اتوار، 2 ستمبر، 2012

پاکستان کے "برین ڈرین" کے اختراعی حل از عظیم ابراہیم



پاکستان کے "برین ڈرین" کے اختراعی حل
از عظیم ابراہیم


بوسٹن، ماساچوسٹس ۔ پاکستان کے متعدد چیلنجوں کے سادہ حل ڈھونڈنا پرکشش لگتا ہے لیکن حقیقت بتاتی ہے کہ اس ضمن 
میں پیش قدمی ایک پیچیدہ عمل ہو گا۔ آج ملک کو درپیش ایک کلیدی چیلنج "برین ڈرین" یعنی اعلی تعلیم یافتہ پاکستانیوں کی ملک سے ہجرت ہے۔ اس کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم معاشی ترقی کے لئے سرمائے کا تیسرا بڑا ذریعہ ہیں اور پاکستان کے بڑے قومی خسارے کو متوازن کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستان کو "برین سرکولیشن" کو اپنا ہدف بنانا چاہئے جس کا مطلب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے اپنے وطن میں صرف رقم بھیجنے سے بڑھ کر کچھ حصہ ڈالنا ہے۔ 


ہجرت (مائیگریشن) اور ترسیلات زر پر عالمی بینک کی 2011 کی "فیکٹ بک" کے مطابق تقریباً پچاس لاکھ پاکستانی سمندر پار مقیم ہیں اور ان کی غالب تعداد برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور کینیڈا میں ہے۔ عالمی بینک کے مطابق 2010 میں پاکستانی تارکین وطن نے 9.4 ارب ڈالر پاکستان بھیجے۔ یہ اعدادوشمار برین ڈرین کے حجم کی علامت کے ساتھ ساتھ پاکستانی تارکین وطن کی کمانے کی صلاحیت، اعلٰی مہارتوں اور میزبان ممالک میں حاصل کیے گئے علم کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ 

عالمی معیشتوں کی عالمگیریت مالی اور انسانی (دانشورانہ) سرمائے کی بڑھتی ہوئی سیالیت (fluidity) کا سبب بنی ہے اور بیرون ملک پاکستانی، پاکستان کی معیشت میں حصہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیت کو اختیار کردہ ملکوں کے مفاد میں بہتر بنانے کے قابل رہے ہیں۔ 

بیرون ملک ایک بڑی پاکستانی آبادی کے کئی فوائد ہیں۔ تارکین وطن کی مہارتوں اور کارجویانہ توانائی کو پاکستان واپس لانا ملکی معیشت میں استحکام لا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ شواہد تجویز کرتے ہیں کہ نوجوان پاکستانی دراصل دو وجوہات کی بنا پر وطن واپس آنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک بیرون ملک کم ہوتے مواقع اور دوسری اپنے وطن کو کچھ لوٹانے کی بے غرض خواہش ہے۔ لیکن اس میں رکاوٹیں بھی ہیں۔ 

پاکستان کو یقیناً ان کی ضرورت ہے اور معیشت کے مضبوطی میں مدد کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں کو مشغول کرنے کے ساتھ ساتھ دگرگوں جمہوریت میں استحکام لانے والی قوت اور پرامن تبدیلی کے لئے طاقتور عامل کے طور پر ان کے کردار میں بڑھتی ہوئی دلچسپی پائی جاتی ہے۔ تاہم باہر سے لوٹنے والے پاکستانیوں کو ہر وقت دستیاب بجلی کی کمی جیسے معیار رہائش میں اکثر کمی لانے والے مسائل کا لازمی طور پر سامنا کرنا ہو گا۔ 

پاکستانی حکومت بیرون ملک مقیم الیکٹریکل انجینیئروں اور شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ماہرین کو واپس آنے اور توانائی کے سنگین بحران کے حل میں حصہ ڈالنے کے لئے راغب کرنے میں ترجیح دے کر دانشمندانہ کام کرے گی۔ 

پاکستان میں جاری تشدد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ مرغی اور انڈے والا معاملہ ہے۔ ایک طرف تشدد بہت سوں کو واپس آنے سے روکتا ہے تو دوسری طرف متبادل توانائی جیسے شعبوں میں مہارت کے حامل پاکستانیوں کی واپسی سے ملازمتوں اور منڈی کے بڑھتے ہوئے مواقع وسائل تک رسائی پر ہونے والے پرتشدد جھگڑوں کو ختم کروانے میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو عالمی معشیتوں کی واقفیت اور عالمگیر طلب اور رسد میں تبدیلیوں کو سمجھنے کی صلاحیت کی بنا پر پاکستان میں کاروبار قائم کرنے میں مسابقتی برتری حاصل ہے۔ 

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی سخاوت پہلے ہی غربت میں کمی لانے میں ممد ثابت ہو رہی ہے۔ 

سماجی کاراندازوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اپنے آبائی ملکوں میں فلاحی تنظیموں کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی شعبے کے ذریعے پاکستان کو بہتر بنانے کے لئے کام کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر نچلی سطح پر ترقی کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم آغا خان فاؤنڈیشن نے، جسے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بہت مدد حاصل ہوتی ہے، پاکستان کی بہتری کی خاطر پیسہ اور مہارتیں اکٹھا کرنے کے لئے بہت کام کیا ہے۔ 

پاکستان میں غربت کے گھن چکر کو ختم کرنے کے لئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تحریک سے اٹھائے گئے متعدد اقدامات میں سے ایک 2002 میں "آغا خان رورل سپورٹ پروگرام" کی جانب سے پہلے "مائیکرو فنانس بینک" کا قیام تھا۔ مائیکرو فنانس یا چھوٹے قرضے دیہی غربت میں تبدیلی لانے کا باعث بن رہے ہیں اور اس کی کامیابی کا انحصار اچھے وژن (بصیرت) اور علم کی بنیاد پر پروگرام کے انتظام و انصرام پر ہو گا جو واپس آنے والے کئی تارکین وطن بخوشی مہیا کرنے کو تیار ہیں۔ 

کمپیوٹر ٹیکنالوجی بھی تارکین وطن کو تارک وطن کارکنوں کی روایتی دنیا اور علم کی بنیاد پر قائم معیشتوں کے درمیان خلیج کو پر کرنے کے لئے نیٹ ورکس مہیا کر رہی ہے۔ تارکین وطن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر قائم پہل کار صنعتوں میں سرمایہ کار بن گئے ہیں، بالخصوص کاروباری خدمات میں جنہیں انتظامی اور تکنیکی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور مقامی معیشتیں ان نو قائم شدہ چھوٹے اداروں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ نیا منتر "اچھا کرنا اور بہتر کرنا" ہے۔ اس میں سماجی کارانداز پھلنے پھولنے کے لائق کاروبار قائم کر رہے ہیں اور نتیجے میں سرمایہ کاری کے مزید مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ 

اگر سیاسی حقیقتیں مددگار ہوں تو بیرون ملک پاکستانی اپنا جذبہ، توانائی اور عزائم پاکستان لا سکتے ہیں۔ اور اس طرح عالمگیر مواقع کو مقامی صلاحیتوں کے ساتھ جوڑنے اور جمہوریت کی طرف پیش قدمی کو جاری رکھنے میں ممد ثابت ہو سکتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن کو تیزی سے آگے بڑھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ صلاحیت یقیناً موجود ہے، صرف اس کو عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ 

###

٭ ڈاکٹر عظیم ابراہیم سکاٹ لینڈ انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو چیئرمین اور واشنگٹن ڈی سی میں "انسٹی ٹیوٹ برائے سماجی پالیسی و تفہیم" کے فیلو اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...