جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

سٹیم سیلز سے بنے انڈے سے زندگی کی نمود



چوہے کے بچے
ان چوہوں کے بچے پیدا ہوئے ہیں جنہیں تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا تھا۔

جلد سے بنے سٹیم سیل اب ’دادا دادی‘ بن چکے ہیں کیوں کہ سائنسدانوں نے تجربہ گاہ میں سٹیم سیل سے جو زندگی پیدا کی تھی ان کی ایک نسل آگے بڑھی ہے۔
یہ کارنامہ جاپان میں سامنے آیا ہے جہاں سٹیم سیلز سے انڈے بنائے گئے اور ان میں تخم ریزی کر کے ان سے نوزائیدہ چوہے پیدا کیے گئے تھے۔ بعد میں ان چوہوں کے اپنے بچے بھی پیدا ہوئے۔

اس کے باوجود سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ابھی اس سلسلے میں کئی سائنسی اور اخلاقی رکاوٹوں کوعبور کرنا باقی ہے۔اگر اسی تکنیک کو انسانوں پر استعمال کیا جائے تو بانجھ لوگوں کے ہاں اولاد ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ خواتین میں حیض کے بند ہونے کے عمل کو بھی روکا جا سکتا ہے۔

سٹیم سیلز جسم میں کسی بھی قسم کے خلیہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ خون اور ہڈیاں بھی بن سکتے ہیں اور اس کے علاوہ رگ و ریشے اور جلد بھی بن سکتے ہیں۔
جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی میں گذشتہ سال سٹیم سیلز سے قابل استعمال منی بنائی گئی تھی اور اب انہوں نے بیضوں یا انڈوں کے بنانے میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
انہوں نے دو ذرائع سے سٹیم سیلز اکٹھا کیے ایک جین یا بچہ کی ابتدائی صورت سے اور دوسرے جلد سے مماثل خلیوں سے اور انھیں سٹیم سیلز میں تبدیل کرنے کے لیے ری پروگرام کیا گیا۔

اور بھی مراحل ہیں

"
مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ انسانوں میں اسکا فوری استعمال ممکن نہیں کیونکہ نہ صرف اس میں ابھی سائنسی پیچیدگیاں ہیں بلکہ اس میں ضابطہء اخلاق کا معاملہ بھی ہے"
ڈاکٹر ہیاشی
’سائنس‘ نامی جریدے میں شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلے قدم کے طور پران سٹیم سیلز کو بیضوں کی ابتدائی صورت میں تبدیل کیا گیا۔ پھر اس کے ساتھ دوسرے اقسام کے خلیوں کی مدد سے ایک بچہ دانی تیار کی گئی جن میں انڈوں کی ان ابتدائی شکلوں کو رکھا گيا اور پھر اسے ایک چوہیا کے جسم میں داخل کر دیا گیا۔
چوہیا کے جسم میں ان انڈوں کو تیار ہونے اور ان کی نشونما کے مواقع ملے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انڈوں کو حاصل کرنے کے لیے آئی وی ایف تکنیک کا استعمال کیا گیا اور ایک چوہے کی منی سے اس میں تخم ریزی کی گئی اور عمل تولید کے مرحلے سے گذرنے والے ان انڈوں کو ایک چوہیے کے جسم میں ڈالا گیا۔
کیوٹو یونیورسٹی کے ڈاکٹر کاٹسوہیکو ہیاشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان لوگوں نے اس سے چوہوں کے صحت مند بچے تیار کر لیے ہیں۔‘
ان بچوں کو بعد میں خود کے بچے ہوئے جن کی دادی ماں ایک تجربہ گاہ میں ایک خلیہ محض تھیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کا حتمی مقصد بانجھ لوگوں میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔
بہر حال ڈاکٹر ہیاشی نے کہا کہ ابھی یہ بہت دور کی بات ہے۔ انھوں نے کہا ’مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ انسانوں میں اس کا فوری استعمال ممکن نہیں کیونکہ نہ صرف اس میں ابھی سائنسی پیچیدگیاں ہیں بلکہ اس میں ضابطہء اخلاق کا معاملہ بھی ہے۔‘
 بی بی سی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...