اسرائیل بھارت سے کیا سیکھ سکتا ہے؟
|
تل ابیب: میں جون میں ایک سال کے لئے بھارت جاؤں گا۔ عالمگیریت اور ہمارے ذہن میں موجود تفریح کے تصوّر میں وسیع پیمانے پر ہونے والی تبدیلیوں نے سفر کو ایک ایسی سرگرمی میں بدل دیا ہے جس سے خصوصاً مغرب میں بڑی تعداد میں لوگ لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ تاہم میرے خیال میں اتنے طویل عرصے کے لئے بھارت جانا بہت سے سوالوں کے جواب تلاش کرنے اور میرے لئے اپنے تجسس کو پورا کرنے کا ایک اچھّا موقع ہے۔
میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ سفر بالخصوص عرب اسرائیل تنازعہ کے حوالے سے میرے اپنے مُلک اسرائیل کے بارے میں میری تفہیم پر کِس طرح اثر انداز ہوگا۔
تمام تر اختلافات کے باوجود اسرائیل اور بھارت میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں مُلک 1940 کی دہائی کے آخری سالوں میں آزاد ہوئے تھے اور اس سے پہلے دونوں ہی برطانوی سلطنت کا حصّہ تھے۔ دونوں مُلکوں میں 30 سال تک عملی طور پر ایک ہی جماعت کی حکومت رہی اور سیاسی مسابقت مختلف جماعتوں میں ہونے کی بجائے بائیں بازو کی ایک جماعت کے اندر ہی چلتی رہی۔ 1980 کے عشرے میں اسرائیل میں لیکوڈ پارٹی اور بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی جیسے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر نے مذہبی قوم پرستی کا نعرہ لگا کر اور ایسی تحریکوں سے طاقت حاصل کرکے زور پکڑا جو پہلے تشدد آمیز حربے استعمال کرنے کی عادی تھیں اور حکومت میں اہم کردار حاصل کر لیا۔ دونوں مُمالک نے زمین کے مسئلے پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ کئی جنگیں لڑی ہیں۔ دونوں ممالک میں 20 فیصد کے لگ بھگ مُسلم اقلیت موجود ہے۔ دونوں ہی ایسی جدید ریاستیں ہیں جو قدیم تہذیبوں کی بنیاد پر قائم ہوئی ہیں اور اپنی تجدید کرنے کی خواہش مند ہیں۔
تاہم اسرائیل میں جس چیز کا فقدان ہے وہ کثرتیت کی زندہ وجاوید ثقافت ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کی بھارت میں فراوانی ہے۔ جب 2008 کی گرمیوں میں پہلی بار میں بھارت گیا تو وہاں کی مذہبی کثرتیت دیکھ کر دَنگ رہ گیا تھا۔ میں نے ہیم کنڈ کی زیارت کرنے کے لئے سِکھوں کے ساتھ کوہ پیمائی کی، دہلی میں 13 ویں صدی عیسوی کے صُوفی ناظم الدین اولیا کے مزار پر مُسلمانوں کے ساتھ بیٹھا اور ہندوؤں کے ساتھ کھجوراہو کے مشہور مندروں والے شہر کا سفر کیا۔ یہ کثرتیت سارے مُلک میں، چاہے وہ زبان ہو، کھانے پینے کی اشیا ہوں یا ادب، ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اگرچہ بھارت کی اکثریتی آبادی ہندو مذہب کی پیروکار ہے تاہم جس طرح ہر طبقہ اپنے مذہبی معمولات ادا کرتا ہے وہ قابلِ تحسین حد تک متنوع اور کثرتیت پر مبنی ہے اور یہ سب ایک ایسے مُلک میں ہو رہا ہے جس کا آئین مکمل طور پر سیکولر ہے۔
مسائل یقیناً اب بھی موجود ہیں: طبقاتی لڑائی جھگڑے، کشمیر کا مسئلہ، پاکستان کے ساتھ تنازعہ، کرپشن اور غربت وغیرہ لیکن ہمارے لئے بھارت سے سیکھنے کے لئے اب بھی بہت کچھ موجود ہے اور میرا خیال ہے کہ بھارت ایک ایسا اندازِ فکر فراہم کر سکتا ہے جس سے ہم اسرائیلی تجربے کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنے شہریوں کو مذہبی تشخص سمیت تمام دیگر تشخّصات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیے بغیر ایک قابلِ فخر اور سب پر محیط ثقافت تخلیق کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کامیابی کوئی واحد مشترکہ زبان نہ ہونے کے باوجود حاصل کی گئی ہے۔
اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ فی الوقت اسرائیل فلسطین تنازعہ کا حل غیر ضروری طور پر دو ٹوک شرائط کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں: ’’ اسرائیل یا فلسطین‘‘، ’’ یہودی یا جمہوری ریاست‘‘ یا ’’ قابلِ عمل یا غیر قابلِ دفاع‘‘۔ یہ کوئی تعمیری انداز نہیں ہے۔ موجودہ حالات ’’ اِدھر یا اُدھر‘‘ جیسے نہیں ہیں۔ ان کے درمیان میں بھی کچھ ’بے رَنگ‘ جگہ موجود ہے۔
مثال کے طور پر حتمی حیثیت سے متعلق موجودہ مذاکرات میں اگر ساری توجہ اس بے سُود سوال پر مرکوز رہتی ہے کہ دونوں اقوام کو ایک دوسرے سے کس طرح الگ کیا جائے تو اس کی جھلک خوف اور بد اعتمادی سے بھرپور مُستقبل میں بھی نظر آئے گی۔ لیکن اگر کوئی ایسا اتفاقِ رائے ہوتا ہے کہ دونوں اطراف کے اپنے قومی حقوق ہیں جنہیں کوئی درمیانی راہ اپنا کر پورا کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک اُمید افزا اور کثرتیت پر مبنی مُستقبل کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ بھارت میں اس حوالے سے شاید کچھ دلچسپ ماڈل پہلے ہی موجود ہوں۔
یہ بات اب واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اسرائیل فلسطین مسئلے کا حل چاہے یَک ریاستی ہو، دو ریاستی یا فیڈریشن ہو، یک ریاستی / دو ریاستی حل بہرحال ایک سراب ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کی منفرد فطرت کی بنا پر اسے حل کرنے کے لئے تخلیقی انداز اور لچک دار رویّہ اختیار کرنے کے علاوہ دوسرے مُلکوں کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔
بھارت کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کثرتیت پسندی کا مطلب اپنی ہستی کے جواز سے دست بردار ہونا نہیں ہے اور نہ ہی اقلیتوں کو ان کے مکمل حقوق دینے سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسی کوئی وجہ موجود نہیں ہے کہ اسرائیلی قوم پرستی کو فلسطینی قوم پرستی کی قیمت پر قائم رکھا جائے۔ ایسی کوئی وجہ بھی موجود نہیں ہے کہ اسرائیلی عرب یہودی ریاست کی زندگی میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر سکتے۔ ہمیں صرف ان ممکنات کے لئے اپنا دِل کشادہ رکھنے کا حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
###
ایلکس سٹین امن کے ایکٹوِسٹ ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے