ہفتہ، 25 نومبر، 2017

آج کا پاکستان - عاشق ہمدانی

   آج کا پاکستان.پاکستان میں علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ ہی اِنکےسیاسی اثرات  کو اہمیت دی جاتی ہے. .تاریخی لحاظ سے پنجاب  میں ریاست اور مذہب پر تنازعات، جس میں سول -  فوجی تعلقات ,  فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہو رہے ہیں  سندھ، خیبر پختونخواہ،بلوچستان کے مسائل، قومی سوال اور قوم پرستی سے تعلق رکھتے ہیں. اگر ریاست کی بااختیار اشرافیہ بنیادی مسائل کا جواب نہیں دے رہی تو،  پاکستان کو بلکنائزیشن اور لبنانزیشن کے چیلنج سامنا کرنا پڑےگا.  پاکستان کے علاقائی رجحانات  ثقافتی، لسانی تقسیم پنجاب سندھ، خیبر پختونخواہ،بلوچستان  قبائلی علاقہ جات، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان میں شامل   ہے.آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان  کےعلاقے ہیں  باقاعدہ پاکستان میں شامل نہیں  اور ان کی آزاد حیثیت برقرار ہے  لیکن اس کے باوجود یہ علاقے عملی طور پر پاکستان کے زیرِ اختیار ہیں, پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے جس میں بڑی قومیں پنجابی، سندھی، بلوچ اور پختون آباد ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی  کثیر القومی اور ثقافتی شناخت کومسخ  کر دیا گیا۔
 1947ء سے 1956ء تک پاکستان میں بادشاہت کا ایک موروثی  نطام تھا ۔  پاکستان بادشاہ   جارج ششم اور ملکہ ایلزبتھ دوم  کے زیادہ تر آئینی اختیارات پاکستان کے گورنر جنرل کو سونپے گئے تھے۔ شاہی جانشینی کو 1701ء کے انگریزی ایکٹ کے ذریعے کنٹرول کیا گیا تھا۔ گورنر جنرل قیام پاکستان کے بعد تاج برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت سے ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ تھا۔ گورنر جنرل 1947ء سے 1952ء تک شاہ جارج ششم اور 1952ء سے 1956ء تک ملکہ ایلزبتھ دوم کا نمائندہ قرار دیا جاتا تھا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد بھی تعزیرات ہند 1935ء کے قوانین کا تسلسل جاری رہا جس کے تحت آئین کی تیاری تک آئینی بادشاہت جاری رہے گی۔ اس میں شاہ وزير اعظم کی مشاورت سے گورنر جنرل کا تقرر کیا کرتا تھا اور گورنر جنرل ملک میں شاہ/ملکہ کا نمائندہ ہوتا تھا۔  پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اپنی وفات 11 ستمبر 1948ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔1956ء میں  گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ صدر پاکستان کے عہدہ نے لے لی اور اس وقت کے گورنر جنرل اسکندر مرزا ملک کے پہلے صدر قرار پائے۔ بادشاہت 23 مارچ 1956ء کو ختم کر دی گئی
 سرد جنگ میں  امریکی  بین الاقوامی سیاسی شراکت دارجاگیردارانہ سیاسی جماعتیں، فوجی اشرافیہ ، جنرل ایوب خان  چوہدری غلام محمد، سکندر مرزا، چوہدری محمد علی  اور مشتاق احمد گورمانی ، مذہبی، انتہا پسندی اور واہبیت جسے آخر میں کارٹر انتظامیہ  کے سیکورٹی مشیرپولش امریکی یھودی برزسنکی نے سعودی عرب ، خلیجی حکمرانوں  اور جنرل ضیا الحق کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو تباہ کرنے کے لئے پاکستان کو استعمال کیا۔ امریکہ  کی  وفادار کلونیل طرز پر  ریاست کی تشکیل  میں  پاکستانی عدلیہ جسٹس محمد منیر  سے جسٹس انوارالحق تک غیر آئینی اور غیر قانونی سازشوں  میں شامل رہی ۔
 آج پاکستان کو اس حکمت عملی کے نتائج کا سامنا ہے  ۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے پاکستان کو اپنی  کثیر القومی اور ثقافتی شناخت  پر واپس آنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان انتظامی طور پربکھرے ہوئے خطے میں عوام کی طاقت کے بغیر برطانوی حکومت کی جانب سے تقسیم ہند  اور سرحدوں کی تشکیل  میں جلد بازی کے ساتھ قایم  کیا گیا، جون 1947 میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے رہنماؤں محمد علی جناح اور جواہر لال نہرو نے اس منصوبے پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔  برطانوی جج سر سرل ریڈکلف کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحدوں کی تشکیل کے لیے بلایا گيا۔  انھیں دو سب سے طاقتور اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبوں پنجاب اور بنگال کو تقسیم کرنا تھا۔ریڈکلف اس سے پہلے نہ کبھی انڈیا آئے تھے اور نہ کبھی واپس لوٹے۔ جو سرحدوں انہوں نے طے کیں اس سے لاکھوں ہندو، مسلمان اور سکھ متاثر ہوئے۔ جلدی میں کی گئی اس تقسیم کے آنے والے دنوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے، ہزاروں خواتین کو اغواء کرلیا گیا اور ایک کروڑ سے زیادہ لوگ اچانک مہاجر بن گے  ۔
خطہ پنجاب بھارت اور پاکستان میں موجود بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب میں منقسم ، تاریخی طور پر برصغیر کے اہم خطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔پنجاب خطے کے مشرق میں ہماچل پردیش،ہریانہ اور راجستھان  ، مغرب میں پشتون ،شمال میں کشمیر اور جنوب میں سندھ واقع ہے۔ 1849 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے برطانوی ہندوستان میں شامل کیا۔ پنجاب برطانوی ہندوستان میں شامل ہونے والے آخری علاقوں میں سے ایک ہے۔یہ پانچ ڈویژنز لاہور، دہلی، جالندھر ،راولپنڈی، ملتان اور بہت سی نوابی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ 1947 کی ہونے والی تقسیم ہند کے نتیجے میں پنجاب کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا گیا مشرقی پنجاب بھارت کے حصے میں آیا اور مغربی پنجاب پاکستان کے حصے میں آیا۔ موجودہ دور میں اس میں بھارتی پنجاب، چنڈی گڑھ، دہلی، ہریانہ، ہماچل پردیش اور پاکستانی پنجاب، اسلام آباد پوٹھوہار,لاہور، سرائیکی علاقےشامل ہیں
1843 میں برطانیہ نے دو مقاصد کے لئے سندھ فتح کیا. . برطانیہ نے سندھ کے اپنے اقتدار میں  تھے: برطانوی حکمرانی کو مضبوط بنانا برطانوی  تاجروں کو خام مال حاصل  کے لئے بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنا۔ ۔بمبئی پریزیڈنسی  اور سندھ 1843 تا 1936 تک برطانوئی ہند کا انتظامی لحاظ سے ایک سب ڈویشن تھا۔اس صوبے میں موجودہ بھارت کے ریاست جرات،مہارشٹرا اور کرناٹکا کے علاقے اور پاکستانی سندھ اور یمن کے زیرانتظام عدن کالونی شامل تھی۔ اس کا دارلخلافہ بمبئی شہر ہوا کرتا تھا۔وادیٔ سندھ کی تہذیب 3300 سے 1700 قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وادیٔ سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر شروع ہوئی۔ اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذيب کے آثار ملے ہیں۔ اس تہذيب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیٔ سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔
سوتی کپڑا کہ جسے انگریزی میں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ کاٹن انہی کے لفظ کاتنا سے بنا ہے۔ شکر اور شطرنج دنیا کے لیے اس تہذیب کے انمول تحفے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب کی دولت نے ہزاروں سال سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیاد آریاؤں نے 1500 ق م میں ڈالی تھی ۔ اس سے پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے ۔ مگر بعد کی تحقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ ہزار پیچھے کردیا ۔ ایک طرف موہنجودڑو اور ہڑپا کے آثار اور سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہ آریوں کے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔
 خیبر پختونخواہ میں برطانیہ اور روس کے درمیان جنوبی ایشیاء پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے کئی تصادم ہوئے. جس کے نتیجے میں افغانستان کی تقسیم واقع ہوئی. افغانوں سے دو جنگوں کے بعد برطانیہ 1893ء میں ڈیورنڈ لائن نافذ کرنے میں کامیاب ہوگیا. ڈیورنڈ لائن نے افغانستان کا کچھ حصہ برطانوی ہندوستان میں شامل کردیا. ڈیورنڈ لائن، سر مورتیمر ڈیورنڈ کے نام سے ہے جو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے معتمدِ خارجہ تھے. افغان ڈیورنڈ لائن کو ایک عارضی خط جبکہ برطانیہ اِس کو ایک مستقل سرحد سمجھتے تھے. یہ سرحدی خط قصداً ایسے کھینچی گئی کہ پختون قبیلے دو حصوں میں بٹ گئے. برطانیہ جس نے جنوبی ایشیاء کا باقی حصہ بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کرلیا تھا، یہاں پر اُسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. پشتونوں کے ساتھ پہلی لڑائی کا نتیجہ بہت بُرا نکلا اور برطانوی فوج کا صرف ایک سپاہی جنگِ میدان سے واپس آنے میں کامیاب ہوا جبکہ برطانوی فوجیوں کی کل تعداد 14,800 تھی. خطے میں اپنی رِٹ قائم رکھنے میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا کھیل شروع کیا. برطانیہ نے اِس کھیل میں کٹھ پتلی پشتون حکمران صوبہ خیبر پختونخوا میں بھیجے. تاکہ پشتونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوسکے. باوجود اِس کے، موقعی پشتون حملے ہوتے رہے مثلاً محاصرۂ مالاکنڈ.صوبہ خیبر پختونخوا 9 نومبر 1901 کو بطورِ منتظمِ اعلٰی صوبہ بنا. اور اس کا نام صوبہ سرحد رکھا گیا۔ ناظمِ اعلٰی صوبے کا مختارِ اعلٰی تھا. وہ انتظامیہ کو مشیروں کی مدد سے چلایا کرتا تھا. صوبے کا باضابطہ افتتاح 26 اپریل 1902ء کو شاہی باغ پشاور میں تاریخی ‘‘دربار’’ کے دوران ہوا جس کی صدارت لارڈ کرزن کررہے تھے. اُس وقت صوبہ خیبر پختونخوا کے صرف پانچ اضلاع تھے جن کے نام یہ ہیں: پشاور، ہزارہ، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان. مالاکنڈ کی تین ریاستیں دیر، سوات اور چترال بھی اس میں شامل ہوگئیں. صوبہ خیبرپختونخواہ میں قبائل کے زیرِ انتظام ایجنسیاں خیبر، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان بھی شامل تھیں. صوبہ خیبر پختونخوا کے پہلے ناظمِ اعلٰی ہرولڈ ڈین تھے.
صوبہ خیبر پختونخوا ایک مکمل حاکمی صوبہ 1935ء میں بنا. یہ فیصلہ اصل میں 1931ء میں گول میز اجلاس میں کیا گیا تھا. اجلاس میں اِس بات پر اتفاقِ رائے ہوا تھا کہ صوبہ سرحد کا اپنا ایک قانون ساز انجمن ہوگا. اِس لئے، 25 جنوری 1932ء کو وائسرائے نے قانونساز انجمن کا افتتاح کیا. پہلے صوبائی انتخابات 1937ء میں ہوئے. آزاد اُمیدوار  صاحبزادہ عبدالقیوم خان صوبے کے پہلے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے.
بلوچستان چیف کمشنر صوبہ  برطانوی ہند اور بعد میں پاکستان کا ایک صوبہ ، جو موجودہ صوبہ بلوچستان کے شمالی حصوں پر مشتمل ہ اصل میں رابرٹ سینڈمین اور خان قلات کے درمیان تین معاہدوں کے بعد 1876-1891 کی مدت میں قائم کیا گیا۔ رابرٹ سینڈمین برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان واقع برطانوی زیر انتظام علاقوں کا پولیٹیکل ایجنٹ بن گیا۔ کوئٹہ میں ایک فوجی چھاونی قائم کی گئی جس نے دوسری اور تیسری افغان جنگ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ صوبہ 1947ء میں پاکستان کا حصہ بن گیا ہے جو چیف کمشنر کے زیر انتظام تھا۔ 1955ء میں اسے تحلیل کر کر دیا گیا اورچیف کمشنر صوبہ، بلوچستان ریاستی اتحاد اور گوادر کو ملا کر نیا صوبہ بلوچستان قائم کیا گیا۔ بلوچستان ریاستی اتحاد جنوب مغربی پاکستان کے علاقے میں 3 اکتوبر 1952ء اور 14 اکتوبر 1955ء کے درمیان موجود ریا۔ یہ اتحاد ریاست قلات، ریاست خاران، ریاست لسبیلہ اور ریاست مکران کے درمیان قائم ہوا اور اسکا دارالحکومت قلات شہر تھا۔ اتحاد عمومی طور پر موجودہ صوبے بلوچستان کا تقریبا نصف تھا۔ اتحاد میں گوادر شامل نہیں تھا جو سلطنت عمان کے تحت تھا۔اتحاد کے سربراہ کا لقب خان اعظم تھا جو خان آف قلات تھا۔ مرکزی گورننگ باڈی خان اعظم، جام لسبیلہ، نواب خاران اور نواب مکران پر مشتمل تھی۔
گوادر اور اس کے گرد و نواح کی تاریخ بہت پرانی ہے۔یہ علاقہ وادی کلانچ اور وادی دشت بھی کہلاتا ہے اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے۔ یہ مکران کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت کا حا مل رہا ہے۔ معلوم تاریخ کی ایک روایت کے مطابق حضرت داﺅد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کر کے وادی مکران کے علاقے میں آگئے ۔مکران کا یہ علاقہ ہزاروں سال تک ایران کا حصہ رہا ہے۔ ایرانی بادشاہ کاﺅس اور افراسیاب کے دور میں بھی ایران کی عملداری میں تھا ۔325قبل مسیح میں سکندر اعظم جب برصغیر سے واپس یونان جا رہا تھا تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا اس کی بحری فوج کے سپہ سالار نے اپنے جہاز اس کی بندرگاہ پر لنگر انداز کیے اور اپنی یادداشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کو قلمات ،گوادر، پشوکان اور چابہار کے ناموں سے لکھا ہے۔ اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر اعظم نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنے ایک جنرل کو یہاں کا حکمران بنا دیا جو303قبل مسیح تک حکومت کرتا رہا ۔303ق م میں برصغیر کے حکمران چندر گپت نے حملہ کر کے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کر لیا مگر 100سال بعد 202ق م میں پھر یہاں کی حکمرانی ایران کے بادشاہوں کے پاس چلی گئی ۔ 711عیسوی میں مسلمان جنرل محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کر لیا۔ ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا جب کہ 16ویں صدی میں پرتگیزیوں نے مکران کے متعدد علاقوں جن میں یہ علاقہ بھی شامل تھا پر قبضہ کر لیا۔ 1581ءمیں پرتگیزیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو جلا دیا ۔ یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بلیدی حکمران رہے تو کبھی رندوں کو حکومت ملی کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گچ کیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔مگر اہم حکمرانوں میں بلیدی اورگچ کی قبیلے ہی رہے ہیں۔ بلیدی خاندان کو اس وقت بہت پذیرائی ملی جب انھوں نے ذکری فرقے کو اپنالیا اگرچہ گچ کی بھی ذکری فرقے سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔1740ء تک بلیدی حکومت کرتے رہے ان کے بعد گچ کیوں کی ایک عرصہ تک حکمرانی رہی مگر خاندانی اختلافات کی وجہ سے جب یہ کمزور پڑے تو خان قلات میر نصیر خان اول نے کئی مرتبہ ان پر چڑھائی کی جس کے نتیجے میں ان دونوں نے اس علاقے اور یہاں سے ہونے والی آمدن کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ 1775ء کے قریب مسقط کے حکمرانوں نے وسط ایشیاء کے ممالک سے تجارت کے لیے اس علاقے کو مستعار لے لیا اور گوادر کی بندر گاہ کو عرب علاقوں سے وسط ایشیاء کے ممالک کی تجارت کے لیے استعمال کرنے لگے جن میں زیادہ تر ہاتھی دانت اور اس کی مصنوعات ، گرم مصالحے ، اونی لباس اور افریقی غلاموں کی تجارت ہوتی تھی ۔   پاکستان  کو اس بحران سے نجات دلا نے کیلے جدید مغربی فکر کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والے قرونِ وسطٰی کے مسلمان حکما ابوبکر رازی( 932ء )اور ابن رشد (1126-1198ء)کے افکار سے آج بھی راہنماھی حاصل کر سکتےہیں۔ رازی اسلاف پرستی کے سخت خلاف ہے۔وہ منقولات کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ عقل اور تجربے کو علم کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے اسکی سوچ کا انداز عوامی تھا وہ کہتا تھا کہ عام لوگ بھی اپنے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور سائنسی سچائیوں کے ادراک کے اہل ہیں ۔اسکا قول تھا کہ ہم کو مذہب پر تنقید کا پورا حق حاصل ہے ۔وہ معجزوں کا منکر تھا کیونکہ معجزے قانون قدرت کی نفی کرتے ہیں اور مذاہب عموماً  لوگوں میں نفرت وعداوت پیدا کرتے ہیں۔وہ معاشرے کے بارے میں افلاطون کی کتاب’’ تماؤس‘‘ کے ارتقائی تصور سے اتفاق کرتا تھااور اقتصادی پہلو کو اہمیت دیتے ہوئے تقسیم کار کی افادیت پر زور دیتا تھا۔  ابن رشد تو طبیب تھا لیکن یورپ میں اسکی شہرت کی وجہ فلسفہ تھا ،بلخصوص ارسطو کی شرحیں۔ابن رشد بارہویں صدی سے سولہویں صدی تک یورپ میں سب سے غالب مدرسہ ء مفکر تھا حالانکہ عیسائی پادری اسکے سخت خلاف تھے ۔ابن رشد تعلیمات کا لب و لباب یہ تھا: ۔کائنات اور مادہ ابدی اور لافانی ہیں ۔ خدا دنیاوی امور میں مداخلت نہیں کرتا۔عقل لافانی ہیں اور علم کا زریعہ ہیں۔
خالدہ ادیب خانم ترکی کی زہنی پسماندگی اور قدامت پسندی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’جس وقت مغرب نے روایت پرستی کی زنجیروں کو توڑا اور نئے علم اور سائنس کی طرح ڈالی تو اسکا اثر یہ ہوا کہ دنیا کی شکل بدل گئی مگر اسلام کا مذہبی جسد اپنے تعلیمی فرائض کی ادائیگی میں سراسر ناکام رہا۔علماء اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ انسانی علم و حکمت تیرھویں صدی سے آگے نہیں بڑھی ہے۔ انکا یہ اندازِ فکر انیسویں صدی تک بدستور قائم رہا۔ عثمانی علماء نے ترکی میں نئی فکر کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا وہ جب تک مسلم قوم کی تعلیم کے نگراں رہے انہوں نے اسکا پورا پورا بندوبست کیا کہ تعلیمی نصاب میں کوئی نئی فکر داخل نہ ہونے پائے لہٰذا علم پر جمود طاری ہوگیا۔مزید برآں یہ حضرات ملکی سیاست میں اس درجہ الجھے ہوئے تھے کہ انکو اصلاحا ت پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ مدرسے وہیں رہے جہاں وہ تیرھویں صدی میں تھے‘‘
آآآ سیاسی کارکنوں اور سماجی تنظیموں کے پیشہ ور ماہرین کے اشتراک سے ایک متبادل ماڈل تیسری دنیا  کے ممالک کی پائیدار ترقی ، بین االقوامی تعلقات، پیشہ وارانہ تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی،  کیپٹل مارکیٹس، مائیکرو فنانس، اکنامک گورننس ،  سماجی احتساب،انسانی وسائل کے لیے تربیت، ووکیشنل ٹریننگ، میڈیا اور سول سوسائٹی عالمگیریت پر مبنی سماجی ترقی میں اہم اوزارہیں۔  کارپوریٹ اجارہ داری اور تنگ نظری کے خلاف ورلڈ سوشل فورم یا وال سٹریٹ قبضہ جیسی  تحیریکیں سماجی تنظیموں کی سیاسی جدوجہد ہی ہے۔  چند بنیادی سوالوں کی حامل متنوع مہارت کے ساتھ، پائیدار ترقی اور جمہوری معاشرے کی  تشکیل  کے لیےآج پاکستان کو متوسط طبقے کےدانشوروں، ماہرین اور ٹریڈ یونین  پرمشمتمل  نئی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔
 اہم  بین االقوامی مسائل، قدرتی وسائل ماحولیاتی نظام ،غربت، ناخواندگی تجارت ، سرمایہ کاری، اقتصادی پالیسی، موسمیاتی تبدیلی ؛توانائی اورپائیدار ترقی میں ٹیکنالوجی کے کردار، یونیورسٹیوں، اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے مراکز سے منسلک سرگرمیوں  پر مہارت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری  اداروں اور مینوفیکچررز  پائیدار ترقی میں  سیاست، گورننس کے نئے امکانات فراہم کر تے ہیں۔ اقوام متحدہ گلوبل کمپیکٹ شہر پروگرام پائیدار سیاسی ترقی ریاستوں اور حکمرانی کے ایک طریقہ کی وضاحت کی ہے۔  قانونی اور ریگولیٹری سے متعلق سماجی زندگی،  انسانی حقوق، سیاسی طریقوں اور سماجی طاقت کے بنیادی مسائل کے حوالے سے  سیاسی ، اقتصادی ماحولیاتی اور ثقافتی چیلنجزکے لئےاداروں اور عوام کے درمیان تنظیم  حکمرانی، قانون ، انصاف ، ابلاغیت، تنقید  نمائندگی، مذاکرات  سلامتی ، معاہدے ۔مذاکرات اور مفاہمت  پر مبنی معیارات   سوالات اٹھاتے ہیں۔
پائیدار ماحولیاتی نظام  انسانوں اور ان کے قدرتی، سماجی اور تعمیری ماحول کے درمیان تعلق کا حصہ ہے. ماحولیات اور
انسانی صحت  پائیدار ترقی میں شامل ہیں. اس طرح ہوا، پانی، خوراک ، پناہ کی دستیابی اور بنیادی انسانی ضروریات
 بھی پائیدار ترقی کے لئے ماحولیاتی بنیادیں ہیں۔  پائیدار زراعت انسانی یا قدرتی نظام کو پہنچانے والے نقصان کے بغیر فصلوں یا مویشیوں کی پیداوار جو کاشتکاری کے .ماحول دوست  طریقوں پر مشتمل ہوتا  ہے۔  پائیدار توانائی ہائیڈروپاور، ونڈ پاوراور شمسی توانائی بیشتر ممالک استعمال کر رہے .ہائیڈرو اور ونڈ پاور، توانائی کے حصول میں عظیم وسائل رکھتی ہیں
متوسط طبقے کےدانشوروں اور ماہرین پرمشمتمل  مجوزہ نئی سیاسی قیادت کے مقاصد اور اهداف  پر مبنی  تھنک ٹینک کا قیام جو  سیاسی تبدیلی، اقتصادی ماحولیاتی اور ثقافتی ترقی کے لئے درج ذیل  اداراتی سوالات پر  بحث شروع کر سکے:
  اقوام متحدہ کے ڈیکلیریشنز، چارٹر ، کنونشن ، امن و سلامتی، اور ترقی کے لئے علاقائی اور کثیرالجہتی طرز عمل،  کشمیر تنازعہ،بھارت تجارت  پاکستان چین تجارتی راہداری، انسانی حقوق، ترقی، بین المذاہب اور بین الثقافتی ہم آ ہنگی معیشت؛ سماجی ، سیاسی  اور تعلیمی  اصلاحات، معیار زراعت وخوراک ۔ پیداوارکی تصدیق،  صارفین کے حقوق تحفظ،  کارپوریٹ سول سوساٹیئ شراکت داری،  فارمنگ، زرعی اصلاحات، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ،ہائی ٹیک، توانائی، ماحولیات، شپنگ، صنعتی، زراعت، سیاحت،  اور دیگر فنی اور پیشہ ورانہ مہارت کےتعلیمی اداروں کا قیام؛  سماجی انفراسٹرکچر، انسانی وسائل، صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین بہتری کے مواقع ،  کمیونٹی ہیلتھ، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی، شہری منصوبہ بندی،  شہری / صنعتی ویسٹ مینجمنٹ، جانوروں / جنگلی حیات کے بارے میں شعور، دیہی علاقوں اور شہری بستیوں مین صاف پانی  بنیادی تعلیم،  حفظان صحت، صفائی اور معیار زندگی  سمیت ضرورت مند غریبوں اور مفلسوں، بچوں نوجوانوں اور خواتین  کے لئے  مائیکروفنانس،ایس ایم ای، کاروباری انکیوبیٹرزاقدامات واہداف
 پاکستان جنوبی ايشياء کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع 20 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا چھٹا بڑی آبادی اورچھتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔  یہ ایک متنوع کثیر الثقافتی مملکت ہے جسکے نامیتی اظہار باہم متصادم رہے ہیں۔پاکستان کی وفاقی اکایاں تاریخی طور پر مشترکہ اقدار کی حامل نہین ہیں۔ پاکستان کو ایک کثیر القومی ریاست ، جس میں پنجابی، سندھی، بلوچ اور پختون قوم  کی وفاقی اکایاں  ہزارہ،  ڈیرہ اسماعیل خان ، سرائیک، پوٹھوہار، تقسیم ہند کا مہاجر مسئلہ،افغان پناہ گزینوں، سٹاک ایکسچینج، فنانس، مواصلات، صنعت، نقل و حمل، میڈیا، فنون لطیفہ، فلم،  سافٹ وئیر، طبی تحقیق، تعلیم، سیاحت اور دیگر اہم معاشی شعبوں میں زوال پزیراشاریے ، بحران کی شدت میں اضافہ کررہے  ہیں۔  ریاست اور مذہبیت، عسکریت پسندی، مخامصمانہ خارجہ پالیسی، فرقہ وارانہ رشتوں میں تبدیل ہوتےہوے سول فوجی تعلقات اورقومی سوال سے جڑے ہوے لبناننائزیشن اور بلیکنائزیشن خانہ جنگی کے خدشات  کثیر القومی ریاست  کی تشکیل  نو، اقتصادی ترقی اورسیکولرسیاسی اور تعلیمی  اصلاحات ؛ جمہوری عمل  ماحولیاتی اور ثقافتی پائیداری کی بدعنوانی اور اقربا پروری کے خلاف  تنظیم،تعلیم،سوچ  اور جدوجہد کےزریعے قابو پاکرہی دور کیے جا سکتے ہیں۔

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...