بر صغیر پاک وہند کا المیہ کہہ لیں یا مسلمانوں کی قسمت کے کہ یہاں حکومت کرنے والوں کا تعلق باہر سے ہی رہا۔ شہاب الدین غوری، شمس الدین التمش، قطب الدین ایبک، محمود غزنوی وغیرہ وغیرہ۔ اور ان سب کے بعد آیا انگریز بہادر، جس نے آتے ہی اس خطے کو ایک نئے قسم کے جال میں قید کیا ۔ برطانوی حکمت عملی تقسیم کرو حکومت کرو (ڈیوائیڈ اینڈ رول)۔۔۔صدیو
ں سے پیاسی ہندو قوم جو کہ کافی حد تک بیرونی حملہ آور مسلمانوں کی حکومت کو سہہ نہیں پارہی تھی اس قوم کو مسیحا مل گیا۔ انگریز بہادر نے ڈیوائڈ اینڈ رول کے تحت ہندوؤں کے ساتھ ہمدردانہ اور مسلمانوں کے ساتھ معتصبانہ رویہ اختیار کرکے بہت آسانی سےنچلی سطح تک اتحاد ختم کیا ، دراڑ پیدا کی اور پھر مزے سے حکومت کی۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینوں کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر ہی کے چراغ سے
خیر قصۂ مختصر ہندو اور مسلم جب پستیوں کی گہرائیوں میں جا پہنچے اور جب کوئی سبیل نہ رہی تو اپنےدو الگ الگ قوم ہونے کے فلسفے سے ماورا متحد ہو کر اپنی مدد آپ کا فیصلہ کیا اور پھر سے متحد ہوگئے۔ 1857 کی لڑائی اس ضمن میں پہلا قدم تھا۔ یہ اتحاد بلا تفریق مذہب اپنی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا اور انگریز بہادر کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو گھٹنے ٹیکنےپر مجبور کردیا۔ لیکن یہ ہاتھوں میں بھالے لیئے اور مشاعلیں جلاۓ معصوم لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ انگریز بہادر نے کوئ کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ اس بار بھی اس نے یہ بازی ہاتھ سے جانے نہ دی۔ پھر ایک نیا نعرہ آیا دو قومی نظریہ۔ یعنی کہ ہندو مسلم دو الگ الگ اقوام ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ یعنی کہ جن لوگوں کو کبھی ہندوستان کی دھرتی نے کبھی الگ الگ سطح نہ دی، سورج نے بلا تفریق روشنی سے نوازا، جن لوگوں کے لیۓ ہوا کبھی الگ الگ نہ چلی۔ پھر ان کے الگ الگ ہونے کا نعرہ کہاں سے آیا۔ اور اللہ بخشے اس نعرےکے پیدا کرنے والوں کو کہ کوئی یہ تو پوچھتا ان سے کہ جب یہ ساتھ نہیں رہ سکتے تو پھر وہ اتحاد کس کا تھا جس نے انگریز بہادر کو ٹھڈے لگا کر اپنی سرحدوں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا تھا؟؟؟۔ آج جسونت سنگھ نے برملہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ تقسیم کے ذمہ دار جناح نہیں نہرو اور پٹیل تھے ۔ تو جب اتنی بڑی سچائی موجود تھی تو اس وقت کے شاستریوں اور عالم دین کی عقل کہاں گھاس چرنے چلی گئی تھی؟؟؟۔ یقینن مغربی گھاس چرنے۔اور عوام نے کب کس دور میں پوچھنا ہے؟؟؟ ہم تو بس کل بھی اندھے بہروں کی طرح نعرے لگاتے تھے اور آج بھی۔ ہمیں تو عادت ہے ذات پات، اونچ نیچ، زبان، مذہب و فقہ کے نام پر بک جانے کی۔ اس لیۓ کمر باندھی اور جن لوگوں نے مل کر کامیابی کا سہرہ ایک دوجے کے ماتھے پرسجایا تھا ، انہیں لوگوں نے ایک دوسرے کی بیویوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم، اور اپنوں کو اپنے ہی خون سے رنگ ڈالا۔ افسوس انسانیت متحد نہ رہ سکی۔ اور انسانوں کی قربانیوں سے حاصل کی جانے والی مملکت خداداد رائیگاں چلی گئی۔ کٹائی کا عمل جاری و ساری رہا اور پھر کبھی نہ رکا۔ بنگلہ دیش میں ہونے والا ظلم زبان کی بنیاد (دو قومی نظریہ)، کشمیر میں پنڈتوں اور مولویوں کا قتل مذہب کی بنیاد (دو قومی نظریہ)، گجرات اور اش سرزمین کے ہر ہر حصے میں ہوۓ قتل عام کے پیچھے (دو قومی نظریہ)،اور کم و بیش 28 لاکھ پاکستان کی جانب آنے والے مسلمانوں کا بے دریغ قتل (دو قومی نظریہ)،۔۔۔ مرے دوستوں یہ دوفقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے کہیں ہندو مسلم کی صورت، کہیں شیعہ سنی کی صورت، کہیں پنجابی پٹھان کی صورت تو کہیں سندھی مہاجر کی صورت۔ اور اگر میں یہ دو قومی نظریہ یعنی معاشرے کی تفریق کو الفاظوں میں بیان کرتا چلا جاؤں تو یقینن یہ دو قومی نظریہ ایک گھر کی سطح پر آجائیگا۔
مقدس فکر کے حامل عقیدے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا سی بدگمانی ہو تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
محبت بخش دیتی ہے اخوّت خاندانوں کو
سیاست درمیاں ہو تو قبیلے ٹوٹ جاتے ہیں
ڈیوائیڈ اینڈ رول کی کوک سے جنم لیۓ یہ دو قومی نظریہ اب معاشرے کی رگ رگ میں ناسور بن کر دوڑ رہا ہے ہم اپنے بچوں کو بڑے ناز کے ساتھ دو قومی نظریہ کے راگ الاپتے ہیں، اپنی ہاری ہوئی جنگوں کو جیت کے رنگ ملا کر دکھاتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی اقوام کواب یہ جان لینا چاہیۓ کہ مذاکرات کی جنگ جیتی گئی ہو یا میدان کی دونوں میں انسانیت کی ہار ہوئی ہے۔ اور انگریز بہادر آج بھی ہم پر حکومت کررہا ہے۔ علامہ اقبال نے بہت پہلے ہی یہ شک ظاہر کردیا تھا کہ
اقبال کو شک ہے اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
ڈیوائیڈ اینڈ رول اور دو قومی نظریہ۔ ایک سکہ کے دو رخ۔ انسانیت کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی ایک سیاسی سازش بقول اقبال کے
اس کھیل میں تعین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
ڈیوائیڈ اینڈ رول اور دو قومی نظریہ کا لیکن ملکی سیاسیات میں جو استعمال ہوا آج ہم سب کو اس پر مل کر سوچنے کی ضرورت ہے۔
کیا پایا ہم نے؟؟؟ بس کھویا ہی کھویا ہے۔ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی وہی دینا چاہتے ہیں جو ہم سے پچھلی نسلوں نے ہمیں دیا ہے؟؟؟ آج ہمیں ضرورت ہے ذات پات، اونچ نیچ، زبان، مذہب و فقہ ، تنظیم و تحریک، اپنے گلی محلوں شہروں اور صوبوں کی حدوں سے باہر نکل کر سوچنے کی۔ ضرورت ہے انسانیت کو پھر سے متحد کرنے کی!۔۔۔
ارباب علی خان۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینوں کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر ہی کے چراغ سے
خیر قصۂ مختصر ہندو اور مسلم جب پستیوں کی گہرائیوں میں جا پہنچے اور جب کوئی سبیل نہ رہی تو اپنےدو الگ الگ قوم ہونے کے فلسفے سے ماورا متحد ہو کر اپنی مدد آپ کا فیصلہ کیا اور پھر سے متحد ہوگئے۔ 1857 کی لڑائی اس ضمن میں پہلا قدم تھا۔ یہ اتحاد بلا تفریق مذہب اپنی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا اور انگریز بہادر کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو گھٹنے ٹیکنےپر مجبور کردیا۔ لیکن یہ ہاتھوں میں بھالے لیئے اور مشاعلیں جلاۓ معصوم لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ انگریز بہادر نے کوئ کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ اس بار بھی اس نے یہ بازی ہاتھ سے جانے نہ دی۔ پھر ایک نیا نعرہ آیا دو قومی نظریہ۔ یعنی کہ ہندو مسلم دو الگ الگ اقوام ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ یعنی کہ جن لوگوں کو کبھی ہندوستان کی دھرتی نے کبھی الگ الگ سطح نہ دی، سورج نے بلا تفریق روشنی سے نوازا، جن لوگوں کے لیۓ ہوا کبھی الگ الگ نہ چلی۔ پھر ان کے الگ الگ ہونے کا نعرہ کہاں سے آیا۔ اور اللہ بخشے اس نعرےکے پیدا کرنے والوں کو کہ کوئی یہ تو پوچھتا ان سے کہ جب یہ ساتھ نہیں رہ سکتے تو پھر وہ اتحاد کس کا تھا جس نے انگریز بہادر کو ٹھڈے لگا کر اپنی سرحدوں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا تھا؟؟؟۔ آج جسونت سنگھ نے برملہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ تقسیم کے ذمہ دار جناح نہیں نہرو اور پٹیل تھے ۔ تو جب اتنی بڑی سچائی موجود تھی تو اس وقت کے شاستریوں اور عالم دین کی عقل کہاں گھاس چرنے چلی گئی تھی؟؟؟۔ یقینن مغربی گھاس چرنے۔اور عوام نے کب کس دور میں پوچھنا ہے؟؟؟ ہم تو بس کل بھی اندھے بہروں کی طرح نعرے لگاتے تھے اور آج بھی۔ ہمیں تو عادت ہے ذات پات، اونچ نیچ، زبان، مذہب و فقہ کے نام پر بک جانے کی۔ اس لیۓ کمر باندھی اور جن لوگوں نے مل کر کامیابی کا سہرہ ایک دوجے کے ماتھے پرسجایا تھا ، انہیں لوگوں نے ایک دوسرے کی بیویوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم، اور اپنوں کو اپنے ہی خون سے رنگ ڈالا۔ افسوس انسانیت متحد نہ رہ سکی۔ اور انسانوں کی قربانیوں سے حاصل کی جانے والی مملکت خداداد رائیگاں چلی گئی۔ کٹائی کا عمل جاری و ساری رہا اور پھر کبھی نہ رکا۔ بنگلہ دیش میں ہونے والا ظلم زبان کی بنیاد (دو قومی نظریہ)، کشمیر میں پنڈتوں اور مولویوں کا قتل مذہب کی بنیاد (دو قومی نظریہ)، گجرات اور اش سرزمین کے ہر ہر حصے میں ہوۓ قتل عام کے پیچھے (دو قومی نظریہ)،اور کم و بیش 28 لاکھ پاکستان کی جانب آنے والے مسلمانوں کا بے دریغ قتل (دو قومی نظریہ)،۔۔۔ مرے دوستوں یہ دوفقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے کہیں ہندو مسلم کی صورت، کہیں شیعہ سنی کی صورت، کہیں پنجابی پٹھان کی صورت تو کہیں سندھی مہاجر کی صورت۔ اور اگر میں یہ دو قومی نظریہ یعنی معاشرے کی تفریق کو الفاظوں میں بیان کرتا چلا جاؤں تو یقینن یہ دو قومی نظریہ ایک گھر کی سطح پر آجائیگا۔
مقدس فکر کے حامل عقیدے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا سی بدگمانی ہو تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
محبت بخش دیتی ہے اخوّت خاندانوں کو
سیاست درمیاں ہو تو قبیلے ٹوٹ جاتے ہیں
ڈیوائیڈ اینڈ رول کی کوک سے جنم لیۓ یہ دو قومی نظریہ اب معاشرے کی رگ رگ میں ناسور بن کر دوڑ رہا ہے ہم اپنے بچوں کو بڑے ناز کے ساتھ دو قومی نظریہ کے راگ الاپتے ہیں، اپنی ہاری ہوئی جنگوں کو جیت کے رنگ ملا کر دکھاتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی اقوام کواب یہ جان لینا چاہیۓ کہ مذاکرات کی جنگ جیتی گئی ہو یا میدان کی دونوں میں انسانیت کی ہار ہوئی ہے۔ اور انگریز بہادر آج بھی ہم پر حکومت کررہا ہے۔ علامہ اقبال نے بہت پہلے ہی یہ شک ظاہر کردیا تھا کہ
اقبال کو شک ہے اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
ڈیوائیڈ اینڈ رول اور دو قومی نظریہ۔ ایک سکہ کے دو رخ۔ انسانیت کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی ایک سیاسی سازش بقول اقبال کے
اس کھیل میں تعین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
ڈیوائیڈ اینڈ رول اور دو قومی نظریہ کا لیکن ملکی سیاسیات میں جو استعمال ہوا آج ہم سب کو اس پر مل کر سوچنے کی ضرورت ہے۔
کیا پایا ہم نے؟؟؟ بس کھویا ہی کھویا ہے۔ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی وہی دینا چاہتے ہیں جو ہم سے پچھلی نسلوں نے ہمیں دیا ہے؟؟؟ آج ہمیں ضرورت ہے ذات پات، اونچ نیچ، زبان، مذہب و فقہ ، تنظیم و تحریک، اپنے گلی محلوں شہروں اور صوبوں کی حدوں سے باہر نکل کر سوچنے کی۔ ضرورت ہے انسانیت کو پھر سے متحد کرنے کی!۔۔۔
ارباب علی خان۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے