جمعرات، 14 نومبر، 2013

”کیا برطانیہ میں برقع پر پابندی کا قانون بننا چاہئے؟“


 
لندن (رپورٹ: آصف ڈار، مرتضیٰ علی شاہ) برٹش پاکستانیوں کی اکثریت نے جنگ فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس بات سے مکمل طور پر اتفاق کیا ہے کہ مسلمان خواتین کو عدالتوں، ہسپتالوں اور سکولوں میں برقع اتار کر اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ تاہم فورم کے شرکاءمیں اس بات پر کھلا اختلاف پایا گیا کہ آیا برطانیہ میں برقع پر پابندی عائد کر دینی چاہئے یا نہیں۔ افتخار قیصر کی زیر ادارت ہونے والے جنگ فورم کا موضوع تھا ”کیا برطانیہ میں برقع پر پابندی کا قانون بننا چاہئے؟“ اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے مقررین نے مختلف آراءکا اظہار کیا۔ بعض کا کہنا تھا کہ برطانیہ چونکہ ایک سیکولر ملک ہے اس لئے اس میں انتہا پسندانہ نظریات کی گنجائش نہیں ہے۔ برقع اس معاشرے کی بنیادی اقدار کے مطابق نہیں ہے۔ اس لئے اس پر نہ صرف پابندی لگنی چاہئے بلکہ اسے پہننے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں پر جرمانے عائد کئے جانے چاہئیں۔ بعض مقررین نے برقع کو غلامی کی علامت قراردیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے دنیا کی نصف آبادی کو ناکارہ بنا کر گھروں میں بٹھا دیاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنے ممالک کی ترقی کےلئے زیادہ کردار ادا نہیں کر رہیں۔ جبکہ برقع کے حامیوں کا کہنا تھا کہ مسلمان خواتین کےلئے برقع کی پابندی لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ عورتیں اپنے چہرے نامحرموں کو نہ دکھائیں اور ان سے پردہ کریں۔ اور مسلمان خواتین پر اس کی پابندی لازمی ہے۔ ان کے مطابق عورتیں برقع پہن کر دنیا کے سارے کام کر رہی ہیں اور انہیں اس سلسلے میں کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ جبکہ بعض مقررین نے برقع پہنے جانے کی مخالفت تو کی مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ برطانیہ میں برقع پر پابندی لگانا اس ملک کی جانب سے دی گئی آزادیوں کے خلاف ہوگا۔ چونکہ برطانیہ نے یہ آزادیاں طویل عرصے کے جدوجہد کے بعد حاصل کی ہیں۔ اس لئے اس ملک کے عوام کو ان کی قدر بھی ہے۔ برقع پہننے کو کسی بھی فرد کا ذاتی مسئلہ تصور نہیں کیا جانا چاہئے اور اس کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہونی چاہئے۔ جبکہ اس کے علاوہ مقررین نے اس بات پر مکمل طور پر اتفاق کیا کہ خواتین کو عدالتوں میں گواہی دیتے وقت، ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اور سکولوں میں بچوںکو پڑھانے کے دوران برقع اتار دینا چاہئے تاکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کے چہروں کے تاثرات کو بھی دیکھ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو خواتین ڈاکٹروں کے سامنے علاج کے دوران یا پھر عدالتوں میں پیشی کے وقت برقع اتار کر چہرہ نہیں دکھاتیں وہ غلط کرتی ہیں۔ کیونکہ اسلام نے ایسی صورت میں عورتوں پر برقع کی پابندی عائد نہیں کی۔ علاوہ ازیں فورم کے شرکاءکا اس بات پر بھی اختلاف تھا کہ حج کے دوران عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض کا کہنا تھا کہ حج کے دوران عورتیں غیر محرموں سے اپنا چہرہ چھپا سکتی ہیں جبکہ بعض نے کہا کہ عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حج کے دوران برقع نہ پہنیں۔ بعض مقررین کا کہنا تھا کہ اگر برقع پر پابندی لگائی گئی تو خواتین کی بڑی تعداد گھروں میں بیٹھ جائے گی اور وہ خود کو برطانوی معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر سکے گی۔ فورم میں شریک برقع پوش خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں برطانیہ میں برقع کے حوالے سے کبھی کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ وہ کام بھی کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو سکولوں میں چھوڑنے بھی جاتی ہیں۔ جبکہ برقع کے مخالفین کاکہنا تھا کہ برقع پہننے والی عورتیں اس وقت اپنے ہی گھروں میں اجنبی بن جاتی ہیں جب کوئی غیر محرم گھر میں داخل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برقع غلامی کی علامت ہے۔ جاگیرداروں اور وڈیروں نے اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لئے عورتوں پر پابندی لگا رکھی تھیں۔ بعض افراد کا کہنا تھا کہ برقع پہننا عورتوں کی ذاتی پسند و ناپسند ہونی چاہئے۔ تاہم پابندی کا قانون بنانا غلط ہوگا۔ مقررین کی رائے تھی کہ اس سلسلے میں کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔ اظہار خیال کرنے والوں میں علامہ نثار بیگ قادری، اکرم قائم خانی، محمد اقبال، علامہ فضل احمد قادری، علامہ احمد نثار بیگ قادری، تنویر زمان خان،شاید علی سید، قاضی محمد عبداللطیف، علامہ محمد اسمعیل، امین مرزا، شاذ محمود، نسرین سید، سحر حسن، نمروز خان،راشد حسن، حنا ملک، عدنان خان، ساحر محمود، امتیاز خان، داﺅد مشہدی، اصغر احمد، اشفاق احمد، گلفام حسین، ثمینہ قاضی اور شیخ محمد جمیل شامل تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...