ہفتہ، 8 ستمبر، 2012

روس پاکستان تعلقات:جنرل اشفاق پرویز کیانی ماہ ستمبر میں ماسکو پہنچیں گے

کیا روس پاکستان تعلقات کو یکسر نئے سرے سے شروع کیا جا سکتا ہے؟

ذرائع ابلاغ عامہ نے خبر دی ہے کہ پاکستان کی بری افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی ماہ ستمبر میں ماسکو پہنچیں گے۔ ماسکو میں وہ نہ صرف روس کی فوج کے اعلٰی حکام بلکہ صدر روس ولادیمیر پوتن سے بھی ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عملی طور پر ایک ہی وقت میں یعنی 9 ستمبر کو روس کا سرکاری وفد پاکستان پہنچے گا، جو اپنے پاکستانی ہمکار افراد کے ساتھ دوطرفہ تعاون کے مسئلے پر غور کرے گا۔ یہ سب کچھ اسی موسم خزاں میں صدر روس کے مجوزہ دورہ پاکستان سے پہلے ہو رہا ہے۔

Россия Пакистан Россия
Collage:VOR

پاکستان کے ذرائع ابلاغ عامہ یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ دوروں کا تبادلہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا نیا صفحہ کھولنے کو ہے۔ اس سلسلے میں بہت کچھ تو فی الواقعی درست ہے کیونکہ گزشتہ دنوں میں روس اور پاکستان نے سرد جنگ کے زمانے میں پیدا ہونے والی مغائرت کو ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں تاکہ براہ راست مخاصمت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ تاہم ذرائع ابلاغ عامہ کی خوش گمانی سے ہٹ کر کے سفارتی حوالوں سے روس پاکستان تعلقات کو بہتر بنانے کا عمل کوئی اتنا سادہ نہیں ہے، روس کے تزویری تحقیق کے انسٹیٹیوٹ کے ایک ماہر بورس وولہونسکی کہتے ہیں،"معاملہ یہ ہے کہ ایشیا اور خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں متعلقہ ممالک بالکل ہی نئے تعلقات بنانے پر مائل ہیں۔ آج اس خطے میں اہم کردار افغانستان میں جنگ کا جاری رہنا اور وہاں قابض نیٹو اور سب سے پہلے امریکہ کے فوجیوں کی موجودگی ہے۔ جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ 2014 میں غیرملکی فوجی دستے افغانستان سے نکل جائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہوگا؟"
افغانستان سے امریکہ کے فوجی دستے مکمل طور پر تو شاید ہی نکل پائیں، امریکہ اس خطے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ امریکہ وہاں کئی اڈے برقرار رکھے گا اور فوجی دستوں کی ایک خاص تعداد بھی افغانستان میں ہی رہنے دے گا۔
یہ امکان بھی کم ہے کہ غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد افغانستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس زیادہ توقع ہے کہ حکومت مخالف گروہوں کی فعالیت میں شدت آ جانے گی۔
افغانستان میں امریکی اڈے ہونے اور اس ملک میں حالات کے مزید غیر مستحکم ہونے کا کسی بھی ملک کو فائدہ نہیں ہے، بورس وولہونسکی کہتے ہیں،"ایسا نہ تو پاکستان کے لیے سودمند ہو سکتا ہے۔ نہ ہی ایران ور نہ ہی افغانستان کے نزدیکی ہمسایہ وسطی ایشیائی ملکوں کے لیے۔ اس کا ہندوستان اور چین کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہے، جو ایک جانب تو افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور دوسری جانب اس حوالے سے بے حد خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ افغانستان بھانت بھانت کے انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں کا ٹھکانہ بن چکا ہے، جو ان دونوں ملکوں کی سالمیت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ پھر بلاشبہ یہ روس کے بھی فائدے میں نہیں ہے کیونکہ افغانستان میں عدم استحکام ، اس کے لیے بہت سے میدانوں میں تزویری اہمیت کے حامل مفادات کے لیے خطرناک ہے۔ ایسے حالات میں روس پاکستان تعاون کو ایک نئے معانی مل جاتے ہیں۔ متاسفانہ 1980 کے عشرے میں افغانستان میں سوویت یونین کی کارروائیوں کے بعد ان دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ بگڑ گئے تھے، لیکن اگر تب ان میں براہ راست مخاصمت تھی تو آج ان دونوں ملکوں کے مفادات عملی طور پر مشابہ نوعیت کے ہیں۔"
روس پاکستان روابط کا فعال ہو جانا خطے کے ممالک کے وسیع تر اتحاد اور سب سے پہلے شنگھائی تنظیم تعاون کے اراکین اور مبصر ملکوں کی تعداد بڑھائے جانے کی راہ کھولنے کا موجب بنے گا جو جنگوں سے آزاد ہو کر اپنے ملکوں میں پر امن زندگی بحال کرنے میں مصروف ہو سکیں گے۔
ذرائع ابلاغ عامہ میں کیے جانے والے تبصروں میں ایک سوال بلا تخصیص سبھی اٹھاتے ہیں: صدر روس کے دورہ پاکستان سے پہلے پاکستان کے اعلٰی فوجی سربراہ کے ماسکو آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ بورس وولہونسکی کہتے ہیں،" بہت سے مبصرین نے تو پاکستان مین فوجی حکومت بحال ہونے کے امکان بارے بھی باتیں کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی باتیں بے بنیاد ہیں کیونکہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی فوج اور خاص طور جنرل کیانی نے ذاتی طور پر آئین پاکستان کا پابند رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کی فوج آج بھی ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے جو سیاسی استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے، سالمیت کو برقرار رکھ سکتی ہے اور ہر طرح کی انتہا پسندی کے خلاف لڑ سکتی ہے۔"
پاکستان میں ہونے والے آئیندہ پارلیمانی انتخاب کے بعد پاکستان کا سیاسی سربراہ کون ہوگا، اس بارے میں فی الحال کوئی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ البتہ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صدر آصف علی زرداری کی جگہ کوئی اور لے لے گا۔ فوج تو بہر حال ملک میں ہی رہے گی ۔ جنرل کیانی کا دورہ روس ظاہر کرتا ہے کہ روس پاکستان تعاون کوئی عارضی یا لمحاتی عمل نہیں ہے بلکہ اس میں آئندہ انے والے سالوں کا بھی خیال رکھا جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...