اتوار، 2 ستمبر، 2012

فلسطین، اسرائیل اور مشترکہ مستقبل

فلسطین ، اسرائیل اور مشترکہ مستقبل 

رملہ، مغربی کنارہ ۔ ایک گرم دن کو الرام کے مقام پر داخلے کی اجازت کے ساتھ اسرائیلی فوجی ناکے کو عبور کرتے ہوئے میں فلسطینی صحافیوں کے گروپ کے حصے کے طور پر یروشلم کی طرف بڑھا۔ ہم اسرائیلی صدر شمعون پیریز کی رہائش گاہ کی طرف جا رہے تھے اگرچہ فلسطینی صحافیوں کی ایسوسی ایشن نے ہمیں اس اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ 

اس طرف جاتے ہوئے میں نے مغربی یروشلم کے قرب و جوار پہلی بار دیکھے۔ میں نے اس بات کو پسند کیا کہ علامتی نشان تین زبانوں عبرانی، انگریزی اور عربی میں لکھے گئے تھے۔ اور جب ہم صدر کے گھر پہنچے تو صحن کے باغ میں زیتون کے چند درخت تھے جنہوں نے میرے قلب کو روشن کر دیا۔ ان کو دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ وہ کتنے پرانے ہوں گے، شاید 60 یا 70 سال۔ 

ہمیں صدر کا انتظار کرنے کے لئے داخلی ہال میں لے جایا گیا۔ جب وہ چلتے ہوئے ہال میں داخل ہوئے تو میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی عمر 89 سال کی نسبت جوان نظر آ رہے تھے۔ ہم نے مل کر ٹیلی وژن پر ان کے رمضان کے خطاب کو دیکھا۔ جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ کتنے دانا اور مہذب تھے۔ ان کی زبان خوبصورت تھی اور محض سفارت کاروں کی زبان نہیں تھی۔ 

میں جن رپورٹروں کے ساتھ آیا تھا ان میں سے چند صدر کے رمضان خطاب کے سیاسی پیغام خصوصاً شام کے موضوع پر دلچسپی لے رہے تھے۔ تاہم ایک مصنف کے طور پر میں نے محسوس کیا کہ شام اور بہار عرب پر تبصرے کی نسبت میں مذہب، ثقافت اور سائنس سے متعلق پیریز کے الفاظ میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ 

پیریز نے ہم سے اپنی دوبدو گفتگو اسلام اور یہودیت، دونوں مذاہب کے مشترکہ احکامات اور اقدار اور ان کے درمیان اختلافات پر ایک عمیق بحث سے شروع کی۔ انہوں نے ان مشترکہ اقدار پر بات کی جو دونوں مذاہب میں روزہ رکھنے کے عمل کی بنیاد میں شامل ہیں۔ 

تب وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے اسرائیلی اور عرب نوجوانوں پر بات کرنے کی طرف بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ مسلمان یا یہودی ہو سکتے ہیں اور سائنس کی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے لئے کسی کو اپنا مذہب یا قومیت تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

صدر پیریز کے خیال میں سائنس کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کی دنیا کی نسبت ٹیکنالوجی کی دنیا سے زیادہ نئے رہنما سامنے آئیں گے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے عرب اور اسرائیلی نوجوانوں کے درمیان سینکڑوں دوستیاں ہیں۔ ایسی امریکی جامعات ہیں جو امن سازی کو آگے بڑھانے کے لئے سائنسی اور تکنیکی ذرائع تیار کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "امن ایسے وسائل فراہم کرتا ہے جہاں آپ فوجی سازوسامان کی بجائے سماجی ضروریات پر پیسہ خرچ کر سکتے ہیں"۔ 

صدر کے ان الفاظ نے میرے دل کو چھو لیا، "ہمیں امن کو جنگ پر ترجیح دینی چاہئے۔ اسرائیلی، فلسطینی اور اردنی نوجوانوں کی زندگیاں قیمتی ہیں اور ہمیں انہیں ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے"۔ 

میں نے انہیں کہا، "جناب صدر، رمضان کے لئے آپ کے احترام کا شکریہ۔ میں آپ کی جانب سے مذہب، ٹیکنالوجی اور مستقبل کو انسانی حوالوں سے متعارف کرانے کی تحسین کرتا ہوں۔ مجھے اجازت دیجیئے کہ میں رمضان کے انسانی جذبے اور جن اقدار کا یہ مطالبہ کرتا ہے، ان کے ذکر سے بات کا آغاز کروں"۔ تب میں نے قرآن کی پہلی آیت کی تلاوت کی، "تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو دنیا کا پالن ہار اور کفیل ہے"۔ 

میں نے توجہ دلائی کہ یہ آیت صرف مسلمانوں کو ہی نہیں، بلکہ ہر ایک کو مخاطب کرتی ہے۔ تب میں نے اپنی ہمت مجتمع کی اور پوچھا، "جناب صدر، ایک اسرائیلی مفکر کے طور پر آپ کا اختیار صدر کے طور پر آپ کے اختیار سے فائق تر ہے اور آپ جیسے اہم شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ بجائے خالصتاً سیاسی خیالات کے ایسے تصورات کو فروغ دے جو اختراعی ہوں۔ یہ حقیقت کہ سیاسی امن عمل جسے آپ نے قائم کیا تھا اب معطل ہے اور فلسطینیوں اور اسرائیلوں کے طور پر ہماری مشابہتوں اور مماثلتوں کی روشنی میں ہم (فلسطینی اور اسرائیلی) کیوں سب کے لئے ایک ریاست میں نہیں رہتے؟"

وہ ہچکچائے نہیں۔ اور اس بار اختلافات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہوں نے پرسکون اور سفارت کارانہ انداز میں جواب دیا، "مذہب اور تاریخ دونوں حوالوں سے ہم دو مختلف قومیں ہیں۔ اگر ہم اس پر غور نہیں کریں گے تو عظیم تضادات ابھر کر سامنے آئیں گے اور ہم جھگڑتے رہیں گے۔ ہم مستقل امن چاہتے ہیں۔ دو ریاستی حل متفقہ اور قابل قبول ہے"۔ 

انہوں نے کہا اگرچہ مغربی کنارہ چوراہوں، پلوں اور سڑکوں کی وجہ سے آج ویسا نہیں ہے جیسا یہ ہوا کرتا تھا، سائنس دو ریاستوں کے قیام میں آسانی پیدا کر سکتی ہے۔ انہوں نے پانی کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجیز کی مثالیں دیں جو پانی کو تنازعے کے ایک موجب سے تعاون کے موقعے میں بدل سکتی ہیں۔ 

امن میں مدد کے لئے ٹیکنالوجی اور سائنس کے استعمال کا یہ پیغام فلسطینیوں کے لئے کشش کا حامل ہے۔ امن کے پیامبر کے طور پر میں صدر پیریز پر زور دوں گا کہ ہماری حقیقت سے کم متعلق شام کے داخلی مسائل پر بولنے کی بجائے وہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پر اپنے منفرد اختراعی خیالات پر توجہ مرکوز کریں اور ان عوامل کو تقویت دیں جو ہمارے درمیان مشترک ہیں تاکہ ہمیں اپنے اختلافات پر قابو پانے میں مدد حاصل ہو۔ 

حالیہ تعطل کے باوجود ہماری قوموں میں مفاہمت کے حوالے سے سائنس، ٹیکنالوجی اور ثقافت کا امکانی کردار ہمیں پرامید ہونے کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ 

###

٭تحسین یقین رملہ سے تعلق رکھنے والے مصنف اور نقاد ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...