اتوار، 2 ستمبر، 2012

مارکس کا تصور بیگانگی (ایک تعارف), زاہد علی یوسف زئی,

 ہم ایک ایسی دنیا کے رہائشی ہیں جہاں ٹیکنالوجی کے ایسے شاہکار ہماری گرفت میں ہیں جن کے بارے میں گزشتہ معاشروں میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہمارا زمانہ، خلائی سفر، انٹرنیٹ اور جینیائی انجینئرنگ کا زمانہ ہے۔ ان تمام تر سہولیات کے باوجود آج ہم اپنے آپ کو اپنی ہی تخلیق کردہ قوتوں کے سامنے جتنا بے بس پاتے ہیں اتنا شاید ہی اس سے قبل ہم نے اپنے آپ کو کبھی بے بس سمجھا ہو۔ آج سے پہلے کسی بھی زمانے میں ہماری اپنی ہی محنت کے ثمرات خود ہمارے اپنے ہی وجود کے لیے اتنے خطرناک ثابت نہ ہوئے تھے کہ جتنے آج ہیں۔ اس لیے کہ یہ زمانہ اسلحہ کی دوڑ، عالمی حرارت ہذیری اور نیوکلیائی تباہ کاریوں کا بھی زمانہ ہے۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہم اتنی پیداوار کر سکتے ہیں جو کرہّ ارض پر موجود ہر شخص کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے نشوونما غربت کے باعث رک گئی ہے اور کروڑوں مزید ایسے ہیں جو بیماریوں کے ہاتھوں تباہ ہورہے ہیں۔ فطری دنیا کو قابو میں کر لینے کی بے پناہ قوت حاصل کرنے کے باوجود ہمارے معاشروں پر عدم تحفظ کا قبضہ ہے کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ معاشی بحران اور فوجی لڑائیاں انسانی زندگیوں کو نہ روکی جا سکنے والی قدرتی آفات کی نہ تھمنے والی قوت کی مانند ویران کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے ہمارے شہروں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وہ گنجان آباد ہوتے جارہے ہیں۔ ویسے ویسے ہی ہماری زندگیوں میں تباہی اور علیحدگی کے احساسات گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ کارل مارکس نے نظام میں موجود ان تضادات کو اس نظام کی اوائل عمری میں ہی پہچان لیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک طرف تو زندگی میں وہ صنعتی اور سائنسی قوتیں شروع ہو گئی ہیں جن کا پرانی انسانی تاریخ کے کسی دور میں گمان تک نہ گزرا تھا تو دوسری طرف تنزلی کے ایسے اثرات موجود ہیں جو رومن ایمپائر سے لاحق خطرات سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ہمارے زمانے میں ہر شے خود اپنے ہی تضادات سے بھری نظر آتی ہے۔ مشینری جیسے انسانی محنت کو بار آور کرنے اور اسے کم کرنے کی حیران کن طاقت حاصل ہے۔ آج انسان کو بھوکا مارنے اور ضرورت سے زیادہپ کام کرنے کا تماشا دکھارہی ہے۔ دولت کے لیے مچھیل چھبیلے ذرائع کو عجیب پراسرار سحر کے ذریعے طلب کے ذرائع میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ آرٹ کی فتح مندیاں ایسا لگتا ہے کہ کردار کی قیمت ادا کر کے حاصل کی جارہی ہیں۔“ مارکس نے اپنے تصور بیگانگی کو اس انسانی سرگرمی کی وضاحت کے لیے تشکیل دیا جو بظاہر ان غیر شخصی قوتوں کے پیچھے چھپ کر رہ گئی ہے کہ جنکا معاشرے پر قبضہ ہے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ کس طرح معاچرے کے وہ پہلو جنہیں ہم بذات خود آزاد اور فطری سمجھتے ہیں انسان کے ماضی کے افعال کا نتیجہ ہیں۔ ہنگری کے مارکسٹ Geory Lukacs کے نزدیک مارکس کا یہ نظریہ سماجی اداروں کی رجعت پسنداونہ غیر تاریخی اور فطری شکل و شباہت کو تحلیل کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ ان کے تاریخی ماخذات سے پردہ اٹھاتا ہے اور بتلاتا ہے جبکہ یہ سماجی ادارے ہر طرح سے تاریخ کے زیر نگیں ہوتے ہیں جس میں ان کا تاریخی کردار بھی شامل ہے۔ مارکس نے صرف یہ نہیں بتایا کہ انسان کے افعال مستقبل کی ایک ایسی دنیا بھی تشکیل دے سکتے ہیں جو سرمایہ داریت کے تضادات سے پاک ہو گئی۔ مارکس نے ایک ایسا مادی نظر یہ واضح کیا کہ جس نے نہ صرف ہمیں یہ بتایا کہ کس طرح سے معاشروں نے اپنے اندر بسنے والے انسانوں کو ڈھالا بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح سے ان معاشروں میں بسنے والے یہی انسان معاشرے کو بدلنے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ اس مادی نظریے نے یہ بتایا کہ کس طرح سے لوگ بیک وقت دنیا کی تخلیق بھی ہیں اور اس کے خالق بھی۔ مارکس کے نزدیک بیگانگی کی جڑیں نہ تو ذہن میں ہیں اور نہ مذہب میں۔ اس سے قبل کے فلسفیوں فیورباخ اور ہیگل کے نزدیک بیگانگی مذہب اور ذہن کی پیداوار تھی۔ مارکس نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ بیگانگی ایک ایسی شے ہے جس کی جڑیں اس مادی دنیا میں ہیں۔ بیگانگی کا مطلب ہے اختیار کو کھودینا، خاص طور پر محنت پر اختیار کھودینا۔ یہ جاننے اور سمجھنے کے لیے کہ مارکس کے تصور بیگانگی میں محنت نے اتنا مرکزی کردار کیوں ادا کیا۔ ہمیں پہلے مارکس کے انسانی فطرت کے بارے میں خیالات کو جاننا ہو گا۔ انسانی فطرت کیا ہے؟ مارکس نے اس عمومی نظریے کی مخالفت کی جس کے مطابق انسان تبدیل نہ ہونے والی والی مستقل فطرت رکھتے ہیں اور جو اس معاشرے سے الگ اپنا وجود رکھتی ہے جس میں وہ انسان رہتے ہیں اس نے یہ واضح کیا کہ کئی ایک خصوصیات جنہیں انسان کی نہ تبدیل ہونے والی فطرت سے منسوب کیا جاتا ہے وہ مختلف معاشروں میں بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں اس نے یہ ثابت کیا کہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے فطرت پر محنت کرنا ہی وہ واحد فطرت ہے جو ہر انسانی معاشرے میں ایک سی رہی ہے۔اس نے اسے ”انسانی بقا کے لیے فطرت کی مسلط کردہ ایک ہمیشہ زندہ رہنے والی شرط“ قرار دیا ہے۔ انسان کو، دوسرے جانوروں کی طرح، اپنی بقائ کے لیے فطرت سے جنگ کرنی پڑتی ہے، اس پر کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن شعوری محنت، انسانی محنت کو جانوروں کی محنت سے ممتاز کرتی ہے۔ مارکس نے اپنی کتاب ”سرمایہ“ کے شروع میں اس کی ایک مشہور وضاحت لکھی ہے۔ ایک مکڑی وہ کام کرتی ہے جو ایک جولاہے کے کام سے ملتے جلتے ہیں اور ایک شہد کی مکھی کا اپنے چھتے میں خانے بنانا ایک آرکیٹیکٹ کو سرہاتا ہے لیکن جو بات ایک گئے گزرے آرکیٹیکٹ تک کو ایک بہترین شہد کی مکھی سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آرکیٹیکٹ کسی بھی ڈھانچے کو حقیقت کا روپ دینے سے قبل اس کی تعمیر اپنے تصورمیں کرتا ہے۔ محنت کے ہر عمل کے اختتام پر ہمیں وہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے جو اس کے شروع ہوتے وقت محنت کش کے تصور میں پہلے سے موجود تھا۔“ Ernst fischer نے مارکس کے نظریے سے آگاہ کرنے والی اپنی ایک مفید کتاب ”کارل مارکس کا مطالعہ کیسے کریں۔ (How to read Karl Marks)“ میں واضح کیا گیا ہے کہ آخر انسانی محنت میں کیا بات منفرد ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چونکہ ہم فطرت پر شعوری طور پر کام کرتے ہیں اس لیے ہم اپنی کامیابیوں کو عملی شکل دیتے ہیں اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے پیداوار کے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانوں کی ایک تاریخ ہوتی ہے جبکہ حیوانوں کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی، (حیوانی نوع کی فطرت ایک ابدی دہرا? (Repitition) کا نام ہے جبکہ انسانی فطرت تبدیلی، ترقی اور کایا پلٹ ہونے سے عبارت ہے۔“ فطرت پر کام کرنے کا عمل نہ صرف فطری دنیا کو تبدیل کرتا ہے بلکہ محنت کش بھی اس سے تبدیل ہوتا ہے۔ مارکس نے سارا اس نظریئے پر زور دیا ہے جیسا کہ ”سرمایہ“ سے اخذ کردہ درج ذیل حوالے میں وہ کہتا ہے کہ ”اس طرح بیرونی دنیا پر کام کرنے اور اس کو تبدیل کرنے کیساتھ ساتھ وہ خود اپنی فطرت بھی بدلتا ہے۔ اپنی سوئی ہوئی قوتوں کو جگاتا ہے اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔“ پس محنت ایک ایسا شاندار عمل ہے جس کے ذریعے محنت کش اس دنیا کی تشکیل کرتا ہے اور اس کو ڈھالتا ہے جس میں وہ رہتا ہے اور محنت ہی وہ عمل ہے جو اس کی ایجاد کرنے اور تخلیق کرنے پر اکساتا ہے۔ مارکس نے ہماری شعوری محنت کی صلاحیت کو ہمارا نوعی وجود (Species Being) قرار دیا ہے۔ ہمارا نوعی وجود، ہمارا معاشرتی وجود بھی ہے۔ جیسا مارکس نے اپنے فلسفیانہ اور معاشی مسمورات (Economic & Philoroprical Manascripls) میں واضح کیا ہے۔ فرد ایک معاشرتی وجود ہے۔ لوگوں کو اپنی ذاتی ترجیحات سے قطع نظر کر کے ایک دوسرے کیساتھ تعلقات استوار کرنے پڑتے ہیں کیونکہ انہیں اس شے کو حاصل کرنے کے لیے کہ جو انہیں زندہ رکھنے کیلئے درکار ہے۔ مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔“ ؟؟؟؟ میں مارکس نے اس نقطے پر اس طرح سے زور دیا ہے کہ معاشرہ افراود سے مرکب نہیں ہے۔ معاشرہ دراصل ان روابط اور تعلقات کے مجموعے کا اظہاور ہے جن میں افراد بندھے ہوئے ہیں۔“ انسانیت محنت کے ذریعے طبعی دنیا سے اپنا تعلق قائم کرتی ہے۔ انسانیت خود بھی محنت کے ہی ذریعے ترقی کرتی ہے اور محنت ہی انسانوں کے باہمی تعلقات کا ذریعہ ہے۔ اس لیے محنت کے عمل کیساتھ جو کچھ پیش آتا ہے اس کا حتمی اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ ہماری کام, کرنے کی صلاحیت، کام کرنے کے طریقوں کو بہتر بنانے کی جستجو اور اپنی کامیابیوں کی تعمیر کرنے کی خواہش کا رجحان ہمیں پیداواری قوتوں کی مجموعی ترقی کی جانب لے گیا اس طرح کی ترقی نے طبقاتی معاشرے کو جنم دیا۔ جب معاشرہ زائد پیداوار کرنے کے قابل ہو گیا تو اس وقت ایک ایسے طبقے کے لیے ابھرنا ممکن ہو گیا جو براہِ راست پیداوار کرنے کی ضرورت سے آزاد تھا یہ ایک ایسا طبقہ تھا جو دوسروں کی محنت پر کنٹرول رکھنے کے باعث براہِ راست پیداوار کیلئے بغیر زندہ رہ سکتا تھا۔ یہ عمل پیداواری قوتوں کی ترقی ار سمت بندی کے لیے ضروری تھا لیکن اس عمل کو اپنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے کی پیداوار کرنے والی اکثریت کا خود اپنی ہی محنت پر سے کنٹرول ختم ہو گیا۔ اس طرح سے طبقاتی معاشرے کے جنم کیساتھ، بیگانگی نے بھی جنم لیا۔ طبقاتی معاشرے نے محنت کی لامحدود صلاحیت کو کس طرح سے الٹا کر رکھ دیا اس کی تصویر کشی ????نے درج ذیل الفاظ میں بڑے زبردست انداز میں کی ہے۔ ”جیسے کہ پہلے اوازر میں ہی مستقبل میں بننے والی ممکنہ اوزار چھپے ہوتے ہیں۔ اس طرح اس حقیقت کے پہلے ادراک میں ہی کہ شعوری عمل کے ذریعے دنیا تبدیل ہو سکتی ہے پورا مستقبل مخفی ہے۔ ایک ایسا مستقبل جو ابھی تک نامعلوم ہے مگر ناگزیر تبدیلی اس کا لازمی حصہ ہے۔ ایک ایسا جاندار وجود جس نے اپنے ہاتھوں کے کام کے ذریعے فطرت کو اپنا بنانا شروع کر دیا ہو اس کی دانش اور اس کا خیال پر کبھی ٹھیک کر نہیں بیٹھے گا۔ ہر کامیابی نئی فتوحات کا راستہ کھول دے گی۔ لیکن جب محنت تخریبی ہو، تعمیری نہ ہو، جب یہ محض مجبور ہو، قوتوں کا آزادانہ استعمال نہ ہو، جب محنت کا مطلب انسان کی طبعی اور عقلی صلاحیتوں کی بہار نہ ہو بلکہ خزاں ہو تو اس وقت محنت خود اپنے اصول کی تردید ہے۔ یہ تردید اصول انسانی کی بھی تردید ہے۔ طبقاتی تقسیم کا یہی ابھار جس میں معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ذرائع پیداوار پر صرف ایک ہی طبقے کا قبضہ تھا افراد اور اس معاشرے کے درمیان کہ جس سے ان کا تعلق تھا مزید تقسیم کا باعث بنا۔ معاشرتی زندگی کی مخصوص حالتیں ذات زر اور اجتماع کے دوپہلو?ں کے درمیان خانہ بندی کرتی ہیں۔ یہ حالتیں معاشرے کے مجموعی مفادات اور افراد کے ذاتی مفادات کے درمیان علیحدگی پیدا کرتی ہیں۔ اگرچہ طبقاتی معاشرے میں بیگانگی موجود رہتی ہے تاہم یہ کوئی ایسی انوکھی انسانی حالت نہیں کہ اس کو بدلا نہ جاسکے۔ سرمایہ داریت اور بیگانگی۔ جاگیردارانہ معاشرے میں انسانوں نے وہ ذرائع نہیں پیدا کیے تھے کہ جن سے وہ فطرت پر قابو پا سکیں، قضط سے بچنے کے لیے کافی پیداوار کر سکیں یا بیماریوں کا علاج کر سکیں۔ محنت کی پیداواری قوتوں کی ترقی کی سطح بہت کم تھی اور تمام تر معاشرتی رشتے اس سے مستفیض ہوتے تھے انسانوں کے درمیان ساری زندگی کی تخلیق اور دوبارہ پیدا کرنے کے عمل کے دوران جو رشتے ہوتے ہیں وہ بھی محدود تھے۔ اس کے علاوہ فطرت اور انسان کے درمیان پائے جانے والے رشتے بھی محدود تھے۔ زمینی پیداوار کا واحد ذریعہ تھی اور اس پر جاگیردارانہ اور نوآبانہ نظام کا اس طرح سے قبضہ تھا کہ لوگ اپنے آپ کو بحیثیت فرد نہ لیتے تھے بلکہ اپنے آپ کو اس رشتے کے حوالے سے دیکھتے تھے کہ جن رشتے کے ذریعے وہ زمین سے جڑے ہوئے تھے۔ مارکس نے اپنے معاشی اور فلسفیانہ مودات ?????میں لکھا ہے ”جاگیردارانہ ملکیت اراضی کے نظام میں ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ زمین کی انسان پر ایک اجنبی طاقت کی مانند حکومت قائم ہے۔ زرعی غلام زمین کیساتھ بندھا ہوا ہے۔ اسی طرح جیٹھائی حق وراثت کے تحت، پہلا بچہ، زمین کی ملکیت ہوتا ہے۔ بچہ اسے ورثے میں ملتا ہے۔ نجی جائیداد کا اصول، زمین کی ملکیت سے شروع ہوتا ہے یہی اس کی بنیاد ہے۔“ زمین کی ملکیت کا انحصار شجرے اور وراثت پر تھا۔ آپ کی کسی خاص نسل اور شجرے میں پیدائش سے ہی آپ کی تقدیر کا یقین ہو جاتا ہے۔ اپنے اوائل زمانے کی ایک تحریر میں مارکس نے بتایا کہ کس طرح سے اشرافیہ اپنے خون اور اپنے شجرے پر فخر کرتی تھی اور کس طرح سے کسی بھی شخص کا سلسلہ نسب معلوم کرنے کا سب سے موزوں علم خاندانوں کی تاریخ اور خاندانی نشانوں کا علم تھا۔ اشرافیہ کا راز حیونات ہے۔ یہ حیوانات ہی تھی کہ جو آپ کی زندگی اور دوسروں سے آپ کے رشتوں کا یقین کرتی تھی۔ پیداواری قوتوں کی نچلی سطح کے باعث ایک طرف تو کسان مستقل محنت کرتے رہتے تھے اور دوسری طرف جاگیردار اور کلیسا کے افسران جو کچھ بھی چاہتے کسانوں سے زبردستی وصول کر لیا کرتے تھے۔ پس بیگانگی نے اس وقت جنم لیا جب پیداواری قوتوں کی سطح بہت نیچی تھی اور انسان پر زمین کی ور جاگیردار طبقے کی حکمرانی تھی۔ تاہم بیگانگی کی یہ حالتیں محدود تھیں۔ کسان اپنی زمینوں پر کام کرتے تھے اور زیادہ تر اشیائ جن کی انہیں ضرورت تھی خود اپنے آزاد فیملی یونٹ میں پیدا کر لیا کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص زمین سے باندھ دیا جاتا تو زمین بھی اس سے نتھی ہو جاتی تھی۔ کسان اور حتیٰ کے قرونِ وسطیٰ کے زرعی غلام کے قبضے میں بھی اس کی محنت کی پیداوار کا کم از کم 50فیصد یا بعض اوقات 60سے 70 فیصد تک رہتا تھا۔ جاگیردارانہ معاشرے کے معاشرتی تعلقات حکمرانی اور ماتحتی کے تھے مگر یہ نہیں بلنا چاہئے کہ یہ رشتے افراد کے درمیان موجود واضھ معاشرتی رشتے تھے اپنی کتاب سرمایہ مین مارکس نے واضح کیا ہے کہ اپنے اپنے کام کے دوران جو معاشرتی رشتے افراد میں بنتے تھے وہ کس طرح سے ہر صورت ان کے اپنے باہمی ذاتی رشتے نظر آتے تھے اور سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کی پیداوار کے باعث انسانی رشتے جس طرح بھیس بدلے ہوئے رہتے ہیں جاگیردارانہ نظام میں وہ اس طرح سے بھیس بدلے ہوئے نہ ہوتے تھے بلکہ واضح ہوتے تھے۔ تاہم جاگیردارانہ نظام کی جکڑبندیاں سرمایہ دارانہ نظام کی آزادیوں سے بہت مختلف تھیں۔ بورڑوا طبقے کو ایک ایسے معاشرے کی ضرورت تھی جہاں ہر چیز کو پیسے کے بدلے میں خریدا اور بیچا جاسکے۔ بیچنا (Selling) بیگانگی کی عملی شکل ہے۔ ایسے معاشرے کا قیام مشترکہ زمین کے ظالمانہ احاطوں پر منحصر تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ پہلی بار معاشرے کی اکثریت کو ذرائع پیداوار اور ذرائع حیات تک براہِ راست رسائی سے محروم کر دیا گیا۔ اس عمل کے ذریعے زمین سے محروم محنت کشوں کے ایسے طبقے کو تخلیق کیا گیا جسے اپنی بقائ کیلئے استحصال کی ایک نئی قسم کی اطاعت قبول کرنی پڑی جس کا نام ”اجرتی محنت“ تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کی لات پیداوار اور پیداواری مادوں کے درمیان رشتوں میں ایک بنیادی تبدیلی لے کر آیا۔ ان بنیادی تبدیلیوں سے یہ ہوا کہ زندگی کا ہر پہلو تبدیل ہو کر رہگ یا۔ یہاں تک کہ وقت کے تصور میں بھی بنیادی تبدیلی آگئی اور وہ گھڑیاں جنہیں 17ویں صدی میں کھلونے سمجھا جاتا تھا کام کرنے کے وقت کو ناپنے کا پیمانہ یا بے کاری کو گننے کا ذریعہ بن گئیں کیونکہ صنعتی شعبے میں پابندی وقت کی ضرورت ہوتی تھی اور کام کرنے کے لیے جو ضروری اخلاقی گھنٹے مقرر کیے گئے تھے ان کے لیے گھنٹوں اور منٹ کو ناپنے کے لیے ایک تجریدی ذریعے کی ضرورت تھی اور گھڑیاں اس کام کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھیں۔ انسان سے خود اپنے ہی ہاتھوں کی پیداکردہ شے کے انتخابا ور استعمال کا حق چھین لیا گیا اور اسے خود اپنے ہی ہاتھوں سے تیار کردہ چیزوں سے جدا کر دیا گیا۔ Peter Himebaugh نے اپنی کتاب ”The London Hanged“ میں 18وی صدی کے لندن کی تاریخ بیان کی ہے۔ اس کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ اس وقت مزدور اپنے آپ کو اس چیز کا مالک سمجھتے تھے کہ جسے وہ بنایا کرتے تھے لیکن 18ویں صدی کے اواخر میں انتہائی ظالمانہ انداز و قانونی حملے کے ذریعے مزدوروں کو یہ باور کرایا گیا کہ وہ جو کچھ پیدا کرتے ہیں وہ ان کی ملکیت نہیں بلکہ یہ پیداوار اس سرمایہ دار کی ملکیت ہے جو فیکٹری کا مالک ہے۔ 18ویں صدی کے دوران کئی مزدوروں کو تنخواہیں خالصتاً پیسے کی شکل میں نہیں دی جاتی تھی۔ یہی بات روس کے زرعی حلام کی محنت، امریکی غلاموں کی محنت، آئرلینڈ کی زرعی محنت اور لندن کی تجارت میں میٹروپولیٹن محنت پر بھی صادق آتی تھی۔ 19ویں صدی میں تاہم اجرتی محنت نے دوسرے تمام ادائیگی کے طریقوں کی جگہ لے لی۔ اس تبدیلی نے محنت کو بھی ایک ایسی جنس بنا دیا جو بازار میں فروخت کی جاتی ہے۔ سرمایہ داور اور مزدور بظاہر تو ایک دوسرے سے آزاد نظر آئے تھے مگر درحقیقت ایک دوسرے سے بڑی مضبوطی کیساتھ بندھے ہوئے تھے۔ اب پیداوار گھروں میں نہ ہوتی تھی بلکہ فیکٹریوں میں پیدا ہوتی تھی جہاں انتظام و انصرام کا ایک نیا نظام کافرما تھا۔ فیکٹریوں میں محنت کی میکانیت (Mechanisation) کے باعث لوگوں کا مشینی رشتہ بھی بدل گیا اور مشینیں جو کہ انسانی ذہانت کی حیران کن پیداوار تھیں وہی مشینیں مزدوروں پر ظلم کا ایک ذریعہ بن گئیں۔ مارکس نے, اپنی کتاب ”سرمایہ“ مین ایک کاریگر اور ہنرمند کا موازنہ ایک فیکٹری مزدور سے کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ”دست کاری اور ہاتھ سے پیداوار کے عمل میں کاریگر کسی اوازار کو استعمال میں لاتا ہے جبکہ فیکٹری میں مشین مزدور کو بطور اوزار استعمال کرتی ہے۔ دست کاری میں آلہ محنت کی حرکات اس کے اپنے کنٹرول میں ہوتی ہیں جبکہ فیکٹری میں اسے مشین کی حرکت کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ ہاتھ سے پیداوار کے عمل میں کاریگر ایک پرحیات طریق کار کا حصہ ہوتے ہیں جبکہ فیکٹری میں ہمیں ایک بے حیات طریق ملتا ہے۔ کاریگر سے بے نیاز ہوتا ہے اور کاریگر اس طریق کار کا محض ایک جاندار ذیلیہ (Appendage) ہوتا ہے۔“ فیکٹری کی پیداواریت کی سب سے اہم اور تباہ کن خصوصیت تقسیم کار ہے حالانکہ سرمایہ داریت سے قبل بھی کام کا معاشرتی تقسیم موجود رہی ہے۔ جس میں مختلف لوگ باہنر پیداوار کی مختلف شاخوں سے وابستہ ہوتے تھے لیکن سرمایہ داریت کے آنے کیساتھ پیداوار کی ہر ایک شاخ کے اندر مزید شاخیں بن گئیں اور تقسیم کار مزید بڑح گئی۔ اس تقسیم کار سے یہ ہوا کہ مردوں کو کسی بھی ایک خاص کام کرنے میں مہارت حاصل کرنا پڑ گئی۔ ٹکڑون میں بٹے ہوئے کام نے جنم لیا۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں ان مزدوروں کو خود اپنی انسانی صلاحیتوں کے صرف چند ایک گوشوں سے آگہی حاصل ہو سکی جبکہ اپنی باقی صلاحیتوں سے وہ ناواقف ہے اور ان کے ضیائ کی قیمت پر وہ اپنا مخصوص کام کرتے ہیں۔ Harrybaveman نے اس تقسیم کے نتائج کی نشاندہی کرتے ہوئے ”کام کی معاشرتی تقسیم صرف معاشرے کو مزید تقسیم کرتی ہے جبکہ کام کی سرمایہ دارانہ تفصیلی تقسیم کود انسانوں کو تقسیم کر دیتی ہے۔ کام کی معاشرتی تقسیم جہاں فرد اور نوعِ انسانی کو جلا بخشی ہے وہاں افراد کی تقسیم جبکہ اس پر انسان کی صلاحیت اور ضرورتوں کی پراہ کیے بغیر کیا جارہا ہو۔ فرد اور انسانیت دونوں کے خلاف ایک جرم ہے۔“ 19ویں صدی میں صنعت کاریت کے تنقید نگار johnruskin نے اس قسم کا نقطہ اٹھایا کہ ”تقسیم کار کی اصطلاح کو بکواس بازی ہے کیونکہ اس سے کام نہیں تقسیم ہوتا بلکہ انسان تقسیم ہوتے ہیں۔“ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کا ذرائع پیداوار پر قابض سرمایہ داروں پر انحصار حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک ایسے عالم میں جہاں مزدور اس نظام میں ذہنی اور جسمانی دونوں سطح پر بالکل مشین بن جاتے ہیں اور ایک انسان کے بجائے محض ایک مجرد سرگرمی اور ایک معدہ بھرنے کی دیوانی مشین بن جانے کے باعث افسردہ اور بددل ہو جاتے ہیں وہاں یہ مزدور مارکیٹ میں قیمتوں، سرمائے کے خرچ اور امیروں کے مزاج میں زرا سے اتار چڑھا? کے بھی محتاج ہوجاتے ہیں۔ مزدوروں کے لیے سرمایہ دارانہ نظام سے آزاد رہ کر زندہ رہنا مشکل کر دیا گیا۔ انہیں ایسے کاموں میں لگادیا گیا جنہوں نے مزدوروں کو انسانی مشینی میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ایک ایسا نظام ابھرا جس میں مزدور کو اگر کام نہ ملے تو اس کا مطلب زندہ درگور ہو جاتا ہے۔ کام نہ ہونے کی صورت میں اگر سرمائے کا وجود مزدور کیلئے ختم ہو جائے تو بقول مارکس مزدور خود اپنے آپ کو زندہ دفن کر دے گا۔ سرمائے کا وجود اس کا وجود ہے۔ اس کی زندگی ہے کیونکہ سرمایہ اس کی زندگی کے معمون کو اس کی پرواہ کیے بغیر متعین کرتا ہے۔ یہاں انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس نظام میں کام تو بقائ کا معاملہ ہے۔ سرمایہ داریت میں محنت بھی جبری محنت میں بدل گئی۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں کام نہیں کروں گا۔ آپ نے کیا بنایا اور کیسے بنایا اس کے انتخاب کا آپ کے پاس امتیاز نہیں ہے۔ مارکس نے اس بات کی اس طرح نشاندہی کی ہے۔ ”محنت کا مزدور سے اجنبی ہو جانا ایک ایسی حقیقت ہے جو اس کے بنیادی وجود سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس اجنبیت کے باعث مزدور اپنے کام کے دوران اپنے وجود کو تسلیم کروانے کے بجائے اپنے وجود کی نفی کرتا ہے۔ بیچارگی محسوس کرتا ہے اور ناخوش ہوتا ہے۔ اس کی آزاد ذہنی اور جسمانی توانائی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نفس کو مارتا ہے اور اپنے ذہن کو برباد کر دیتا ہے۔ لہٰذا مزدور کو کام کرتے وقت اپنی ذات کا ادراک حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ اس سے اس وقت اپنی ذات کا ادراک حاصل ہوتا ہے جب وہ کام نہیں کر رہا ہوتا ہے جب وہ کام کر رہا ہوتا ہے بے چین رہتا ہے اور جب کام نہیں کر رہا ہوتا ہے پرسکون رہتا ہے۔ اس کی محنت اس لیے رضاکارانہ نہیں بلکہ جبری ہے۔ یہ جبری محنت ہے یہ ضرورت کی تسکین نہین ہے بلکہ اس کی ذات اس سے بے نیاز ایک ضرورت کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ اس کے بیگانگی زدہ کردار کا اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ جیسے ہی کوئی جسمانی یا کوئی اور دوسری مجبوری باقی نہیں رہتی۔ اس سے بالکل اس طرح سے جان چھڑالی جاتی ہے جیسے کسی وبا سے جان چھڑائی جاتی ہے۔“ فیکٹری سسٹم میں تقسیم صحت کا ایک پہلو اور بھی تھا یہ پہلو جزئیاتی محنت کی تخلیق کا ہے جو ورکشاپ میں ٹکڑوں میں بٹا ہوا کام کرتی تھی اس سے ہوا یہ کہ قدر پیدا کرنے والا طبقہ اجتماعی بن گیا کیونکہ کوئی بھی مزدور تنہا ایک پوری جنس تیار نہیں کر سکتا تھا۔ اس اجتماعیت کا اظہار سرمایہ دارانہ طریقہ پیداوار کے خلاف مستقل جدوجہد ناور مزدوروں کے ان بار بار کے اقدامات سے ہوا جن کا مقصد اس بات کو تسلیم کرانا تھا کہ ان کے اس حق کو تسلیم کیا جائے کہ وہ مشینوں کو کنٹرول کریں نہ کہ مشینیں انہیں کنترول کریں۔ اجتماعیت کے اظہار کی سب سے مشہور شکل 19ویں صدی کی, ابتدائ میں ہونے والی Luddite Repellion (لڈائٹ بغاوت) ہے۔ یہ بغاوت اتنے وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی کہ اس کو کچلنے کیلئے جو فوجیں تعینات کی گئیں ان کی تعداد واٹر لو (Waterloo) کے محاذ پرویلنگٹن (Wellington) سے لڑنے کے لیے بھیجی گئی فوجوں سے بھی زیادہ تھی۔ بیگانگی کے چار پہلو سرمایہ داریت کے ترقی کے سامنے بند باندھنے مشکل ہو گئے اور یہ بیگانگی کی اس سطح پر لے گئی جس کا اس سے قبل تصور بھی ناممکن تھا۔ اپنے معاشی اور فلسفیانہ موادات (جو 1844یا پریس کے مودات Parismanuseipes) کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں) میں مارکس نے ان چار مخصوص طریقوں کی نشاندہی کی ہے کہ جن کے ذریعے بیگانگی سرمایہ دارانہ معاشرے میں نفوذ کرتی ہے۔ پیداوارِ محنت مزدور اس شے سے بیگانہ ہوتا ہے کہ جسے وہ خود بناتا ہے کیونکہ وہ شے کی اور کی یعنی سرمایہ دار کی ملکیت ہوتی ہے اور اس پر تصرف کے تمام تر اختیارات صرف اس سرمایہ دار کو حاصل ہوتے ہیں۔ تمام معاشروں میں لوگ اپنی تخلیقی صلاحتیں ان اشیائ کو بنانے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں کہ جنہیں وہ استعمال کرتے ہیں جن کا وہ تبادلہ کرتے ہیں یا جنہیں وہ بیچتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں یہی عمل ایک بیگانگی زدہ سرگرمی بن جاتا ہے کیونکہ مزدور ان اشیائ کو جنہیں اس نے خود بنایا ہے خود اپنے زندہ رہنے یا کسی مزید پیداواری سرگرمی میں مصروف ہونے کے لیے استعمال میں نہیں لاسکتا۔ مزدوروں کی ضرورتیں، قطع نظر اس کے کہ وہ کتنی شدید ہیں اسے اس بات کا لائسنس نہیں دلاتیں کہ وہ ان چیزوں پر ہاتھ ڈال سکے جنہیں اس نے خود اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے کیونکہ یہ ساری کی ساری چیزیں کسی اور کی ملکیت ہیں اس طرح مزدور مارکیٹ کیلئے نقد آور اشیائ بناتے ہیں اور خود غذا کی کمی کے شکار ہوتے ہیں، ایسے گھر بناتے ہیں جن میں وہ کبھی نہیں رہ سکیں گے۔ ایسی کاریں بناتے ہیں جنہیں وہ کبھی بھی نہیں کرید سکتے۔ ایسے جوتے بناتے ہیں جنہیں پہننا انہیں نصیب نہیں ہوتا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ مارکس نے دلیل دی ہے کہ خود اپنی ہی پیداوار سے مزدور کی بیگانگی اتنی اس لیے بڑھ جاتی ہے خود وہ چیزیں جنہیں مزدور بناتا ہے۔ مزدور پر حکمرانی کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ مارکس کے تصور قدر کے بارے مین اپنے شاہکار مضامین IIruben نے اجناس کی پیداوار کے مقداری (؟؟؟) اور معیاری (Qualitative) طور پر، مزدور اس چیز میں کہ جسے وہ بناتا ہے تخلیقی محنت کو بھی شامل کرتا ہے لیکن اس کی صرف شدہ تخلیقی محنت کا اسے متبادل نہیں ملتا۔ Rubin اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے۔ اپنی تخلیقی قوت کے بدلے میں مزدور کو تنخواہ یا اجرت ملتی ہے، عرف عام میں جیسے پیسے کی مخصوص مقدار کہا جاسکتا ہے، اور اس تبادلے کے نتیجے میں وہ محنت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اشیائ تو خرید سکتا ہے لیکن تخلیقی قوت کو نہیں خرید سکتا۔ اپنی تخلیقی قوت کے بدلے میں مزدور کو اشیائ ملتی ہیں۔ مزدور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنی تخلیقیت سے محروم ہو چکا ہے اس لیے سرمایہ دارانہ نظام میں کام نہ تو ہمیں کوئی تحریک مہیا کرتا ہے نہ ہی ہمیں کوئی تقویت بخشتا ہے اور نہ ہی کسی غیر مفتوحہ علاقے کا دروازہ کھولنے کی ہمت بخشتا ہے۔ اس کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام میں کام ہماری صلاحیتوں کو جلا کر رکھ دیتا ہے اور کسی بھی کام کی ادائیگی کے بعد ایک تھکن کا احساس ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ رہ جاتا ہے۔ زندہ سرمائے پر مردہ, سرمائے کی یہ حکمرانی مصودات (؟؟؟؟) میں مارکس کے اس دعوت کی پشت پر موجود ہے جس کے مطابق ”مزدور کی بیگانگی کا صرف یہ مطلب نہین ہے کہ اس کی محنت کوئی چیز یا خارجی وجود بن جاتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ محنت اس سے باہر موجود ہوتی ہے۔ اس سے, آزادی اور اس سے بیگانگی اور ایک خود مختار قوت کے طور پر اس کے آمنے سامنے ہوتی ہے یعنی وہ زندگی جو وہ کسی چیز کو عطا کرتا ہے وہی ایک بیگانگی اور مخالف قوت کے طور پر اس کے روبرو آجاتی ہے۔ مارکس کے نزدیک یہ صورتحال سرمایہ دارانہ نظام کا ہی خاصہ ہے۔ گزشتہ معاشروں میں وہ افراد جو زیادہ محنت کرتے ہیں انہی کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ انہی کے پاس زیادہ اجناس ہوں گی جنہیں وہ زیر تصرف لا سکتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ انتظام میں وہ لوگ جو زیادہ محنت کرتے ہیں وہ دراصل اپنے اوپر ایک مخالف نظام کی قوت کو بڑھاتے ہیں۔ ان کی اپنی ذات اور ان کی اندرونی دنیا دونوں بے کسی کی تصویر بن جاتی ہیں۔ مزدور جتنی زیادہ اجناس تخلیق کرتا ہے وہ خود اتنا ہی زیادہ سستی جنس بنتا چلا جاتا ہے۔ انسانی دنیا کی یہ بے قدری، اشیائ کی دنیا کی قدر میں اضافے کے براہِ راست تعلق سے بڑھتی جاتی ہے۔ محنت کا عمل بیگانگی کے جس دوسرے عنصر کی مارکس نے نشاندہی کی ہے وہ مزدوروں کی پیداواری عمل پر کنٹرول کی کمی ہے۔ مزدوروں کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حالات کار اور تنظیم کار اور ان پر جسمانی و ذہنی اثرات پر رائے زنی کر سکیں۔ مزدوروں کا اس طرح سے پیداواری عمل پر اپنا کنٹرول کھو دینا ان کی تخلیقی طور پر کام کرنے کی صلاحیت کو بدل کر رکھ دیتا ہے اور اسے تخلیقی عمل کے بجائے اس کی ضد بنا دیتا ہے۔ فعالیت کے بجائے غیر فعالیت، قوت کے بجائے کمزوری، نسلی افزائش کے بجائے ہیجڑے پن کا تجربہ ہوتا ہے۔ مزدور کی ذاتی لمبی اور ذہنی توانائی اس کی ذاتی زندگی اور اس کا کام (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کام زندگی ہے؟) ایک ایسی سرگرمی بن جاتا ہے جوخود اس کے خلاف ہے جو اس سے آزاد ہے اور اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ محنت کا یہ عمل نہ صرف مزدوروں کے کنٹرول سے باہر ہے بلکہ یہ ان قوتوں کے کنٹرول میں ہے جو مزدور مخالف ہمیں اس کی وجہ پر قید سرمایہ دارانہ اور ان کے مینیجرز اس بات پر ہمہ وقت تلے رہتے ہیں کہ وہ مزدوروں کو جانفشانی اور مستعدی کیساتھ لمبے اوقات کے لیے کام کرنے پر مجبور کریں۔ مزید برآں جیسا کہ Harry Braveman نشاندہی کرتا ہے کہ ”ایک ایسے معاشرے میں جو قوتِ محنت کی خریدوفروخت کی بنیاد پر استوار ہو، کاریگری کو ٹکڑوں میں بانٹنا اس کے انفرادی اجزائ کی قیمت یا قدر گرادیتا ہے۔ اس لیے مالکان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر محنت کے عمل کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیں۔ اس کے نتیجے میں جو کہ یہ بار بار دھرائے جانے والے عمل وجود میں آتا ہے وہ مزدور کی انفرادی قابلیت اور مہارت کو دفن کر کے رکھ دیتا ہے جیسا کہ مارکس نے بیان کیا ہے۔ فیکٹری کا کام اعصابی نظام کو بری طرح سے تھکا مارتا ہے۔ یہ عضلات کے کثیر الجہتی عمل کو منسوخ کر دیتا ہے اور آزادی کے جوہر کی ذرا سی بھی رمق باقی نہیں رہنے دیتا۔ یہ عمل جسمانی اور ذہنی دونوں سرگرمیوں میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ہر شخص کی خصوصی صلاحیت کو فیکٹری کا غیر اہم عمل سائنس کے سامنے ایک از حد درجہ چھوٹی مقدار کے طور پر ختم کر کے رکھ دیتا ہے۔ دیوقامت طبعی قوتیں، محنت کی وہ بڑی تعداد جو فیکٹری کے عمل میں شامل ہے اور اس عمل کے اندر شامل مزدور مل کر مالک کی طاقت کی تشکیل کرتے ہیں۔ مارکس کے وقت اور اس کے بعد سے لے کر اب تک پیداوار کے جدید طریقوں نے محنت کے عمل کی تقسیم کو مزید بڑھا دیا ہے۔ جدید پیداوار کی تنظیم کی بنیاد پر اب تک اسمبلی لائن کے طریقوں پر ہے۔ پیداواری عمل کو ترکیبی حصوں میں توڑنے کے لیے سائنسی تحقیق استعمال کی جاتی ہے۔ اس عمل نے ایک طرف تو انتظامی کاموں میں عدم مہارت پیدا کر دی ہے تو دوسری طرف اس نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ مینجروں کو پیداواری عمل پر کنٹرول کی اجارہ داری حاصل ہو گئی ہے۔ فکرو عمل کے اتحاد، تصور, نتیجے کے اتحاد اور دست وذہن کے اتحاد جنہیں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی ابتدائ سے ہی خطرے میں ڈال رکھا تھا کو اب ایک منظم طریقے سے تحلیل کیا جارہا ہے اور اس عمل کی تکمیل کے لیے سائنس اور متفرق انجینئرنگ کے شعبوں کے تمام تر ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں۔ حالات کار، اوقاتِ کار سے لیکر اس جگہ تک جو کہ دوران کا ہم گھیرتے ہیں پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ کام کے پورے عمل اور اس کی چھوٹی سی چھوٹی حرکت تک کو مینیجرز اور انجینئرنگ کا عملہ ترتیب دیتا ہے۔ مینیجرز اورانجینئرنگ کا یہ عملہ قبل از وقت ہی کام کو مرتب کرتا ہے اس کو جانچنا ہے اور اس کو ترتیب اور کارکردگی کے معیارات کے مطابق بنانا ہے۔ مزدوروں کو مشینیں سمجھا جاتا ہے۔ مزدوروں کو مشینیں سمجھنے کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہوتا ہے کہ وہ محنت کے موضوعاتی (Subjective) عنصر کو ایک معروضی (Objective) ناپنے کے قابل اور کنٹرولڈ عمل میں تبدیل کر سکیں۔ اپنی کتاب تاریخ اور طبقاتی شعور کے چند شاہکار حصوں میں Luckas نے ہم پر یہ بات واضح کی ہے بڑھتاہوا میکانی اور عقلی محنت کا عمل ہمارے شعور کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ جس کا مندرجہ ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا تجزیہ پیغمبرانہ تھا اور اس کا یہ تجزیہ آج کے انتظامی کام کی حیران کن حد تک درست تصویر کشی کرتا ہے۔ محنت کے عمل کی عقلیت پسندیت کے نتیجے میں مزدور کی انسانی خصوصیات اور امتیازات اس وقت بڑی حد تک غلطیوں کے ذرائع معلوم ہوتے ہیں کہ جب ان کا موازانہ ان مجرد قوانین سے کیا جاتا ہے جو کہ عقلی پیشگوئیوں کے مطابق کام کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ تو معروضی طور پر اور نہ ہی اپنے کام سے تعلق کی بنیاد پر انسان اس عمل کا مستند مالک معلوم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ ایک میکانی نظام میں شامل ایک میکانی پرزہ نظر آتا ہے۔ انسان کو یہ عمل پہلے سے موجود اور خود کفیل نظر آتا ہے جو اس سے آزاد رہ کر کام کر رہا ہے اور جس کے قوانین کی اس چاہئے ناچاہئے تعمیل کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے ساتھی انسان سوئم، ہم نے اپنے ساتھ بسنے والے لوگوں سے بیگانے ہو جاتے ہیں۔ بیگانگی اس تضاد سے جنم لیتی ہے جو معاشرے کی طبقاتی ساخت کے باعث لازماً جنم لیتا ہے۔ ہم ان لوگوں سے بیگانے ہو جاتے ہیں جو ہماری محنت کا استحصال کرتے ہیں اور ان چیزوں کو کنٹرول کرتے ہیں جو ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ مارکس اسے یوں بیان کرتا ہے۔ ”اگر ایک شخص کے لیے اس کی سرگرمی سوہان روح ہے تو یہی سرگرمی کسی اور شخص کے لیے لازما لطف و تفریح کا باعث ہوتی ہے اس لیے جب وہ اپنی محنت کی پیداوار، اس کی متجنس محنت کو ایک بیگانی، مخالف اور طاقتورشے سمجھنے لگتا ہے جو اس سے آزاد ہے تو وہ اپنے اوزا اپنے مالک کیساتھ رشتے کو بھی بالکل اس شے سے اپنے رشتے کی مانند اپنے آپ سے بیگانہ، مخالف، طاقتور اور آزاد سمجھتا ہے اگر اس کا اپنی سرگرمی سے تعلق اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ وہ اسے ایک غیر آزاد سرگرمی سمجھنے لگتا ہے تو پھر وہ اپنی سرگرمی کو ایک ایسی سرگرمی سمجھنے لگتا ہے جو کسی دوسرے شخص کی خدمت، کسی دوسرے شخص کے ماتحت اور کسی دوسرے شخص کے جبرو جوے تلے کی جاتی ہو۔ مزید برآں، ہمارا دوسرے لوگوں سے تعلق ان اجناس کی خریدوفروخت کی بنیاد پر استوار رہتا ہے جو ہم پیدا کرتے ہیں ہر روز ہزاروں لوگ ہماری زندگیوں میں آتے ہیں، وہ لوگ جن کی محنت نے ہمارے لیے کپڑا، خوراک اور رہائش وغیرہ مہیا کیے ہیں لیکن ہم انہیں صرف ان اشیائ کی معرفت جانتے ہیں جو ہم کریدتے اور استعمال کرتے ہیں۔ Ernst Fischer نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اسی عمل کے باعث ہم ایک دوسرے کو ”اپنے ساتھی انسان کے جو یکساں حقوق رکھتے ہیں، نہیں سمجھتے بلکہ ہم ایک دوسرے کو بطور افسر و ماتحت، بطور عہدے دار یا طاقت کی بڑی یا چھوٹی اکائیوں کے طور پر لیتے ہیں۔ ہمارا ایک دوسرے, سے تعلق بطور افراد نہیں ہوتا بلکہ ہمارا باہمی تعلق متفرق پیداواری رشتوں کے نمائندوں اور سرمائے زمین یا محنت کی مجسم شکل کے طور پر ہوتا ہے۔ Bestell Ollman نے لکھا ہے کہ ”ہم ایک دوسرے کو بطور افراد نہیں جانتے بلکہ بطور سرمائے کے پھیلا? کے جانتے ہیں۔“ بورڑوا معاشرے میں سرمایہ آزاد ہوتاہے اور اس کی اپنی ایک انفرادیت ہوتی ہے جبکہ جاندار انسان دست نگر ہوتا ہے اور اس کی کوئی انفرادیت نہیں ہوتی۔ ہر انفرادی پروڈیوسر کی اجناس ایک لاشخصی حالت میں ابھرتی ہیں۔ ان اجناس کا اس بات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا کہ انہیں کس نے بنایا، کہاں بنایا اور کن مخصوص حالات میں بنایا۔جنس کی پیداوار کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص دوسروں کی پیداوار کو استعمال میں لاتا ہے یعنی اس طرح سے وہ ان اشیائ کے پیدا کرنے والوں کو خود ان کی اپنی محنت, سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ مارکس نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر اجناس کی پیداوار کس طرح سے ضروریات کو جنم دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی اس کوشش کا مقصد انسانی صلاحیتوں کو ترقی دینا نہیں ہوتا بلکہ منافع کی خاطر ان کا استحصال ہوتا ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص پر ایک اجنبی تسلط قائم کرنا چاہتا ہے اس امید پر کہ اس طرح سے وہ اپنی خود غرضانہ ضروریات کی تشفی کرے گا اس کے نتیجے میں وہ غیر انسانی، دھلی دہلائی غیر فطری اور تصوراتی اشیائ کا ایک موجدانہ اور ہمہ وقت ساز باز کرتا غلام بن جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے پڑوسی کے انتہائی بگڑے ہوئے تصورات کے گویا حوالے کر دیتا ہے۔ اس ضروریات کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے۔ اس میں غیر صحتمندانہ اشتہا جگاتا ہے اور اس کی ہر کمزوری پر جھپٹا رہتا ہے تاکہ اس طرح سے اپنی محبت کی محنت کا معاوضہ طلب کر سکے۔“ ہم دوسرے لوگوں کو نفع نقصان کے عدسوں سے دیکھتے ہیں۔ ہماری ضروریات اور صلاحتیں پیسہ بنانے کے ذریعے بن جاتی ہیں اور ہم دوسرے انسانوں کو اپنے مد مقابل اور کمتر یا بالا تر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری فطرتِ انسانی بیگانگی کا چوتھا پہلو، جیسا کہ مارکس کہتا ہے۔ ہماری نوعی وجود سے بیگانگی ہے جو بات ہمیں انسان بناتی ہے وہ ہماری وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے ہم شعوری طور پر اپنے گرد موجود دنیا کی تشکیل کرتے ہیں۔ تاہم سرمایہ دارانہ نظام میں ہماری محنت جبری اور استحصال زدہ ہے۔ ہمارے کام کا ہمارے ذاتی رجحانات یا اجتماعی مفادات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ محنت کی سرمایہ دارانہ تقسیم نے ہماری پیداواری صلاحیت کو تو بہت زیادہ بڑھایا ہے لیکن وہ جو دولت پیدا کرتے ہیں یا تخلیق کرتے ہیں انہیں اس کے ثمرات نہیں ملتے۔ مارکس نے اپنے مسودات (Manuseripts) میں اس عمل کی جو وضاحتیں کی جس میں وہ سرمایہ دارانہ نظام پر انتہائی بھاری فرد جرم عائد کرتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ محنت امیر کے لیے حیرت کدے پیدا کرتی ہے لیکن یہی محنت محنت کش کے لیئے محرومیاں لاتی ہے۔ محنت محلات تعمیر کرتی ہے امیروں کیلئے اور تاریک کوٹھریاں بناتی ہے۔ محنت کش کیلئے۔ یہ امیر کیلئے حسن اور محنت کش کیلئے بدصورتی لاتی ہے۔ یہ مشینوں کو محنت کا متبادل بناتی ہے۔ لیکن اس سے کچھ محنت کش دوبارہ محنت کی بربریانہ حالتوں میں واپس دھکیل دیئے جاتے ہیں تو چند مشینیں بن جاتے ہیں یہ ذہانت تخلیق کرتی ہے لیکن محنت کش کیلئے یہ جہالت اور ذہنی پسماندگی لاتی ہے۔ نوع انسانی سماجی نوع ہے۔ ہم میں یہ صلاحیت ہے کہ ہم اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مل کر کام کریں۔تاہم سرمایہ دارانہ نظام میں یہ صلاحیت نجی ملکیت اور اس سے جنم لینے والی طبقاتی تقسیموں تلے دب جاتی ہے۔ ہم جس پہ صلاحیت ہے کہ ہم اپنی پیداوار کی شعوری منصوبہ بندی کرسکیں اور اپنی پیداوار کو اپنے معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق بناسکیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں یہ صلاحیت منافعوں کی انتشار پسندانہ, خواہش کے باعث الٹی ہو کر رہ جاتی ہے۔ پس فطرت کی شعوری تشکیل کے بجائے ہم اپنے اعمال کے نتائج کو نہ تو کنٹرول کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی پیشن گوئی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پیداوار کے نئے اور سستے طریقے جب تمام تر صنعت میں بار بار دھرائے جاتے ہیں تو ان سے تیزابی بارش یا ایسی گیس پیدا ہوتی ہے جو اوزون (Ozone) کی تہہ کو تباہ کر دیتی ہیں۔ اسی طرح سے جب ایک سرمایہ دار اپنی فیکٹری میں پیداوار کو بہتر بناتا ہے تو وہ غیر ارادی طور پر منافع کی شرح کو کم کرنے کے ذریعے اپنے پورے طبقے کے منافعوں کی شرح میں سست رفتاری کا باعث بنتا ہے۔ ایک فرم ایک فوری طلب کو پورا کرنے کیلئے پیداوار کرتی ہے لیکن جب اس کی اشیائ مارکیٹ میں پہنچتی ہیں تو اسے پتہ چلتا ہے جبکہ دوسری فرمیں اس سے پہلے مارکیٹ میں پہنچ چکی ہیں۔ اس طرح سے طلب پوری ہونے کے بجائے مارکیٹ میں چیزوں کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پیداوار تو بہت کرتے ہیں لیکن جو کچھ ہم بناتے ہیں اس کی طلب نہیں ہوتی ہے۔ ماضی کے معاشرے عدم دستیابی، قحط اور فصلوں کی ناکامی کا شکار رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بحرانوں کا مطلب ہوتا ہے کہ محنت کش صرف کم کرتے ہیں اور پیداوار زیادہ کرتے ہیں۔ ان کے کم صرف کی وجہ یہ نہیں ہے جبکہ ان کی محنت ناکافی حد تک پیداواری ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی محنت ضرورت سے زیادہ پیداواری ہے۔ ہمیں جن معاشی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ فطری نہیں ہوتے ہیں۔ یہ ہماری معاشرتی تنظیم ہے جو ہمیں اپنی پیداواری صلاحیت کی طاقت سے لطف اندوز سے باز رکھتی ہے۔ اشیائ کی غیر عقلی تعظیم کیا ہے؟ ہمارے معاشرے میں اشیائ کی حکمرانی اتنی گہری ہے کہ یہ ایک فطری اور ناگزیر صورتحال نظر آتی ہے۔ ہماری تمام کامیابیاں، ہر وہ شے جو ہم بناتے ہیں سب کچھ چیزوں کے طور پر ابھرتی ہیں۔ مارکس نے کہا ہے کہ ان معاشروں میں جہاں سرمایہ دارانہ طریقہ پیداوار اور رائج ہے دولت اشیائ کے بہت بڑے ذخیرے کے دور پر ابھرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام عمومی پیداوار اشیائ کا پہلا نظام ہے جس میں سے مجموعی معاشرے کی ایک کائناتی اکائی بن گئی ہے۔ اس دنیا کے بارے میں ہمارے تجربے کہ جسے ہم نے تخلیق کیا ہے۔ پر پیداوار اشیائ کی حکمرانی کے اثرات ہوتے ہیں۔ یہ پراسرار شے؟ ہر معاشرے میں انسانوں نے ایسی اشیائ بنانے کیلئے محنت کی ہے جو اس کی ضروریات پوری کر سکیں اس لیے مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام میں اشیائ کے بارے میں اپنے تجزیے کو یہ کہہ کر شروع کیا کہ ”ایک شے ایک بیرونی چیز ہے ایک ایسی جو اپنی خصوصیات کے ذریعے کسی بھی قسم کی انسانی ضروریات کی تشفی کر سکتی ہے قطع نظر اس کے کہ یہ ضرورت دماغ کی پیداوار ہے یا معدے کی۔ اشیائ کی استعمالی قدر ہونی چاہئے لیکن ان کی ایک قدر مبادلہ بھی ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہماری مختلف انسانی ضروریات کو اشیائ کی خریداری کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ کھانے کے لیے ہمیں دکان سے خوراک خریدنی پڑی ہے۔سفر کے لیے ہمیں ایک کاریا بس کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ تاہم ان اشیائ کی کارآمدگی پر قدر مبادلہ چھائی رہتی ہے اور انسانی ضروریات کی تشفی مارکیٹ کے چلن سے ناقابل جدا ہو جاتی ہے۔ مارکیٹ میں اشیائ کی گردش ان کے عمل پیداوار جس میں محنت کشوں کا اپنی بنائی ہوئی شے کی کچھ براہِ راست تعلق ہوتا ہے سے کئی زیادہ پراسرار ریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتی ہے۔ محنت کشوں کا یہ تعلق اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب اشیائ مارکیٹ میں بھیجی جاتی ہیں اور پیسے سے ان کا تبادلہ ہوتا ہے جس کا پھر مزید اشیائ سے تبادلہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ مارکس نے لکھا ہے کہ ”براہِ راست پیداواری عمل اور گردش کے عمل کے اتحاد کے طور پر حقیقی پیداواری عمل نئی حالتوں کو جنم دیتا ہے, جن میں اندرونی رابطوں کی رگ بہت حد تک کٹ جاتی ہے پیداواری رشتے ایک دوسرے سے لاتعلق ہو جاتے ہیں اور اجزائی اقدار ایک دوسرے سے لاتعلق بے جان حالتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ مارکس نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح سے اشیائ کی گردش انفرادی پیداوار کنندگان کے رشتوں کو ان اشیائ کے رشتوں میں تبدیل کر کے رکھ دیتی ہیں جنہیں وہ بناتے ہیں وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے کی اشیائ پر ان کا انحصار ہوتا ہے۔ اشیائ کے مالکان کو پتہ چلتا ہے کہ تقسیم محنت جو انہیں آزاد نجی پیداوارکنندہ بناتی ہے یہی تقسیم محنت سماجی پیداواری عمل اور انفرادی پیداوار کنندگان کے اس پیداواری عمل میں باہم رشتوں کو بھی خود پیداوار کنندگان سے آزاد کر دیتی ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ افراد کی ایک دوسرے سے آزادی کا ایک ا ہم منصب بھی ہے جو مکمل مادی انحصار کے نظام کو سہارا دیتا ہے۔“ سرمایہ دارانہ نظام میں افراد کیلئے چند چیزوں کا حامل ہونا ضروری ہوتا ہے مثال کے طور پر قوت محنت یا بیداری مادے وغیرہ ان کے ذریعے وہ باہمی پیداواری رشتوں میں داخل ہو جاتے ہیں اس کے نتیجے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ چیز یا شے اپنی ذات میں ہی اس قابل ولائق ہے کہ پیداواری رشتے قائم کر سکے اور ان رشتوں کے قیام میں افراد کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔ اشیائ کو سماجی خصوصیات حاصل ہو جاتی ہیں کیونکہ افراد پیداواری عمل میں صرف اس وقت داخل ہوتے ہیں جب وہ مالکان اشیائ ہوں۔ مارکس نے اس عمل کو یوں بیان کیا ہے کہ ”پیداوار کنندگان کے لیے ان کی نجی محنتوں کے درمیان موجود معاشرتی رشتے، ملکر کام کرنے والے افراد کے براہِ راست معاشرتی رشتوں کے طور پر سامنے نہیں آتے ہیں بلکہ افراد کے درمیان مادی رشتوں اور اشیائ کے درمیان معاشرتی (سماجی) رشتوں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اس طرح سے یہ نظر آتا ہے کہ مارکیٹ (منڈی) خود ہی قیمتوں میں اتار چڑھا? کا باعث بنتی ہے, اور انسانی واسطے سے بالکل آزاد رہ کر محنت کشوں کو ایک شعبہ پیداوار سے دوسرے شعبہ پیداوار میں دھکیلتی ہے۔ فرد پر معاشرے کا اثر اشیائ کی معاشرتی حالت کے ذریعے ڈالا جاتا ہے۔ یہ بیگانگی دو رشتوں کو ایک نئی جہت عطا کرتی ہے جیسا کہ مارکس نے دلیل دی ہے کہ وہ کردار جو معاشی اسٹیج پر نظر آتے ہین وہ محض معاشی رشتوں کی تجسیم ہوتے ہیں یہ کردار ایک دوسرے کے قریب محض ان معاشی رشتوں کے حاملین کے طور پر ہی آتے ہیں۔ مارکس نے انسانی رشتوں کی تبدیلی انسانی طاقتوں کو بے جان چیزوں سے منسوب کرنے اور جس طرح سے معاشرتی تنظیم انسانی ارادے سے مبرا حیثیت میں ابھرتی ہے اس سارے عمل کو اشیائ کی غیر عقلی تعظیم کہا ہے۔ اشیائ کی غیر عقلی تعظیم سرمایہ دارانہ نظام کی نمو کیساتھ بڑھی ہے۔ اس نظام میں سرمایہ دارانہ طریقہ پیداوار معاشرتی ضروریات، فرد اور خاندان کے مجموعے کو اپنے قبضے میں کر لیتا ہے اور ان کو مارکیٹ کا تابع بنانے کے لیے ان کی نئی تشکیل کرتا ہے تاکہ سرمائے کی ضرورت پوری ہو سکے۔ آج ہر چیز کے لیے مارکیٹ موجود ہے۔ جنس اور فن کے لیے اور خود محنت کیلئے اس کیساتھ ساتھ ٹی وی اور کاروں کے لیے الغرض ہر شے کے لیے مارکیٹ موجود ہے۔ جیسا کہ Ermst Fischer نے لکھا ہے کہ ”ہم اشیائ کی ایک ایسی دنیا میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں جہاں فطرت ایک چھٹیاں گزارنے کے (مقام) کا محض ایک پوسٹر بن گئی ہے اور انسان ایک نئی چیز کا اشتہار بن گیا ہے۔ ہم ایسی بیگانگی زدہ اشیائ جو سستے داموں فروخت کے لیے پیش کی جاتی ہیں کے ایک ایسے ہنگامے میں زندہ ہیں کہ ہم اپنے آپ سے مشکل ہی کئے جاتے ہےں۔ (مزدور جدوجہد) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...