اتوار، 2 ستمبر، 2012

مسلمان اور مورمن: عقائد اور جدوجہد میں مماثلت

مسلمان اور مورمن: عقائد اور جدوجہد میں مماثلت
از جوآنا بروکس اور تمرہ کیمسلی




 ایک وقت تھا کہ امریکیوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ امریکہ مذہبی جنونیوں کے ایک گروہ کے خطرے کی زد میں ہے۔ امریکی عوام کو یقین تھا کہ یہ انتہا پسند جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی عورتوں کو زبردستی غیرمطلوب شادیوں کے بندھن میں باندھ دیتے تھے، امریکی جمہوریت کی جگہ "پیغمبروں" کا قائم کردہ انتہاپسندانہ مذہبی دور لانا چاہتے ہیں۔ ایسی افواہیں بھی تھیں کہ وہ خدا کے نام پر دہشت گرد حملوں میں امریکی شہریوں کے خلاف ظلم و جور کے مرتکب ہوئے ہیں۔ 

 جنونی" جن کا خوف پھیلا ہوا تھا، کون تھے؟ مسلمان؟ 

نہیں، مورمن۔ 

آج جب امریکہ میں بڑے پیمانے پر غلط فہمیوں کا شکار ہونے کی بات آتی ہے تو مورمن اور مسلمان ایک جیسی جدوجہد کا سامنا کرتے نظر آتے ہیں۔ جب ان دو عقائد کی بات ہو تو ذرائع ابلاغ افواہوں اور انتہاؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک حیرت انگیز اور امید افزا علامت ہے کہ آج امریکی ایک مورمن یعنی ماساچوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی کو اپنا اگلا صدر منتخب کرنے کے امکان پر غور کر رہے ہیں۔ 

مورمن عقیدے کی بنیاد 1830 میں نیویارک میں ان امریکی پروٹسٹنٹس نے رکھی جو خدا سے ایک زیادہ پرجوش اور قریبی تعلق کے خواہاں تھے۔ جب مذہب نے ترقی کی تو مورمنوں نے اول اول امریکی مڈ ویسٹ میں اپنی آبادیاں قائم کیں اور پھر مغرب کی طرف اوتاہ میں آگے بڑھے جہاں یہ کمیونٹی میں اپنے مذہب پر عمل کر سکتے تھے۔ امریکیوں نے مورمنیت کو ایک اتنے خطرناک عقیدے کے طور پر دیکھا کہ جس سے نپٹنے کے لئے عسکری مداخلت کی ضرورت تھی۔ پہلی فوجی کارروائی 1838 میں مسسوری کے گورنر للبرن باگز کے جاری کردہ "مورمنوں کی بیخ کنی کا حکمنامہ" کے تحت عمل میں آئی اور بعد ازاں 1850 میں صدر بکنان نے مورمنوں پر امریکی حکومتی کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لئے وفاقی دستوں کو اوتاہ کے علاقے میں بھیجا۔ 

اس وقت سے مورمنیت ایک کروڑ چالیس لاکھ ارکان کے ساتھ ایک آفاقی مذہب بن چکا ہے۔ "لیٹرڈے سینٹس کے یسوع مسیح کے کلیسا" (ایل ڈی ایس)، جس سے مورمنوں کی بھاری اکثریت تعلق رکھتی ہے، کے ارکان اب عملاً دنیا کے ہر ملک میں بستے ہیں اور لوگوں کے متنوع گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی آرا جو پورے کینوس کا احاطہ کرتی ہیں ان میں کوئی شخص بڑی قومی اور بین الاقوامی تقسیموں کے دونوں طرف مورمنوں کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن ہم سب اپنے آپ کو عقیدے کی ایک آفاقی کمیونٹی کے ارکان سمجھتے ہیں۔ 

حال ہی میں مورمنیت اور اسلام پر امریکی ذرائع ابلاغ کی توجہ کے پیش نظر موجودہ وقت یہ دیکھنے کا بامصرف لمحہ ہے کہ دونوں گروپوں میں کتنا کچھ مشترک ہے۔ 

اسلام کی طرح مورمنیت امن کا مذہب ہے۔ مورمن اپنے آپ کو مسیحی سمجھتے ہیں اور جب ان لوگوں سے محبت کرنے کی بات آتی ہے جو دنیا میں ہمارے ساتھ شریک ہیں تو وہ الناصرہ کے یسوع یعنی حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کو سربلند رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم کیونکہ مورمن ایسے عقائد کے حامل ہیں جو باقی مسیحی گروپوں سے مختلف ہیں، مثلا حضرت عیسیٰ اور خدا دو علیحدہ وجود ہیں، لہذا ان کو اکثر سخت عداوت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ عداوت اور سمجھے نہ جانے کا احساس امریکی مسلمان کمیونٹی کے لئے بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ 

مورمنیت کی مرکزی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ زمین پر ایک فرد کی زندگی خدا کی رضا کے آگے سرتسلیم خم کرنا سیکھنے اور زندگی کے چیلنجوں اور نعمتوں کو قبول کرنے کی مہلت ہے۔ لباس میں شرم و حیا کو بالخصوص خواتین میں پرہیزگاری کی علامت سمجھا جاتا ہے جیسا کہ منشیات اور شراب سے اجتناب کو سمجھا جاتا ہے۔ مورمن باقاعدگی سے روزے رکھتے ہیں اور مسلمانوں میں ماہ رمضان کی تعظیم کی طرح مورمنوں میں روزے کے ساتھ غربا کو پیسے دینے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ 

اس طرح کی مماثلتیں اور ایل ڈی ایس کلیسا کی طرف سے تمام عقائد کے ساتھ صحت مندانہ تعلقات کو نمو دینے کی خواہش مسلمان امریکیوں کے ساتھ کئی مثبت اور ٹھوس تعاملات کا باعث بنی ہیں۔ ایل ڈی ایس کلیسا نے اسلامی خیراتی اداروں کے ساتھ کام کیا ہے اور مسلمان امریکی کمیونٹیوں تک رسائی کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ مثال کے طور پر مسسوری کے علاقے سینٹ لوئی میں ایک ایل ڈی ایس اجتماع نے گرجا گھر کو مقامی مسلمانوں کے لئے نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے کھول دیا۔ ایل ڈی ایس کلیسا اپنی ملکیتی جامعہ برائغم ینگ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں فلسطینی طلبا کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے۔ 

ہم شاذ ہی ایسی کوششوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں کچھ سنتے ہیں جبکہ اسلام یا مورمنیت کے منفی پہلوؤں کے بارے میں اکثر ہمیں کچھ نہ کچھ سننے کو ملتا ہے۔ ایک حالیہ گیلپ جائزے میں پتہ چلا کہ 18 فی صد امریکی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ صدارتی امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے جو مورمن ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکی عوام پالیسی پر مذہب کے اثرات کے حوالے سے محتاط ہیں۔ 

لیکن مورمنیت میں اور بھی بہت کچھ ہے جیسا کہ اسلام اور اور دیگر مذہبی کمیونٹیوں میں بہت کچھ ہے جو اپنے پیروکاروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ روابط میں حکمت اور ذمہ داری کے ساتھ کام لیں۔ ہمارے مذہبی اصول اس اخلاقی طرزعمل یا سبھاؤ کی تشکیل کر سکتے ہیں جس کی ہمیں مشکل سیاسی اور معاشی آفاقی مسائل کو حل کرنے کے لئے ضرورت ہے اور جو واضح سیاسی تقسیم یا تفریق کو ختم کرنے میں ممد ہو سکتا ہے۔ 

اس کے حصول کے لئے تمام مذاہب کے لوگوں کو لازمی طور پر ان چیزوں پر توجہ دینی چاہئے جو ہمیں متحد کرتی ہیں کیونکہ بالآخر ہم میں سے اکثر نہ صرف مشترکہ عقائد میں شریک ہیں بلکہ مضبوط اور ایمان رکھنے والے خاندانوں اور ایک برتر قوت کے ساتھ تعلق جیسے مقاصد بھی مشترک ہیں۔ اور اس سب کچھ کا حصول اس وقت آسان ترین بن جاتا ہے جب ہم دنیا کے باسیوں کے ساتھ پرامن طریقے سے بس رہے ہوں۔ 

###

٭ جوآنا بروکس The Book of Mormon Girl: A Memoir of an American Faith نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر پر @askmormongirl پر فالو کر سکتے ہیں۔ تمرہ کیمسلی جامعہ برائغم ینگ کی طالبہ اور Student Review کی مدیرہ ہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...