بدھ، 31 اکتوبر، 2012

.سیکولراور لبرل کے معنی=لالا جی


 ہمارے ہاں بہت سے لفظوں یا اصطلاحوں کے معنی بگاڑ دیئے گئے ہیں۔ ایسی ہی دو اہم اصطلاحات ہیں “سیکولر” اور “لبرل”۔ نام نہاد مذہبی علماء نے عوام کو بتایا ہے کہ سیکولر کا مطلب “لادین ” ہے یعنی جس کا کوئی دین نہیں اور لبرل کا مطلب مادر پدر آزاد ہے جو کسی روک ٹوک یا پابندی کو نہیں مانتا۔
نام نہاد مذہبی علماء کو ان پڑھ عوام سے واسطہ پڑتا ہے جن کو کوئی سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سو جو کچھ عالِم صاحب نے فرما دیا وہی حرفِ آخر ہو جاتا ہے۔ ورنہ محض معمولی سے سوال جواب سے ان کے بتائے گئے معنی کی قلعی کھل جاتی ہے۔
لفظ سیکولر ہی کو لیجئے ۔ دنیاء بھر میں ایسی ریاستوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں جو کسی مذہب کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتی ہیں۔ ان میں پاکستان، ایران، سعودی عرب، اسرائیل اور نیپال شامل ہیں (ہو سکتا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی دو یا تین مزید ریاستیں ایسی ہوں، تاہم مصنف کے علم میں نہیں)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیاءکے اکثر ممالک کسی ایک مذہب کو ریاستی مذہب قرار نہیں دیتے۔ اگر اس کا مطلب یہ نکال لیا جائے کہ یہ سارے ممالک “لادین” ہیں تو کیا ان ممالک میں بسنے والے لوگوں کا کوئی مذہب نہیں ہے؟ مغرب کے بیشتر ممالک سیکولر ہیں مگر وہاں بسنے والے لوگ عیسائی، یہودی، مسلمان یا کسی دیگر مذہب کے پیروکار ہیں اور اپنی اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق عبادات اور دیگر رسوم و رواج کی پابندی کرتے ہیں اور اس حوالے سے اُن پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ سیکولر ایسی ریاست کو کہتے ہیں جس کا ریاستی سطح پر کوئی مذہب نہیں۔ جہاں کسی ایک مذہب کی خدمت کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ اسی طرح انفرادی سطح پر بھی ایسا فرد سیکولر کہلائے گا جو مذہب کو ہر شخص کا ذاتی معاملہ سمجھتا ہے اور کسی کے مذہبی عقائد میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ کسی کے مذہبی عقائد کو غلط اور صحیح قرار نہیں دیتا اور اگر کسی کے مذہبی عقائد کو غلط سمجھتا بھی ہو تو انہیں درست کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ تمام فسادات کی جڑ کسی کے مذہبی عقائد کو درست کرنے کی کوشش ہی ہے۔
ہمارے علماء یہ بھول جاتے ہیں کہ مذہب کا تعلق عقیدے سے ہے اور عقیدے کو عقل/منطق کے ترازو میں تول کرنہیں اپنایا جاتا۔ جس کا جو عقیدہ ہے وہ اُسی کو درست سمجھتا ہے۔ چنانچہ جب ہم کسی کے عقیدے کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ شخص بھڑک اُٹھتا ہے اور یوں فساد کی بنیاد پڑتی ہے۔ یورپ میں مذہبی رواداری سیکولر خیالات کے فروغ کے بعد ہی آئی ہے۔ ورنہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات اُن لوگوں میں بھی کم نہیں تھے۔
اب آئیے دوسری اصطلاح کی طرف “لبرل”۔ اس کا ترجمہ “آزاد خیال” کیا جاتا ہے اور مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ لبرل ایسا فرد ہوتا ہے جو کسی قسم کی روک ٹوک کو پسند نہیں کرتا اور کسی طرح کی پابندی نہیں چاہتا۔ اب اگر ہم مغرب کے لوگوں کو لبرل سمجھتے ہیں تو پھر مغربی ممالک میں تو قانون نام کی کوئی چیز ہونی ہی نہیں چاہئے۔ اگر مغربی ممالک کے زیادہ تر لوگ “آزاد خیال” ہیں تو پھر وہاں قانون کی حکمرانی کا معاملہ ہم سے بہتر کیوں کر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لبرل لوگ وہ ہیں جو انسانی آزادیوں کے قائل ہیں تاہم پابندی کو ایک “ناگزیر برائی” خیال کرتے ہیں۔ یعنی وہ کسی بھی طرح قانون یا پابندیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہتے بلکہ انسانی آزادیوں پر ایک معقول حد تک پابندیاں لگانے کے قائل ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ اکثر سنایا جاتا ہے کہ ایک شخص اپنی چھڑی اِدھر اُدھر گھماتا جا رہا تھا ۔ ایک اور شخص نے اسے ٹوکا کہ میاں یہ چھڑی سنبھالو، کہیں مجھے لگ نہ جائے۔ تو پہلا شخص بولا “میں آزاد انسان ہوں اور اپنی چھڑی گھمانے کی مجھے مکمل آزادی ہے”۔ دوسرا شخص بولا “ہاں مگر تمہاری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے”۔
سو “آزاد خیال” ہونے کا مطلب “مادر پدر” آزاد نہیں ہے۔ تاہم اتنی پابندیاں بھی نہیں کہ فرد کو یہ اختیار بھی حاصل نہ ہو کہ اُس نے ڈاکٹر بننا ہے یا وکیل۔ اس نے شادی کس سے کرنی ہے یاکرنی بھی ہے کہ نہیں اور کب کرنی ہے۔ وہ پڑھنا چاہتا ہے یا کوئی کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ لبرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ مکمل طور پر آزاد ہیں جب تک آپ کی آزادی کسی اور کی آزادی میں رکاوٹ نہ ڈال رہی ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہمیں دوسروں کی آزادی سلب کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ہمارا جب دل چاہتا ہے گلی میں ٹینٹ لگا کر گلی بند کر دیتے ہیں اور ولیمہ شروع کر دیتے ہیں۔ اس بات کا ذرا برابر احساس نہیں کرتے کہ گلی بند ہو جانے کی وجہ سے کتنے لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہوگی۔ ہم شادیوں پر ساری ساری رات ڈھول بجاتے ہیں یا اونچی آواز میں گانے بجاتے ہیں اور اس بات کی ذرا پرواہ نہیں کرتے کہ آس پڑوس میں کسی نے سونا ہوگا، کسی نے پڑھنا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اس طرح کی مادر پدر آزادی کا بھرپور لطف اُٹھاتے ہیں مگر مادر پدر آزاد ہونے کو برا خیال کرتے ہیں۔
نوٹ: مصںف نے سیکولر اور لبرل جیسی اصطلاحوں کے تاریخی پس منظراور اس کے نتیجے میں ان اصطلاحوں کے بدلتے معنی پر مقالہ لکھنے سے قصداً اجتناب کیا ہے۔ کیوں لالاجی کی یہ تحریریں عام پاکستانی کے لئے لکھی جاتی ہیں، کسی محقق یا نقاد کی طرف سے علمیت کی سند حاصل کرنے کے لئے نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...