جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی مشترکہ پالیسی




یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں رائج سیاسی پناہ کی پالیسیاں رواں سال کے آخر تک ایک مشترکہ یورپی پالیسی میں ضم کر دی جائیں گی۔ اس معاملے پر غور و خوض کا سلسلہ جاری ہے۔
آنکھوں میں درخشاں مستقبل کے خواب سجائے اور جان ہتھیلی پر لے کر یورپ پہنچنے والے تارکین وطن یہاں پہنچ کر بھی تقدیر کے ستاروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ یورپ کے تمام ممالک میں تارکین وطن سے متعلق قوانین اور ان کے ساتھ برتاؤ ایک جیسا نہیں۔ سیاسی پناہ دینے اور طعام و قیام کے معاملات بھی مختلف یورپی ممالک میں الگ الگ انداز سے طے کیے جاتے ہیں۔
ان معاملات میں یکسوئی پیدا کرنے اور ایک جامع نظام متعارف کروانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور غالب امکان ہے کہ رواں سال کے آخری مہینے میں یورپی یونین کی سطح پر سیاسی پناہ سے متعلق مشترکہ پالیسی متعارف کروا دی جائے گی۔ رکن ممالک میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو فراہم کیے جانے والے معیارِ زندگی کے حوالے سے بھی خاصا فرق ہے۔ درخواستیں نمٹانے کا طریقہء کار بھی خاصا مختلف ہے۔
افغانستان سے پیدل سفر
شورش زدہ افغانستان گزشتہ قریب چار دہائیوں سے بدامنی اور جنگ و جدل کی لپیٹ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست کے بہت سے باسی بہتر زندگی کی تلاش میں زمینی راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوویت دور میں ماسکو کے راستے مغربی یورپ پہنچنے کو ترجیح دی جاتی تھی جبکہ آج کل ایران، ترکی اور پھر یونان کے راستے مغربی یورپ کے قدرے خوشحال ممالک میں پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے کی امید کی جاتی ہے۔
افغان سیاسی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہوتی ہے، جو انسانی اسمگلروں کو دس تا پندرہ ہزار یورو دینے کے بعد یونان تک پہنچنے کی ضمانت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سفر بھی خطرات سے عبارت رہتا ہے اور منزل پر پہنچنے کی کوئی طے شدہ مدت نہیں ہوتی۔ یورپی یونین میں یونان کی سرحد انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں کے حوالے سے خاصی بدنام ہے۔
یونان کی اقتصادی کمزوریاں
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں تارکین وطن کے امور دیکھنے والی Anneliese Baldaccini کے بقول یونانی انتظامیہ تارکین وطن کے معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کے حوالے سے مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ان کے مطابق تارکین وطن اس لیے بھی یہاں پناہ کی درخواست نہیں دیتے کیونکہ انہیں لمبے عرصے تک درخواسٹ نمٹنے کے انتظار کا ڈر رہتا ہے اور اس دوران انہیں ناگفتہ حالات میں رہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
یونان چونکہ خود اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا ہے اسی لیے نہ تو ایتھنز حکومت پناہ گزینوں کی بیشتر مشکلات دور کر سکنے کی اہل ہے اور نہ ہی پناہ گزین یہاں ٹھہرنے سے خوش ہوتے ہیں۔ یونانی حکومت کے اندازوں کے مطابق ایک کروڑ سے زائد کی مجموعی آبادی میں سے قریب دس لاکھ ایسے ہیں، جن کا پس منظر کسی نہ کسی حوالے سے ایک تارک وطن کا ہے۔ یورپی ممالک میں کم عمر تارکین وطن کی دیکھ بھال اور پرورش کے حوالے سے ہالینڈ کے Guardian Program کو خاصا پسند کیا جا رہا ہے۔ امکان ہے کہ نئی جامع یورپی پالیسی میں اسے تمام ممالک میں رائج کرنے کی سفارش کی جائے۔
(sks/ ai (AFP
  • ت

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...