ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

امریکہ پاکستان انٹی تھیسیز تحریر: قمرالزماں خاں

امریکہ پاکستان انٹی تھیسیز
 بالخصوص فلسفے میں تھیسیز (مقالہ)،انٹی تھیسیز(ردعمل) اور سینتھیسز (مقالے اور رد عمل کی تسلیم شدہ سچائیاں اور نئے راستوں پر مبنی تجاویز) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر ان مفروضوں کو سیاسی تجزیہ کاری یا دلائل کے لئے بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔آج اسی طریقہ کار کا استعمال اگررسوائے زمانہ’’ میمو گیٹ سکینڈل‘‘ پر کیا جائے تو انٹی تھیسیز کی شکل کچھ یوں بنے گی۔ فرض کریں کہ یہ میمورنڈم درست ہے۔اس کو اعجاز منصور نے سابق پاکستانی سفیرحسین حقانی کی مبینہ گفتگو،ایس ایم ایس کی بنا پر تحریر کیا ہے یا پھر یہ لکھا ہی حسین حقانی نے ہے تو اس کے مندرجات میں ایسی کونسی التجا،ترغیب یا مدد کی اپیل ہے جس کا نظارہ پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ امریکہ کو پاکستانی معاملات میں مداخلت 

کی دعوت یا دباؤ بنانے پر اکسانا کونسا ایسا فعل ہے جس پر اب آسمان نیچے گر جائے گا۔
1۔پاکستان بننے کے فوراَ بعدجنرل سرفرینک میسوری(15اگست1947ء تا10فروری 1948ء) اورپھرجنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی (11فروری1948تا 16فروری1951ء)پاکستانی فوج کے سربراہ بنے جن کا تعلق ایک سامراجی ملک برطانیہ عظمی سے تھا جبکہ پاکستان ’’آزاد ‘‘ ہوچکا تھا۔
2۔پاکستان کے پہلی اکنامک ایڈوائزری کمیٹی گیارہ اراکین پر مشتمل تھی جن میں سے سات غیر ملکی تھے۔
3۔پچاس کی دھائی میں امریکہ نے پاکستان میں ویسٹ کمانڈ فورس قائم کی ۔کھاریاں کی چھاؤنی قائم کی اور پرانے طیارے،ٹینک وغیرہ دئے جن کو ایڈ شو کیا گیا مگر پھر اسکو سود سمیت وصول کیا گیا مگر ویسٹ کمانڈ اور مندرجہ بالا اسلحہ بھارت کے ساتھ جنگ میں استعمال کرنے کی ممانعت تھی اور اس کمانڈ کے ذریعے ایران میں مصدق حکومت کا ناطقہ بند کرنااور دوبارہ تیل کے ذخائیر پر قبضہ کرنے میں معاونت 

کرنا اور اسی طرح خلیج میں امریکہ کے مفادات کی حفاظت کرنا مقصود تھا۔
4۔امریکی حکم پرپاکستان، سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا ،ان تنظیموں کا مقصد امریکی مفادات کی حفاظت میں سویٹ یونین کے خلاف بلا ک بنانا تھا۔یاد رہے کہ اس وقت تک پاکستان کو براہ راست سویت یونین سے نہ تو کوئی خطرہ لاحق ہوا تھا نہ ہی پاکستان سویت یونین کی کسی جارحیت کا نشانہ بنا تھااور نہ ہی مستقبل میں اسکا کوئی خدشہ موجود تھا۔
5۔پچاس اور ساٹھ کی دھائی میں پاکستان ،امریکہ کا مکمل بغل بچہ بنا ہوا تھا۔15ستمبر1970ء کو اردن کی 60آرمڈ برگیڈنے عمان میں قائم فلسطینی ہیڈ کوارٹر،فلسطینی مہاجروں کے کیمپس لربڈ،سالط،سویلیہ،بقاء وحدت اور زرقا پر چڑھائی کردی
2ndڈویژن کی کمانڈپاکستانی برگیڈئیر محمدضیا ء الحق کے ہاتھ تھی وہاں ایک وحشیانہ قتل عام کیا گیا جس میں پچیس ہزارلوگ مارے گئے ان میں بیشتر فلسطینی تھے،پاکستانی فوج ان دنوں اردن کی فوج کی ٹریننگ کررہی تھی۔یہ قتل عام امریکہ اور اسرائیل کی خواہش اور شاہ حسین کی ضرورت کے تحت ہوا تھا۔اس ہولناک قتل عام پر برگیڈئیر محمد ضیا ء الحق کو ستارہ کوکب دیا گیا جو اسکی 17اگست 1988ء کومبینہ طورپر امریکیوں کے ہاتھوں ہلاکت تک اسکے سینے پر آویزاں تھا۔
7۔ سعودی بادشاہوں کے خلاف دو بغاوتوں کو ناکام بنانے میں پاکستان افواج نے نمایاں کردار ادا کیا تھا ،حالانکہ یہ ان کا اندرونی سیاسی معاملہ تھا۔اسی طرح سعودی عرب اور امریکہ کے کہنے پر بحرین کی حالیہ انقلابی تحریک کو سعودی،پاکستانی اور بحرینی فورسز نے بہیمانہ انداز میں کچلا جس کے نتیجے میں سینکڑوں نہتے لوگوں ہلاکتیں ہوئیں،یہ معاملہ بھی بحرین کا سیاسی اور اندرونی معاملہ تھا۔
8۔ستر کی دھائی میں پاکستان کو کسی حد تک خود مختار بنانے کی ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں کو امریکہ نے اس دھمکی کے ساتھ’’تمہیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا‘‘سبوتاژ کردیا اس ضمن میں امریکہ کی معاونت جن کرداروں ،اداروں ،سیاسی پارٹیوں اور ممالک نے کی وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا گیا اور پاکستان پر فوجی جنتا کا راج قائم کروا دیا گیا جس کو امریکہ کی ظاہری اور درپردہ حمائت حاصل تھی۔
9۔28فروری 1978ء کو افغانستان میں ’’انقلاب ثور‘‘ کے ذریعے امریکی اثر رسوخ کا خاتمہ کردیا گیا،جاگیر داری اور سرمایہ داری کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی جاگیروں کی کسانوں کو تقسیم،سود کا خاتمہ،خواتین کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی گئی،تعلیم اور صحت کو مفت کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر اسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کرنا شروع کرئے گئے تو اسکے خلاف امریکہ حرکت میں آیا اور پھر اس نے پاکستان، اسکے عسکری اداروں اور ایجنسیوں کے کنٹرول میں ملاؤں کو استعمال میں لاتے ہوئے افغانستان میں بھرپور مداخلت شروع جس کی براہ راست نگرانی ’’سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی ‘‘ اور پاکستان میں امریکی سفیر نے کرنا شروع کی ۔اس مداخلت پر افغانستان نے سویت یونین سے اپنے کئے ہوئے معاہدے کی رو سے مدد طلب کی جس کے بعد پھر ایک کھلی جنگ شروع ہوگئی جس میں پاکستان کو بری طرح استعمال میں لایا گیا۔پاکستان اس جنگ کے ثمرات کی زد میں ابھی تک ہے۔ سی آئی اے نے ’’مجاہدین‘‘ کے لئے وسائل پیدا کرنے کے لئے ان کو ہیروئین بنانے کا طریقہ کار سکھایا اور لیبارٹریز مہیا کئیں جس کی وجہ سے افغانستان دنیا میں ہیروئین پیدا کرنے والے ممالک میں سرفہرست بن گیا۔یہ ہیروین پاکستان کے راستے اور پاکستان کے اداروں کے توسط سے بیرونی منڈیوں میں جانے لگی جس سے پاکستان میں حصہ داروں کے پاس اس کالے دھن کے اربوں روپے جمع ہونا شروع ہوگئے جس نے معاشی اور معاشرتی سطح پر جو برے اثرات مرتب کئے پاکستان کا سماج ابھی تک اس کی زد میں ہے ۔سپلیمنٹری کے طورپر ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر بھی پاکستان میں نفوذ پذیر ہوگیا۔اسامہ بن لادن وغیرہ اسی دور کے نادر تحفے تھے جن کی اسمبلنگ میں امریکہ ،سعودی عرب ،پاکستان اور برطانیہ سمیت متعدد ممالک شامل رہے ہیں۔
8۔1994-6ء کے دوران امریکہ نے پاکستا ن کے طاقت ور اداروں کی مدد اورا شتراک سے طالبان کے نئے مفروضے کو جنم دیا اور پھر ایک نیا خونی کھیل خطے میں شروع کرادیا گیا،اس کھیل کا بنیادی مقصدتیل اور گیس کے وسیع ذخائیر کو وسط ایشاء سے افغانستان کے راستے گوادر پورٹ تک لے کر آنا تھا،امریکی مفادات میں پاکستان کے تمام عسکری اور سیاسی اور دینی ادارے کسی چوں چرا کے بغیر ممد و معاون رہے بلکہ اپنے طے شدہ کردار سے بھی آگے بڑھ کر وفاداری کا ثبوت دیا گیا،حالانکہ اس برے کھیل میں پاکستان کو کوئی بھی ظاہری مفاد نہیں تھا۔
10۔طالبان ’’عظیم دوست‘‘ سے ’’شیطانی قوت‘‘ کیسے بنے یہ تو ایک الگ مضمون ہے مگر ان کو امریکہ نے جب شیطان قرار دے دیا تو پھر انکو ختم کرنیکی ذمہ دار بھی انکے خالق واقعی یعنی پاکستان کو سونپی گئی ،اس بات پر ابھی رضامندی پوری حاصل نہیں ہوئی تھی کہ امریکہ نے 1999میں پاکستان کے اوپر سے ٹام کروز میزائلوں کی بارش کرکے افغانستان کو تہس نہس کرنے کا آغاز کردیا،ان میں سے کچھ میزائل سرزمین پاک پر بھی گرے مگر کسی نے برا محسوس نہیں کیا۔
11۔انتہائی مشکو ک9/11کے واقعہ کو بنیاد بنا کر پھر افغانستا ن پر حملہ کردیا گیا اور ہر طرح کے روائیتی اور غیر روائتی اسلحے کو نہتے افغانی باشندوں پر استعمال کیا گیا۔کتنے مرے اور کتنے اپاہنج ہوئے ان کی تعداد درست طور پر تو کسی کو معلوم نہیں مگر یہاں پر ملین کا لفظ استعمال میں لایا جاتا ہے۔یہ حملہ جو صریحاَ ایک نہتے ملک پر سپر پاور کی جارحیت تھی پر پاکستان اور اسکے کسی ادارے کو سرکاری طور پر اعتراض نہیں ہوا۔بعد ازاں اس جنگ میں پاکستان کے عسکری ،سیاسی اداروں کی باضابطہ شمولیت کرالی گئی ،کوئی احتجاج ،مذاحمت نہیں کی گئی۔
12۔عراق میں امریکی جارحیت کی حمائت سرکاری طور پر کی گئی اور پاکستان کے حکمران طبقے نے اس میں دامے درمے سخنے شمولیت کی۔عراق پر حملے کے لئے مبینہ طور پر پاکستان میں امریکی اڈوں کا تذکرہ ہوتا رہا ہے مگر کبھی اسکی تردید نہیں ہوئی۔عراق میں کئے گئے اتنے بڑے قتل عام پر پاکستان نے کبھی بھی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا ۔
13۔پاکستان کی معاشی پالیسیاں عالمی سامراجی ادارے(انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز،عالمی بنک وغیرہ) بناتے ہیں اور یہ ادارے امریکی کنٹرول او ر پالیسیوں کے مطابق چلتے ہیں۔
14۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال امریکی مفادات(اسرائیل کی استثنا ء) کے مطابق ہیں اور انہی کے مطابق عمل کیا جاتا ہے ۔
15۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو امریکہ ،سعودی عرب اور پاکستان کی فوج اور عدلیہ کا مشترکہ منصوبہ قراردیا جاتا ہے۔
16۔نوازشریف کو عدالتی فیصلے کے باوجود معاف کیا جانا اور سعودی عرب میں پناہ دلوانا امریکہ ،سعودی عرب اور پاکستان کی اس وقت کی فوجی حکومت کا مشترکہ اور متفقہ فیصلہ تھا۔
17۔پاکستان پچھلے بیس سالوں سے سستی بجلی اور گیس ایران سے صرف اس لئے نہیں خرید سکا کہ امریکہ بہادر ایسا نہیں چاہتا۔اسکے بدلے میں اٹھارہ کروڑ لوگ بجلی اور گیس کی بندش کا شکار ہیں اورپاکستان کی معیشت پر اسکے شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
18۔پاکستان 1990کی دھائی سے (امریکہ اور اسکے مختلف ماتحت اداروں کی طرف سے لگائی گئی )اس پابندی پر عمل درآمد کرتا آرہا ہے کہ یہاں پر کوئی ’’غیر زرعی‘‘ صنعت نہیں لگائی جائے گی اور نہ ہی کوئی ایسا کارخانہ بنایا جائے گا جس کی پیدوار کو برآمد کیا جاسکے۔ چونکہ کوئی مصدقہ ثبوت نہیں ہے اس لئے میں اس بحث میں نہیں جانا چاہ
تا کہ بہت سے اداروں میں افسروں کی پرموشن اور بطور خاص انتہائی کلیدی عہدوں پر تقرری کے لئے بھی گرین سگنل امریکہ سے ہی لینا پڑتا ہے مگر ایک بات تو ہمیشہ سے میڈیا میں آتی ہے کہ اگر فلاں کو چیف آرمی سٹاف،صدر پاکستان،وزیر اعظم پاکستان،وزیر خزانہ ،وزیر خارجہ اور سفیر برائے امریکہ بنایاجائے تو امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا /یا ہوگاوغیرہ۔ واقعات اور حقائق کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کا یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ کے ساتھ تاریخی، گہرا اور نہ ختم ہونے والا رشتہ ناطہ ہے،کارگل کی جنگ ہو یا کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی نگاہ اور التجائیوں کا رخ ہمیشہ امریکہ کی طرف ہی ہوتا ہے تو ایسے میں اگر پاکستان میں دو فریقین کی باہمی کشمکش میں کوئی ایک فریق اپنے مالک حقیقی یعنی امریکہ کو کوئی میمورنڈم لکھ دے تو اس کے کچھ مندرجات (نیوکلئیر پروگرام)پر تو اعتراض ہوسکتا ہے مگر میمورنڈم ہی کوفرد جرم بنادینا ، غداری قرار دینا یا ’’قومی مفادات‘‘ کے منافی قرار دینا کیا واقعتا جائز ہے ؟ اگر ایسا جائیز ہے تو پھرہمیں اپنے قومی مفادات کی فہرست بھی فردجرم کے ساتھ منسلک کرنا ہوگی!!!
  تحریر:   قمرالزماں خاں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...