پیر، 10 مارچ، 2014

کیا ہم جانتے ہیں ہمارے برادر اسلامی ممالک میں کیا ہورہا ہے؟


 
دبئی (تجزیہ:شاہین صہبائی) کیا پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ ہماری معشیت، استحکام اور ترقی کیلئے لازمی تصور کیے جانے والے برادر اسلامی اور دوست ممالک کے درمیان کیا چل رہا ہے۔ شاید مکمل طور پر نہیں معلوم۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے داخلی معاملات میں سعودی عرب کا کردار کتنا اہم ہے اور ہم اب یہ بھی جانتے ہیں کہ قطر بھی ہمارے معاشی امور کے حوالے سے حاکمانہ کردار ادا کرے گا کیونکہ توانائی کے شعبہ میں وہ اربوں ڈالرز مالیت کی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن ان خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات اچانک خراب ہوگئے ہیں اور حکومت اس سلسلے میں حیران و پریشان ہے، کم از کم وہ حلقے ضرور افراتفری میں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب اور ایران کی دشمنی کی وجہ سے ہم پر ماضی میں منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن ہمارے دوست سمجھے جانے والے خلیجی ممالک کے درمیان دشمنی کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ دفتر خارجہ نے اب تک کوئی بیان نہیں دیا یا پھر ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا کہ پاکستان برادر اور دوست ممالک یا کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ لیکن اس کے باوجود سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد اور ان ممالک کے سفیروں کا اسلام آباد میں ایک اجلاس منعقد ہونا چاہئے تاکہ اس بات پر بحث ہوسکے کہ معاملات کس طرح آگے جا رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں جو معاملات خبروں میں زیادہ تر سامنے نہیں آئے یا پھر پاکستان میں انہیں میڈیا کی توجہ نہیں ملی ان میں تین عرب ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے سامنے آنے والا حیران کن اعلان ہے جس کے تحت انہوں نے قطر سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ قطر نے ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے سے متعلق خطے کے حوالے سے کیے گئے سیکورٹی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ ان خلیجی ریاستوں کے درمیان ایک بہت بڑی کشیدگی ہے۔ جن معاملات پر ان کے درمیان خلیج پائی جاتی ہے ان میں مصر اور شام شامل ہیں اور اس دو طرفہ لڑائی میں پاکستان بھی مصیبت میں آسکتا ہے۔ قطر کی جانب سے سیکورٹی معاہدے پر عملدرآمد میں ناکامی پر تینوں ملکوں نے ایک مشترکہ بیان میں اس اقدام کا اعلان کیا۔ ان تین ملکوں کی جانب سے کیے جانے والے اعلان کے صرف ایک دن بعد دوحہ میں حکام نے جوابی اقدام کے طور پر بیان جاری کیا جس کی عرب اخبارات اور ویب سائٹس پر گونج دیکھی گئی۔ قطری حکام نے اپنے جواب میں بیان جاری کیا کہ خلیجی ممالک کے تمام شہریوں ماسوائے قطر، کویت اور اومان کے شہری، کے لندن کے ڈپارٹمنٹل اسٹور ہیروڈز میں داخلے پر پابندی ہوگی۔ عرب شہریوں کے ہیروڈز میں داخلے پر پابندی سے شاید کوئی بڑا سیاسی اور اسٹریٹجک طوفان بپا نہ ہو لیکن یہ یقینی طور پر ایک ایسی بے عزتی ہے جو کوئی دولتمند عرب شیخ یا امیر معمولی نہیں سمجھے گا اور یقیناً اس سے تکبر اور مفادات کی جنگ میں برطانیہ کو بھی گھسیٹا جا سکتا ہے۔ خلیجی ریاستوں میں سے تین بڑے ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین، کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک نے 23؍ نومبر کو ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ ایسے کسی بھی ملک کی حمایت نہیں کی جائے گی جو جی سی سی کی سیکورٹی اور استحکام کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا ہو چاہے وہ کوئی گروپ ہو یا فرد، چاہے وہ براہِ راست سیکورٹی کے حوالے سے کام کرتا ہو یا پھر کسی سیاسی اثر کے تحت، مخالف میڈیا کی بھی حمایت نہیں کی جائے گی۔ ابوظبی اور ریاض کا کہنا تھا کہ قطر معاہدے پر عملدرآمد میں ناکام ہوگیا ہے جس کی وجہ سے سفارتی اقدام کیا گیا۔ العربیہ اخبار کے مبصر کا کہنا تھا کہ دوحہ مسلسل اخوان المسلمین (اخوان) کی حمایت کر رہا ہے۔ امیر تمیم کی جانب سے اقتدار کی منتقلی کے بعد سے باقی جی سی سی رکن ممالک کو ناراض کرتے ہوئے قطری حکومت مسلسل اخوان کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ اخوان المسلمون کے ادارے مسلسل دوحہ میں کام کر رہے ہیں جس میں کئی ایسوسی ایشنز اور تجارتی ادارے بھی شامل ہیں۔ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہوئے، قطر نے بھی ان مصری افراد کو خاموش کرانے سے انکار کردیا جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر حملے کرتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا خطبہ ایسا ہوتا ہے جس میں ریاض اور متحدہ عرب امارات کی مصر کے متعلق پالیسیوں کا ذکر ہوتا ہے جس میں غیر اسلامی ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ان تبصروں سے اماراتی حکام ناراض ہوگئے جنہوں نے قطر پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے علمائے کرام کو کنٹرول میں نہیں رکھ رہا۔ ڈاکٹر تھیوڈور کراسیک نے العربیہ میں لکھا کہ: یہ معاملہ کسی حد تک قطر کے ترکی کے ساتھ تعلقات سے جڑا ہے۔ جی جی سی ممالک سمجھتے ہیں کہ قطر واپس اسی راستے پر جا رہا ہے جس کے تحت وہ اپنی پالیسیاں خود اور یکطرفہ طور پر تشکیل دیتا تھا اور یہ پالیسیاں جی سی سی کے فریم ورک سے باہر ہوتی تھیں۔ قطر کے ترکی کے ساتھ تعلقات معاملات میں کشیدگی پیدا کر رہے ہیں۔ عرب حکام کا دعویٰ ہے کہ دوحہ اور انقرہ مل کر جی سی سی ممالک میں جاسوسوں کا ایک جال بچھا رہے ہیں تاکہ اخوان المسلمون کے خلاف کی جانے والی منصوبہ بندی اور مصر کے ساتھ جی سی سی کے مستقبل کے تعلقات کا پتہ لگایا جا سکے۔ یہ الزام اس بنیادی بات کو چھیڑتا ہے جس کے تحت جی سی سی کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا معاہدہ تھا ۔۔۔۔ اصل سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا۔ جہاں تک آج کا تعلق ہے، جی سی سی اتحاد قائم کرنے کی تمام تر تحریک اور ایک دوسرے کے پیچھے بادشاہتوں کی حمایت کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ اب جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے وہ واپس 1990؁ جیسی صورتحال ہے جب سعودی عرب اور قطر کی سرحد پر فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہتے تھے اور سڑکیں بلاک ہوتی رہتی تھیں ۔۔۔۔‘‘ جواب میں قطر کی کابینہ نے بیان جاری کیا جس میں اس اقدام پر ’’حیرانی اور افسوس‘‘ کا اظہار کیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ جوابی اقدام کے طور پر قطر اپنے سفیروں کو واپس نہیں بلائے گا اور وہ جی سی سی کی سلامتی اور استحکام کے عزم پر قائم ہے۔ قطری حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’یہ فیصلہ کچھ ایسے معاملات کے حوالے سے موقف میں اختلافات کی وجہ سے کیا گیا ہے جو جی سی سی عوام کے مفادات سے وابستہ نہیں ہیں۔‘‘ جرمن میڈیا ادارے ڈوئچے ویلی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’جی سی سی کی تیس برس کی تاریخ میں ایسے اقدام کی مثال نہیں ملتی اور یہ خلیجی عرب ممالک اور قطر کے درمیان اختلافات کی واضح نشانی ہے۔ قطر اخوان المسلمون کا مصر اور دنیا بھر میں کہیں بھی بھرپور حامی ہے۔‘‘ اپنی رپورٹ میں ڈوئچے ویلی نے کہا کہ دوحہ کے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں لیکن سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین تینوں ممالک تہران کو علاقائی مخالف سمجھتے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی گئی کہ جی سی سی سعودی عرب، بحرین، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات اور اومان پر مشتمل ایک مغرب نواز تنظیم ہے۔ قطر کی مشاورتی اسمبلی کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یقیناً، یہ ممالک اپنے سفیروں کو واپس بلا سکتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں 20؍ ہزار اسکوائر میٹر پر محیط سات منزلہ شاپنگ سینٹر، جس میں 330؍ ڈپارٹمنٹ ہیں، میں پرتعیش انداز سے خریداری سے لطف اندوز نہیں ہوسکیں گے تو کیا ہوگا۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں قطر اور جی سی سی ممالک کے درمیان نہلے پہ دہلا جیسے اقدامات سامنے آتے نظر آئیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے ایک تجزیہ نگار بیلا کاکپٹ کا کہنا ہے کہ قطر کی جانب سے کیا جانے والا اقدام انتہائی جارحانہ ہے اور اس سے یقینی طور پر جی سی سی ممالک کے شہری متاثر ہوں گے۔ پین عربیہ انکوائرر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں اس بات سے حیرانی نہیں ہوگی کہ قطر کے اقدام کے بعد جوابی طور پر قطری شہریوں پر مانچسٹر سٹی فٹ بال کلب کے میچز دیکھنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ حال ہی میں پاکستان کو اس وقت ہزیمت آمیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے دورے کے بعد اسلام آباد نے ریاض کے ساتھ جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں شام سے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد دفتر خارجہ اور دیگر حکام اپنے سر کھجاتے رہ گئے کہ کس طرح پالیسی کی اس دلدل سے باہر نکلا جائے جس میں انہوں نے خود کو گرا دیا ہے لیکن اگر خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوئے تو کیا پاکستان کوئی کردار ادا کرپائے گا اور کیا اسلام آباد کی بات کوئی سنے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کئی لوگ پوچھتے ہیں لیکن پاکستان کی اپنی مشکل داخلی صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاید کوئی اس کی پروا نہ کرے۔ ان لوگوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی پروا ہے وہ یہ ہے پاکستان کو اپنے علاقائی اور بین الاقوامی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...