بدھ، 19 ستمبر، 2012

چین امریکہ بھارت سرد جنگ : بحر ہند کے تجارتی راستوں کی اہمیت


کیا بحر ہند میں امریکہ، بھارت اور چین کی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے؟
منصور مہدی
بر طانوی اخبار ’ٹائمزنے اپنی ایک تازہ اشاعت میں لکھتا ہے کہ دنیا کی سب سے مصروف ترین بحری گزرگاہ سے تقریباً 10 میل دور سری لنکا کے شمالی ساحل Hambantota کے مقام پر چین نے1.5 ارب ڈالر کی لاگت سے جدید طرز کی بندر گاہ تعمیر کر لی ہے جس کا افتتاح سری لنکا کے صدرمندرا راجا پکسے نے15اگست2010کو کیا ہے۔ اس سے چین کی نیوی بحر ہند میں گشت کرے گی اور سعودی عرب و دیگر ممالک سے اپنے لیے تیل کی رسد کی حفاظت بھی کر ے گی۔سری لنکا حکومت نے ہیمبن ٹوٹا کی بندرگاہ کو مزید وسعت دینے اور نئے برتھ بنانے کےلئے چین کی کمپنیوں چایئنہ ہاربر انجئنیرنگ کمپنی اور ساینو ہائیڈرو کارپوریشن کے ساتھ اس منصوبے کی مارچ 2007ءمیں منظوری دے دی تھی اور جس کی تعمیر جنوری2008میں شروع ہوئی۔بندرگاہ کی تعمیر تین فیز پر مشتمل ہے اور جس پر کل لاگت کا اندازہ600ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق ان اخراجات کا85فیصد حکومت چین اور15فیصد سری لنکا پورٹ اتھارٹی برداشت کرے گی۔ بندرگاہ کا پہلا فیز مکمل ہونے کے بعد ہیمبن ٹوٹا کی بندرگاہ سری لنکا کی جدید بندرگاہ ہو گئی۔ جہاں اب ایک ہی وقت میں 22میٹر گہری اور600میٹر طویل برتھ پر 20بھاری جہاز، 310میٹر طویل برتھ پر14آئل ٹینکر کھڑے ہو سکیں گے۔اس کے علاوہ عام جہازوں کیلئے120میٹر طویل برتھ علیحدہ سے بنائی گئی ہے۔ بندرگاہ کے تینوں فیز جو2014تک مکمل ہو جائیں گے کے بعد نہ صرف یہاں50ہزار افراد کیلئے روزگار کھل جائے گا بلکہ یہ جنوبی ایشیاءکی سب سے بڑی بندرگاہ کا درجہ حاصل کر لے گی۔

قدیم دور میں سلک روٹ سے ملانے والی ہیمبن ٹوٹا کی بندرگاہ 250سال قبل مسیح میں قائم ہوئی تھی جہاں چین اور عرب ممالک کے تاجر اپنا سامان تجارت لاتے تھے۔ یہ بندرگاہ بحر ہند کے اس تجارتی راستے پر واقع ہے جوایشیاءکو یورپ سے منسلک کرنے کیلئے آبنائے ملاکا کو نہر سویز سے ملاتا ہے۔آبنائے ملاکا جزیرہ نما ملائشیا اور انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے درمیان ایک آبی گزرگاہ ہے۔ اقتصادی لحاظ سے یہ نہر سویز اور نہر پاناما کی طرح دنیا کی اہم ترین بحری گزرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان بحری جہازوں کے گزرنے کا مرکزی راستہ فراہم کرتی ہے اور اس طرح دنیا کے تین گنجان آباد ترین ممالک بھارت، انڈونیشیا اور چین کو منسلک کرتی ہے۔ آبنائے میں سے سالانہ 50 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں جو دنیا کی کل تجارت کا ایک پانچواں حصہ اور تیل کے جہازوں کا ایک چوتھائی حصے کے حامل ہوتے ہیں۔ جبکہہیمبن ٹوٹا سے اندازاًسالانہ 36ہزار بحری جہاز بشمول 4500آئل ٹینکر گزرتے ہیں۔
سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ کے دور میں بحرالکاہل کی جو اہمیت تھی وہی اہمیت اب بحر ہند کو حاصل ہو چکی ہے۔ اس وقت بحرالکاہل تنازات سے بھرپوردنیا کا خطرناک ترین بحری خطہ تھا مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بحرالکاہل تنازعات سے پاک ہوگیا ۔بحر ہند بحرالکاہل کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے۔اب چونکہ معاشی ترقی کے لئے توانائی کا حصول ساری قوموں کے لئے پہلی ترجیح بن چکا ہے اورتیل و گیس توانائی کے بنیادی عنصر بن چکے ہیں۔دنیا میں استعمال ہونے والا سترفیصد تیل سمندری راستوں سے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہورہا ہے اور دنیا کی دیگر برآمدات اور درآمدات کا نوے فیصد بحری جہازوں کےذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہا ہے۔ یوں جنوبی ایشیا کی دوبڑی قوتوں بھارت اور چین کے علاوہ امریکہ ، ایران اورپاکستان کے مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر ان ممالک کی ساری توجہ اب بحر ہند پر مرکوز ہو چکی ہے۔ مڈل ایسٹ کے تیل پیدا کرنے والے ملک اور خلیجی ریاستیں یا تو بحرہند میں موجود ہیں یا بحرہند کے راستوں پر واقع ہیں۔ آبنائے ہرمز،خلیج عدن اور خلیج فارس بحرہند کا حصہ ہیں۔خلیجی ریاستوں سے یورپ اور دیگر براعظموں تک جانے والا تیل بحرہند سے گزرتا ہے۔
سری لنکا اپنے محل ووقوع ، مذہب ، تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہمیشہ بھارت کے قریب رہا مگرتامل لڑائی میں بھارت کے تاملوں سے تعلق کی وجہ سے دونوں ممالک میں دوریاں ہوتی چلی گئی۔ سری لنکا کے پاکستان اور چین سے بھی ہمیشہ قریبی اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں اور بعض مقامات پر سری لنکا نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان اور چین کو زیادہ سپورٹ کیا۔ اگرچہ سری لنکا کو فوجی امداد فراہم کرنے میں امریکہ کا کردار بھی خاصا اہم ہے۔ جون2007میں ہیومن رائٹس فیچرز کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ سری لنکا کی حکومت کو انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام کے تحت سالانہ 0.5ملین ڈالر اور دیگر مد میں1ملین ڈالر کی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔لیکن سری لنکا کو امداد فراہم کرنے والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ جاپان بھارت اور چین کا نام بھی شامل ہے۔چین نوے کی دہائی کے آغاز سے ہی سری لنکا کو سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والا ملک رہا جبکہ2007 سے اس عمل میں مزید اضافہ ہوگیا۔ گذشتہ سال چین نے سری لنکا کو 6 ایف7جیٹ طیارے مفت فراہم کیے ہیں۔چین نے تامل باغیوں کے خلاف سری لنکا کوتمام ممکنہ امداد،اسلحہ اور سفارتی حمایت فراہم کی اور مغرب کی طرف سے کسی بھی پریشانی کی صورت میں مکمل ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی ، جس کے نتیجے میں سری لنکا کیتین دہائیوں سے جاری خونی بغاوت سے جان چھوٹی ہے ۔تامل ٹائیگرز کی شکست نے عالمی سیاست خصوصاً علاقائی پاور پاکٹس کو شدید متاثرکیا ہے۔ ان کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد خطے میں ایک نئی ”سرد جنگ” نے جنم لیا ہے جس میں سری لنکا کی اسٹریٹجک اہمیت اجاگر ہوئی ہے۔
سری لنکا نے 2007میں جب چین سے Hambantota پورٹ کی تعمیر کا معاہدہ کیا تب سے بھارت سری لنکا سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ ادھر چین کا کہنا ہے کہ یہ پورٹ تجارتی بنیادوں پر تعمیر کی جارہی ہے اس کا مصرف صرف تجارتی ہی رہے گا جب کہ امریکی اور بھارتی اعلیٰ منصوبہ سازوں کے قریب یہ چین کی اسٹریٹجک پالیسی کا حصہ ہے ۔جس کے تحت وہ Hambantota کے علاوہ پاکستان میں گوادر بندر گاہ کی تعمیر، برما میں Kyauk Phyu کے مقام پر بندر گاہ کی تعمیر اور چین کے صوبے Yunnan کے دارالحکومت کن منگ تک 1,950کلو میٹر طویل ہائی وے، 15جون 2010کوبنگلہ دیش کے چین کے ساتھ اسکے ساحلی شہر چٹاگانگ میں ڈیپ سی پورٹ کی تعمیراور بنگلہ دیش کے پہلے سیٹلایٹ کو خلا میں بھیجنے کے معاہدے،ایران سے توانائی کے معاہدے ، نیپال تک ریلوے ٹریک کی تعمیرکے علاوہ بحر ہند اور بحر اوقیانوس کے ممالک سے تجارتی، اقتصادی اور مزید دوستانہ معاہدے قائم کر رہا ہے ۔اس کے علاوہ افریقہ میں چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے جس کی ایک مثال افریقی ملک انگولا کا امریکی اور یورپی امداداور قرضوں کو مسترد کر کے چین کی طرف سے پیش کئے جانے والے قرضوں کو قبول کرنا ہے۔

ایسے حالات میں بھارت بھی بحر ہند کے پانیوں پر حکمرانی کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔چین کے مقابلے میں خود کو علاقائی طاقت سمجھنے کی وجہ سے بھارت نے بھی بحر ہند اپنے قدم مضبوط کرنے شروع کر دیے ہیں۔ بھارت نے بھی ایرانی علاقے چاہ بہار اور بحرہند کے ساتھ ملحق جزائر ماریشس میں ایک طرف بندرگاہیں اور دوسری طرف قوت کا توازن اپنے پاس رکھنے کے لئے کئی آبی پراجیکٹس پر کام شروع کر دیا ہے۔ سری لنکا میں بندرگاہ کی تعمیر پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ نے متنبہ کیا کہ چین اس علاقہ میں کوئی نئی مصیبت کھڑی نہ کردے۔اگرچہ بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نرمل ورما نے کہا ہے کہ بحر ہند میں چینی بحریہ کی سرگرمیوں سے ہندوستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ چینی بحریہ کی تعیناتی کسی دوست ملک کی مدد کے لیے بھی ہوسکتی ہے جس کے چین سے اچھے تعلقات ہیں ، تاہم بھارت بحر ہند میں اپنے مفادات کے تحفظ اور ضروریات کے لیے تمام تر اقدامات کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے دیگر سیاستدان اور تجزیہ کار مسلسل اس بندرگاہ کی تعمیر اور چینی نیوی کی بحر ہند میں موجودگی پر تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔
اس کااظہار اس وقت منظر پر آیا جب سری لنکا کے صدر مندرا راجا پکسے نے جنوری 2010 میں بھارت کا دورہ کیا۔تب بھارتی حکومت کی شہہ پر تامل بھارتی باشندوں نے تامل ناڈو کے صوبائی دارالحکومت چنائی میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سری لنکا کے قونصلیٹ کے باہر ہونے والے اس مظاہرہ سے تامل ٹائیگرز کے سابقہ حامی سیاستدان وائیکو اور دیگرنے خطاب کرتے ہوئے کہا:”سری لنکا کے صدر کو بھارت داخلے کا کوئی حق نہیں۔ ان کے ہاتھ تامل باشندوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔”اس موقع پر مظاہرین نے سری لنکا کے صدر کا پتلا بھی نذرِ آتش کیا۔ دورے کے دوران بھارتی حکمران کانگریس اور اس کے اتحادی DMK کے تامل ایم پی ایز نے بھی سری لنکا کے صدر سے ملاقات کی اور انہیں اپنے خدشات اور تحفظات سے آگاہ کیا۔ ان ملاقاتوں پردہلی انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز کے ریسرچ سکالر سکندر رحمان کا کہنا تھا کہ ”بھارت کی قابل ذکر تامل آبادی سری لنکا کی تامل آبادی سے مکمل یکجہتی رکھتی ہے، لیکن ساتھ یہ احساس بھی ہے کہ ان کی شدید تنقید سے چین اسٹریٹجک پوزیشن پر نہ آ جائے۔”اسی طرح ایک طرف تو بھارتی حکومت سری لنکا کے صدر کے ساتھ بھاری چارے اور مفاہمت کی بات کر رہی تھی تو دوسری طرف بھارتی میڈیا اپنے مہمان صدر کی ٹیم کا میڈیا ٹرائیل کرنے میں مصروف رہا۔ یہ سب باتیں اصل میں چین کی بحر ہند میں رسائی پر ردعمل کا اظہار تھیں۔دوسری طرف امریکہ اور مغرب نے بھی بحرہند پر اپنی اٍستبدادیت قائم کرنے کے لئے نئی صف بندیاں شروع کردی ہیں۔ امریکی بحری بیڑوں کی بحر ہند میں مسلسل آمد اور ڈیگوگارشیا کی از سرنو ترتیب اس امر کی غمازی کرتے ہیں۔ کیونکہ خود امریکہ اور دیگر یورپی طاقتیں بحر ہند میںچین کے بڑھتے ہوئے اثر سے بخوبی آگاہ ہیں اور چین کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لئے کوشاں بھی ہیں۔جس کا مظاہرہ خود امریکہ کی طرف سے کئی ایک بار ہو چکا ہے۔ کبھی چینی مصنوعات پر پابندی لگانے کی صورت میں اور کبھی بنیادی انسانی حقوق کی آڑ میں۔ 16اگست2010کو پینٹاگان کا یہ پیغام کہ تیل اور گیس کے سمندری راستوں پر چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان علاقوں میں اپنی فوجی قوت کو بڑھانے کی کوششیں چین کے مستقبل کے ارادوں کو ظاہر کر رہے ہیں ۔

بحر ہند میں بڑی طاقتوں کی جاری کشمکش پر پاکستان کی بھی مسلسل نظر ہے پاک بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل محمد افضل طاہر کا کہنا ہے کہ اس وقت بحر ہند عالمی مفادات کا مرکز بن چکا ہے، خلیج سے تیل کے آزادانہ بہاو ¿ کے باعث دنیا اس علاقے میں اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کیلئے توجہ دے رہی ہے جبکہ و سطی ایشیائی ریاستوں کے قدرتی وسائل بھی دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور ان کی نقل و حمل بحر ہند سے باآسانی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک بحریہ ایک متوازن اور مستحکم قوت ہے جو بحری جنگ کے تمام پہلووو ¿ں کے حوالے سے جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ مستقبل کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے پاک بحریہ نے دو نکاتی حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت جدید ہتھیارو ں اور سینسرز کی تنصیب سے موجودہ اثاثوں کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نئے بحری جہاز، ایئر کرافٹ اور سب میرین بھی حاصل کی جارہی ہیں۔ اس پالیسی کے تحت چین کے ساتھ چار ایف 22 پی فریگیٹس کی تیاری کے سمجھوتے کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 8 پی تھری سی میری ٹائم پٹرول ایئر کرافٹ حاصل کئے جارہے ہیں۔ ہم نئی آبدوزیں حاصل کرنے کا بھی جائزہ لے رہے ہیں تاہم ہماری سب سے اہم پالیسی خود کفالت کا حصول ہے جس کی سب سے بڑی مثال ایس ایم حمزہ کی لانچنگ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری 95فیصد سے زائد تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ تجارت کے حوالے سے سمندر کی کتنی اہمیت ہے۔
قرائن سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب بحر ہند میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں چین کے ساتھ پاکستان، ایران، سری لنکا، بنگلہ دیش، برما کے علاوہ دیگر ممالک ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ بھارت کھڑا نظر آ رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکی ایٹمی معاہدہ اس کی ایک مثال ہے۔ بحر ہند میں چین کے ساتھ سرد جنگ میں اب امریکہ بھارت کو مقابلے پر لانے کیلئے کوشاں ہے۔ کیونکہ امریکہ کی عراق سے واپسی اور افغانستان میں شکست کے بعد ان آبی راستوں پر اپنی حکمرانی کھونا نہیں چاہتا۔ عالمی امور پر اتھارٹی سمجھے جانیوالےکئی تجزیہ کاروں اوردانشوروں نے اکیسویں صدی کو بحرہند کی صدی سے منسوب کیا ہے۔امریکن نیوی کے سابق کمانڈر رابرٹ ڈی کپلان نے معروف امریکی جریدے فارن افیرز میں لکھے جانے والے اپنے ارٹیکل “اکیسویں صدی بحرہند اور طاقت کے کھیل “میں شہرہ افاق عسکری محقق الفریڈ تھائر مین کا یہ جملہ اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں ہر اس ملک نے جنگوں میں برتری حاصل کیجسنے نہ صرف اپنے بحری آثاثوں کا تحفظ کیا بلکہ ہر مشکل وقت میں اپنے بحری راستوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔
ماہرین کی رائے ہے کہ مستقبل کی متوقع سپرپاور چین کو اپنی معیشت کو ترقی دینے اور اس خطے میں امن قائم کرنے کیلئے بحرہند کے تجارتی راہوں کو اپنی دسترس میں لانا ہوگا۔اور بحرہند کے گرد و نواح میں واقع ملکوںکے علاوہ سعودی عرب اور شنگھائی تنظیم کے ممبر ممالک کو کوئی ایسا پلان مرتب کرنا ہو گا کہ جس سے بحر ہند امریکہ سوویت یونین کے زمانے کا بحر الکاہل کا بن سکے۔کیونکہ مستقبل میں عالمی قیادت کا تاج پہننے کے لئے بڑی طاقتوں کے درمیان اور وسط ایشیا اور براعظم افریقہ کے توانائی کے زخائر پر غلبے کی جنگ کا آغاز ہوچکاہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...