اتوار، 2 ستمبر، 2012

بھگت سنگھ کا79واں یوم شہادت تحریر: ہر دل کمار


 سرفروشی تمنا ہے انقلاب منزل ہے 

یوں توہر روز ہزاروں لاکھوں انسان اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور اتنے ہی یا اس سے کم مر جاتے ہیں۔لیکن کچھ لوگ صرف پیدا ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی نظریاتی سچائی کی وجہ سے امر ہوجاتے ہیں۔بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی بھی ایسے ہی انقلابی تھے بھگت سنگھ 1857ئ کی جنگ آزادی کے پچاس سال بعد 27ستمبر1909ئ کو پنجاب کے ضلع فیصل آباد لائل پور کے بنگاں گاو ¿ں میں ایک سیاسی وسماجی شعوررکھنے والے گھر میں پیدا ہوا۔ وہ کشن سنگھ کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔اس کی پیدائش کے وقت اس کے والد اورچچا دونوں انگریزوں کی جیل میں تھے برطانوی سرکا رپنجاب کے نہری علاقے کی زمین کے بارے میں ایک نیا قانون نافذکرنا چاہتی تھی۔اس قانون کے خلاف کسانوں کی تحریک میں اس کے والد نے حصہ لیا تھا۔اسی جرم کی پاداش میں وہ لاہور سنیٹرل جیل میں تھے۔اس کے چچا اجیت سنگھ سال ہاسال سے برطانوی حاکمیت کے خلاف جدوجہدکر رہے تھے۔ اور برما کی ماندلے جیل میں نظربند تھے۔بھگت سنگھ نے ایک وطن سے محبت کرنے والے بہادر خاندان میں پرورش پائی وہ ان قوم پرستوں کی کہانیاں سن سن کر بڑاہوا۔جو مادروطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔

 

غدر پارٹی میں شامل ہو کر آزادی کی جدوجہد کرنے والے انیس سالہ نوجوان کرتارسنگھ سرابھا کو 13ستمبر 1915ئ کو پھانسی دے دی گئی ، پنجاب کا ہر گاو ¿ں اس کی بہادری اور جانثاری کی کہانیوں سے گونج رہا تھا۔اس واقعہ نے کم سن بھگت سنگھ پر گہرااثر ڈالا ،وہ بچپن میں کرتارسنگھ سرابھا کی تصویر ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتاتھا اس نے اپنی ماں کے سامنے عہدکیا تھا کہ وہ کرتارسنگھ سرابھا کی طرح وطن کی آزادی کی راہ میں قربان ہو جائے گا۔بھگت سنگھ کی اس لگن اس کی سچائی اس کے تصورات ونظریات اوراس کی عملی جدوجہد کو سمجھنے کے لئے ہندوستان کے سیاسی معاشی اور سماجی حالات کو جاننا اور عالمی صورتحال کو سمجھنا بھی ضروری تھا،1917ئ میں انقلاب روس برپا ہوا اس سے ساری دنیا سرخ آندھی کی لپیٹ میں تھی تو ہندوستان بھلا کیسے بچ سکتاتھا آئرلینڈ کی تحریک آزاد ی نے بھی بھگت سنگھ کو متاثر کیا۔ بھگت سنگھ نے 

 

اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا اسی کالج میں بھگت سنگھ کی ملاقات سکھ دیو سے ہوئی یہاں سے 1922ئ میں نیشنل کالج سے انٹر کیا۔اس دورکے ہندوستان کے سامنے بڑے کھٹن مسائل تھے بہت سوالات تھے نوجوان طبقہ اکثر آزادی پر بحث میں الجھارہتاتھا بھگت سنگھ کا حال بھی ان سے مختلف نہیں تھا۔وہ ان مسائل کے بارے میں سوچتارہتاتھا بے شمار سوالات اس کے ذہن میں اٹھتے تھے جن کا کوئی آسان جواب نہیں تھا اسے شدید احساس تھا کہ ان مسائل کا علم حاصل کیے بغیر کتابیں پڑھے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا اورجب اس نے کتابیں پڑھنی شروع کیں توعلم کی ایک وسیع دنیا اس کے سامنے تھی۔اس کا جوشیلا مزاج اس کے لہو میں رچے سوالوں کا جواب چاہتاتھا کرتارسنگھ سرابھاکی پھانسی کی سزا جلیاں والا باغ کا قتل عام ہندوستان کی غلامی کی زنجیر اوراہل ہند کی بدحالی یہ سب اسے بے چین کر کے رکھ دیتے تھے۔دہلی بم کیس اورلاہور سازش کیس کی وجہ سے بھگت سنگھ باتوکشور دت اوران کے انقلابی ساتھیوں کو ہندوستان میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ ہزاروں نوجوان اورطالب علم بھارت سبھا اور 

H.S.R.Aمیں دلچسپی لے رہے تھے ہند کے کئی شہروں میں ان پارٹیوں کی نئی شاخیں قائم ہوئی تھیں۔ 

 

جلیانوالا باغ میں قتل عام 13اپریل 1919 ئ  

 

جلیانوالا باغ ایک وسیع میدان تھا جوچاروں طرف رہائشی عمارتوں سے گھراہوا تھا۔اس دن بیساکھی کا میلہ بھی تھا اور عموماً کسان یہ تہوار منانے امرتسر آیا کرتے تھے اس دن گاو ¿ں سے آئے ہوئے بہت سے کسان اپنے بچوں کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوئے تھے امرتسر شہر کے ہزاروں لوگ جلسے میں شریک ہونے کے لئے آرہے تھے ان میں ہندو،مسلمان اور سکھ سبھی شامل تھے جلسہ شروع ہی ہوا تھا کہ جنرل ڈائر اور پچاس گورکھا سپاہی میدان میں داخل ہوئے جنرل ڈائر تومزید سپاہی اور توپیں لے کر آیا تھا لیکن باغ کا دروازہ چھوٹا تھا اس لئے انہیں باہر چھوڑنا پڑا تھا اس میدان میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ تھا سپاہی یہ راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اس وقت شام کے پانچ بج رہے تھے آسمان صاف تھا ہوا میں موگرے اور سرموں کی خوشبو رچی ہوئی تھی جنرل ڈائر نے بغیر وارننگ دیئے نہتے شہریوں پر فائرنگ کرنے کا حکم دے دیا آخر فائرنگ رک گئی کیونکہ گولیاں ختم ہو چکی تھیں منٹوں میں جلیاں والا باغ خون میں نہا چکا تھا۔چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔لاشیں اور زخمی رات بھر وہیں پڑے رہے شہر ہتھیاروں سے لیس برطانوی فوج کے قبضے میں تھا ہزاروں ہندوستانی قتل کر دیئے گئے۔ 

 

اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے ان مرنے والوں میں چند مہینوں کے بچوں سے لے کر بوڑھے تک شامل تھے ان میں ہندواور مسلمان ،سکھ اور عیسائی بھی تھے ان کا جرم کیا تھا یہی کہ وہ غلام ہندوستانی تھے۔ فائرنگ کی خبر پہلے امرتسر میں پھر پورے پنجاب میں اور سارے ہندوستان میں پھیل گئی۔ پنجاب کے گورنر جنرل نے پنجاب میں سخت مارشل لائ نافذکر دیا اس قتل عام کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بڑے شرمناک مظالم ڈھائے گئے گوجرانوالہ ،لاہور ،قصور،وزیر آباد اورامرتسر میں چوکوں پر ٹکٹکیاں نصب کر کے لوگوں کو سرعام کوڑے مارے گئے۔ 

 

سائمن کمیشن 

 

برطانوی سرکار نے 1927ئ میں ایک سائمن کمیشن کا تقررکیا اس کے تمام ارکان انگریز تھے سارے ملک میں اس کے خلاف جلسے جلوس اورمظاہر ے ہونے لگے سائمن کمیشن 30اکتوبر1928ئ کو ٹرین سے لاہورپہنچا ،نوجوان بھارت سبھا اوردیگر پارٹیوں نے اس کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ منظم کیا تھا اس مظاہرے سے ظفر علی خان اورلالا لجپت رائے خطاب کررہے تھے۔ ان پرامن مظاہرین پر انگریز ایس پی نے لاٹھی چارج کا حکم دیا وہ اس قدر غصے میں تھا کہ اس نے ایک سپاہی سے لاٹھی چھین کر خود بوڑھے لالالجپت رائے کو بری طرح سینے اور سر پر لاٹھیاں ماریں وہ ایسے زخمی ہوئے کہ پھر صحت مند نہ ہوسکے 

 

17نومبر1928ئ کو وہ شہید ہوگئے لالا جی کے قتل نے ہندوستانیوں میں ایک بے عزتی کے احساس کو بڑا گہرا کر دیا تھا H.S.R.Aکی ایک میٹنگ لاہور میں ہوئی جس میں یہ طے پایا کہ سارے انقلابی اس قومی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے انہوں نے جے اے اسکاٹ کو گولی سے اڑا دینے کا متفقہ فیصلہ کیا 

 

بھگت سنگھ راج گرو سکھ دیو چندر شیکھر آزادوہ سب مل کر 17دسمبر1928ئ کو پولیس آفس کے قریب پہنچے جے گوپال نے کئی دنوں سے پولیس آفس کی نگرانی کی تھی جے گوپال نے ساتھیوں کو اشارہ کر دیا راج گرو اور بھگت سنگھ نے اسے گولی کا نشانہ بنایا اور وہ سب فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے دوسرے دن صبح یہ سرخ پوسٹر اخبارات کے ساتھ تقسیم ہوئے اس پوسٹر میں کہا گیا تھا جے پی سانڈرس کی موت کے ذریعہ لالاجی کے قتل کا انتقام لے لیا گیا ہے۔ 

 

اسمبلی میں دھماکہ اوربھوک ہڑتال A.R.S.Hنے اپنے ایک اجلاس میں دہلی مرکزی اسمبلی میں بم پھینکنے کا فیصلہ کیا۔اس حملے کامقصد کسی کو مارنا ہر گز نہیں تھا بلکہ وطن کو خواب سے بیدار کرنا تھا ،انہیں غلامی کی ذلت کا احساس دلاکر غیر ملکی حملہ آور کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنا تھا انقلابیوں کو سانڈرس کی موت کے بعد اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک انگریز افسر کے ختم ہوجانے سے سرمایہ دارانہ نظام ختم نہیں ہو سکتا انقلابیوں نے بہت سوچ سمجھ کراس کام کیلئے باتوکشور دت اور بھگت سنگھ کا انتخاب کیا تھا کیونکہ وہ دونوں اس حملے کے بعد عوام کے سامنے انقلابیوں کے خیالات اور نظریات مناسب طریقے سے پیش کر سکتے تھے اس کے علاوہ وہ دونوں جیل میں اپنی نئی حکمت عملی طے کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔آنے والے وقت نے یہ ثابت کر دیا۔ سرکار کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ اکثریتی ووٹ سے ٹریڈڈسپیوٹس بل منظور کر لیا گیا ہے یہ سنتے ہی دت او ربھگت سنگھ دونوں کھڑے ہو گئے اورانہوں نے اسمبلی کے چندخالی بنچوں کی طرف دوبم پھینک دیئے۔پھر وہ دونوں وہیں کھڑے رہے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے انہوں نے اسمبلی کے اراکین کی طرف اپنے پمفلٹ بھی اچھال دیئے اس وقت اسمبلی میں محمد علی جناح اور موتی لال نہروبھی موجود تھے وہ سب خاموشی سے اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ بم سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا چند لوگ معمولی زخمی ہوئے تھے یہ ایک طاقت ور بم نہیں تھا اور اسے جان بوجھ کر خالی سیٹوں کی طرف سے پھینکاگیا تھا۔تاکہ کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہوا۔ یہ واقعہ اس قدر اچانک پیش آیا تھا کہ سب حیران رہ گئے تھے اوروہ دونوں آسانی سے فرار ہو سکتے تھے لیکن فرار ہونا ان کے پروگرام میں شامل نہیں تھا۔ ان دونوں نے خود اپنی گرفتاریاں پیش کیں ،وہ گرفتاری اورمقدمہ کو ہند میں آزاد ی اور انقلاب کے عظیم مقصد کے لئے استعمال کر نے کا عزم رکھتے تھے۔7مئی 1929ئ کو گرفتاری کے ایک مہینے کے بعد دت اوربھگت سنگھ کے خلاف دہلی اسمبلی بم کیس شروع ہوا عدالت کے بجائے ڈسٹرکٹ جیل دہلی میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس دوران جیل میں دت اوربھگت سنگھ نے غور سے اپنی حکمت عملی طے کی ان کا پہلا اور آخری مقصد یہی تھا کہ مقدمے کے نتائج کی پرواہ کیے بغیر آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنا ہے انہوں نے برطانوی جیل اورکورٹ کو اپنے خیالات او رتصورات کو عام کرنے کا ایک موثر ذریعہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا ان کے سامنے صرف ایک انگریز جج کی عدالت نہیں تھی۔ بلکہ پورا ہندوستان تھا اسکول وکالج اس کے کھیت کھلیان اس کے کارخانے ملیں اور اس زمین پر بسنے والے کروڑوں انسان تھے وہ ہر گھر اورہر دل کے دروازے پر دستک دینے کا حوصلہ رکھتے تھے وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ دشمن اپنے سیاسی مفادات کی خاطر سزاتوپہلے ہی طے کرلیتاہے۔ گاندھی عجیب وغریب بیانات دے رہا تھا جو بھگت سنگھ کی تعریف سے شروع ہوتے اور شدید مخالفت پر ختم ہو جاتے تھے وہ ان کے ذریعے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے جب گاندھی اور پٹیل 26مارچ کو ٹرین کے ذریعے پرانے کراچی شہر سے کوئی 12میل دور ملیر کے چھوٹے سے اسٹیشن پر اترے ،تو ان کو نوجوانوں کے ایک سخت مخالفانہ مظاہرے کا سامناکرنا پڑا ،ملیر کے ریلوے اسٹیشن پر نوجوان بھارت سبھا کے کارکن گاندھی واپس جاو ¿ ،بھگت سنگھ زندہ باد ،انقلاب زندہ باد ،گاندھی ازم مردہ باد ،سامراج مردہ باد کے نعرے لگارہے تھے۔ کہاجاتاہے کہ نوجوانوں نے کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے 

 

مظاہرین نے گاندھی کو کالے ہار اورکالے پھولوں کے گلدستے پیش کیے ،بھگت سنگھ سے پہلے اور اس کے بعد سبھی شہیدوں کو علی الصبح پھانسی پر چڑھایا گیا لیکن ان تینوں کے کیس میں اس اصول کو توڑا گیا اور انہیں 23مارچ کو شام 7:15پر پھانسی دے دی گئی۔ اگرچہ یہ واقعہ پوشیدہ رکھنے کے لئے کیا گیا تھا لیکن جیل کے عام قیدیوں کواس کا علم ہو گیا اورانہوں نے نعرے لگائے۔اس خوف سے کہ اگر لاشوں کو جیل سے باہر لے جایا گیا تو ہو سکتاہے کہ انقلابیوں کا کوئی چھپا ہواساتھی دیکھ لے اس لئے جیل کی پچھلی دیوار توڑ کر لاشوں کو فوری جلانے کے لئے فیروزپور لے جایاگیا وہاں رات کے اندھیرے میں ایک مشترکہ چتابنائی گئی کچھ وقت کے بعد ادھ جلی لاشوں کو ستلج کے پانی میں پھینک دیا گیا پولیس کے دستے چلے جانے کے بعد گاو ¿ں والوں نے مقامی پولیس کی مدد سے لاشوں کو جلانے کے بارے میں علم ہو گیا انہوں نے سچ کا اندازہ لگالیا تو انہوں نے لاشوں کو ندی سے نکالااور باقاعدہ ان کا سنسکار کیا۔سبھاش چندربوس نے کہا بھگت سنگھ آدمی نہیں انقلاب کی علامت تھا جس نے تمام ملک کو اپنی گرفت میں لینے والے انقلاب کے ولولے کو ایک عملی شکل بخشی ،جواہر لال نہرو نے اپنی آپ بیتی میں اسے ملک کے وقار اور حفاظت کی علامت قرار دیا۔ بھگت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ محنت کش ساتھیواب ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کو اکھاڑ دیں جوہماری نسلوں کو صدیوں سے برباد کر رہاہے۔ 


زندگی تم یہیں کہیں رہنا 

میں زمانہ بدل کے آتا ہوں 

(چنگاری ڈاٹ کام)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...