پیر، 30 مارچ، 2020

چین. کرونا وائرس نمٹنے میں کیوں کامیاب ہوا

چین. کرونا وائرس نمٹنے میں کیوں کامیاب ہوا 



تحریر۔ عاشق ہمدانی

  سوشلسٹ نظام حکومت کی وجہ سے ریاست کے پاس عوامی فلاح و بہبود کے بہترین وسائل موجود ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چین کا سیاسی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی نظام، غیر متوقع یا اچانک پیدا ہونے والے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے
1974 کے بدترین سیلاب میں پاکستان کے عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس صلاحیت کو عملا دیکھ چکے ہیں، اس وقت صنعت، قدرتی وسائل، بنک، ٹیلی کمیونیکیشن، ائرلائن، شپنگ ،  سکول کالج یونیورسٹیاں، ہسپتال اور دیگر کئی شعبہ جات ریاست کی ملکیت تھے، ریاست عوام کی ضروریات پورا کرنے کی طاقت رکھتی تھی
پاکستان کی اقتصادی تباہی کی ذمہ داری، جنرل ضیاع، نواز شریف  اور  جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ہونے والی پرائویٹائزیشن ، نجکاری ہے۔
1- جنرل ضیاع کے دور میں ریاستی ملکیت اربوں روپے کے یونٹوں کو محض ایک روپے کے علامتی ٹوکن پر  پرائویٹائز  کئے گے جسکا مفاد آج کی شوگر مافیہ، حکمرانوں کے بچوں ، جنرل ضیاع، جنرل اختر عبدالرحمان، جنرل فضل الحق ، جنرل حمید گل، نوازشریف اور دیگر کاروباری خاندانوں نے اٹھایا۔ جنرل ضیاع کے ان اقدامات، آئین کی آٹھویں ترمیم کے زریعے تحفظ حاصل ہے
2۔ نوازشریف دور میں مسلم کمرشل بنک کی ماسٹر سٹروک کرپٹ نجکاری سے دیگر صنعتی یونٹوں کی پرائویٹائزیشن، اپنے ذاتی مفادات میں اسٹیل بزنس پر مکمل اجارہ داری کے لئے پاکستان اسٹیل مل اور دنیا کی سب سے بڑی شپ بریکنگ گڈانی انڈسٹری کی تباہی، ذاتی بزنس مفاد میں اجرا، سی پیک، ترکی اور شریف خاندان کی تیسری نسل کی بدعنوانیوں کی داستان اس سلسلے کا نسل در نسل عروج ہے۔
3۔ جنرل مشرف کی دور میں پی، ٹی، سی ایل، حبیب بنک اور یونائیٹڈ بنک کی پرائویٹائزیشن اور بدعنوانیوں کی بدترین مثالیں جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہے۔
روس، چین اور کیوبا کا طرزعمل سوشلسٹ طرز فکر کی نمائندگی کرتا اور یہ ثابت کرتا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ابھرنے والا یونی پولر ورلڈ کا تصور نہ صرف ناکام ہوگیا ہے بلکہ پرائیوٹازیشن، ڈی ریگولیشن اور نجکاری کی حکمت عملی بھی عام آدمی کی زندگی کو تباہ کر رہی ہے، کیونکہ اس ریاست کی وہ صلاحیت جس سے وہ اپنے شہریوں کی ضروریات کو پورا کرتی ہے، یکسر ختم ہوکر بھیک مانگنے کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔
کیا اس بحران سے ہم درج ذیل سبق سیکھ سکتے ہیں ۔
=نجی ملکیت کے بجاۓ اجتماعی عوامی ملکیت
=کاروبار، تعلیم، روزگار اور علاج معالجے کے علاوہ بیرون ملک سفر پر پابندی
ہمسایہ ممالک کے ساتھ شفاف دوستی، امن اور کھلی تجارت
= ترک اسلحہ کے نئے اصول و ضوابط، ایٹمی، کیمیاوی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر مکمل پابندی
=زرعی زمینوں، جنگلات، پانی زندگی اور فطرت کی بقا کے لئے وسائل کا تحفظ
=پرایوٹایزیشن کے ذریعے کی گئی نجکاری کو منسوخ کرکے بھاری صنعت، بینکوں، میگا پروجیکٹ، ہاؤسنگ سوسائٹیاں،  کاروباری ادارے ہوابازی،  ٹیلی کمیونیکیشن اور دیگر  اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر وسائل کی عوام کے درمیاں منصفانہ تقسیم = ہر شخص کے لئے روزگار، علاج، تعلیم اور رہائش ریاست کی ذمےداری کے اصول پر
اگر پاکستان کے عوام اور ووٹرز یہ تہیہ کر لیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ صرف اسی جماعت کو ووٹ دیں گے جو:
1-گزشتہ 40 سالوں میں ہونے والی پرائویٹائزیشن نجکاری اور میگا پراجیکٹس کا احتساب کرے گی
2۔ پرائویٹائز کۓ جانے والے یونٹوں کو پبلک پرائویٹ پارٹنرشپ کے اصول پر قومی تحویل میں لے گی
3۔ میگا پروجیکٹ، بجلی، گیس، پیٹرولیم کی صرف ریاست کے ذریعے تکمیل اور ترسیل
4۔ برطانوی آبادیاتی ذرعی زمینوں کو کالعدم قرار دے کر کر زمین کو قومی تحویل میں لے کسانوں میں بلا معاوضہ تقسیم کرے گی
5۔ مقامی صنعت کو غیرملکی درآمدات کے خلاف تحفظ فراہم کرے گی
6۔ تعلیمی اداروں، کو قومی تحویل میں لے کر ہر سطح پر مفت تعلیم ریاست کی ذمہ داری قرار دے گی
7۔ تمام ہسپتالوں کو قومی تحویل میں لے کر مفت علاج ریاست کی ذمےداری قبول کرے گی،  فارماسوٹیکل میں جینریک ہیلتھ اسکیم کی بحال کرے گی
یہ وہ اصول ہیں جن پر چین عمل کر رھا ہے
اور یہی وہ اصول ہیں جن کے لئے پاکستان کے عوام نے 1970 کے انتخابات میں، ووٹ دیے تھے، الیکشن جیتنے والی تمام سیاسی جماعتیں، مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، پنجاب اور سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی پارٹی ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ، اس ایجنڈہ پر متفق تھیں۔ پاکستانی عوام 1972 سے 1977 تک اس نظام سے مستفید تھے، آج بنگلہ دیش ترقی کی جس شاہراہ پر ہے وہ پاکستان کے 1970 کے انتخابات کا نتیجہ ہے، ورنہ حسینہ واجد آج یا تو جیل میں ہوتیں، جلاوطن یا پاکستان میں نیب کے مقدمات بھگت رہی ہوتیں۔ پاکستان کے عوام کے لئے 1970 کے انتخابات میں جو سبق موجود ہے، وہی ان کی ترقی کا راستہ ہے  

پاکستان کے عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت پاکستان کی ملکیت صنعتی، تجارتی اور کاروباری ادارے ان کی محنت ، ٹیکسوں،،قرضوں، ان کے والدین اور بزرگوں کی محنت کا نتیجہ تھے، جنہیں جنرل ضیاع، نوازشریف اور جنرل مشرف کے ادوار میں ایک روپے کی ٹوکن منی یا اون ہونے داموں اپنے خاندانوں اور قریبی لوگوں اور حامیوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہ افراد کسی نہ کسی شکل میں ہر سیاسی جماعت میں شامل ہیں۔
پاکستان کی سول ملٹری اشرافیہ کے دور اقتدار میں  ریاست کے وسائل تباہی و بربادی اور لوٹ مار کے خلاف تحقیقات اور مواخذہ جب تک عوام اور ووٹرز کا ایجنڈا نہیں بنے گا اس وقت تک ان کے مسائل نہیں ہونگے  




آذادی فکر گروپ میں شامل ہو کر آپ ان موضوعات پر گفتگو کر سکتے ہیں

https://chat.whatsapp.com/BN0p7y1B2HlH4241qHJAc9

" آزادی فکر"
سچ کی تلاش آزادی فکرتجربی سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے' جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتی ہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتی ہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی حصہ مانتی ہے . رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزادی فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے'.آزادی فکر پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ مثبت طرزعمل کے ساتھ علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فروغ دیں گے- ایڈیٹر

جمعہ، 27 مارچ، 2020

کورونا وائرس: لاشوں کی تعداد کتنی ہو تو ہم پھر بھی برداشت کر لیں گے? یورپ بھر میں لاک ڈاؤن



کورونا وائرس: لاشوں کی تعداد کتنی ہو تو ہم پھر بھی برداشت کر لیں گے?
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن

جمود کو ابھی صرف دو ہفتے ہوئے ہیں لیکن کرنے والوں نے جمع تفریق شروع کر بھی دی ہے: انسانی ہلاکتوں کی تعداد کا مقابلہ اقتصادی ترقی سے ہے۔ سبھی دیکھنے اور سننے والے بے یقینی سے پوچھنے لگے ہیں کہ ایسا بھلا ہو کیسے سکتا ہے؟
ابھی بمشکل دو ہفتے ہی تو ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی تقریباﹰ جمود کا شکار ہو گئی۔ کچھ لوگ اپنے اندازے اور اعداد و شمار ہاتھوں میں لیے ابھی سے یہ حساب کتاب کرنے لگے ہیں کہ انسانی ہلاکتوں اور اقتصادی ترقی کو پہنچنے والے نقصان میں سے بڑا نقصان کون سا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ہینریک بوئہمے لکھتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی ہیں اور سننے والوں کو یقین نہیں آ رہا کہ وہ سن کیا رہے ہیں اور یہ ہو کیا رہا ہے؟
جو سوال پوچھا جا رہا ہے، اس کے پیچھے سوچ ایک ہی ہے: یہ کہ ہمارے لیے زیادہ اہم کیا ہے؟ عام انسانوں میں سے ہر ایک کی صحت اور سلامتی یا کسی تباہ کن اقتصادی بحران سے تحفظ؟ یہ وائرس نظر نہ آنے والا ایسا دشمن ہے، جو بہت خطرناک بھی ہے اور جس سے لوگ بہت خائف بھی ہیں۔ اس کا نتیجہ: عام لوگوں کے باہمی رابطے منقطع، گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی، عوامی زندگی جمود کا شکار اور اقتصادی کارکردگی مفلوج
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
بڑی بڑی رقوم
کسی بہت بڑے مالیاتی بحران کے پیش نظر ہوش ربا حد تک زیادہ رقوم کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ امریکا میں دو ٹریلین ڈالر کا اقتصادی پیکج، یورپی مرکزی بینک کی طرف سے ساڑھے سات سو بلین یورو اور جرمن حکومت کی طرف سے چھ سو بلین یورو مالیت کے اقتصادی پیکج کا اعلان۔ یہ جملہ رقوم ادا کون کرے گا؟
اگر یہ نئے قرضے لے کر مہیا کی جائیں گی، تو متعلقہ ممالک شدید حد تک نئے قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ اگر حکومتیں یہ وسائل بچت کر کے مہیا کریں گی، تو نقصان پھر عوام کا ہی ہو گا۔ سماجی تحفظ، صحت، تعلیم اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں سرکاری اخراجات میں بچت کی وجہ سے۔
لیکن یہ بات کسی نے نہیں سوچی ہو گی کہ برطانوی طبی ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق، دو ہزار آٹھ سے دو ہزار دس تک کے مالیاتی بحران کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زائد مریض صرف کینسر کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے تھے۔ تب حکومتوں نے طبی شعبے کے لیے رقوم واضح طور پر کم کر دی تھیں اور بہت سے کارکن ملازمتیں اور کوئی جاب انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے بالکل ہی بے یار و مددگار ہو گئے تھے اور ان کا علاج نہ ہو سکا تھا۔
بہت سخت الفاظ اور کڑوا سچ
اب یہ بحث شروع کی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کس حد تک رہے تو ہم اسے پھر بھی برداشت کر لیں گے؟ یہ سوال یوں پوچھا جانا چاہیے: کسی ایک انسانی جان کی قیمت کیا ہے؟ ایسی باتیں کرنے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہلاکتیں صرف کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں ہو ں گی۔ طبی شعبے پر دباؤ بہت بڑھے گا، جیسا کہ اٹلی میں بھی ہوا، تو ہسپتالوں کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو گی اور لوگ سرطان، امراض قلب اور دیگر بیماریوں سے بھی زیادہ تعداد میں مرنے لگیں گے۔
کورونا کی وبا کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کے مقابلے میں اقتصادی ترقی کا ذکر کرنے والوں کو شاید علم نہ ہو کہ لندن کے امپیریل کالج کے تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکا ہی میں اس وائرس کی وجہ سے ایک ملین سے زائد ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف ایسے لوگوں کو شاید یہ علم بھی نہ ہو کہ فرانس کے شہر میوہل ہاؤزن میں جو لڑکا لاشوں کو تھیلوں میں بند کر کے ٹرانسپورٹ کر رہا تھا، وہ طب کا ایک بیس سالہ طالب علم تھا۔
لاتعداد متاثرین
ہر طرف نظر آنے والا جمود اور اقتصادی تعطل ظاہر ہے بہت بڑا مسئلہ ہے۔  گلی کے کونے پر چھوٹی سی دکان سے لے کر حجام کے سیلون تک، ہوٹلوں سے لے کر کیٹرنگ تک اور بڑے بڑے صنعتی پیداواری اداروں سے لے کر فضائی کمپنیوں تک، ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔ لفتھانزا کے تقریباﹰ سبھی مسافر طیارے زمین پر ہیں، فوکس ویگن کی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ کورونا وائرس یوں ہمارے معاشروں، سماجی نظاموں اور آزادیوں کو کھا جانے پر اتر آیا ہے۔
ہمیں موجودہ مرحلے میں اس وبا کے خلاف ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہم جن معاشروں میں رہتے ہیں، وہ خود پسند اور انا پرست معاشرے ہیں۔ انہی معاشروں میں کورونا وائرس نے اپنی تمام تر تباہی کے باوجود سماجی یکجہتی کے جس ننھے سے پودے کو جنم دیا ہے، اس پودے کی حفاظت لازمی ہے۔ اس سماجی یکجہتی کا تحفظ ہی کورونا کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہو سکتا ہے: انسانوں کا متحد ہونا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا۔ جہاں تک معیشت کا سوال ہے، تو اسے ہم دوبارہ سدھار لیں گے۔ ایسا ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔
ہینریک بوئہمے (م م / ع ا)

جمعرات، 26 مارچ، 2020

کورونا وائرس پھیلنا ہمارے نظاموں ، اقدار اور انسانیت کا امتحان ہے


کورونا وائرس پھیلنا ہمارے نظاموں ، اقدار اور انسانیت کا  
امتحان ہے
مشیل بیچلیٹ ہائی کمشنر اقوام متحدہ براہ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر ۔ 
فلپو گرانڈی۔ ہائی کمشنر اقوام متحدہ براہ مہاجرین  

 اگر کبھی ہمیں یہ یاد دلانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہم ایک
 باہم جڑے ہوئے عالم میں رہتے ہیں ، تو ناول کورونویرس اس گھر کو لے کر آیا ہے۔
 کوئی بھی ملک تن تنہا اس سے نبردآزما نہیں ہوسکتا ، اور اگر ہم اس عالمی چیلنج کو موثر انداز میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمارے معاشروں کے کسی بھی حصے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
 کوویڈ ۔19 نہ صرف ہمارے صحت کی دیکھ بھال کے نظام اور متعدی بیماریوں کا جواب دینے کے طریقہ کار کا ہی ایک امتحان ہے ، بلکہ مشترکہ چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے اقوام کی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ہماری صلاحیت کا بھی ہے۔
 یہ معاشرتی اور معاشی ترقی کے کئی دہائیوں کے فوائد ہمارے معاشروں کے حاشیے پر رہنے والوں تک پہنچ چکے ہیں ، جو اقتدار کے اقتدار سے دور ہے۔
 آنے والے ہفتوں اور مہینوں سے قومی بحران کی منصوبہ بندی اور شہری تحفظ کے نظام کو چیلنج کیا جائے گا - اور یقینی طور پر صفائی ستھرائی ، رہائش اور دیگر عوامل میں کوتاہیاں سامنے لائیں گی جو صحت کے نتائج کی شکل دیتے ہیں۔۔"
 اس وبا کے بارے میں ہمارا ردعمل لازمی ہے - اور در حقیقت ، ان لوگوں پر توجہ مرکوز کریں - جن کو معاشرہ اکثر نظرانداز کرتا ہے یا کسی کم حیثیت سے رجوع کرتا ہے۔  ورنہ ، یہ ناکام ہوجائے گا۔
 ہر فرد کی صحت معاشرے کے انتہائی پسماندہ افراد کی صحت سے منسلک ہے۔  اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے ل all سبھی تک رسائ کی ضرورت ہے ، اور علاج تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔
 اس کا مطلب یہ ہے کہ آمدنی ، صنف ، جغرافیہ ، نسل اور نسل ، مذہب یا معاشرتی حیثیت پر مبنی سستی ، قابل رسائی صحت کی دیکھ بھال ، اور طویل المیعاد امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لئے موجودہ رکاوٹوں پر قابو پانا۔
 خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور ضروریات کو نظرانداز کرنے والے سیسٹیمیٹک تعصبات پر قابو پانا ، یا - مثال کے طور پر - اقلیتی گروپوں کی محدود رسائی اور شرکت ، کوویڈ 19 کے موثر روک تھام اور علاج کے لئے انتہائی اہم ثابت ہوں گی۔
 اداروں میں رہنے والے افراد - عمر رسیدہ افراد یا نظربند افراد - انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہونے کا امکان رکھتے ہیں اور ان کو خاص طور پر بحران کی منصوبہ بندی اور جواب میں توجہ دینا چاہئے۔
 تارکین وطن اور پناہ گزینوں - ان کی رسمی حیثیت سے قطع نظر ، قومی نظام اور وائرس سے نمٹنے کے منصوبوں کا لازمی حصہ ہونا چاہئے۔  ان میں سے بہت ساری عورتیں ، مرد اور بچے اپنے آپ کو ایسی جگہوں پر پاتے ہیں جہاں صحت کی خدمات بہت زیادہ پائی جاتی ہیں یا ان تک رسائی نہیں ہوتی ہے۔
 وہ کیمپوں اور بستیوں تک ہی محدود ہوسکتے ہیں ، یا شہری کچی آبادیوں میں رہتے ہیں جہاں پر بھیڑ بھاڑ ، اور صفائی کے ناقص انتظام کی وجہ سے ، اس سے نمائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
 "کورونا وائرس بلا شبہ ہمارے اصولوں ، اقدار اور مشترکہ انسانیت کی بھی جانچ کرے گا۔"
 مہاجرین اور مقامی برادریوں دونوں کے لئے - اور ان کی قومی نگرانی ، روک تھام اور رد عمل کے انتظامات میں میزبان ممالک کو خدمات میں اضافے کے لئے بین الاقوامی تعاون کی فوری ضرورت ہے۔  ایسا کرنے میں ناکامی سب کی صحت کو خطرہ بنائے گی - اور عداوت اور بدنامی کو بڑھانے کا خطرہ ہے۔
 یہ بھی ضروری ہے کہ سرحدی کنٹرولوں ، سفری پابندیوں یا نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیوں کو سخت کرنے سے ان لوگوں کو روکا نہ جا do جو جنگ یا ظلم و ستم سے بھاگ رہے ہوسکتے ہیں انھیں حفاظت اور تحفظ تک رسائی حاصل نہیں ہوگی۔
 ان فوری طور پر چیلنجوں سے بالاتر ، کورونا وائرس کا راستہ بلاشبہ ہمارے اصولوں ، اقدار اور مشترکہ انسانیت کی بھی آزمائش کرے گا۔
 پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے ، انفیکشن کی تعداد کے گرد غیر یقینی صورتحال اور کئی مہینے باقی ایک ویکسین کے ساتھ ، وائرس افراد اور معاشروں میں شدید خوف اور اضطراب پیدا کررہا ہے۔
 کچھ بےاختیار لوگ بلاشبہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ، حقیقی خدشات میں اضافہ اور خدشات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
 جب خوف اور غیر یقینی صورتحال مبتلا ہوجاتی ہے تو قربانی کے بکرے کبھی دور نہیں ہوتے ہیں۔  ہم مشرقی ایشیائی نسل کے کچھ لوگوں پر ناراضگی اور دشمنی دیکھ چکے ہیں۔
 اگر کسی طرح سے باز نہیں آتے ہیں تو ، الزام عائد کرنے اور خارج کرنے کی خواہش جلد ہی دوسرے گروہوں یعنی اقلیتوں ، پسماندہ طبقے یا کسی کو بھی "غیر ملکی" کے نام سے لیبل لگا سکتا ہے۔
 مہاجرین سمیت اس اقدام پر آنے والے لوگوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔  پھر بھی خود کورونا وائرس امتیاز نہیں کرتا ہے۔  آج تک متاثرہ افراد میں تعطیل ساز ، بین الاقوامی کاروباری افراد اور یہاں تک کہ قومی وزرا شامل ہیں ، اور وہ تمام براعظموں میں پھیلے ہوئے درجنوں ممالک میں واقع ہیں۔
 گھبراہٹ اور امتیازی سلوک نے کبھی بھی بحران حل نہیں کیا۔  سیاسی رہنماؤں کو لازم ہے کہ وہ شفاف اور بروقت معلومات کے ذریعے اعتماد حاصل کریں ، مشترکہ بھلائی کے لئے مل کر کام کریں ، اور لوگوں کو صحت کے تحفظ میں حصہ لینے کے لئے بااختیار بنائیں۔
 افواہوں کی جگہ پیدا کرنے سے ، خوف میں مبتلا ہونے اور ہسٹیریا سے نہ صرف ردعمل میں رکاوٹ ہوگی بلکہ انسانی حقوق ، جوابدہ ، جمہوری اداروں کی کارگردگی کے وسیع اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
 آج کوئی بھی ملک لفظی معنوں میں اور - اسٹاک مارکیٹوں کے گرتے ہوئے اور بند اسکولوں کا معاشی اور معاشرتی طور پر مظاہرہ کرتے ہوئے ، کورونا وائرس کے اثرات سے خود کو ختم نہیں کرسکتا۔
 ایک بین الاقوامی ردعمل جو یہ یقینی بناتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک اس بیماری کی تشخیص ، علاج اور روک تھام کے لیس ہیں وہ اربوں لوگوں کی صحت کی حفاظت کے ل. بہت اہم ہوگا۔
 عالمی ادارہ صحت مہارت ، نگرانی ، نظام ، معاملے کی تفتیش ، رابطے کا سراغ لگانے ، اور تحقیق اور ویکسین کی ترقی مہیا کررہا ہے۔  یہ سبق ہے کہ بین الاقوامی یکجہتی اور کثیر جہتی نظام پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔
 طویل المدت میں ، ہمیں لازمی اور قابل رسائی صحت عامہ کی تعمیر کے کام کو تیز کرنا ہوگا۔  اور اب ہم اس بحران کا کیا جواب دیں گے ، بلاشبہ آنے والی دہائیوں سے ان کوششوں کو شکل دیں گے۔
 اگر کورونا وائرس کے بارے میں ہمارا جواب عوامی اعتماد ، شفافیت ، احترام اور سب سے زیادہ کمزور لوگوں کے لئے ہمدردی کے اصولوں پر مبنی ہے تو ہم نہ صرف ہر انسان کے اندرونی حقوق کو برقرار رکھیں گے۔  ہم یقینی بنائیں گے کہ ہم اس بحران کو دور کرسکیں اور مستقبل کے لئے سبق سیکھیں۔

بدھ، 25 مارچ، 2020

دنیا اپنے خاتمے کی طرف گامزن ہے اور وہ دن قریب ہیں جب "مسیحا" زمین پر اترے گا اسرائيلی وزیر صحت

اسرائیل کے وزیر صحت یعقوب لٹزمان کا یے کہ کورونا وائرس کا بحران اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دنیا اپنے خاتمے کی طرف گامزن ہے اور وہ دن قریب ہیں جب "مسیحا" زمین پر اترے گا اور یہودی برادری کی حالت زار کو دور کرے گا۔

اس انٹرویو ميں یعقوب لٹزمان نے مزيد کہا، "ہم دعا اور امید کر رہے ہیں کہ مسیحا فسح (جو یہودیوں کا آمد بہارکا تہوار ہے) کے موقع پر پہنچے گا، جو ہماری نجات کا وقت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسیحا آئے گااور جس طرح خدا ہمیں مصر سے نکال لایا تھا اسی طرح ہم و باہر لے آئے گا۔”  یعقوب لٹزمان کا مزيد کہنا تھا، "جلد ہی ہم آزادی کے ساتھ نکلیں گے اور مسیحا ہميں دنیا کیديگر تمام پریشانیوں سے نجات دلائے گا۔” لٹزمان، جو الٹرا آرتھوڈوکس یونائیٹڈ تورہ یہودی پارٹی کے سربراہ ہيں، اسرائیل میں بنجمن نیتنیاہو حکومت کے ایک اہم رکن مانے جاتے ہيں۔

یہودیوں کا مسیحا کے بارے ميں عقيدہ
يہودی عقیدے کے مطابق، مسیحا داؤدی نسل سے تعلق رکھنے والا مستقبل کا یہودی بادشاہ ہو گاجو اسرائیل کو کسی بڑی تباہی سے بچائے گا۔ یہودی عقيدے کے تحت يہ مسیحا "ایک نجات دہندہہے جو اختتام پر ظاہر ہو گا اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہوگا"۔ یہودیوں کا ماننا ہے کہ مسیحاکی آمد قیامت سے پہلے ہی دنیا کو آخری مرحلے کی طرف لے جائے گی۔

اسرائیل کے وزیر صحت کے یہ بيانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب اسرائیل میں کوروناوائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد سولہ سو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ کووڈ انیس سے کم سےکم ایک مریض کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے۔

دريں اثناء اسرائیل ميں کم سے کم 8 اپریل تک ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر ديا گيا ہے۔

گائے کا پیشاب پینے کی تقریب۔

گائے کا پیشاب پینے کی تقریب
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔

پاکستان میں کرونا وائرس : مریضوں کی تعداد 2 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ


ڈان نیوز کی ایک تحقیقی رپورٹ میں طبی ماہرين اور محققين نے خدشات کا اظہار کيا ہے کہ اگر حکومت پورے ملک میں بڑے پیمانے پر کورونا وائرس کے پھيلاؤ کو قابو ميں رکھنے کے ليے  ٹيسٹ نہیں کرواتی ہے تو اپریل کے وسط تک پاکستان میں اسی ہزار سے زائد کورونا وائرس کیسز ہو سکتے ہیں اور یکم جون تک یہ تعداد بڑھ کر  بیس ملین تک پہنچ سکتی ہے۔


دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اس وبائی مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ اب یہ تعداد بڑھ کر نو سو کے قریب پہنچ چکی ہے۔

اس وائرس سے سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہے، جہاں متاثرین کی تعداد  تین سو چورانوے ہے جبکہ پنجاب میں یہ تعداد  دو سو انچاس بتائی جا رہی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں ایک سو دس جبکہ خیبرپختونخوا میں اڑتیس افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا کے کم از کم  پندرہ کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔ پاکستان ميں کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے ليے کيے جانے والے حکومتی اقدامات کے ناکافی ہونے کے سبب ماہرين تشويس کا اظہار کر رہے ہيں۔

اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وقت پھيلنے والے وبائی امراض کے دوران، کسی آبادی میں اصل متاثرہ کیسز لیب سے تصدیق شدہ کیسز سےآٹھ سے دس گنا زیادہ ہوتے ہيں۔

دريں اثناء آج منگل کو پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب بڑے صوبے پنجاب میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے  چودہ روزہ لاک ڈاؤن کا آغاز ہو گيا ہے۔

منگل، 24 مارچ، 2020

دنیا کے 20 ممالک کورونا وائرس سے پاک । تاجکستان اور ترکمانستان شامل |

    دنیا کے  20  ممالک کورونا وائرس  سے پاک 
 تاجکستان اور ترکمانستان  شامل |  

 افریقی براعظم میں کورونا وائرس سے پاک ممالک کی سب سے زیادہ تعداد ہے: لیبیا ، مغربی صحارا ، سیرا لیون ، گیانا بساؤ ، نائجر ، برونڈی ، مالاوی ، موزمبیق ، بوٹسوانا ، جنوبی سوڈان میں 24 مارچ تک کوئی کیس نہیں رپورٹ ہوئے۔ مغربی دنیا میں گرین لینڈ کے جزیرے سمیت  جس کی آبادی 50 ہزار افراد پر مشتمل ہے'  کورونا وائرس سے پاک   کوئی  مل نہیں بچا- ایشیاء میں متعدد ممالک - شمالی کوریا ، لاؤس ، تاجکستان ، ترکمنستان اور یمن - کورونا وائرس سے پاک ہیں۔ان میں سے کچھ لیبیا ، جنوبی سوڈان اور یمن میں مسلح تنازعات جاری ہیں۔  23 مارچ تک ، دنیا بھر میں کورون وائرس کے لئے 350،000 افراد شکار تھے  اور  15،000سے زیادہ افراد وفات پا چکے ہیں ۔

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...