سے لے کر کابل (افغانستان) تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی لمبائی 860 کلومیٹر (500میل) ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بلوچستان میں کئی چھوٹی فالٹوں میں منقسم ہے۔یہ فالٹیں ساحل مکران تک چلی گئی ہیں۔صوبے میں انہی فالٹوں کے باعث زلزلے آتے ہیں۔ ان میں 1935ء کا مشہور زلزلہ کوئٹہ اور اب حالیہ زلزلہ آواران بھی شامل ہیں۔اور اسی فالٹ نے قریبی علاقوں میں کیرتھر اور سلیمانیہ سلسلہ ہائے کوہ کو جنم دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ چمن فالٹ کا علاقہ غیر آباد،بنجر اور انسانی رسائی سے دور ہے۔اسی باعث ماہرین ارضیات اب تک چمن فالٹ پر عمیق تحقیق نہیں کرسکے۔ تاہم حالیہ زلزلے کے بعد امریکی فلاحی ادارے،یو ایس ایڈ نے ایک پاکستانی نژاد امریکی ماہر ارضیات، ڈاکٹر شہاب خان کو ساڑھے چار لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب پاکستانی و امریکی ارضیات دانوں کی ٹیم لے جا کر چمن فالٹ کا معائنہ و تحقیق کریں۔ ڈاکٹرشہاب خان امریکہ کی مشہور ہوسٹن یونیورسٹی میں ارضیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ۔آپ کی قیادت میں اب ملکی و غیر ملکی ماہرین ارضیات اگلے تین برس تک چمن فالٹ کا مطالعہ و تحقیق کریں گے۔ ایک ای میل پیغام کے ذریعے ڈاکٹر شہاب خان نے پاکستانی قوم کو یقین دلایا ہے کہ تحقیق کے بعد یہ پیش گوئی کرنا ممکن ہو جائے گا کہ مسقبل میں چمن فالٹ کے کن حصّوں میں زلزلہ آنے کا امکان ہے۔یوں بر وقت کارروائیوں سے جان و مال کی حفاظت کرنا ممکن ہو جائے گا۔انھوں نے بلوچستان میںقیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پہ اظہار افسوس بھی کیا۔گو بلوچستان جانا خطرے سے خالی نہیں مگر وہ تہہ دل سے یہ قومی خدمت بجا لانے کو تیار ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ بلوچستان میں تین پلیٹوں کے ٹکرائو کی وجہ سے ہی خصوصاً ساحلی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے پہاڑ نمودار ہو جاتے ہیں۔ یہ ارضیاتی اصطلاح میں ’’مٹی کے آتش فشاں‘‘ (Mud Volcano) کہلاتے ہیں۔ یہ پلیٹوں کے مقام اتصال میں مختلف گیسوں (میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن)کے دبائو اور ریت،مٹی وچٹانی مادے کے جمع ہونے سے وجود میں آتے ہیں ۔ حالیہ زلزلے نے بھی گوادر کے نزدیک ایک ایسا ہی مٹی کا آتش فشاں سمندر میں ابھار دیا جسے ’’زلزلہ جزیرہ‘‘ کا انوکھا نام دیا گیا۔چونکہ یہ مٹی و بھربھری چٹانوں سے بنا ہے لہذا تیز ہوائیں اور سمندری لہریں جلد ہی اسے تلف کر ڈالیں گی۔تاہم زلزوں کے باعث اندرون مکران وجود میں آنے والے مٹی کے کئی آتش فشاں راہ چلتوں اور مسافروں کو نظر آتے ہیں۔یہ کئی صدیوںسے علاقے میں استادہ ہیں۔ان میں ہنگول قومی پارک میں واقع’’ ہنگول آتش فشاں‘‘ کا شمار دنیا کے بڑے مٹی والے آتش فشانوں میں ہوتا ہے۔

وقت چاہے کیسا بھی ہو، آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔

وقت چاہے کیسا بھی ہو، آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
زندگی گذر جاتی ہے۔ ماضی کے دوست بھی بچھڑ جاتے ہیں۔ جو آج دوست ہیں وہ کل نہیں رہیں‌گے۔ ماضی کے دشمن بھی نہیں ہیں اور آج کے بھی ختم ہوجائیں گے۔ اس دنیا میں کچھ بھی کوئی بھی مستقل اور لازوال نہیں۔ ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے لیکن تبدیلی کا قانون نہیں بدلتا۔ اس بات کو اپنی زندگی کے تناظر میں سوچیں۔آپ نے کئی تبدیلیوں کو زندگی میں‌دیکھا ہو گا، کئی چیزوں کو تبدیل ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا ہو گا۔ آپ کی زندگی میں‌کئی بار غم اور شکست کے حالات آئے ہوں‌گے اور اسی طرح آپ نے کئی پرمسرت لمحات بھی گذارے ہوں‌گے۔ دونوں قسم کے وقت کو گذر جانا ہے، کچھ بھی مستقل نہیں ۔ ہم اصل میں‌کیا ہیں پھر؟ اپنے اصل چہرے کو پہچانیئے ۔ ہمارا چہرہ اصل نہیں ہے۔ اس نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جانا ہے۔ تاہم آپ کے اندر کچھ ایسا ہے کہ جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور ہمیشہ ایسا ہی رہتا ہے۔ کیا چیز ہے جو کہ غَیر مُتغَیَّر ہے؟ شاید آپ کے اندر کا صحیح انسان۔ آپ صرف تبدیلی کے گواہ ہیں، محسوس کریں اور اسے سمجھیں ۔ اپنی زندگی کی منفی تبدیلیوں کو محسوس کریں اور اپنی ذات سے اس پر قابو پانے کی کوشش کریں - اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...