اتوار، 2 ستمبر، 2012

فرقہ واریت ; نئے مشرق وسطٰی کا نقشہ; ریڈیو صدائے روس

 لبنان کے شمال میں شہر طرابلس میں بنیاد پرست سنّی گروہوں، جنہیں شام کے باغیوں کی حمایت حاصل ہے اور علوی شیعوں ، جو شام کے موجودہ صدر بشارالاسد کے حامی ہیں، کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ ان کے نتیجے میں اب تک آٹھ افراد مارے جا چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد دسیوں میں ہے۔ 
Photo: فرقہ واریت ; نئے مشرق وسطٰی کا نقشہ
لبنان کے شمال میں شہر طرابلس میں بنیاد پرست سنّی گروہوں، جنہیں شام کے باغیوں کی حمایت حاصل ہے اور علوی شیعوں ، جو شام کے موجودہ صدر بشارالاسد کے حامی ہیں، کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ ان کے نتیجے میں اب تک آٹھ افراد مارے جا چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد دسیوں میں ہے۔ تاحال ان میں مصالحت کرائے جانے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی ہے۔
"شمالی لبنان کے قومی مرکز" کے ڈائریکٹر الحاج کمال الخیر نے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،"یہ امر قابل فہم ہے کہ جو کچھ آج لبنان کے شمال میں ہو رہا ہے اس کا تعلق شام کے واقعات سے ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ لبنان کا یہ خطہ پڑاؤ بن چکا ہے۔ یہیں سے مختلف ملکوں سے آئے کرائے کے فوجی شام لبنان سرحد کو عبور کرکے شام کے باغیوں کے ساتھ جا ملتے ہیں اور پھر سرکاری فوجوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں شمالی لبنان کی سرحد سے ہی شامی باغیوں کو اسلحہ سمگل کیا جاتا ہے۔ ملک کی فوج اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے جو بہت سوں کو پسند نہیں آتا۔ اس سلسلے میں ایک بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ باہر سے کسی قسم کی مدد کے بغیر ،جس میں مالیاتی مدد پیش پیش ہے، اس قسم کے تصادمات کو بھڑکائے جانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ لبنان کے واقعات کا تعلق واضح طور پر شام کےحوالے سے امریکی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔"
روسی مستشرق ویاچی سلاو ماتوزوو کی رائے بھی باہر سے موصولہ امداد سے متعلق رائے سے ملتی ہے:"شام کے واقعات اس بند گلی کی غمازی کرتے ہیں، جس میں شام سے متعلق امریکہ کی پالیسی پھنس کرکے رہ گئی ہے۔ یہ جان کر کہ وہ کسی بھی طریقے سے یعنی نہ تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قراردادوں کے ذریعے اور نہ ہی نیٹو کے فوجی دستے چڑھا کر حکومت کو سرنگوں کر سکتا ہے، لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صلح کی مخالف شامی حزب اختلاف کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ دیے جانے بارے طے کیا ہے۔ اسلحے کا ایک حصہ لبنان کے شمال سے بھیجا جا رہا ہے، جہاں کے بہت سے باسی سرحد کے اس نوع کے استعمال پر خوش نہین ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تصادم کا راستہ نکل آیا۔ لبنان کی شناخت یہ ہے کہ وہاں بہت سے عقیدوں کے پیروکار بستے ہیں ،جن کے اختلافات بہت گہرے ہیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے، کہ ملک کی بہت سی سیاسی قوتوں کے مابین شام کے معاملے کے حل کے طریقوں بارے اختلافات ہیں۔ سیاسی قوتون کی ایک بڑی تعداد شام میں حکومت کو سرنگوں کیے جانے کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس لبنان کی حکومت شام کے معاملے کو اعتدال پسندی سے حل کیے جانے کی حامی ہے اور اپنے ملک کو شام کے تصادم میں شریک کرنا نہیں چاہتی کیونکہ جانتی ہے کہ ایسا کیا جانے کا عمل وہاں سے ٹکرا کر ان کے ملک میں ہی لوٹ کر آئے گا۔"
ماہرین کا خیال ہے کہ لبنان مشرق وسطٰی کا ایک اور مقام ہوگا جہاں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ اس طرح کے ملکوں میں خراب ترین حالات عراق کے ہیں جہاں صورت حال ویسے بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔
بہر حال فرقہ وارانہ تصادم خطہ جاتی اور بڑی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے اس حوالے سے امریکہ کی حکمت عملی کئی سال پہلے نئے عظیم تر مشرق وسطٰی کا نقشہ چھاپ کر عیاں کی جا چکی ہے۔ جس میں بڑے حصوں کی سرحدیں عقائد اور نسلی بنیادوں پر کھینچی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر خطے میں آزاد کرد ریاست اور ایک بہت ہی چھوٹا سا سنیوں کا عراق ہوگا، شیعوں کی عرب ریاست ہوگی جو خلیج کے پورے شمالی حصے کا احاطہ کرے گی۔ ان دنوں بہت سے ماہرین نے اس نقشے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ ایسا نہ کرنا غلطی تھی بالخصوص خطے میں ہونے والے آخری واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے تو ایسا ہی لگنے لگا ہے۔
تاحال ان میں مصالحت کرائے جانے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی ہے۔ "شمالی لبنان کے قومی مرکز" کے ڈائریکٹر الحاج کمال الخیر نے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،"یہ امر قابل فہم ہے کہ جو کچھ آج لبنان کے شمال میں ہو رہا ہے اس کا تعلق شام کے واقعات سے ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ لبنان کا یہ خطہ پڑاؤ بن چکا ہے۔ یہیں سے مختلف ملکوں سے آئے کرائے کے فوجی شام لبنان سرحد کو عبور کرکے شام کے باغیوں کے ساتھ جا ملتے ہیں اور پھر سرکاری فوجوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں شمالی لبنان کی سرحد سے ہی شامی باغیوں کو اسلحہ سمگل کیا جاتا ہے۔ ملک کی فوج اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے جو بہت سوں کو پسند نہیں آتا۔ اس سلسلے میں ایک بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ باہر سے کسی قسم کی مدد کے بغیر ،جس میں مالیاتی مدد پیش پیش ہے، اس قسم کے تصادمات کو بھڑکائے جانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ لبنان کے واقعات کا تعلق واضح طور پر شام کےحوالے سے امریکی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔" روسی مستشرق ویاچی سلاو ماتوزوو کی رائے بھی باہر سے موصولہ امداد سے متعلق رائے سے ملتی ہے:"شام کے واقعات اس بند گلی کی غمازی کرتے ہیں، جس میں شام سے متعلق امریکہ کی پالیسی پھنس کرکے رہ گئی ہے۔ یہ جان کر کہ وہ کسی بھی طریقے سے یعنی نہ تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قراردادوں کے ذریعے اور نہ ہی نیٹو کے فوجی دستے چڑھا کر حکومت کو سرنگوں کر سکتا ہے، لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صلح کی مخالف شامی حزب اختلاف کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ دیے جانے بارے طے کیا ہے۔ اسلحے کا ایک حصہ لبنان کے شمال سے بھیجا جا رہا ہے، جہاں کے بہت سے باسی سرحد کے اس نوع کے استعمال پر خوش نہین ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تصادم کا راستہ نکل آیا۔ لبنان کی شناخت یہ ہے کہ وہاں بہت سے عقیدوں کے پیروکار بستے ہیں ،جن کے اختلافات بہت گہرے ہیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے، کہ ملک کی بہت سی سیاسی قوتوں کے مابین شام کے معاملے کے حل کے طریقوں بارے اختلافات ہیں۔ سیاسی قوتون کی ایک بڑی تعداد شام میں حکومت کو سرنگوں کیے جانے کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس لبنان کی حکومت شام کے معاملے کو اعتدال پسندی سے حل کیے جانے کی حامی ہے اور اپنے ملک کو شام کے تصادم میں شریک کرنا نہیں چاہتی کیونکہ جانتی ہے کہ ایسا کیا جانے کا عمل وہاں سے ٹکرا کر ان کے ملک میں ہی لوٹ کر آئے گا۔" ماہرین کا خیال ہے کہ لبنان مشرق وسطٰی کا ایک اور مقام ہوگا جہاں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ اس طرح کے ملکوں میں خراب ترین حالات عراق کے ہیں جہاں صورت حال ویسے بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ بہر حال فرقہ وارانہ تصادم خطہ جاتی اور بڑی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے اس حوالے سے امریکہ کی حکمت عملی کئی سال پہلے نئے عظیم تر مشرق وسطٰی کا نقشہ چھاپ کر عیاں کی جا چکی ہے۔ جس میں بڑے حصوں کی سرحدیں عقائد اور نسلی بنیادوں پر کھینچی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر خطے میں آزاد کرد ریاست اور ایک بہت ہی چھوٹا سا سنیوں کا عراق ہوگا، شیعوں کی عرب ریاست ہوگی جو خلیج کے پورے شمالی حصے کا احاطہ کرے گی۔ ان دنوں بہت سے ماہرین نے اس نقشے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ ایسا نہ کرنا غلطی تھی بالخصوص خطے میں ہونے والے آخری واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے تو ایسا ہی لگنے لگا ہے۔

قازاخستان کے ماہر قوباط رحیموو کی رائے
امریکہ کا عسکری صنعتی کمپلیکس اپنی حیثیت کو مستحکم کر رہا ہے، قزاخستان کے، انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبوں کے ایک نامور ماہر قوباط رحیموو نے روس کی اخباری ایجنسی "ریگنم" کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا۔ اس سے قطع نظر کہ حکومت کس کی ہے ، ڈیموکریٹس کی کہ ری پبلیکنز کی اسلحہ سازوں اور فوجیوں کی لابی مضبوط رہے گی۔ حقیقتا" امریکہ کی معیشت جنگوں کے زور پر ہی آگے بڑھے گی اور یوں وہ لوگوں کی وسیع تعداد کی جیبیں موت کا سامان بیچ کر خالی کرائے گا۔ فوجیوں کو پہنائے جانے والے پیمپرز سے لے کر جنگی سیارچوں تک، ایک بہت ہی بڑا کاروبار ہے، جس کے لئے نئی منڈیاں درکار ہیں اور یہ منڈیاں علاقائی جنگیں ہیں۔ امریکہ کو فتح کی خواہش نہیں ہے اس کی خواہش ہے تو یہی کہ مقامی جنگیں ہوتی رہیں اور طوالت پاتی رہیں،

Photo: فرقہ واریت ; نئے مشرق وسطٰی کا نقشہ
لبنان کے شمال میں شہر طرابلس میں بنیاد پرست سنّی گروہوں، جنہیں شام کے باغیوں کی حمایت حاصل ہے اور علوی شیعوں ، جو شام کے موجودہ صدر بشارالاسد کے حامی ہیں، کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ ان کے نتیجے میں اب تک آٹھ افراد مارے جا چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد دسیوں میں ہے۔ تاحال ان میں مصالحت کرائے جانے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی ہے۔
"شمالی لبنان کے قومی مرکز" کے ڈائریکٹر الحاج کمال الخیر نے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،"یہ امر قابل فہم ہے کہ جو کچھ آج لبنان کے شمال میں ہو رہا ہے اس کا تعلق شام کے واقعات سے ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ لبنان کا یہ خطہ پڑاؤ بن چکا ہے۔ یہیں سے مختلف ملکوں سے آئے کرائے کے فوجی شام لبنان سرحد کو عبور کرکے شام کے باغیوں کے ساتھ جا ملتے ہیں اور پھر سرکاری فوجوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں شمالی لبنان کی سرحد سے ہی شامی باغیوں کو اسلحہ سمگل کیا جاتا ہے۔ ملک کی فوج اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے جو بہت سوں کو پسند نہیں آتا۔ اس سلسلے میں ایک بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ باہر سے کسی قسم کی مدد کے بغیر ،جس میں مالیاتی مدد پیش پیش ہے، اس قسم کے تصادمات کو بھڑکائے جانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ لبنان کے واقعات کا تعلق واضح طور پر شام کےحوالے سے امریکی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔"
روسی مستشرق ویاچی سلاو ماتوزوو کی رائے بھی باہر سے موصولہ امداد سے متعلق رائے سے ملتی ہے:"شام کے واقعات اس بند گلی کی غمازی کرتے ہیں، جس میں شام سے متعلق امریکہ کی پالیسی پھنس کرکے رہ گئی ہے۔ یہ جان کر کہ وہ کسی بھی طریقے سے یعنی نہ تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قراردادوں کے ذریعے اور نہ ہی نیٹو کے فوجی دستے چڑھا کر حکومت کو سرنگوں کر سکتا ہے، لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صلح کی مخالف شامی حزب اختلاف کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ دیے جانے بارے طے کیا ہے۔ اسلحے کا ایک حصہ لبنان کے شمال سے بھیجا جا رہا ہے، جہاں کے بہت سے باسی سرحد کے اس نوع کے استعمال پر خوش نہین ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تصادم کا راستہ نکل آیا۔ لبنان کی شناخت یہ ہے کہ وہاں بہت سے عقیدوں کے پیروکار بستے ہیں ،جن کے اختلافات بہت گہرے ہیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے، کہ ملک کی بہت سی سیاسی قوتوں کے مابین شام کے معاملے کے حل کے طریقوں بارے اختلافات ہیں۔ سیاسی قوتون کی ایک بڑی تعداد شام میں حکومت کو سرنگوں کیے جانے کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس لبنان کی حکومت شام کے معاملے کو اعتدال پسندی سے حل کیے جانے کی حامی ہے اور اپنے ملک کو شام کے تصادم میں شریک کرنا نہیں چاہتی کیونکہ جانتی ہے کہ ایسا کیا جانے کا عمل وہاں سے ٹکرا کر ان کے ملک میں ہی لوٹ کر آئے گا۔"
ماہرین کا خیال ہے کہ لبنان مشرق وسطٰی کا ایک اور مقام ہوگا جہاں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ اس طرح کے ملکوں میں خراب ترین حالات عراق کے ہیں جہاں صورت حال ویسے بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔
بہر حال فرقہ وارانہ تصادم خطہ جاتی اور بڑی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے اس حوالے سے امریکہ کی حکمت عملی کئی سال پہلے نئے عظیم تر مشرق وسطٰی کا نقشہ چھاپ کر عیاں کی جا چکی ہے۔ جس میں بڑے حصوں کی سرحدیں عقائد اور نسلی بنیادوں پر کھینچی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر خطے میں آزاد کرد ریاست اور ایک بہت ہی چھوٹا سا سنیوں کا عراق ہوگا، شیعوں کی عرب ریاست ہوگی جو خلیج کے پورے شمالی حصے کا احاطہ کرے گی۔ ان دنوں بہت سے ماہرین نے اس نقشے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ ایسا نہ کرنا غلطی تھی بالخصوص خطے میں ہونے والے آخری واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے تو ایسا ہی لگنے لگا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...