بدھ، 31 اکتوبر، 2012

،ویلڈن عثمان ضیاء ویلڈن اجوکا۔ویلڈن ہارون عدیم


اجوکا تھیٹر گزشتہ 25 سال سے پاکستان میں متوازی تھیٹر اور سٹریٹ تھیٹر کے احیاء کے لئے نہ صرف کوشاں ہے بلکہ اس کے لئے تن من دھن سب کچھ لگا چکا ہے،انہوں نے ضیاء کے دور میں بھی نہ صرف اس میڈیم کو مارشل لائی جبر کے خلاف عوامی ضمیر کو متحرک کرنے کے لئے خوش اسلوبی سے استعمال کیا، بلکہ اس مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کے خلاف اور روادری،مذہبی ہم آہنگی،درگزراور بھائی چارے کے احیاء کی کوششیں بھی کیں۔اس امر سے شاید ہی کسی کو انکار ہوبشمول وہ جو موسیقی اور دیگر پرفارمنگ آرٹ کو حرام قرار دیتے ہیں کہ تھیٹر اور فلم انسانی روّیوںاور سوچنے کی ڈھنگ کو جس مؤثر انداز میں تبدیل کرتے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا میڈیم یہ کام کر سکے۔
یہی وجہ ہے کہ مذہبی رجعت پسند حکمرانوں نے اپنے اپنے جابرانہ ادوار میں ہمیشہ پرفارمنگ آرٹس کو پنپنے نہیں دیا،بلکہ ان پر پابندیاں لگائیں۔جنرل ضیاء الحق نے تو ایک انوکھی راہ نکالی اس نے پابندی لگانے کی بجائے مصوری کا رخ اسلامی خطاطی کی طرف موڑ دیا، اور مشاعروں کو نعتیہ مشاعروں کا روپ دے دیا،ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو(جو کہ اس وقت ملک میںا لیکٹرانک میڈیاکے اکلوتے مالکان تھے) باقاعدہ ایک حکم نامے کے ذریعے ہدایات جاری کیں کہ وہ اسلامی خطاطی اور نعتیہ مشاعروں کو پرموٹ کریں۔لہذا 1982 سے لیکر1988 تک ہم نے بہت سے ترقی پسند شاعروں کو نعتیہ شاعروں کا روپ دھارتے دیکھا،یونیورسٹی اور قومی سطح پر اسلامی خطاطی کے سالانہ مقابلے منعقدہونے لگے،اور یوں جہاں جدا گانہ طرز انتخاب کو زبردستی قوم پر مسلط کر کے پہلے ہی مذہب کو سیاست کی بنیاد بنا دیا گیا تھا،وہاں فنون لطیفہ کی بنیاد بھی مذہبی بنا دی گئی،اور یوں معاشرہ تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہو گیا،مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت نے معاشرے کو اپنے گرفت میں جکڑ لیا،وہ کمپارٹائزیشن کا عمل جو پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی شروع ہوا تھا اس کو انتہا تک پہنچا دیا گیا۔
یہاں یہ واقعہ بیان کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ قیام پاکستان کے قیام کے فوراً بعد وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا کہ آج سے ایسے تمام وہ راگ اور راگنیاں بین قرار دے دی گئی ہیں جن کے نام دیویوں اور دیوتاؤں کے نام پر ہیں،جس روز یہ حکم نامہ جاری کیا گیا بڑے غلام علی خان ریڈیو پاکستان لاہور کی کنٹین میں موجود تھے اور ریڈیو پاکستان لاہور سے براہ راست راگ للت گانے والے تھے،اس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر یہ حکم نامہ لے کر بڑے غلام علی خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ راگ بدل لیں ،مگر بڑے غلام علی خاں صاحب نے فرمایا کہ میں تو راگ للت ہی گاؤں گا آپ اس کا نام پھوپھی حمیدہ اناؤنس کر دیں۔
اس ساری فضاء میں ایسے بے شمار گروپس موجود رہے جو کہ اس تقسیم در تقسیم کے عمل کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے جن میںمجلس شاہ حسین لاہور، پنجابی ادبی سنگت لاہورخود اجوکا تھیٹر،لوک رہس اور کئے ایک چھوٹے چھوٹے سٹریٹ تھیٹر گروپ شامل ہیں۔گزشتہ روز ہمیں برادرم نئیر راجہ نے فون پر اطلاع دی کہ الحمراء ہال II میں اجوکا تھیٹر کی جانب سے دارا شکوہ پر ایک کھیل پیش کیا جا رہا ہے اور آج اس کا دوسرادن ہے اور کل یعنی آج بروز اتوار18 اپریل کو اس کا آخری شو منعقد ہو گا۔اگر فرصت میسر ہو تو آج شام چلے آئیں ،دوسرے ساتھی بھی آ رہے ہیں ،ہم نے فوراً اپنی تمام مصروفیات کو معطل کیا اورالحمراء پہنچ گئے،ہم برادرم راجہ نئیر کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم یہ کھیل دیکھ پائے،اگر یہ کھیل نہ دیکھتے تو ساری زندگی اپنے آپ کو کوستے رہتے۔سچ مانیں ہم نے اتنی عمدہ پیشکش آج تک نہیں دیکھی،اس کھیل کے مصنف اور ہدایت کار شاہد محمود ندیم نے جس مہارت سے اس کھیل کو لکھا اور پیش کیا اس پر انہیں سلیوٹ کرنے کو دل چاہتا ہے،تقریباً اڑھائی گھنٹے کے کھیل میں انہوں نے کچھ سوچنے کا موقع نہیں دیا۔کئی بار شدت جذبات سے نہ صرف ہم بلکہ کئی اور لوگ بھی آبدیدہ ہوئے۔
ایک تو دارا شکوہ کے کردار کا چناؤ ہی اپنے اندر وہ جازبیت رکھتا ہے کہ تاریخ اور مذاہب کا تقابلی جائزہ لینے والا ہر شخص کھینچا چلا جاتا ہے۔لہٰذا شاہد محمود ندیم نے نہایت چابکدستی سے دارا شکوہ کے کردار کو اورنگ زیب کے کردار کو عیاںکرنے ،مذہبی نمائندوں کو ہمیشہ حکمرانوں کی مرضی کی فتوے دینے کی روایت کو پروان چڑھانے،حکمرانوں کی جانب سے ہمیشہ مذہب کو اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے اور معاشرے کو تقسیم کرنے او ر عوامی فلاح اور بھائی چارے کو ہمیشہ ثانوی حثیت دینے کے عمل کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کیا۔اسٹیج کو ماڈرن تکنیک کے ذریعے جس تقسیم کے ساتھ اور سیٹ ڈیزائننگ کے ساتھ استعمال کیا ،بالخصوص دارا شکوہ اور سرمدکے قتل کو جس طرح سرخ اور کالی چادروں ، رنگین لائٹوں ،کلب کی ڈانسنگ جھل مل کرتی مرکری لائٹوں کیذریعے جس طرح پیش کیا گیا ،منفرد تھا، ہم نے تو پہلی بار دیکھا ہے۔
اس کھیل کا مرکزی نقطہ تاریخی اور فکری مغالطوں کی تصحیح تھی،بھائی چارے،رواداری،محبت و یگانگت کا فروغ تھا،دوسرے مذاہب اور عقیدوں کا احترام سکھانا تھا۔اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کھیل دیکھنے والا ہر فرد یہ پیغام ساتھ لے کر گیا ہے اس کی سوچ میں ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔کھیل دیکھنے والے ہر فرد کو ایک کتابچہ بھی دیا گیا جس میں اس کھیل کے مرکزی کردار اور کھیل کے مرکزی خیال کو بیان کیا گیا ہے ،اسی کتابچے میں کہا گیا ہے کہ”دارا برصغیر کی تاریخ کا ایک اچھوتا اور درخشندہ ستارہ ہے۔جس کی چمک کو حکمرانوں کی مرضی کے مطابق تاریخ لکھنے والوںنے ماند کرنے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔وہ برصغیر کے مسلمانوں کے بہترین اوصاف کا نمونہ اور ان کی ثقافتی اور فکری عظمتوں کا امین تھا۔ایک عوام دوست اور نرم دل شہزادہ،ایک حساس مصور،ایک خوبصورت شاعر،ایک باعمل صوفی۔وہ میاںمیر اور ملا شاہ بدخشی کا مرید تھا اور بین المذاہبٍ ہم آہنگی اور فکری اشتراک کا بہت بڑا علمبردار تھا۔اس نے اکبر اعظم کے مذاہب کوقریب لانے کی پالیسی کو فکری گہرائی اور سیاسی و سعت دی۔اورنگ زیب کی شخصیت اور نظریات دارا کے بالکل الٹ تھے۔وہ تنگ نظر اور کوتاہ اندیش تھا،اور اقتدار پر قبضے کے لئے ہر فریب اور ہر حربے کو جائز سمجھتا تھا۔ہوس اقتدار میں اس نے باپ کو بخشا، نہ بھائیوں کواور نہ خود اپنی اولاد کو اور المیہ یہ ہے کہ ایسے سفاک اور مکار حکمران کو ہمارے حکمران طبقات اور مذہبی ٹھیکیداروں نے مثالی حکمران بنا رکھا ہے۔اگر اورنگ زیب کی جگہ تخت طاؤس پر دارا بیٹھ جاتا تو شاید ہندوستان کی تاریخ کا رخ اور ہوتا۔شاید راجوں ،مہاراجوں سے دشمنی اسقدر نہ بڑھتی جو سلطنت کی تباہی پر ختم ہوئی۔شایداکثریتی غیر مسلم رعایاپر جزیہ عائد نہ ہوتااور مغل حکومت سے بغاوت نہ کرتے۔شاید مذاہب کے درمیان دوریاں اور دشمنیاں نہ بڑھتیںاور مذہبی سیاست کا دور نہ آتا۔روشن خیال اور جدید ذہن کے حامل دارا شکوہ کے دور میں اقتصادی طور پر خوشحال ہندوستان میں جدید تکنیکی اور سائنسی خیالات پھیلتے اور یورپ کے ساتھ ساتھ اس خطے میں بھی صنعتی انقلاب برپا ہو جاتا۔”
کیا یہ آج کی صورتحال نہیں،کیا یہی کچھ آج بھی نہیں ہو رہا،کتنی مماثلت ہے اس کی آج کے ساتھ۔۔۔؟کاش یہ کھیل چلتا رہے ،اور اس متوازی تھیٹر کی حکمرانی قائم ہو جائے۔آخر میں سرمد کا کردار کرنے والے عثمان ضیاء کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی،دوسری کردار مکالمے بولتے تھے اس کے جسم کا ایک ایک انگ بولتا تھا،اس کی عریانی باتیں کرتی تھی،اس کی سرمستی وجد پیدا کرتی تھی،ویلڈن عثمان ضیاء ویلڈن اجوکا۔ویلڈن

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...