اتوار، 2 ستمبر، 2012

نظریہ ارتقاء حیات



حیاتیاتی ارتقاء

چارلس ڈارون

بارہویں صدی عیسوی کی بات ہے کہ جاپان پر ہیکے نامی سیمورائے جنگجووَں کے ایک قبیلے کی حکومت تھی، اس قبیلے کا سردار اور جاپان کا بادشاہ ایک سات سالہ بچہ اینتھوکو تھا جو اپنی دادی  نی ای خاتون کی سرپرستی میں جاپان حکومت کرتا تھا لیکن اس قبیلےکا ایک مخالف سیمورائے قبیلہ بھی تھا جس کا نام گانجی تھا۔ گانجی اور ہیکے قبائل میں جنگ اس بات پرتھی کہ  جاپان کےتاج  و تخت کا اصل وارث کون ہے۔چوبیس اپریل سن گیارہ سو پچاسی میں ان دونوں قبیلوں میں دانواُورا  کے مقام پر ایک آخری لڑی ہوئی جس نے جاپان کے تاج و تخت کا فیصلہ کردیا، اس جنگ میں ہیکے قبیلے کو بدترین شکست ہوئی اور باقی بچ جانے والے جنگجووَں نے سمندر میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔

بادشاہ  کی دادی جو کہ دور سمندر میں کشتی پر سوار اس اپنے پوتے کہ ساتھ اس منظر کو دیکھ رہی تھی،نے فیصلہ کیا کہ وہ گرفتاری نہیں دے گی، بادشاہ اینتھوکو نے اس سے سوال کیا کہ دادی اب مجھے کہاں لے جاوَ گی ،دادی نے کوئی جواب نہ دیا صرف آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھا اور  بادشاہ اینتھوکو نے اپنی دادی کی آنکھوں میں اپنے سوال کا جواب پالیا ،  اس نے اپنے خوبصورت چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو باہم جوڑ کر پہلے مشرق اور پھر مغرب کی طرف رخ کرکے خداوَں کو الوادع کہا اور پھر اپنی دادی کی بانہوں میں سمٹ کر ان الفاظ کے ساتھ کہ "سمندر کی گہرایوں میں ہمارا  دارالحکومت ہے" خود کو سمندر کی لہروں کے حوالے کردیا، اس طرح نہ صرف ہیکے قبیلے کا تیس سالہ دورِ حکومت ختم ہوا بلکہ خود ہیکے قبیلہ بھی سوائے تیتالیس خواتین کے صفحہِ ہستی سے مٹ گیا۔ اپنے دورِ عروج میں شہزادیاں اور نواب زادیاں کہلائی جانے والی یہ خواتین جنگ کےبعد میدانِ جنگ کے قریب واقع مچھیروں کی بستیوں میں آباد ہوئیں جہاں وہ پھول بیچاکرتیں تھیں، آج تک ان خواتین کی اولاد ہر سال چوبیس اپریل کو ہیکے جنگجووَ ں اور بادشاہ اینتھوکو کی یاد مناتی ہے۔

ہیکے جنگجووَں کی کہانی دلچسپ ہے لیکن اس کہانی سے کہیں ذیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز  اسی کہانی سے جڑا ایک اور واقعہ ہے۔اس علاقے کے مچھیر کہتے ہیں کہ ہیکے جنگجو آپ بھی سمندر کی گہرایوں میں موجود ہیں، ایک خاص قسم کے کیکڑے کی شکل میں۔ اس علاقے میں ایک خاص کیکڑا پایا جاتا ہے جس کی پشت کہ نشانات بلکل ایک جاپانی سیمورائے جنگجو کے  چہرہ سے ملتے ہیں، یہ مچھیرے ان کیکڑوں کو کھاتے نہیں ہیں بلکہ ایسے کیکڑوں کو واپس سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جی ہاں کہانی کا یہ حصہ یقناً حیرت انگیز ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایک کیکڑے کی پشت پر ایک انسانی چہرا کیسے آگیا؟ یہ سوال جس قدر حیرت انگیز ہے اسکا جواب اسی قدر ہے آسان ہے، اور وہ یہ کہ چہرا انسانوں کا بنایا ہواہے ، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیسے تو اسکا جواب ہے  مصنوعی انتخاب یا آرٹیفیشل سلیکشن جو کہ ارتقائی عمل کا ایک اہم جز ہے۔

ہیکے کیکڑا


یہ مصنوعی انتخاب کیا چیز ہے؟ فرض کریں کہ ایک سمندر میں کافی سارے کیکڑے ہیں ، یہ تمام کیکڑے اپنے والدین سے ملتے جلتے لگتے ہیں لیکن ان میں کچھ فرق بھی ہے جس طرح بہن بھائیوں کی شکل آپس میں کچھ کچھ ملتی ہی لیکن ان میں فرق ہوتاہے۔ ان کیکڑوں میں اتفاق سے ایک کی پیٹھ کے نشانات میں انسانی چہرے کی انتہائی معمولی سی شباہت آتی ہے جو کہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ، یہ تمام کیکڑےایک دن کسی شکاری کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور جب شکاری انہیں سمندر سے باہر نکالتا ہے تو اسے انسانی چہرے کی معمولی سے شباہت رکھنے والا کیکڑا دیکھ کر حیرت ہوتی ہی اور وہ  قدیم لوگوں کی طرح ایک نظریہ قائم کرلیتا ہے کہ اس کیکڑے کے روپ میں یقیناً کوئی انسانی روح ہے اور اس کیکڑے کو واپس پانی میں پھینک دیتا ہے۔  کیکڑا واپس سمندر میں جاتا ہے جہاں وہ اپنی نسل بڑھاتاہے اور اصولِ وراثت کے تحت اپنی خصوصیات اگلی نسل میں منتقل  کرتا ہے ، اس کی اگلی نسل میں بھی وہ کیکڑے شکاریوں سے بچ جائیں گے جن کی پشت کسی حد تک انسانی شکل سے ملتی ہوگی یعنی جوکیکڑا جس قدر انسانی شکل سے ملتی جلتی پشت کا حامل ہوگا اتنا ہے اس کو شکاریوں سے تحفظ حاصل ہوگا اور وہ اپنے نسل بڑھا سکے گا۔ شکاریوں کا یہ رویہ بناء جانے بوجھے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کس کیکڑے کو زندہ رہنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور وہ اپنے نسل بڑھاسکتے ہیں اور اپنے جنیاتی خصوصیات بشمول پشت پر بنے انسانی چہرے  کو نئی نسل کو منتقل کرسکتے ہیں، لیکن یہ شکل ہر کیکڑے میں یکساں نہیں رہتے بلکہ تھوڑی تھوڑی تبدیل ہوتی رہتی ہے جس طرح انسانوں میں بچے ماں باپ کی کاربن کاپی نہیں ہواکرتے تو ان کیکڑوں میں سے وہی شکاریوں سے محفوظ رہیں گے جن میں یہ تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں مزید بہتر  یا کم از کم اپنے ماں باپ جیسی انسانی شکل انکی پشت پر بنائیں، اس طرح سینکڑوں سال گزرنے کے بعد ان کیکڑوں کی پشت پر صرف انسانی شکل نہیں، صرف جاپانی شکل نہیں بلکہ ایک جاپانی سیمورائی جنگجوکی شکل آنے لگتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیکڑے خود کیا چاہتے ہیں ، کیونکہ ارتقائی عمل میں انتخاب  خواہ مصنوعی ہو کہ قدرتی ، باہر سے مسلط کیا جاتاہے۔

اپنی پشت پر انسانی چہرے کی شباہت رکھنے والے یہ جاپانی کیکڑے مصنوعی انتخاب کے ذریعے ارتقاء کی محض ایک مثال ہے جس میں انتخاب کرنے والے انسانوں کو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں، لیکن انسان جان بوجھ کر مصنوعی انتخاب کے ذریعے حیاتیاتی ارتقاء ہزاروں سال سے کرتے ہوئے آرہے ہیں، اور اب بھی کررہے ہیں۔ہم جو اناج ، سبزیاں اور پھل کھاتے ہیں، جن جانوروں سے دودھ ، چمڑا اور گوشت حاصل کرتے ہیں اور جن جانوروں کو بوجھ ڈھونے اور سواری کے لئے استعمال کرتے ہیں ان میں سے ذیادہ تر مصنوعی انتخاب کے ذریعے عملِ ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔مصنوعی انتخاب  میں انسان  اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ  جانوروں ، اناج ، سبزیوں اور پھلوں کی بہت ساری قسموں میں سے کن کی حوصلہ افزائی کرنی ہے اور کس کی نہیں ، اور کون سے دو علیحدہ علیحدہ خصوصیات رکھنے والے جانداروں سے دونوں خصوصیات رکھنے والا ایک جاندار حاصل کیاجائے۔ جن جانداروں کی انسان حوصلہ افزائی کرتے ہیں وہ ایک بڑی تعداد میں دستیاب ہوتی ہیں اور جن کی حوصلہ شکنی کرتےہیں وہ کمیاب اور بعض اوقات ناپید ہوجاتی ہیں، مثال کے طور پر گھوڑا جس کی جنگلی نسل تقریباً ناپید ہوچکی ہے جبکہ سدھائے ہوئے گھوڑے بڑی تعدام میں موجود ہیں۔اسی طرح انسان یہ بھی طے کرتے ہیں کہ کس طرح ایک خاصیت حاصل کرنے  کےلئے دو الگ الگ  خاصیت رکھنے والےجانداروں کا ملاپ کروایا جائے، مثال کے طور پرخرگوش کے شکار کے لئے  کتے کی وہیپٹ نامی نسل ، کتوں کی دو الگ نسلوں، تیز رفتار گرے ہاوَنڈ اور چھوٹے جانوروں کے شکار کے ماہر ٹیریئر کے ملاپ سے حاصل کی گئی۔ اسی طرح گندم، چاول ، سبزیوں اور پھلوں میں انسان کو جو قسم پسندآئی اسے کاشت کیا گیا اور مختلف قسموں کا ملاپ بھی کروایا گیا جس کے نتیجے میں آج ہماری خوراک میں شامل یہ چیزیں موجودہ شکل میں موجود ہیں ان میں سے کئی کی جنگلی قسمیں یا تو ناپید ہوچکی ہیں یاکمیاب۔

یہ تو تھا مصنوعی انتخاب کے ذریعے ارتقاء جو انسانی خواہشات پر چند ہزار سالوں کے دوران ہوا، لیکن کرہِ ارض پر حیاتیات کی لاکھوں قسمیں ہیں یہ سب کہاں سے آیا،  میدانوں میں چرنے والے  سبزخور جانور، انکا شکارکرنے والے گوشت خور جانور، آسمانوں میں اڑتے پرندے، سمندر میں تیرتی مچھلیاں اور سب سے بڑھ کر انسان ،کیا یہ سے الگ الگ تخلیق کیئے گئے تھے ؟ زمین پر حیاتیات کا تنوع{ڈائیورسٹی} اس قدر ہے کہ دیکھنے میں ایسی لگتا ہے کہ ہر چیز علیحدہ علیحدہ تخلیق کی گئی ہے، لیکن اگر ہم غور کریں تو اس زمین پر پھیلی اس افراتفری میں بھی یکسانیت کے نقوش واضح ہونے لگتے ہیں۔اس یکسانیت کو پانے کے لئے آپ کو کسی اعلیٰ پائے کا سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اپنے گرد پھیلی ہوئی مختلف اقسام کی حیاتیات  کے زرے سے مشاہدے سے ہی واضح ہو جائے گا  کہ زمین کے کونے کونے پھیلے ہوئے تمام جاندار آپس میں کتنے مماثل ہیں۔ مثال کے طور پر جسمانی بناوٹ کو ہی لیجئے ، ہواوَں میں اڑتے پرندےہوں یاجنگلوں میں گھومتے ہاتھی، جوہڑوں میں چھپے مگرمچھ ہوں یہ زمین کے قابل ترین انسان  ، تمام کے جسم میں پانچ بنیادی عضو واضح ہے یعنی سر، دھڑ، دو اوپری متحرک عضو{ہاتھ، پر اور چوپایوں میں سامنے کی ٹانگیں} اور نچلے متحرک عضو{پاوَں}۔یہ تو محض ایک مثال ہے  آپ زرا خود نظر دوڑائیں دنیا کے حیاتیات یکسانیت سے بھری پڑی ہے، اور حیاتیاتی تنوع میں محض یکسانیت ہی نہیں بلکہ اختلاف بھی ہے۔ ہمارے روزمرہ کا مشاہدے ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ مصنوعی انتخاب کے ذریعے سے جانداروں میں تبدیلیاں  پیدا کی جاسکتی ہیں لیکن یہ تبدیلیاں بہت بنیادی نہیں ہوتیں یعنی عمل ارتقاء بذریعہ  مصنوئی انتخاب سے کتوں کی انتہائی چھوڑی نسل شُواوا  اور انتہائی بڑی نسل بلڈ ہاوَنڈ تو پیدا کی جاسکتی ہے  لیکن وہ عمل ہے جس سے اس زمین پر بسنے والی ہر مخلوق وجود میں آئی اور اس میں تنوع آیا وہ عملِ ارتقاء بذریعہ قدرتی انتخاب کہلاتاہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مصنوعی انتخاب کے ذریعے انسان نے صرف چند ہزار سالوں میں کس قدر تبدیلیاں پیدا کرلیں ہیں ، زرا تصور کریں کروڑہا سالوں سے جاری قدرتی انتخاب کس قدر تبدیلی پیدا کرسکتا ہے؟ جواب ہے کرہِ ارض پر موجودتمام نباتات، حیوانات پرندے اور انسان۔

نظریہِ ارتقاء کو عموما چارلس ڈارون { ۱۸۰۹ تا ۱۸۸۲ }اور ان کی کتاب انواع کا آغاز {اوریجن آف اسپیشیز }سے منسلک کیا جاتا ہے لیکن نظریہ ارتقاء کوئی نیا نظریہ نہیں ہے، ہزاروں سال قبل کچھ یونانی سائنسدان نظریہ ارتقاء کو صحیح سمجھتے تھے، خود اسلامی تاریخ کے سنہری دور کے عظیم سائنسدانوں بشمول ابنِ مسکاوی، ابوریحان البیرونی، نصیر الدین طوسی اور ابنِ خلدون کہ نے ارتقائی نظریات پیش کئے ، حتیٰ کہ ایک سائنسدان ابنِ الجاحظ نے جانداروں کی زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کو قدرتی انتخاب کا ایک حصہ قرار دیا ، اس تمام تاریخ کے باوجود چارلس ڈارون وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس نظریے کہ اصول بیان کیے اور یہ بتایا کہ یہ عمل کس طرح کام کرتاہے، اسی لئے اس نظریے کو ڈارون کا نظریہ ارتقاء بھی کہاجاتا ہے ۔ ڈارون کی کتاب کے پہلے بار منظر عام پر آنے کے بعد آج ایک سو ترپن سال گذر چکے ہیں، نظریہ ارتقاء ایک مفروضہ سے شروع ہوا تھا اور آج ایک جھٹلائی نہ جاسکنے والی حقیقت میں تبدیل ہوچکا ہے، ڈارون کے پاس اس مفروضے کے حق میں محض چند دلائل تھے لیکن آج ہمارے پاس ناقابلِ تردید ثبوتوں کے انبار ہیں اس باوجود نظریہ ارتقاء کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں جائز مقام نہیں ملتا اور محض تعلیمی اور تعلیمی میدان سے باہر بھی اسی حقیقت کو بعض غیر متعلق لوگوں کی جانب سے جھوٹ قرار دیا جاتاہے، ایسے لوگوں کے طرف سے جن کا سائنس سے دور کا بھی تعلق نہیں، ایک سائنسی حقیقت کے بارے میں موجود ان غلط فہمیوں کو دیکھتے ہوئے ہی میں نے نظریہ ارتقاء پر مضامین لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، میں امید کرتا ہوں کہ یہ مضامین نظریہ ارتقاء کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد گار ہوں گے۔

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ میں یہاں بیمار پڑگیا، ویسے تو میں بہت کم بیمار پڑا کرتا ہوں اور چھوٹی موٹی بیماریاں خود ہی ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن اس بار میری ٹھیک ٹھاک حالت خراب ہوگئی مجھے بخار اور کھانسی کی شکایت تھی۔ ویسے تو اسکینڈے نیویا میں علاج معالجہ مفت ہے لیکن یہاں دوائیاں کم ہی دی جاتیں ہیں، جس طرح پاکستان میں سردرد کی ایک ہزار گولیاں مل جاتیں ہیں یہاں ایک بھی نہیں ملتی اور پیناڈل کے سواء ہر دوا ڈاکٹر کے مشورے سے ہی دی جاتی ہے۔ یہاں تبدیل ہوتے موسم میں عام بخار اور کھانسی کو بیماری بھی نہیں سمجھا جاتا اور جن علامات پر پاکستانی ڈاکٹر دوائیوں کا ایک ڈھیر مریض کے حوالے کر دیتا ہے یہاں صرف آرام  اور گرم مشروبات پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ تین روز تو میں نے بیماری کو از خود ٹھیک ہونےکا موقع دیا لیکن حالت مزید خراب ہونے پر مجھے اسپتال جانا پڑاجہاں معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے یہی کہا کے یہ موسمی اثرات ہیں اس لئے آرام کرو اور کافی پیو، لیکن مزید پانچ دن بعد بھی میری حالت میں بہتری نہیں آئی، میرا  وزن کم ہونے لگا، اور کھانسی کے دوران مجھے اپنے خون کی بو آنے لگی لیکن ڈاکٹر کے نزدیک یہ محض میری کھانسی کی وجہ سے حلق میں پڑنے زخموں کی وجہ سے ہے۔ دوروز بعد میں تیسری بار اسپتال گیا تاکہ ڈاکٹر کو کسی طرح اینٹی بائیوٹک لکھنے پر راضی کرسکوں لیکن اس دن ایک دوسرا ڈاکٹر موجود تھاجس نے اس بار پھیپڑوں کا معائنہ کیا  تو معلوم ہوا کہ جناب ہمیں نمونیا ہےاور بلاخر ڈاکٹر مجھے دوا دینے پر راضی ہوگیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں کے ڈاکٹر اینٹی بائیوٹکس کے اتنے خلاف ہیں؟

بقائے اصلح
Survival of The Fittest.

ماضیِ بعید میں جب انسان جنگلوں میں رہا کرتا تھا تب اس کے کئی شکاری تھے  لیکن ہزاروں سالوں کی ترقی نے انسانی زندگی اب کافی محفوظ بنادی ہے، لیکن اس کے باوجود انسان کا ایک سب سے خطر ناک دشمن باقی ہے  اور وہ ہے بیکٹیریا، جی ہاں یہ چھوٹا سا جرثومہ انسان کا سب سے بڑا شکاری ہے اور انسان کو بہت ساری بیماریاں اسی جرثومے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ایسا ہے ایک جراثیمی حملہ مجھ پر بھی نمونیا کی صورت میں ہوا تھا اور میرا مدافعاتی نظام اسے روکنے میں ناکام رہا تھا۔یہاں کے ڈاکٹر انتہائی ضرورت کے موقع پر ہی اینٹی بائیوٹک ادویات دیتے ہیں کیونکہ جراثیمی حملوں کو روکنے کے لئے جسم میں پہلے ہی سے ایک مدافعاتی نظام موجود ہے اور وہ باہر سے آنے والی ہرچیز بشمول اینٹی بائیوٹک دوا کے اثر کو روکنے کی کوشش کرتاہے، اسی لئے اینٹی بائیوٹک ادویات نقصان دہ جراثیم کے علاوہ انسان کے مدافعاتی نظام کو بھی نقصان پہچاتے ہیں اور اگر اینٹی بائیوٹکس کا بہت ذیادہ استعمال کیا جائے تو یہ بے اثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ایسا کیوں ہوتاہے؟ جواب شاید کچھ لوگوں کے لئے حیران کن ہو یعنی عملِ ارتقاء۔ جس طرح کسی بھی قدرقی آفت سب سے پہلے کمزوروں کے جان لیتی ہے اسی طرح اینٹی بائیوٹک ہمارے مدافعاتی نظام کے ان اراکین کا سب سے پہلے خاتمہ کرتی ہے جو اس دوا کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں  لیکن طاقت ور اس دوا کا مقابلہ کرتے ہیں ، زندہ رہتے ،اپنی نسل بڑھاتے ہیں اور اس مدافعاتی صلاحیت کو اپنے اولاد میں منتقل کرتے ہیں۔

ارتقاء کے اس عمل سے ہمارے مدافعاتی نظام  ہی نہیں  بلکہ حملہ آور جرثومے بھی گزرتے ہیں، حملہ آور بیکٹیریا کے بڑی آبادی اینٹی بائیوٹکس کے اثر سے مر جاتی ہےلیکن چند بیکٹیریا پر جینیاتی تغیر { Mutation } کی وجہ سے دوا اثر نہیں کرتی اور وہ زندہ رہتے ہیں ، ان بیکٹیریا کو اگر مناسب ماحول مل جائے تو یہ دواسے مدافعت رکھنے والی بیکٹیریا کی نئی نسل پیدا کرتےہیں،  اس بیکٹیریا کوختم کرنے کے لئے دوا کی مقدار بڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ  مدافعت بھی بڑھ جاتی ہےحتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دوا کسی کام کی نہیں رہتی اورایک مکمل مدافعت رکھنے والا بیکٹیریا پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں اسکینڈےنیویا کے ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک تجویز کرنے سے ہرممکن پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ان کا زیادہ  استعمال نہ صرف انہیں بے اثر کرتا ہے بلکہ خود بیکٹیریا میں تبدیلیوں کا سبب بن کر انہیں مزید خطرناک بنادیتا ہے ۔تبدیلی کے  اس عمل کو خردارتقاء یا مائیکرو ایولوشن کہاجاتاہے جوکہ بقائے اصلح  { survival of the fittest } کی بنیاد پر قدرتی انتخاب { Natural Selection } کی وجہ سے ہوتاہے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی سے میتھاسیلن نامی دوا کا استعمال متروک ہوچکا ہےکیونکہ جس بیکٹیریا کے خلاف یہ دوا استعمال کی جاتی تھی وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو تبدیل کرچکا ہے،خرد ارتقاء کی چند مزید مثالیں یہ ہیں۔

Methicillin-Resistant Staphylococcus Aureus
Vancomycin-Resistant Staphylococcus Aureus
Penicillin-Resistant Pneumococcus
Penicillin-Resistant Enterococcus
Linezolid-Resistant Enterococcus
Clindamycin-Resistant Clostridium Difficile
Sulfonamide-Resistant Becteria
Extensively Drug-Resistant Turberculosis

خرد ارتقاء کی ایک اور بہترین مثال نائیلون کھانے والا بیکٹیریا ہے۔سن انیس سو پچھتر میں جاپانی سائنسدانوں نے نائیلوں فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کے تالابوں میں بیکٹیریا کی ایک قسم دریافت کی جو کہ تالاب میں موجود  نائیلون کے بائی پروڈکٹس کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے ، نائیلون ایک انسانی ایجاد ہے  اور انیس سو پینتیس سے قبل زمین پر کہیں بھی نائیلون نہیں پایا جاتا تھا اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہےکہ ایک بیکٹیریا تخلیقِ کائنات کے دن سے بھوکا تھا اوراربوں سال سے  انسان کے نائیلون ایجاد کرنے کےانتظارمیں زندہ تھا اور انیس سو پینتیس میں اپنی خوارک کے انسان کے ہاتھوں ایجاد کے بعد جاپان کی نائیلون کے کی فیکٹریوں کے قریب جابسا نہیں ایسا یقینا نہیں ہے یہ بیکٹیریا پہلے سے موجود کسی اور بیکٹیریا کی ارتقائی شکل ہے۔

یہاں تک تو بات کافی سادہ ہے یعنی بیکٹیریا ایک مشکل زندگی گزارتا ہے اس لئے جو بیکٹیریا خود کو ماحول کے مطابق اچھی طریقے سے ڈھال لیتے ہیں وہی اس قابل رہتے ہیں کہ اپنی نسل بڑھا سکیں، اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ چھوٹی چھوٹی وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہوتی رہتی ہیں اور آخر کار فرق اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ایک بلکل تبدیل شدہ بیکٹیریا سامنے آتاہے۔اس دوران پرانے قسم کا بیکٹیریا ناپید ہوسکتا ہے ، نئے بیکٹیریا کے متوازی جدا زندگی گزار سکتا ہے یا ایک اور قسم میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ تو تھا خرد اتقاء جسے ہم براہِ راست دیکھ سکتے ہیں کیونکہ بیکٹیریا انتہائی سادہ جاندار ہیں اور ان میں ہونے والے ذرا سی جنیاتی تبدیلی کچھ ہے عرصے میں ایک واضح بڑی تبدیلی بن جاتے ہیں جبکہ بڑے جانداروں میں ارتقائی تبدیلیوں کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ تبدیلیں کروڑوں سال لیتی ہیں، ارتقائے کبیر یعنی { Macro Evolution } کے بارے 
میں میں اگلے حصہ میں بات کروں گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...