بدھ، 31 اکتوبر، 2012

پاک و ہند ۔باہمی مغالطے ڈاکٹر منظوراعجاز


ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کو وزیر اعلی پنجاب جناب شہباز شریف کی طرف سے دئیے گئے عشائیے سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ کرشنا جی ہماری طرح (گوشت وغیرہکھانا چاہتے تھے اور ہم ان کو خیالی یا فرضی ہندووں کا ساگ پات اوردالوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔لاہور میں ہونے والی اس ضیافت سے کچھ واقعات ذہن سے گزر گئے اور احساس ہوا کہ ہم مذہبی اور قومی عصبیت میں اتنے بے خبر ہو جاتے ہیں کہ ہمارا ذہن سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی ٹھوس حقیقت دیکھنے کی بجائے اپنے ہی تراشے ہیولے کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ذہن میں ہندو یا سکھ کا ایک تصوراتی خاکہ بٹھا دیا گیا ہے جو ہمیں ان کو اپنے ہی جیسا انسان سمجھنے کی راہ میں حائل رہتا ہے۔

تقریباً تین دہائی پہلے میں مشہور ناول نگار اور کالمسٹ محمد حنیف کے ہاں مہمان تھا۔ وہ ان دنوں ہفتہ وار انگریزی جریدے میں کام کرتے تھے جو مرحومہ رضیہ بھٹی کی ادارت میں چھپتا تھا۔محفل کے خاتمے پر جب سب لوگ اٹھنے لگے تو میں نے حنیف صاحب سے گلہ کیا کہ یار کراچی آنے کا کیا فائدہ ہوا ، تم نے کسی ہندو دانشور سے ملاقات ہی نہیں کروائی۔ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ آپ ساری شام جس شخص سے مخاطب رہے وہ ہندو ہی تو ہے۔ وہ مٹھی تھرپاکر کے ڈاکٹر کھٹاوٴمل تھے جو تب سے ہمارے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ میرا ذہن ایک کلین شیو اورڈھنگ سے تراشے بالوں والے شخص کو ہندو کے طور پر لے ہی نہیں پایا تھا ۔ پنجاب میں تقسیم کے بعد ہندو ناپید ہو چکے ہیں اور ہمارے ذہن میں ہندو ایک خاص ڈھب کا بالوں کی چوٹیباندھنے والا مسخرہ سا شخص ہوتاہے۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے پہلا ہندو ڈاکٹر کھٹاوٴ مل کی شکل میں دیکھا لیکن چند سال پہلے جو مجھے انکشاف ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیران کُن تھا۔ ایک بلوچی دوست سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے یکدم خیال آیا کہ ڈاکٹر کھٹاوٴمل کی ملاقات سے تیس سال پیشتر یونیورسٹی میں ہم سے ایک سال سینئرکوئٹہ سے آئی ہوئی ایک طالبہ کانتا دیوی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی کا فلسفہ ڈپارٹمنٹ چالیس پچاس طلباو طالبات تک محدود ہوتا تھا چنانچہ ہر کوئی ایک دوسرے کو قریب سے جانتا تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم نے کانتا دیوی کواپنے سے مختلف ہندو کے طور پر دیکھا ہی نہیں تھا۔میں کافی مرتبہ ہندوستان اور بالخصوص مشرقی پنجاب کے شہر و قصبات میں گھوما ہوں۔ اس دوران میں مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ہندووں اور سکھوں کے بارے میں قائم کئے ہوئے تصورات و تعصبات کتنے بے بنیاد ہیں۔ مثلاً عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سکھوں میں شراب نوشی حد سے بڑھ کر ہے۔ میں درجنوں سکھ دوستوں کا مہمان رہا ہوں اور وہ بھی میرے ہاں آکر ٹھہرتے رہے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے یا اتفاق ہے کہ ان میں سے کوئی بھی شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا۔ جب میں پہلی مرتبہ امرتسر، جالندھر اور موہالی گیا تو میرے تمام میزبان شام کو شرمندگی سے سر جھکا کر کہتے تھے ”دیکھئے ہم تو شراب نوشی کرتے نہیں ہیں اور نہ ہی گھر میں لاتے ہیں اس لئے ہم آپ کی یہی خدمت کرسکتے ہیں کہ آپ کو کسی بار پر لے جائیں “ جب میں نے ان سے کہا کہ یہ میرا مسئلہ ہی نہیں ہے تو ان کو اطمینان ہوا اور اس کے بعد کے دوروں میں وہ اس طرف سےمطمئن رہتے تھے۔ آپ میں سے اکثر یہ جانتے ہی ہوں گے کہ اب سکھوں میں سگریٹ نوشی ویسے ہی گناہ ہے جیسے مسلمانوں میں سور کا گوشت کھانا یا شراب نوشی۔ جب میں پہلی مرتبہ مشرقی پنجاب گیا تو سگریٹ نوشی کی لت کی وجہ سے بہت پریشان رہا کیونکہ سکھ میزبانوں کے گھر میں یا ان کے سامنے سگریٹ نوشی کافی قبیح عمل تھا۔ اس لئے جب میں کسی کونے میں چھپ جاتا تھا تو میزبانوں کو بھی اندازہ ہو جاتا تھا کہ میں کس لئے غائب ہوا ہوں ، وہ اس کا ذکر تو نہیں کرتے تھے لیکن آنکھوں سے تشکر کا اظہار ضرور کرتے تھے کہ میں ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتا ہوں۔لیکن پٹیالہ کے بس اڈے پر اپنے جیسے داڑھی مُنڈے ہندو وں کوسر عام سگریٹ پیتا دیکھ کر میں نے سوچا کہ بس اڈے کے جم غفیر میں میرے حلیے سے کسی کو کیا پتہ چلے گا کہ میں وہاں کا رہنے والا ہندو ہوں یا پاکستان سے آیا ہوا مسلمان۔اسی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہمارے وائس آف امریکہ کے براڈ کاسٹر دوست اومیش اگنی ہوتری نے کہا کہ وہ پاکستان جانا تو چاہتے ہیں لیکن خائف ہیں کہ کہیں ان کو ہندو سمجھ کرپریشان نہ کیا جائے۔تومیں نے کہا کہ اگرآپ خود لاہور کی سڑکوں پر اعلان نہ کرتے پھریں کہمیں ہندو ہوں تو کسی کو کیا پتہ چلے گاکہ آپ کون ہیں؟ چنانچہ وہ لاہور گئے اور انہوں نے واپس آکر میری بات کی تصدیق کی۔ میں نے ہندوستان میں گھومتے ہوئے محسوس کیا کہ پاک و ہند کے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہت سے مغالطوں کا شکار ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار اس لئے زیادہ ہے کہ سکھ کسان مسلمانوں سے زیادہ محنتی اور جدت پسند ہیں۔ میں نے بہت سے سکھ کسانوں سے اس بارے میں دریافت کیا جن کو تقسیم سے پیشتر مسلمانوں کے ساتھ رہنے کا ذاتی تجربہ تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے اس مغالطے کی نفی کی۔ بلکہ ایک سکھ معیشت دان نے اس فرق کی بنیادی وجہ یہ بتائی کہ مشرقی پنجاب میں سرکار زرعی شعبے کو مفت بجلی فراہم کرتی ہے اور زیر زمین پانی بھی میٹھا ہے لہٰذا پانی کے مفت اور وافر ہونے سے مشرقی پنجاب کے کسان کی فی ایکڑ پیداوار پاکستانی پنجاب سے زیادہ ہے۔ پاک و ہند میں ایک دوسرے کے بارے میں مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی پہلووں سے بھی بہت مغالطے ہیں جن کی وجہ سے ہم رنگی کی بجائے اختلافی پہلوں کو زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں یہ تاثر بہت گہرا ہے کہ پاکستان شدید مذہبی بنیاد پرستی کے شکنجے میں ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو پچھلی تین دہائیوں سے پورا شمالی ہندوستان بنیاد پرستی کی زد میں ہے۔ ہندوستان میں ہندو بنیاد پرست راشٹریہ سیوک سنگھ کا اثر بذریعہ بھارتی جنتا پارٹی اسی عہد میں بڑھا ہے جس دور میںپاکستان میں ضیاء الحق کے زمانے کی اسلام پسندی شروع ہوئی۔ مزید برآں مشرقی پنجاب میں تو خالصتان کی تحریک بہت پہلے چل چکی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کی جڑیں مقامی تھیں کیونکہ تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب پرزیادہ عرصہ نیم مذہبی اکالی دل پارٹی کی حکومت رہی ہے جو گردوارہ پربندھک کمیٹی کو برابر استعمال کرتی ہے۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی پنجاب کا وزیر اعلیٰ پر مذہبی گردوارہ کمیٹی کا جتنا اسیر ہوتا ہے پاکستانی پنجاب کے وزیر اعظم ہاوٴس میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر دونوں ملکوں میں ریاستی اداروں کو نظر انداز کرکے صرف سماجوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا جائے توپاکستان اورہندوستان کی کم ازکم شمالی ریاستیں ایک ہی قبیلے کی شاخوں کی طرح نظر آئیں گی۔ تھوڑی سی غیرمتعصب آنکھ سے دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے سماجوں کے ہر پہلو میں مماثلت نظر آئے گی۔ ظاہری شکلیں مختلف ہوں گی لیکن باطنی دور پریکسانیت!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...